Topics

وظائف کی زیادتی


                وظائف اور چلّوں کی زیادتی نے دماغ  میں خشکی پیدا کر دی۔ نیند اُڑ گئی۔ نیندیں اُڑنے سے دماغی توازن ڈانواںڈول ہو گیا۔ مئوکل پھر بھی طابع نہ ہوا۔ طابع ہونا تو کیا دکھائی بھی نہ دیا۔ اب اعصابی دبائو کا شکار ہیں۔ دماغ کی رفتار اتنی سست ہو گئی ہے کہ کسی کام کے نہیں رہے ہیں۔ شیخ احمد سے فرمانے لگے کہ آپ تو روحانی عالم ہیں۔ اپنی شاگردی میں قبول کر لیجئے۔ شاید آپ کے طفیل ہمارا کام بن جائے۔ ان کی داستان سن کر اور ان کی ذہنی حالت دیکھ کر ہم سب اس بات پر حیران رہ گئے کہ اب بھی ان کے اندر مئوکل طابع کرنے کا جنون سوار ہے۔

                 انھیں شیخ احمد نے اور ہم سب نے ہی بہت سمجھایا کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی عمل نہیں ہے جس سے مئوکل طابع ہو سکے۔ مگر وہ کئی بار لگا تار محفل میں آتے رہے۔ مگر چونکہ روحانی باتوں سے وہ متحمل نہ تھے۔ جس کی وجہ سے لیکچر کے دوران انھیں نیند آجاتی تھی۔ پھر آخر کار انھوں نے خود ہی آنا بند کر دیا۔ اس دوران شیخ احمد نے ہمیں ہمزاد اور مئوکل کے متعلق بہت مفید معلومات فراہم کیں۔ میرے دل میں خیال آیا ۔ ان صاحب کو اللہ نے وسیلہ بنا کر بھیجا تا کہ اللہ تعالیٰ ان علوم سے ہمیں نوازے۔ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کو بہت عجیب و غریب طریقوں سے نوازتا ہے۔

                سب سے پہلے تو شیخ احمد نے یہ بتا یا کہ ہمزاد یا مئوکل کیا ہے۔ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ہر شئے اللہ کی طرف سے آ رہی ہے اور اللہ ہی کی جانب لوٹ کر جانے والی ہے‘ ‘  ،  ’’اللہ تعالیٰ نور ہے‘‘ ۔  چنانچہ اللہ کی جانب سے آنے والی ہر شئے نور کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ اسی بات کو قرآن میں ’’ اللہ کا نور آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘ کہا گیا ہے۔ ہر شئے کے اندر اللہ کا نور اس شئے کی روح ہے۔ اس مادی دنیا میں روح اللہ کے حکم سے آتی ہے تو اپنے اوپر مادی لباس پہن لیتی ہے۔ یہی مادی لباس جسم ہے۔ اس جسم کو روح کنٹرول کرتی ہے۔ روشنی کا جو جسم اس مادی جسم کو کنٹرول کر رہا ہے اور حرکت میں رکھے ہوئے ہے۔ وہ جسم ہمزاد یا مئوکل ہے۔ اسے جسم مثالی کہتے ہیں۔ فطری طور پر تو روشنیوں کا یہ جسم مادی جسم پر حکومت کر رہا ہے اور مادی جسم اس کے طابع ہے۔ گویا دن کو رات اور رات کو دن کرنا چاہتا ہے۔ یہ پلان ہی فطرت کے خلاف ہے پھر کس طرح کامیابی کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ جب وظائف  اور چلّے کھینچے جاتے ہیں تو ہر اسم اور ہر آیت چونکہ اللہ کا کلام ہے اور اس کلام میں نور کی مقداریں موجود ہیں۔ کسی اسم اور آیت کے پڑھنے سے یہ نور ہمارے دماغ میں داخل ہوتا ہے۔ دماغ کے خلیے نہایت ہی نازک ہیں۔ یہ انوار اور روشنی مقداروں کے عدم توازن کی وجہ سے دماغ کے خلیوں کو جلا ڈالتی ہے۔ اس طرح شعور غیر متوازن ہو جاتا ہے اور نارمل زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔ دماغ سے ہر دم روشنیاں خارج بھی ہوتی رہتی ہیں۔ کسی فرد میں سے خارج ہونے والی یہی غیر متوازن لہریں۔ سارے گھر مین پھیل جاتی ہیں اور سارے گھر کے نظام کو چوپٹ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اس طرح ایک آدمی کی غلطی کا اثر گھر کے سارے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فرمانے لگے۔ چلّے الٹنے کی بھی یہی وجوہات ہیں کہ آدمی اپنی دماغی سکت کو پہچانے بغیر ایسے وظائف کرتا ہے جن کی روشنیاں اور توانائیاں دماغ برداشت نہیں کر پاتا اور چونکہ ہمارا جسمانی نظام دماغ کی جذب کردہ والٹیج پر چل رہا ہے۔ والٹیج کی مقرر کردہ مقداروں میں گڑ بڑ ہونے سے سارا جسمانی نظام متا ثر ہو جاتا ہے۔ یہ سب سن کر میں سوچنے لگا۔ آج کے دور میں جہاں سائنس نے توانائی کی مخصوص مقداروں سے مختلف ایجادات کی ہیں۔ ایٹم بم بنا ڈالے ہیں۔ ہمارے سامنے یہ بات آ چکی ہے کہ روشنی کا ہر ذرہ ایک مخصوص توانائی رکھتا ہے۔ ہم ان علوم کی طرف کیوں نہیں توجہ دیتے کہ کائنات کو کون کون سی روشنیاں اور توانائیاں کنٹرول کر رہی ہیں ۔ خود ہمارا جسم مثالی کن روشنیوں سے مل کر بنا ہے۔ وہ کس طرح ہمارے اندر اس قدر انانیت ہے کہ ہم کسی قیمت پر زیر ہونا پسند نہیں کرتے۔ جھوٹی انا کا جنازہ کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ کبھی ہم نے اللہ کے فعل کی طرف بھی نظر کی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی انا کی پہچان کس طرح اپنے بندوں میں کرائی۔ اس نے دنیا میں اپنی انا کو پوشیدہ رکھ کر مخلوق کی انا کو ظاہر کر دیا تا کہ بندہ اپنی توانائی کو دیکھ کر خود اپنی انا کے پردے میں کام کرنے والی توانائی اور حقیقی انا کی تلاش کرے۔وہ حقیقت وہ قوت جس نے ہمیں سہارا دیا ہوا ہے۔ جو خود ہر حاجت سے بے نیاز ہے۔ ساری کائنات اس کی قدرت کے کندھوں پر ہے۔ اس نے ساری کائنات کی ناتوانی کا بوجھ اُٹھا کر اپنی عظمت کا جھنڈا بلند کیا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ہر شئے پر اپنا رعب ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنے سے نیچا دیکھنا چاہتے ہیں۔

                ذرا سوچو تو سہی آج اگر اللہ اپنی قدرت کے مضبوط کندھے کائنات سے ہٹا لے۔ تو ساری کائنات فنا ہو جائے گی۔ کائنات ایک مردہ جسم ہے۔ اللہ کا نور اس مُردہ جسم کی حیات اور توانائی ہے۔ آج ہم اپنی زندگی اپنی حیات سے بھی واقف نہیں ہیں۔ یہ ساری باتیں ذہن میں آتے ہوئے جہاں میرا دل درد سے بھر گیا وہاں ایک نیا جوش نیا ولولہ اور عزم بھی پیدا ہو گیا کہ دنیا والوں کی توجہ ان کے اندر کام کرنے والی روح کی جانب دلانی ضروری ہے۔ میرا ذہن پیغمبروں کی جانب گیا جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر اللہ کے مشن کو پھیلا دیا اور ہمارے لئے ایسی راہیں کھول گئے۔ جن پر چل کر ہم با آسانی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ میرا ذہن شیخ احمد کی جانب گیا۔ ایک روحانی استاد بھی پیغمبروں کے مشن کو لوگوں میں آگے بڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضور پاک صلی علیہ و آلہ و سلم کی بے پناہ محبت اور احترام دل میں جاگ اٹھا۔ ہر وقت میرا ذہن حضورپاکؐ کی جانب رہنے لگا۔ میں نے کئی کتابیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت ِ مبارکہ پر پڑھ ڈالیں۔ حدیثیں پڑھیں۔ ان دنوں نعتیں پڑھنے اور سننے میں بھی بڑا ہی سرور آتا۔ میں شیخ احمد سے بھی اکثر حضور پاکؐ کی زندگی ، اُن کی سیرت کے متعلق ہی سوال کرتا۔ ہر وقت آپؐ ہی کا تصور ذہن پر چھایا رہتا۔ مرشد کریم نے فرمایا تم درود شریف پڑھا کرو  اب جب بھی موقع ملتا درود شریف کا ورد زبان پر رکھتا۔

                 ایک رات میں مراقبہ میں تھا کہ مجھے خیالات آنے شروع ہوئے۔ حقیقت ِ محمدی ؐ اللہ تعالیٰ کی تجلی ذات کا جمال ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کائنات بنانے کا ارادہ کیا۔ تو اپنی ذات کی تجلیات پر اپنے ارادے کی نظر ڈالی۔ ارادے کی نظر کی روشنی میں ذات کی تجلیات کا جمال ظاہر ہو گیا۔ تجلیٔ ذات کے جمال کا یہ عالم حقیقتِ محمدی ؐ ہے۔ اسی جمال کو اللہ تعالیٰ نے کُن کہہ کر مادی صورت بخش دی۔ کائنات کا وجود حقیقتِ محمدی ؐ کا ظہور ہے۔ جس کی حدود ازل سے ابد تک ہے۔ جیسے ہیرے کے اندر چمک ہیرے کا ایک جزو ہے جب ہیر ا روشنی میں لایا جاتا ہے تو یہ چمک دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح تجلی ٔ ذات کا جزو تجلی کا جمال ہے۔ جب اللہ نے چاہا کہ اس جمال کو ظاہر کیا جائے تو کُن کہہ کر اسے صورت بخش دی۔ کُن کے بعد تمام مظاہرات تجلی کے جمال کا مظاہرہ ہیں۔ اس جمال کا نام حقیقتِ محمدی ؐ ہے اور اس کا مظاہرہ کائنات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر آپ ؐ نہ ہوتے تو کائنات بھی نہ ہوتی۔ آپ ؐ باعث ِ تخلیق کائنات ہیں۔ اگر ہیرے میں چمک نہ ہوتی تو چمک کا تصور بھی نہیں آتا۔ جب تصور نہ آتا تو آنکھ ہیرے میں چمک کیسے دیکھتی۔ اس کے ذہن میں تو چمک کا خیال ہی نہ آتا۔ اسی طرح تجلی ذات کے اندر تجلی کا جمال ہمیشہ سے موجود تھا۔ یہی جمال کائنات کی تخلیق کا باعث بنا۔ اس لئے آپؐ باعث ِ کائنات ہوئے۔

                اس گھڑی مجھے اپنے اندر حضور پاکؐ سے بے انتہا محبت کا احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بار بار یہ خیال آتا کہ یہ ساری عنایت میرے مرشد کی ہے۔ انہی کی توجہ سے میرا ذہن کھلا ہے۔ مجھے یوں لگتا جیسے مرشد دروازہ ہے اور میں اس دروازے سے اندر جھانک رہا ہوں اور جو کچھ دیکھا ہے وہ اندر کا منظر ہے۔ مجھے اس وقت شیخ احمد کی یہ بات یاد آئی۔ مرید مرشد کی نظر سے جو خود اپنے نقطہ ذات میں تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ نظر کا قانون ہے کہ نگاہ روشنی میں دیکھتی ہے۔ پس مرشد اپنی نگاہ کی روشنی مرید کو عنایت کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں مرید اپنے نقطہ ٔ ذات کے اندر مشاہدہ کرتا ہے۔ مرید کے نقطہ ٔ ذات پر مرشد کی نظر اور تفکر کی روشنی محیط ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے روحانیت میں مرید کا ہر قدم مرشد کی عنایت اور فضل و کرم ہے۔

                 نعمان اب گھٹنوں چلنے لگا تھا۔ سارے گھر میں بھاگا پھرتا۔ اس کے آنے سے گھر میں بڑی رونق تھی۔ خصوصاً ممی اور چچی تو ہر وقت بیٹھی نعمان سے کھیلتی دکھائی دیتیں۔ اکثر انھیں بیٹھے دیکھ کر مجھے دادی اماں یادآ جاتیں۔ میرا عکس نعمان کے وجود میں اور دادی اماں کا عکس ممی کے وجود میں ڈھل جاتا اور دونوں عکس رنگوں کے دریا میں ڈوبے دکھائی دیتے۔ کاش دادی اماں کچھ دن اور ہمارے ساتھ رہتیں۔ زندگی ایک ایسا نغمہ ہے۔ جس میں روح کی کسک پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بچھڑنے کی کسک ۔ اللہ پاک کی نافرمانی کی پشیمانی کی کسک یہی کسک زندگی کے لمحات میں ابھر ابھر کر اپنا عکس دکھاتی رہتی ہے۔ میں ان خیالات کی گہرائی میں ڈوبتا چلا جاتا۔ مجھے کون یاد آتا ہے۔ نہ عقل جانتی ہے نہ دل کو پتہ ہے۔ مجھے کس کی یاد آتی ہے ۔ اس بچھڑے یار کو تو روح کی کسک ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔ میرا جی چاہتا میں کائنات میں بکھرے ہوئے درد کو اپنے اندر سمیٹ لوں تا کہ وہ لمحہ مجھے مل جائے جس لمحے روح اپنے رب سے جدا ہوئی تھی۔ میرا جی چاہتا میں ساری مخلوق کی بجائے اکیلا ہی دوزخ کی آگ میں جل کر اس لمحے کو پا لوں۔ یہ کسک روز بروز دل میں بڑھتی جاتی اور اللہ کے بندوں کے لئے بے پناہ محبت دل میں پیدا ہونے لگتی۔ خیال آتا لوگوں کے گناہ روح کی اضطراری کیفیت ہے۔ لوگ اپنی روح سے واقف نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہ نہ ان کیفیات کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کا سدِ باب کر سکتے ہیں۔ مگر میں تو روح کے درد سے واقف ہوں کہ اس نے کیا کھو کر کیا پایا ہے۔ مخلوق کے گناہوں  اورغلطیوں سے مجھے ایک عجیب روحانی کسک  اور تکلیف ہوتی۔ کسی کی غلطی پر ظاہری طور پر غصہ آتا نہ ذہن الجھتا۔ بلکہ اندر گہرائی میں درد کی لہروں میں اضطراب آ جاتا ۔ جیسے یہ گناہ یہ غلطی ایک ایسا کنکر ہے جو میرے تالاب میں کسی نے پھینک دیا ہے۔ درد کی لہریں اندر ہی اندر پکار اٹھتیں۔ نادان بندے۔ تو کب جانے گا کہ تیرا وجود اس رحمان اور رحیم ہستی کے احاطہ میں ہے۔ وہ ذاتِ رحیم تیری ذات پر محیط ہے۔ تو کب اس محیط کو پہچانے گا۔ کب تک اپنے شرار کی چنگاریاں اپنی ذات میں ڈالتا رہے گا۔ وہ بجھاتا رہے گا۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ جب تک تو گناہ پر آمادہ رہتا ہے۔ تیری نظر اپنی آگ پر ہے۔ نار نور کی ضد ہے۔ تو مٹتا رہے گا وہ مٹاتا رہے گا اور پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا جب وہ تجھے جلنے پر مُصر دیکھ کر تجھے تیری مرضی پر چھوڑ دے۔تب مسلسل آگ تجھ سے کب برداشت ہو گی۔ اس خیال نے مجھے لوگوں پر حد درجے مہربان بنا دیا۔ اکثر تنہائیوں میں مجھے یوں لگتا جیسے میں آگ کے دریا میں ہوں اور وہاں سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کے باہر نکال رہا ہوں۔ دوزخ کی آگ نے مجھ پر کوئی اثر نہیں کیا ہے۔ مگر مخلوق کی آہ و بکا نے میرے اندر شعلے بھر دیئے ہیں۔ انھیں دوزخ سے باہر نکال نکال کے میں خود اپنے اندر کے شعلے بجھا رہا ہوں۔ اور اپنے اندر کی اس آگ سے مجبور ہو کر اس کریم کی بارگاہ میں ماتھا ٹیک دیتا۔ اے میرے پروردگار ! دوزخیوں پر رحم فرما۔ یہ تیرے ناتواں بندے ہیں۔ تیری سزا کے متحمل نہ ہو سکیں گے۔ ان پر رحم فرما۔

                اے میرے رب ! تیرے اِسرار تو میری روح میں پلتے ہیں۔ میری روح اس بات سے واقف ہے کہ دوزخ میں جلنے والے نفوس تیرے اسرار سے واقف نہیں ہو سکتے۔ جن نفوس پر دوزخ کی آگ اثر کرتی ہے۔ جو نفوس تیری ذات سے قریب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ لکڑی جب آگ کا اثر قبول کرتی ہے۔ تو وہ آگ بن جاتی ہے۔ پھر اسے لکڑی نہیں کہا جا تا۔ دوزخ کی آگ میں جل کر جو نفوس خود آگ کا جزو بن جائیں انھیں آگ سے کیسے الگ کیا جائے گا۔ کیونکہ انھوں نے تو آگ کو اپنی جان میں سمو لیا ہے۔ جیسے کوئلہ آگ میں جل کر خود آگ بن جاتا ہے۔آگ ذات ابلیس ہے۔ ابلیس کی آگ کو قبول کرنے والا نفس بھی ابلیس بن جاتا ہے۔ رحمانی نفس تو وہ ہے جو دوزخ کی آگ میں گھر کر بھی آگ کا اثر قبول نہ کرے۔دوزخ کے ستر ہزار آگ کے دریائوں سے گزر کر بھی اس کے قبائے نفس پر ایک چنگاری کا نشان بھی نہ پڑے۔ ایسے رحمانی نفوس کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ کا فرشتہ کہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے دوزخ کے انتظامات پر انھیں فرشتے مقرر کئے ہیں۔ ذرا تو سوچئے ۔ اگر دوزخ پر جو کہ ابلیس اور نافرمان لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ اگر اس کا حاکم ابلیس اورنافرمان بندے کو بنا دیا جاتا تو وہ سارے کے سارے ان نافرمان لوگوں سے مل جاتے ۔ اللہ کا مقصد تو آگ اور دوزخ کی سزا دینے سے یہ ہے کہ نا فرمان نفس اللہ تعالیٰ کا تابع ہو جائے۔ پھر یہ مقصد کیسے حاصل ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دوزخ کا حاکم فرشتوں کو مقرر کیا۔ جو نوری مخلوق ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار اور وفادار ہے۔ جن کے اندر غداری کا ذہن نہیں ہے۔ پس ایسے رحمانی نفوس کے قبائے نفس پر کب آگ اثر کر سکتی ہے۔

                 میرا ذہن ہر وقت قرآنی آیات کی ایسی ایسی تاویلات پیش کرتا رہتا۔ میں انھیں مضامین بنا کر لکھتا اور محفلوں میں لوگوں کے سامنے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔ مجھے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بندوں پر شفقت کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی کہ آپ ؐ جو اللہ کے بندوں پر حد درجے مہربان تھے۔ وہ اسی وجہ سے تھے کہ آپ ؐ نے نور کی حقیقت کو پہچان لیا تھا اور اس بات سے واقف تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے کے ساتھ کائنات اور کائنات کے اندر موجود ہر شئے کو پیدا کیا ہے۔ پس جس شئے کو اللہ کے ارادے کے خلاف کوئی مٹا نہیں سکتا۔ سزا اور عذاب دینے سے اللہ کا ارادہ نافرمانوں کو مٹانا نہیں ہے۔ بلکہ ان کے ناری نفوس کے اندر نوری صفات پیدا کرنا ہے تا کہ نار کی تکلیف کو مٹا کر ، وہ نور کی ٹھنڈک اور آرام محسوس کریں۔ اللہ کے ارادے کو جان کر آپؐ لوگوں کے دُکھ درد کا مداوا بن گئے۔ تا کہ وہ نور کی ٹھنڈک کو اپنے اندر محسوس کریں اور غلط ارادوں کو چھوڑ دیں۔ جب تک مخلوق خدا سے ایسی محبت اور شفقت نہ ہو۔ کوئی کب مخلوق کی ایذا رسانیوں کو صبر و استقلال کے ساتھ سہہ سکتا ہے۔ میرے ذہن میں حضور  پاک ؐ کی زندگی اور قرآن میں بیان کی گئی تمام پیغمبروں کی زندگی کے وہ دور اپنی جھلکیاں پیش کرنے لگے۔ جن میں اللہ پاک نے ان کی  اُمت کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کی ہیں۔ میرا دل، میری روح، میرا سر پیغمبران علیہ السلام کی عظمتوں کے آگے جھک گیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی ذات و صفات کو پہچاننے والے اس کے پیغمبران علیہ السلام ہی ہیں۔ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنی ذات میں اس طرح سمو لیا ہے کہ ان کی اپنی ذات اس کے نور کا جز بن گئی ہے۔ اب اس نور سے انھیں کون جدا کر سکتا ہے۔ قطرہ دریا میں ملے تو دریا بن جائے۔

                اے باری تعالیٰ ! کیا میں وجود کا وہ قطرہ نہیں ہوں جو تیری وحدانیت کے سمندر سے نکل کر تیری نیتی کے صحرا میں بھٹک کر اپنی ہستی کا راگ الاپ رہا ہوں۔ یہ راگ تو تیرے ہونٹوں کا نغمہ ہے۔ میں تو فقط بانسری ہوں۔ اے بانسری، تو آج خود اپنی ہستی کے دریا میں غرق ہو کر اس کی ہستی کے سمندر سے سر نکال تا کہ تجھے اس کے وہ لب دکھائی دیں جن سے نغمات بلند ہو رہے ہیں۔ مجھے اپنی ہستی بانسری کا خلاء دکھائی دی۔ جس میں اس کی پھونک اس کی ھو آ جا رہی تھی۔ میرا جی چاہا میں اس بانسری کو توڑ دوں۔ اس کی خلائوں کو پاٹ دوں تا کہ سب کچھ وہ ہی وہ رہ جائے۔ میرا دل اپنی ہستی کے وجود سے بیزار ہونے لگا۔ جس طرح ننھا بچہ ماں کی آغوش سے نکل کر دوبارہ اس کی گود کے لئے مچلتا ہے۔ میری بھی وہی حالت تھی کہ مجھے اپنا وجود بغیر اس کے کسی طرح گوارہ نہ تھا۔ ایک غم تھا جو اپنی ہستی کو چاٹنے لگا۔ ایک روگ تھا جو روح کو چمٹ گیا۔ میں خود اپنی ہستی کے درمیان بے بس تماش بین بن گیا۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء