Topics

نیابت


                میں نہایت ہی توجہ سے ان کی باتیں سن رہا تھا ۔ ان سے مجھے بے حد سکون و آرام مل رہا تھا۔ انھوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا۔ ہم تمہیں ایک قصہ سناتے ہیں۔ تم جو جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اسمائے الٰہیہ کے علوم عطا فرمائے اور آدم کو اپنا نائب اورخلیفہ بنایا ہے۔ یعنی آدم کو بہ حیثیت نائب کے اختیارات سونپے ہیں۔ یہ اختیارات کائناتی امور کے دائرے میں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے تمہارے لئے ساری کائنات کو مسخر کر دیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے بہ حیثیت خالق کے کائنات کے تخلیقی نظام بنا دیئے۔ پھر ان تخلیقی فارمولوں کے علوم اور تخلیقی نظام کے علوم اپنے نائب آدم کو سکھا دیئے۔ علوم سکھانے کے بعد آدم کو نیابت کے دائرے میں اختیارات سونپ دیئے۔ آدم نیابت کے دائرے میں کائناتی امور پر کام کرتا ہے۔ کائناتی امور کا ایک شعبہ تکوین کہلاتا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کی خاص ٹریننگ ہوتی ہے۔ اسی ٹریننگ کا ایک حصہ جاگنے کا عمل ہے۔ اس عمل کو عمل استرخا کہتے ہیں۔اس عمل میںچالیس دن رات مسلسل لاشعوری حواس میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس رات کے لئے کوہِ طور پربلایا گیا۔ یہاں دن کا لفظ اسی لئے حذف کر دیا گیا کہ چالیس دن رات لاشعوری حواس میں گزارنے کا حکم تھا۔

                لا شعور علم ہے۔ علم مرکزیت ہے۔ مرکزیت فکر کا نقطہ ہے۔ نقطہ روشنی ہے۔ یہ روشنی جب اپنے نقطے سے پھیلتی ہے تو دائرہ بن جاتی ہے۔ یعنی شعور کا احاطہ کر لیتی ہے۔ روشنی کے اس احاطے میں شعور اس روشنی کو جذب کرتا ہے اور احساس سے روشناس ہوتا ہے۔ لاشعور کی صفت محیط ہے یعنی غالب آنے والی اور شعور کی صفت مغلوب ہے۔ شعور کا مغلوب ہو جانا نیند کی حالت ہے۔ عملِ استرخا میں شعور کو نیند سے دور رکھا جاتا ہے۔ مگر شعور یعنی آدمی اسی وقت جاگتا رہ سکتا ہے جب اس کی تمام تر توجہ لاشعور کی جانب مرکوز ہو۔ یعنی اس کے ذہن کی مرکزیت قائم ہو جائے۔ جب ذہن کی مرکزیت قائم ہو جاتی ہے تو شعور اس مرکزیت سے روشنی حاصل کرتا ہے اور اس توانائی سے وہ لاشعور کی روشنیوں کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے لگتا ہے اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل ہو جاتے ہیں۔ پھر پیر و مرشد نے فرمایا۔ اب ہم تمھیں وہ قصہ سناتے ہیں۔ جس کی یہ تمہید ہے۔ عقاب کو جب ٹرینڈ کیا جاتا ہے تو چالیس دن اسے سونے نہیں دیتے۔ اس کے ساتھ اس کا ٹرینر بھی جاگتا رہتا ہے  اور دن رات اس کی ٹریننگ کرتا ہے۔ یعنی ٹرینر کی ساری توجہ عقاب پر ہوتی ہے اور وہ اپنی تمام تر محنت و کاوش کے ساتھ اس کو شکاریات کے لئے تیار کرتا ہے۔ایک مرتبہ اہلِ تکوین کو کسی امور پر کام کرنے کے لئے بندے کی ضرورت پڑی تو اس ٹرینر کا انتخاب کیا گیا۔کیونکہ وہ پہلے ہی لاشعوری حواس سے واقف تھا۔ چنانچہ اوپر والوں نے بہت کم عرصے میں اسے اپنے کام کے لئے تیار کر لیا۔

                 یہ قصہ سن کر اور شیخ احمد کی باتیں سن کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ مجھے یوں لگا جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ مسکرا رہا ہوں۔ شیخ احمد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا  اور دعائیہ انداز میں فرمایا۔ ـ’’رنج نہ کرو بیٹے۔ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘‘۔ سکون تو آ گیا۔مگر یہ ظالم دل اب بھی یہی کہہ رہا تھا۔ کاش نریما میری ہو جائے۔اگلے دن شیخ احمد نے مجھے بلوایا۔ فرمانے لگے تم آدھی رات کو  اُٹھ کر لا کا مراقبہ کرو۔ لا کے انوار وہ تجلیات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتے ہیں۔ رات کو اُٹھ کر با وضو پہلے دو رکعت نفل پڑھنا۔ہر رکعت میں الحمد کے بعد سو بار الم ذالک الکتاب سے لے کر یومنون بالغیب تک پڑھنا ۔ پھر بیٹھ کر سو بار لاالہ پڑھ کر مراقبہ کرنا۔ مراقبہ میں یہ تصور کرنا کہ تمہارے دل کے اندر ایک سیاہ  نقطہ ہے۔ تم اس نقطہ کی گہرائی میں داخل ہو رہے ہو۔ اتنے دنوں سے جاگ کر مجھے جیسے جاگنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ اس رات اگرچہ میری بے قراری میں تڑپ نہ تھی۔ مگر پھر بھی مجھے نیند نہ آئی۔ میں شروع رات میں تو کچھ دیر لیٹا رہا۔ کوشش کرتا رہا کہ سو جائوں۔ مگر جب نیند نہ آئی تو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے لگا۔ ذہن جیسے اللہ تعالیٰ کے کلام میں گم ہو گیا۔ بہت ہی سرور محسوس ہونے لگا۔

                کافی دیر کے بعد جب گھڑی پر نظر پڑی تو دو بج چکے تھے۔ میں نے اُٹھ کر وضو کیا۔ فریج سے اورنج جوس کا ایک گلاس پیا اور پیرو مرشد کے بتائے ہوئے سبق کو شروع کیا دل پہلے ہی بہت لطیف ہو رہا تھا۔ مراقبہ کرتے ہی تصور قائم ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دل کے اندر سیاہ روشنائی کا چمکتا ہوا ایک نقطہ ہے۔ جو سیاہ ہونے کے باوجود بھی نمایاں ہے۔ میں آہستہ آہستہ اس کے قریب جاتا ہوں اور اس نقطے میں قدم رکھ دیتا ہوں۔یہ نقطہ ایک اندھے کنوئیں کی مانند ہے اس میں سیڑھیاں ہیں۔ میں اندھیرے میں سیڑھیاں اترتا ہوں۔ مگرمیں خوفزدہ نہیں ہوں۔ بلکہ اس اندھیرے میں بھی میرے قدم خود بخود درست پڑ رہے ہیں۔ بہت ساری سیڑھیاں اترنے کے بعد دروازہ کھلا۔خیال آیا کہ یہ میرے لئے کھلا ہے۔ میں اس میں داخل ہو گیا۔ اندر بہت ہی خوبصورت روشنی تھی جیسے مرکری۔ ذہن میں اللہ کے نور کا خیال آیا میں اس میں بڑھتا چلا گیا۔ بس نور کا ایک عالم تھا۔ مگر ہر قدم پر نور کی مختلف صفات کا احساس ہوتا۔ کبھی یہ نور نہایت ہی ملائم اور باریک سلک کی طرح جسم سے لپٹا محسوس ہوتا۔ کبھی یہ نور ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہوتا۔ کبھی انتہائی لطیف رنگین روشنی کے بادل کی طرح دکھائی دیتا۔میری تمام تر توجہ نور پر تھی۔ جتنی دیر مراقبہ قائم رہا۔ ذہن  نور کے تصور میں گم رہا۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء