Topics
ایک راہ چلتے نوجوان مسافر نے سن رسیدہ شخص کو ہاتھ میں کھرپی لئے بیٹھا دیکھا تو
اس کے ذہن میں تجسس نے سر ابھارا کہ اس بوڑھے کی سرگرمی دیکھی جائے۔ بوڑھے نے
لرزتے ہاتھوں سے زمین کا کچھ حصہ کھودا، لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا نرسری میں آ
گیا اور آم کا چھوٹا سا پودا اٹھا لایا۔ اب کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے پودا زمین میں
رکھا، مٹی برابر کی اور اسے پانی سے سیراب کر دیا۔ یہ سب کام سر انجام دینے کے بعد
بوڑھے کے جھریوں بھرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ خوشی سے جیسے اس کے بوڑھے وجود میں
توانائی کی لہر دوڑ گئی۔
نوجوان
جو کافی دیر سے بوڑھے کی سرگرمی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، اس کے قریب آیا اور بولا:
’’بڑے صاحب! مزاج عالی پر گراں نہ گزرے تو ایک بات عرض کروں؟‘‘
بڑے
میاں نے چندھیائی ہوئی نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور اثبات میں گردن ہلا دی۔
نوجوان
نے نہایت ادب سے کہا:
’’بڑے صاحب آپ نے نہایت محنت اور توجہ سے یہ پودا لگایا اور پودا
لگانے کے بعد آپ کے چہرے پر طمانیت پھیل گئی۔ جس وقت یہ پودا تناور درخت بنے گا
اور پھل دے گا تو کیا آپ دنیا میں موجود ہوں گے؟ ایسا کام جو آپ کو نفع نہ پہنچا
سکے اس میں اتنی دلچسپی کہاں تک درست ہے؟‘‘
بوڑھے
نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ نوجوان کو جواب دیا:
’’مجھے معلوم ہے جب یہ پودا پھل دار درخت میں تبدیل ہو گا تو میرا
مادی جسم منوں مٹی تلے دب کر خود بھی مٹی میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔ یہ خوشی میری
ذات کے لئے نہیں ہے۔ میں نے جب پودا لگا دیا تو میں نے چشم تصور سے دیکھا کہ میری
اولاد، اولاد کی اولاد اس درخت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس کی چھاؤں میں بیٹھ کر
دھوپ کی تمازت سے محفوظ ہو رہی ہے اور اس کے شیریں پھل سے مستفید ہو رہی ہے۔ میری
مسکراہٹ میری خوشی اپنی نسل سے وابستہ ہے۔ میں نے سوچا کہ میرے اس کام سے میری
اگلی نسل کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
ایک صاحب کی شادی بڑے دھوم دھام سے ہوئی۔ شادیانے بجائے گئے، ڈھولکی کی تھاپ اور
مسکراہٹوں کے جلو میں دلہن بابل کے گھر سے پیا دیس سدھار گئی۔ شادی کے بعد ایک سال
گزرا، دوسرا اور تیسرا برس بھی بیت گیا مگر دلہن کی گود ہری نہ ہو سکی۔ میاں بیوی
نے ہر طرح کے طبیب اور معالج سے رجوع کر کے دیکھ لیا لیکن فائدہ نہ ہوا۔ جب دوا سے
کام نہ ہوا تو دعاؤں کا مرحلہ آیا۔ پیروں، فقیروں اور اللہ تعالیٰ والوں سے رجوع
کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور کسی اللہ والے کی دعا کارگر ثابت ہوئی۔ گھر
میں نومولود کے رونے کی آواز کیا گونجی سب کے پژمردہ چہروں پر زندگی کا رنگ چھلکنے
لگا۔ بوڑھے دادا دادی کو سکون ہوا کہ ان کی نسل آگے بڑھی۔ ان کا نام اور شناخت اس
بچے کی شکل میں باقی رہے گی۔
والدین
امیر ہوں یا غریب، اولاد کی خوشی سب میں یکساں ہوتی ہے۔ دونوں طرز کے والدین کی یہ
خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ترقی کرے، اچھے مقام تک رسائی حاصل کرے۔ یہ دوسری
بات ہے کہ والدین اولاد کی بہتری کے تمام فیصلے اپنے وسائل کے مطابق کرتے ہیں۔ بعض
اپنی اولاد کو بہترین اور بھاری فیسوں والے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلاتے ہیں۔ جن
کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے وہ کم فیسوں والے اداروں میں اپنے بچوں کو داخل
کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیمی اخراجات پورے نہیں کر
سکتا یا بچوں کو تعلیم دلوانے کا شعور ان میں نہیں ہے لیکن اولاد کی بہتری یہاں
بھی زیر بحث آتی ہے۔ ایسے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ایسا ذریعہ معاش
اختیار کرے، ایسا کام سیکھے یا وہ کاروبار کرے جس سے وہ والدین سے زیادہ مستحکم
حیثیت حاصل کرے۔
ہر
باشعور انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کے پیش نظر اپنی نسل ہوتی ہے، اپنی
ذات نہیں ہوتی۔ جس بندے کے پیش نظر اپنی ذات ہے اس نے انسانی دائرے میں پوری طرح
قدم ہی نہیں رکھا ہے۔ ایسا شخص دنیا میں خود بھی مایوس و پریشان رہتا ہے اور اگلی
نسل کو بھی یہی مایوسی ورثہ میں منتقل کرتا ہے۔
ہر
فرد کے شعور میں اس کے اپنے مخصوص ماحول کے مطابق اشیاء کی موجودگی ہوتی ہے۔ مثلاً
ہر فرد اپنے شعور کے مطابق کسی چیز کو پسند یا رد کرتا ہے اور کسی چیز سے مانوس
ہوتا ہے۔ ہر فرد اپنے شعور کے دائرے میں اپنے مخصوص ماحول، مخصوص جذبات و کیفیات
کے اعتبار سے چیزوں کو منتخب کرتا ہے۔ ہم جب فرد کی حیثیت میں زندگی کے متعلق اطلاعات
پر غور کرتے ہیں تو لامحالہ یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ زندگی کے تمام جذبات سے
متعلق جو اطلاعات ہمیں ملتی ہیں ہم ان کو دو طرح سے قبول کرتے ہیں یا دو طرح سے
معنی پہناتے ہیں۔ ایک معانی پہنانا انفرادی طور پر معانی پہنانا ہے اور دوسری طرز
میں اجتماعی طور پر معانی پہنانا ہے۔
لوح محفوظ میں انفرادی زندگی بھی نقش ہے اور اجتماعی یا قومی زندگی بھی نقش ہے۔
انفرادی حدود میں جب کوئی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے تو اس کے اوپر انفرادی فوائد
ظاہر ہوتے ہیں۔ قومی اعتبار سے ایک دو چار دس بندے جب کوشش کرتے ہیں تو اس جدوجہد
اور کوشش سے پوری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اس
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگلی نسل کے بارے میں منصوبہ بندی بھی آدمی کے شعور اور
مخصوص ماحول پر منحصر ہے۔ ہر انفرادی کوشش کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ اس کے پیش
نظر صرف اس کی ذات ہوتی ہے۔ اپنی ذات، اپنے خاندان اور اپنی نسل کیلئے کوشش بھی
انفرادی یا محدود شعور میں آتی ہے۔
حضرت
آدمؑ سے لے کر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک تمام پیغمبران علیہم السلام کی
زندگی کا۔۔۔۔۔۔ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ ہر
پیغمبر نے اجتماعی طرزوں میں کوشش کی ہے۔ پوری نوع انسانی کی بھلائی پیش نظر رہی۔
ہر پیغمبر نے اپنی تعلیمات کا دائرہ کار لامحدود رکھا اور انہوں نے اگلی نسلوں تک
کے لئے کام کیا۔
سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور نبوت سے فیض یافتہ عظیم روحانی سائنسدان حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ علم لدنی اس شخص کو حاصل ہوتا ہے
جس کی سوچ کا دائرہ کار لامحدود وسعت کا حامل ہو جاتا ہے، جو لامحدود ذہن رکھتا
ہے۔ جس کے سامنے اپنی ذات نہیں ہوتی بلکہ پوری نوع انسانی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔پوری
کائنات ہوتی ہے۔ اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کے
رسول صلی اللہ علیہ و سلم۔۔۔۔۔۔کی ہستی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اپنی ذات ہرگز نہیں ہوتی۔ جب
ہم اس پیغمبرانہ طرز فکر کو قبول کر کے آگے بڑھیں گے تو انشاء اللہ راستے کھلتے
جائیں گے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش برسے گی اور اس بارش میں شاداں
فرحاں اور مخمور آگے ہی بڑھتے چلے جائیں گے۔ ہمیں راستے ملتے چلے جائیں گے۔ ہمیں
بڑھتا دیکھ کر ہماری اولاد بھی آگے بڑھے گی۔ اولاد کی اولاد بھی خود شناسی اور
معرفت کی راہوں پر چل پڑے گی اس طرح نسل در نسل پیغمبرانہ طرز فکرآگے بڑھتی چلی
جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور جو لوگ مجھے پانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے راستے کھول
دیتا ہوں‘‘۔
(سورۃ العنکبوت۔ آیت 69)
اس
فرمان الٰہی کی شہادت ہمارے سامنے ہے۔ پہلے مراقبہ شروع ہوا۔ دو بندوں نے مراقبہ
شروع کیا۔ اگلا رستہ کھلا اخبار میں کالم شروع ہو گیا پھر ایک اور راستہ کھلا کتاب
لکھی گئی۔۔۔۔۔۔ایک اور راستہ کھلا لوگ زیادہ ہو گئے اور ایک اور راستہ کھلا خدمت
خلق کا شعبہ قائم ہو گیا۔۔۔۔۔۔دنیا بھر میں مراقبہ ہالز کا جال بچھ گیا۔ عظیمیہ
روحانی لائبریریز قائم ہو گئیں۔۔۔۔۔۔
حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کا یہ فیض ہے کہ ان کا ایک ادنیٰ سا غلام جس کو انہوں نے اپنی
عنایت خسروانہ سے نواز دیا ہے اس کے ذہن میں نوع انسانی سے متعلق جب بھی کوئی خیال
آتا ہے تو وہ آئندہ پانچ سو سال کے بارے میں ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی نیا قدم اٹھانے
کی کوشش کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ آتا ہے کہ آئندہ پانچ سو سال میں جو نسلیں آئیں
گی ہمیں ان کیلئے یہ کام کرنا ہے۔ ہمیں اپنے لئے راستہ نہیں بنانا، بھلا ہماری عمر
ہی کتنی ہے۔ ایک باپ اگر مضبوط گھر بنا ناجاتا ہے تو پوتے پڑپوتے اس میں رہتے ہیں۔
ایک باپ اگر کوئی درخت لگا جاتا ہے تو وہ اس درخت کا پھل نوش جاں نہیں کرتا لیکن
آنے والی نسلیں برسوں اس کا پھل کھاتی ہیں۔ برسوں اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتی
ہیں۔
ہمارے
مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی طرز فکر یہ ہے کہ ہمیں نسلوں کیلئے سوچنا
ہے۔ ہمیں پوری امت مسلمہ کیلئے سوچنا ہے۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ پوری نوع انسانی کیلئے
سوچنا ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ مخلوق کے
تمام افراد آپس میں پیار محبت سے رہیں۔ پیغمبرانہ تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ کائنات
اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ ایک برادری ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ کنبہ کے تمام
افراد آپس میں مل جل کر رہیں۔ خوش رہیں لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کو اسی وقت پہچان
سکتے ہیں، اس کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں، روحانی انسان بن سکتے ہیں اور اپنی
روحانی صلاحیتیں بیدار کر سکتے ہیں جب ہم وہ کام کریں جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کنبہ کے اچھے فرد بن کر رہیں۔ خوش رہیں، دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔
آپس میں پیار و محبت سے رہیں۔ اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ان سے لوگوں کو
فائدہ پہنچائیں۔