Topics
ڈائری لکھنے کی ابتدا ہوئی تو مرشد کریم نے فرمایا تھا، ” یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اس لئے کہ مرشد کی باتیں ختم نہیں ہوتیں، ہمیشہ کے لئے ہیں۔“
” جو لوگ علم میں راسخ ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس بات پرایمان ہے کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہے۔“ ( آل عمران : ۷)
شک سے یقین کے سفر میں کامیابی کا ایک بھی سبب ایسا نظر نہیں آتا جسے وہ خود سے منسوب کرسکے۔ ۔ سب اللہ جل جلالہ کی رحمت اور صاحب عرفان کی محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
مرشد کی باتیں۔۔۔ مرید کے لئے مرشد کا ایثار ہے جس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
جب وہ حال کا موازنہ ماضی سے کرتا تو افسوس ہوتا کہ قیمتی وقت ضائع کر دیا مگر خوشی اس بات کی ہے کہ رحمٰن و رحیم نے کرم فرماتے ہوئے ایسی ہستی سے قربت عطا فرمائی جو ماں، باپ، دوست اور محبوب ہے۔
اللہ کی توفیق، رسول اللہ ؐ کی رحمت اور اللہ کے دوست کی محبت سے مرشد کی باتیں تربیت کا نصاب بن گئیں، خوف و غم سے نجات مل گئی، قلب میں اطمینان داخل ہوا اور چہرہ سکون کی تصویر بن گیا۔ الحمد اللہ۔
حکم کی تعمیل سے وہ اچھائی اور برائی سے بےنیاز ہوگیا۔ پروا ہ نہیں رہی کہ کوئی اسے اچھا سمجھے یا برا، اہمیت اس بات کی ہے کہ زندگی ۔۔۔ بندگی بن جائے۔
عرض کیا، آپ کا حکم ہے، میں ضرور لکھوں گا۔
وہ ہنس پڑے۔
عرض کیا، خامیاں ظاہر کرنے کے لئے ہمت چاہیئے۔
ایک روز فرمایا،” خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی لکھو۔“
صاحب شہود ہستی نے جو سمجھایا ، اس نے پہلے دن ڈائری میں باقاعدگی سے لکھا اور مختلف اوقات میں دہراتا گیا۔
کچھ دیر بعد انہوں نے مرشد کریم سے رخصت چاہی۔ وہ قریب بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھا ، دعا دی کہ ” اللہ آپ کو ہمیشہ اپنی رحمت اور مرشد کی نظر میں رکھے۔ کبھی مت کہنا کہ یہ میں نے کیا۔“ دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، ” سب یہاں سے ہے۔“
وہ صاحب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا،” کسی کام کو کرتے وقت کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ میں نے کیا ہے، ہم کون ہوتے ہیں!“
بے ساختہ ان صاحب کو دیکھا۔ چہرہ پر یقین، صداقت اور محبت تھی۔
شیخ نے ان کے متعلق فرمایا کہ ” یہ فنا فی الشیخ ہیں۔“
شیخ سے ملاقات کے لئے ایک صاحب آئے۔
صاحب ِ دل نے فرمایا،” اتنی ساری تصویروں میں ایک ہی تصویر پر نظر کیوں ٹھہر گئی؟ اس پر سوچنا، جواب ملے گا اور آپ خوش ہو جائیں گے۔“
عرض کیا ، شب و روز آنکھوں کے سامنے مناظر گزرتے ہیں لیکن انکھوں میں ایک ہی تصویر ہے۔
مشاہدہ ہوا کہ باہر کی دنیا فلم ہے ، وہ خاموش ناظر ہے اور اسکرین پر مناظر گزر رہے ہیں۔
توجہ اندر میں مرکوز کر دی۔ دل کے آئینہ میں تصویرِ یار تھی جس میں جذب ہو کر تصویر، آئینہ اور تصویر دیکھنے کا احساس ختم ہو گیا۔
مرشد کریم نے راہ نمائی فرمائی کہ،” جب تک معلوم نہیں ہوگا کہ تم کون ہو، حرکت کیا ہے اور کس کی ہے ، خود کو نہیں دیکھ سکتے۔ دل کے آئینہ میں دیکھنا، اصل دیکھنا ہے۔“
گھر میں دس شیشے ہیں، ہر شیشہ میں تصویر الگ تھی۔ کسی آئینہ نے سرخ و سفید دکھایا تو کسی نے پھیکا۔ وہ ایک ہے ، دس نہیں ، پھرہر آئینہ الگ کیوں دکھاتا ہے؟ تجربہ کر کے سیکھا کہ ہم خود کو نہیں آئینہ کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔ پھر آئینہ کے بغیر خود کو کیسے دیکھا جائے۔۔۔؟
فرمایا، ” عکس تو اصل ہے لیکن فرق ہے ۔ شیشہ آئینہ میں چمک کے تحت رنگ دکھائے گا۔ آئینہ چمک دار ہوگا تو رنگ تبدیل ہو جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تفکر نہیں کرتے۔ تجربات کرنے چاہئیں اس سے ذہن کھلتا ہے۔ آئینہ کے سامنے کھڑے ہو جاؤ اور دیکھنا، جو رنگ چہرہ پر ہیں وہ آئینہ نہیں دکھائے گا، ہم آئینہ کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔“
عرض کیا ، فرق کیسے ہو سکتا ہے وہ تو اصل ہی کا عکس ہے۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
مرشد کریم سے پوچھا ، کیا اصل اور عکس میں فرق ہے؟
آواز کو سننے سے خیالات و حالات میں تسلسل کی طرف ذہن گیا۔ کیفیت کے مطابق چیزیں رونما ہوتی ہیں، بندہ گزرتا چلا جائے تو راستہ بنتا جاتا ہے ۔ آواز پر کائنات قائم ہے جس نے قدم قدم پر راہ نمائی کی اور مرشد نے اندر میں آواز کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا۔ ایک مرحلہ پر غور کیا کہ آواز کس کی ہے، اسے سنتا کون ہے اور آتی کہاں سے ہے۔ طویل تفکر کے بعد ادراک ہوا کہ آواز وجود کی صفت ہے۔ اس سے زیادہ بیان کرنے کی اجازت نہیں۔
جب اس نے اندر کی آواز کو سننا شروع کیا تو احساس ہو اکہ دل میں کون ہے اور آواز کس کی ہے۔ تنہائی محسوس ہوئی تو آواز نے باتیں کی اور وہ اندر کی دنیا سے متعارف ہوا۔ دوستی قائم ہونے سے ٹکڑے جڑنے لگے اور تصویر بتدریج واضح ہوگئی لیکن ۔۔ واقفیت کا مرحلہ باقی تھا۔
آیت پڑھ کر انہوں نے آنکھیں بند کیں جیسے اسرار الٰہی میں ڈوب گئے ہوں۔
” دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔“ ( النجم : ۱۱ )
خالق کائنات نے معراج شریف میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا،
شیخ طریقت نے فرمایا،” لوگ کہتے ہیں کہ دل خفا ہے، دل اداس ہے، دل گھبرا رہا ہے، دل یہ کہتا ہے، دل کو برا لگا، دل کو اچھا لگا، ہر شے کا سبب دل کو بتاتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ دل کیا ہے؟ دماغ کام نہ کرے مگر دل کام کر رہا ہے تو آدمی کو ما میں چلا جاتا ہے لیکن مرتا نہیں۔ دل کام کرنا بند کر دے ، آدمی مر جاتا ہے۔ یہ بات پھر دل پر آجاتی ہے لیکن دل کیا ہے یہ کوئی نہیں سوچتا!“
وہ ہنس پڑا کہ اتنا گہرا اور بھرپور جواب کہیں سنا نہ پڑھا۔
فرمایا،” ایب نارمل۔۔۔ اور یہ اچھی بات ہے۔۔۔ اس دنیا میں ایب نارمل ہو گے تو دوسری دنیا میں نارمل ہوگے نا۔۔ اور جو یہاں نارمل ہے وہ وہاں ایب نارمل ہے۔“
ایک روز دل کا حال بیان کرتے ہوئے عرض کیا ، ملاقات میں تاخیر سے میں بے حال ہو جاتا ہوں ، ایسے میں آپ بتائیے میرا رویہ نارمل ہوگا یا ایب نارمل۔۔۔؟
کیفیت یہ ہے کہ بظاہر غیر موجودگی میں بھی محبوب کو موجود محسوس کرتا ہے۔ غیر موجودگی میں موجودگی کا احساس شدت سے ہوا کیوں کہ محبوب سامنے نہ ہو تو ذہن ہر شے سے ہٹ کر ان کو تلاش کرتا ہے اور قرب چاہتا ہے۔ اور جب محبوب سامنے ہو تو ہوش و حواس گم ہو جاتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں وہ بھول جاتا ہے کہ میں ہوں! بات سمجھ میں یہ آئی کہ میں نہیں ہوں، جو ہوں وہ نہیں جانتا کہ کیا ہوں۔
لاشعور میں دیکھا کہ ڈبے میں چڑیا بند ہے اور پھڑپھڑا رہی ہے۔ ڈبا کھول کر چڑیا کو آزاد کر دیا۔ چڑیا اس کے گرد دائرہ میں اڑنے لگی۔ صاحبِ علم نے تشریح کی کہ ” آپ خاندانی روایات ، زبان کے زعم اور خود نمائی سے آزاد ہو جائیں گے لیکن اس میں وقت لگے گا۔“
خود سے گزر کر خود کو پانے کے لئے کئی نشیب وفراز آئے مگر ایک خیال غالب رہا کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک لائے ہیں، آگے بھی لے کر جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صادقین کی قربت اختیار کرو، اہلِ ذکر سے دریافت کرو، مجھ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ربط اولی الالباب گروہ کے ایک فرد سے جوڑ دیا ہے جس نے بتدریج انا کو توڑا اور ظلمت سے نکال کر اسے نور میں داخل کیا۔
الہامی کتاب کو شیخ طریقت کے حکم کے مطابق پڑھنے سے ذوق و شوق اور ذہن میں گہرائی پیدا ہوئی۔ اب کلی کے پھول بننے کی مانند آیات ذہن میں کھلتی ہیں اور خوش بو روئیں روئیں میں سرایت کر جاتی ہے۔
”اور ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی موجود ہے۔“ (القمر : ۵۳ )
صاحبِ علم و عرفان نے خامیوں پر سے پردہ اٹھانے کے ساتھ توجہ غیر ضروری باتوں سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ کے کلام اور کائنات کی تخلیق کی طرف مبذول کی۔ بتایا کہ قرآن کے ایک ایک لفظ پر غور کرو، چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات میں تخلیقی میکانزم تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
صبح بسکٹ فروخت کر کے پیسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیئے اور یہ بات یقین بن گئی کہ اللہ کے علاوہ میری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن۔۔۔ ہر ضرورت پہلے سے زیادہ اچھی طرح پوری ہوتی ہے۔ چھوٹی رقم درکار ہو یا بڑی۔اللہ تعالیٰ غیب سے انتظام فرماتے ہیں۔
خوف سے آنکھ کھل گئی۔
مرشد کریم نے سخت سرزنش کی اور فرمایا،” یہ سورج دن رات اللہ کی عبادت کرتا ہے، ایک لمحہ کو بھی اس کا ذہن اللہ سے نہیں ہٹتا۔۔ تمہارا کیسے ہٹ گیا۔۔۔؟“
اس رات خواب میں دیکھا کہ وسیع کچا صحن ہے ۔ چارپائی پر مرشد کریم بیٹھے ہیں۔ سورج زمین پر آیا ہے اور مرشد کریم سے باتیں کر رہا ہے۔ وہ صحن میں داخل ہوا اور چارپائی کے قریب گیا۔
اس کے پاس رقم تھی۔ پیسے سونے کے بسکٹ میں بند کر کے سوچا کہ ضرورت پر کام آجائیں گے، دیگر چھوٹی ضرورتوں کے لئے بھائی سے کہہ دوں گا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
کر دو گے تو ایک وقت آئے گا گڑھے بھر جائیں گے۔“
” محبت ایثار ہے، راستہ میں گڑھے ہیں لیکن نظر انداز
حکم کی تعمیل سے پہلے سے زیادہ محبت ملی۔ جب کبھی تقاضے سے پیچھے ہٹنا مشکل ہوا اور تعمیل میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہوئی تو حالات سزا بن گئے۔ شیخ نے شفقت فرمائی اور سکھایا کہ،
یہ بات سن کر وہ تکلیف بھول گیا اور ان کے سامنے عہد کیا کہ میں نے معاف کر دیا ہے، اگر مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری معافی قبول فرمائے، شیخ نے آمین کہا۔
جھکنا اور معاف کرنا مشکل ہے، اس نے کوشش کی لیکن پھر دماغ میں فلم چلتی اور سوچ میں تلخی پیدا ہو جاتی۔ ایک روز صاحبِ طریقت نے مشکل یہ کہہ کر آسان کر دی کہ، ”تعمیل میں پس وپیش ، محبت میں عدم خلوص ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ معاف کر دیں، یہ آپ نے میرے لئے کیا ہے۔“
دوسروں میں نظر آنے والے عیب کو اپنے اندر تلاش کیا، اپنی اصلاح سے لوگوں کے عیب نظر انداز ہوگئے۔ یہ بھی سیکھا کہ ہر بات کا جواب ہوتا ہے لیکن ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ مرشد کریم نے غصہ کو نظر انداز کرنا سکھایا۔ انہوں نے ہدایت کی دو باتوں کا خاص خیال رکھنا ہے، معافی اور عیب سے پردہ پوشی۔ اس سے کم کوئی بات مجھے قبول نہیں۔ اس نے دونوں پر عمل کیا اور لب بہ بند و چشم بہ بندوگوش بہ بند کی مانند ہو گیا۔
پھر شیخ نے دن کو رات کہا اور محبوب کی نگاہ نظر بن گئی۔
فرمایا،” صرف کہنا نہیں، دیکھنا بھی چاہئے !“
ایک روز پوچھا تھا کہ اگر آپ دن کو رات کہیں تو کیا مجھے بھی اسے رات کہنا چاہئے ؟
اللہ کی مہربانی سے زندگی حکم کے مطابق ڈھل گئی۔ شیخ نے جھکنا سکھایا، انا کو درمیان میں لائے بغیر وہ جھک گیا۔ جب فرمایا بات کرو اس نے بات کی اور جب خاموشی کا حکم دیا، خاموش رہا۔
” جو سسٹم کے مطابق چلتا ہے، وہ ہمیشہ سسٹم میں رہتا ہے۔ تابع داری اور فرماں برداری ایسی صلاحیت ہے جس سے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔“
عرض کیا، میں ہمیشہ ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ صاحبِ طریقت نے فرمایا،
دو رنگی خوب نہیں یک رنگ ہو جا |
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا |
برہ کی آگ میں ثابت قدم چل |
سراجؔ اب شمع کا ہم رنگ ہوجا |
فرمایا،” ہاں! اب یہ طریقہ ہے کہ توقع قائم مت کرو۔ دیکھو ! ایک تقاضا ہے اور ایک طلب ہے، طلب رہتی ہے لیکن تقاضے کے لئے ضد مت کرو کہ جو تم چاہتے ہو ویسا ہو جائے۔ اللہ کے قانون میں شے اور وقت معین ہے۔ اچھا کر کے اچھائی یاد مت رکھو۔ بھول جاؤ۔ معاف کرنا سیکھو اور منفی رویوں سے متاثر مت ہونا۔ آپ کسی کو بدل سکتے ہیں نہ کوئی آپ جیسا ہو سکتا ہے، بس یہ یاد رکھو کہ مقصد کیا ہے۔ شکوک و شبہات سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ توجہ محبوب کی طرف ہو۔
عرض کیا، جس کی طلب ہے اور وہ اندر میں ہے پھر بندہ متاثر کیسے نہ ہو؟
فرمایا ،” طلب اور تقاضا ہے کہ جو آپ چاہتے ہیں وہ ہو۔ تقاضے کی تکمیل سے ذہن ہٹا لو۔“
وہ دہل گیا اور پوچھا ، کیسی قیمت ۔۔۔؟
شیخ نے فرمایا ، ” سو روپے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جس راستہ پر قدم رکھا ہے، آپ اس کی قیمت لگا رہے ہیں۔“
عرض کیا ، سو روپے پر گہرائی میں نہیں سوچا البتہ یہ بات ذہن میں ضرور آئی کہ میں نے طاق کی قیمت سو روپے کیوں لگائی۔ جس طاق میں نور ہو، وہ سو روپے کا کیسے ہو سکتا ہے یا اس کی قیمت کیسے ہو سکتی ہے!
فرمایا،” خواب میں سو روپے کی بہت اہمیت ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔“
عرض کیا ، کوئی اخلاقی خامی ہے کیوں کہ اخلاقی بیماریاں آدمی کو اللہ سے دور کر دیتی ہیں اسی لئے خواب میں نور نظر نہیں آیا۔۔۔ آپ تعبیر بتا دیجئے۔
پوچھا ،” کون سی خامی؟“
عرض کیا، جاگنے کے بعد پہلا خیال یہی آیا کہ کسی خامی کی نشان دہی ہے۔
خواب سن کر انہوں نے پوچھا ، ” آپ اس خواب سے کیا سمجھے ؟“
صاحب ِ طریقت سے عرض کیا کہ میں نے خواب میں ” اللہ نور السمٰوٰت والارض“ دیکھا۔ پھر طاق نظر آیا جس میں نور ہے لیکن نور نظروں سے مخفی ہے۔ وہاں میرے علاوہ کوئی موجود ہے جو نظر نہیں آتا۔ میں اس سےکہتا ہوں کہ طاق خرید لو، قیمت سو روپے ہے۔ طاق کے اندر نور ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ کیا سو روپے میں طاق خرید کر اس کے اندر نور دیکھ سکتا ہوں؟ میں نے کہا، نہیں! سو روپے صرف طاق کے ہیں، نور دیکھنے کے لئے دل کا صاف ہونا ضروری ہے۔
حکم کی تعمیل کے دوران جہاں اس سے غفلت یا زیادتی ہوئی، اللہ غفور الرحیم کے فضل و کرم سے بیداری کے علاوہ خواب میں بھی راہ نمائی ہوئی۔
اور وہ مزید شرمندہ ہو گیا۔
فرمایا ،” بچہ اگر دل کی بات باپ سے نہیں کہے تو کس سے کہے گا اور اصلاح کیسے ہوگی؟“
اس کے بعد جب ملاقات ہوتی تو وہ شیخ طریقت سے معافی مانگتا، شرمندگی بہت زیادہ تھی کیوں کہ محبت کی ناقدری کی تھی۔
اس نے معافی مانگی، انہوں نے سینہ سے لگا لیا۔
عرض کیا، بالکل نہیں، میں نادان ہوں۔
فرمایا ،” جی ! کیا میں آپ کے لئے غلط فیصلہ کر سکتا ہوں؟“
تیسری مرتبہ مثال کو دہرایا تو دل میں صاحبِ علم سے عرض کیا، میں کم ظر ف اور آپ اعلیٰ ظرف ہیں، مدد کیجیئے ۔ یکایک ذہن میں بجلی کوندی اور اس نے کہا ، حضور! وہ والی بات ۔۔۔؟
انہوں نے براہ راست نشان دہی سے گریز کرتے ہوئے مثال سے سمجھایا، سمجھ نہیں آیا۔ ذہن سُن تھا کہ کوئی گستاخی ہوئی ہے ۔ انہوں نے مثال دہرائی لیکن بات سمجھ نہیں آئی۔
وہ گھبرا گیا اور پوچھا کہ کیسی غلطی؟
پھر تین روز ایک ہی خواب دیکھا ، اس دوران ذہنی کارکردگی متاثر ہوگئی، باور ہوا کی کوئی غلطی ہوئی ہے۔ شیخ سے ذکر کیا تو فرمایا،” غلطی ہوئی ہے جس سے شعور ہل گیا ہے۔“
اندر کی آواز نے متوجہ کیا کہ یہ کل کی بات کا جواب ہے۔
ایک روز اس نے نادانی میں کہا، آپ جس بات کو ہاں کہہ دیں، اگر نہ بھی کرنا چاہوں تو وہ کام لازمی کرنا ہوگا۔ وہ خاموش رہےالبتہ اگلے روز اس کی موجودگی میں کسی نے فرمایا،” سب کچھ لوگوں کی مرضی سے ہو تو نظام میں تصادم ہو جائے گا۔“
مرشد کریم کے حکم پر عمل کیا۔ راستہ کٹھن اس لئے تھا کہ بیچ میں انا کی دیوار تھی جسے ٹوٹنے میں وقت لگا اور سخت تکلیف ہوئی۔ تکلیف کی شدت سے گھبرا گیا تو مہربان مرشد نے کم زوری کو تحمل میں بدل دیا اور سفر طے ہوتا گیا۔
فرمایا، ” جیسا کہتا ہوں ویسا کرو!“
پوچھا ، کیسے؟
فرمایا ،” پھر آجاؤ حال میں۔“
ایک روز صاحبِ طریقت سے عرض کیا تھا کہ میں کسی حال میں نہیں ہوں۔
اس نے اندر میں دیکھا کہ چہرہ بدل گیا ہے اور دوست کا عکس دوست بن گیا ۔ برے وقت میں مذاق اڑانے والے اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ ہم پیچھے رہ گئے اور تمہیں منزل مل گئی۔
ماہ و سال گزرتے رہے، دن رات بن گئے راتیں دن میں تبدیل ہوگئیں۔ جب وہ صاحبِ طریقت کے در پر آیا تو آنکھوں میں ویرانی ، اندر ٹوٹ پھوٹ ، اعصاب مضمحل اور چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔ شفیق مرشد نے شکستگی کو شگفتگی میں بدل دیا، امید کی کرن دکھائی اور آنے والے وقت نے کرن میں روشنیوں کے جہان آباد دیکھے۔ روشن ہستیوں سے ملاقات ہوئی ، کسی نے نفیس اور خوب صورت لباس تحفہ میں دیئے تو کسی نے رنگوں سے نواز دیا۔ کسی نے در پر بلایا اور حاضری کا شرف بخشا تو کسی نے سر پر ہاتھ رکھ کر استحکام کی دعا دی۔ یہاں تک کہ کوئی دل میں براجمان ہو گیا، عکس منعکس ہوا تو آنکھیں چمک اٹھیں اور نظر نے ہر منظر اس کی نظر سے دیکھا۔
آج مراقبہ کے بعد ڈائری اٹھائی اور گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا۔۔۔۔
قارئین ! باتیں ختم نہیں ہوئیں لیکن مزید بیان کرنے کی اجازت نہیں۔
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے