Topics
مراقبہ
میں بیٹھ کر ایسا لگا جیسے میں مٹی کا نہیں کاغذ کا بنا ہوا ہوں۔ اصل میں مراقبہ
کا مجھے کچھ اتنا پتہ نہیں تھا۔ البتہ شروع ہی سے دادی اماں جب دریا میں غوطہ
لگانے کا تصور کرایا کرتی تھیں تو بس اسی تصور کے ساتھ اس وقت بھی میں اللہ کے
حضور بیٹھ گیامیرا جی چاہتا تھا کہ میں اس ہستی کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائوں۔اس
کے رنگوں میں ڈوب جائوں۔ کچھ دیر بعد سانسوں کے ساتھ ساتھ بھینی بھینی خوشبو اندر
اترنے لگی۔ احساس اور بھی زیادہ لطیف ہو گیا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں ایک پر سے
بھی زیادہ ہلکا ہوں اور بس اڑا چلا جا رہا ہوں۔ کہاں اڑ رہا ہوں کچھ پتہ نہ تھا۔ بس
ایسا لگتا تھا جیسے عمیق اندھیرا ہے، مجھے یہ تو پتہ ہے کہ میں اڑ رہا ہوں مگر
کہاں جا رہا ہوں کیوں جا رہا ہوں کچھ پتہ نہیں تھا۔
بہت
دیر بعد آنکھ کھولی تو سورج نکل رہا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی سے سورج نکلنے کا منظر
اتنا دلکش تھا کہ میں سوچنے لگا جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔بند کمروں میں زندگیاں
گزارتے ہیں وہ فطرت کی کیسی کیسی نعمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ آج مجھے اندازہ
ہوا کہ فطرت کتنی معصوم ہے۔فطرت کے اندر کتنی کشش ہے۔ میری نظر سورج سے ہٹ کر پھر
پس منظر کے ہرے بھرے پہاڑوں پر گئی۔فکر میں پھر یہ سوال ابھرا، پہاڑوں میں کیوں
اتنی کشش ہے۔ پہاڑوں کا روحانیت سے کیا تعلق ہے۔کوئی تو ہو گا۔ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پربلایا۔ حضور پاکﷺ نبوت سے پہلے غار حرا پر
اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کے لئے جاتے تھے۔ حضرت دائود علیہ السلا م کے ساتھ
پہاڑ تسبیح کیا کرتے تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا ، ہو نہ ہو پہاڑوں کا روحانی فکر کے
ساتھ ضرور کوئی گہرا تعلق ہے۔
میری نظریں دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں اور ذہن میں
نہایت تیزی کے ساتھ خیالات آرہے تھے۔ پہاڑوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ
’’ ہم نے پہاڑوں کو زمین کی میخیں بنائی ہیں تا کہ یہ تمہیں لے کر ڈولنے نہ لگے‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ Gravity
یا قوت ِ ثقل کی بنیاد پہاڑ ہیں۔ اگر زمین پر سے پہاڑ ختم کر دئیے جائیں
تو زمین کی Gravityختم ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلا کہ دنیا میں سب سے زیادہ قوتِ
ثقل Gravitional Force
پہاڑ میں ہے۔ جب ہم پہاڑ کے دامن سے پہاڑ کی بلندی پر نظر
ڈالتے ہیں تو پہاڑ کی قوتِ ثقل ہمارے حواس پر غالب آ جاتی ہے۔ اونچے پہاڑ پر
چڑھنے کے لئے ہمیں اپنی ہمتوں کو مجتمع کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح ہر شخص میدان یا
ہموار زمین پر بغیر کسی ہمت کے ایک دم سے چل پڑتا ہے۔اسی طرح ہر شخص پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتا کیونکہ پہاڑ کی
قوتِ ثقل انسان کے اندر کام کرنے والی قوت ثقل پر حاوی ہو جاتی ہے۔ پہاڑ کو اللہ
تعالیٰ نے زمین کی میخیں کہا ہے۔میخوں سے مراد جمود ہے۔ یہی جمود فکری اعتبار سے
مادیت کی فکر ہے۔ آدمی جب پہاڑ کے اندر کام کرنے والی مادی لہروں سے متاثر ہوتا
ہے۔ تو اس کے اندر مادی حواس کی لہروں کی رفتار پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور اس میں
پہاڑ پر چڑھنے کی ہمت نہیں رہتی۔ مگر جب آدمی کا ارادہ پہاڑ کی قوتِ ثقل پر غالب
آ جاتا ہے تو وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔ یعنی وہ اپنے اندر کام کرنے والے
مادی حواس کے جمود کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ
’’اور
تم دیکھ رہے ہو پہاڑ کہ یہ جمے ہوئے ہیں ۔ مگر یہ بادلوں کی طرح اُڑ رہے ہیں
‘‘ ۔
پہاڑ
کی چوٹی پر پہنچ کر آدمی کے اندر یہ یقین اور احساس حاوی ہو جاتا ہے کہ مادی غلبہ
اس کے حواس پر جمود طاری نہیں کر سکتا۔ وہ عملی طور پر قوتِ ثقل کی انتہائی فورس
کو توڑ چکا ہے۔ اس کی فکر مادیت سے ہٹ کر لطافت کی جانب پرواز کرنے لگتی ہے۔ہر مادی
جسم کے اندر ایک لطیف جسم موجود ہے۔ پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اُڑنا، اسی لطیف جسم
کا تذکرہ ہے۔ آدمی جب اپنے اندر موجود لطیف حواس اور فکر کے ساتھ پہاڑوں پر نظر
ڈالتا ہے تو اس کی نظر گہرائی میں پہاڑوں کے لطیف جسم کا مشاہدہ کر لیتی ہے ۔
چونکہ پہاڑ مادے کی انتہائی صورت ہے۔ چنانچہ اسی مناسبت سے پہاڑ کے اندر کام کرنے
والے لطیف جسم کی حرکت لطیف حواس کا پہلا درجہ ہو گا۔ پیغمبران علیہ السلام پہاڑوں
پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعے اپنے روحانی حواس کو اس ابتدائی درجے سے بتدریج
بلند کرتے ہوئے روحانیت کی معراج پر پہنچا دیتے تھے۔اس طرح ان کے حواس نے روحانیت
کی پہلی سیڑھی سے لے کر آخری سیڑھی تک جہاں تک اللہ تعالیٰ نے انہیں علوم دینا
چاہا۔ وہاں تک تمام مدارج کو طے کر لیا اور ان کے روحانی حواس نے ابتداء سے لے کر
انتہا تک علوم کی تمام روشنیوں کو جذب کر لیا۔ یہی وجہ ہے ان کے علوم باقی تمام
لوگوں سے افضل اور کامل ہوئے اور ان کے اندر عام لوگوں کی نسبت نور کو جذب کرنے کی
سکت بھی بہت زیادہ تھی۔جس کی وجہ سے ان کے ذریعے معجزات صادر ہوئے۔ معجزات نور کی
عملی صورت و فعل ہے۔ پیغمبران علیہ السلام کے اندر ذخیرہ شدہ نور اللہ تعالیٰ کے
ارادے اور ھکم کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔
میرا دل اس علمی توجہیہ پر نہایت ہی مسرور ہوا۔
میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرے دل میں پہاڑ پر کچھ عرصہ گزارنے
کا تقاضہ پیدا کیا۔ میں اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر چلا تھا تا کہ اطمینان
سے چوٹی پر کچھ دن گزار سکوں۔سورج کی روشنی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت
کا احساس بھی ہونے لگا۔ میں نے تھیلے سے کھانے پینے کی چند چیزیں نکالیں اور خوشی
خوشی کھانے لگا۔ دل ایسا خوش اور بھرا ہوا تھا کہ جیسے اپنے چاہنے والوں کی محفل میں
بیٹھا ہے۔تنہائی کا ذرا سا بھی احساس نہ تھا اور پھر میں تنہا کب تھا فطرت کی بیشمار
چیزیںاپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ میرے آس پاس تھیں۔ ابھی تو کسی اللہ کے بندے کی
تلاش کرنی ہے جو مجھے قدم قدم چلا کر سمندرکی گہرائی میں لے جائے۔ ابھی تو مجھے
سمندر کی تہہ سے موتی مونگے چننے ہیں۔اے میرے رب مجھے کسی ایسے بندے سے ملا جو
مجھے تجھ سے ملا سکے۔ میری روح کا تقاضہ دعا بن کر دل سے نکلنے لگا۔
درختوں
پر پرندے چہچہاتے ہوئے اِدھر سے اُدھر پھدک رہے تھے۔ مجھے دادی اماں کی بات یاد
آگئی۔ وہ کہتی تھیں بیٹا جو بچے بڑوں کی بات مانتے ہیں۔ مرنے کے بعد ان کی روح چڑیا
کی طرح ہلکی پھلکی اور آزاد ہو جاتی ہے۔ پھر وہ غیب میں جہاں جی چاہے اڑتی رہتی
ہے۔ میں نے سوچا آزاد فکر کی نشانی یہ پرندے ہیں۔ نہ انھیں کھانے کا غم نہ پینے کی
فکر ۔دنیا کے ہر جھمیلے سے آزاد فضائوں میں اڑتے پھرتے ہیں۔کاش میری روح بھی چڑیا
کی طرح آزاد ہو جائے۔ پھر تو وہ سیدھی اللہ تعالیٰ کی جانب لپکے گی۔ روح کیسی ہو
گی اللہ کیسا ہو گا۔ میرا ذہن اندھیرے میں چلنے لگا۔ کتنی دیر گزر گئی تصویر کی
کوئی شبیہہ ذہن میں نہیں اُبھری۔ نہ مجھے اپنی روح کا پتہ تھا نہ اللہ کا۔ ذہن میں
تصویر اُبھرئے تو کیونکر۔
اچانک
میرے ذہن میں خیال آیا۔ ان پہاڑوں میں بھی تو کوئی میری طرح اللہ کی جستجو میں بیٹھا
ہی ہو گا۔ کیوں نہ اسے تلاش کیا جائے۔ اس خیال نے جیسے میرے اندر بجلی سی بھر دی۔میں
ایکدم چھلانگ مار کر اٹھ بیٹھا۔ جلدی جلدی سارا سامان سفری بیگ میں رکھ کر
فوراً ہی چل دیا۔ دن بھر میں پہاڑوں کے
اندر پتلی پتلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ بھوک پیاس لگتی تو کمر سے لٹکے ہوئے بیگ سے
کچھ کھا پی لیتا۔ مگر اس سفرمیں اس قدر لطف آرہا تھا۔ عجیب عجیب سے درخت، جنگلی
پھل اور پھول دکھائی دیتے۔ گھنے درختوں پر ایسے خوبصورت پرندے دکھائی دیتے کہ ان
کے بنانے والے کے ہاتھوں کو چوم لینے کو جی چاہتا۔ میں اپنی دھن میں سیٹی بجاتا
چلاجا رہا تھا ۔ شام ہونے کو تھی۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء