Topics
اب
میرا بالغ شعور حافظے کے اس نقش کو دیکھ کر اس کے اندر علمی توجیہہ تلاش کر
رہاتھا۔ دل کہنے لگا۔ دادی اماں کی یقین کی نگاہ نے میری بیماری دیکھ لی اور اس کا
علاج بھی کر دیا۔ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ نظر لگ جاتی ہے مگر کیوں لگتی ہے اور
آدمی پر اتنی جلدی اثر کیوں ہو جاتا ہے۔ اس سے وہ یقینا واقف نہ ہوں گی۔ اب میرا
ذہن حافظے کی اس تمثیل میں علم کی روشنیاں ڈھونڈنے لگا۔ خیال آیا کہ ہمارے اندر
حرکت کی لہروں کا اور برقی قوت کا ایک نظام کام کر رہا ہے۔ اسی نظام کے کام کرنے
سے حواس پیدا ہوتے ہیں۔ حواس دو سطح پر روشنیوں کو جذب کرتے ہیں اور ان دونوں سطح
پر جذب شدہ روشنیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ حواس کی ایک سطح مثبت کرنٹ یا روشنیوں کو
جذب کرتی ہے۔ جبکہ دوسری سطح منفی کرنٹ کو جذب کرتی ہے۔ نظر لگنے کا مطلب یہ ہے کہ
حواس کی منفی سطح پر کرنٹ نارمل سے زیادہ مقدار میں ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ یہ مقداریں
جس کی دوسرے شخص کی خیال کی روشنی کو جذب کر کے ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ منفی کرنٹ کی
مقداریں معمول سے زیادہ بڑھنے پر جسمانی نظام میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ جس کا فوری
اثر محسوس کیا جاتا ہے۔ نظر بد کا اتار منفی کرنٹ کو نیوٹرل کر دیتا ہے۔ اس علمی
توجیہہ کے بعد، میں سوچنے لگا کہ ہمارا شعور ایک بیٹری کے سیل کی طرح ہے۔ اس سیل
کا ایک حصہ مثبت اور دوسرا منفی ہے۔ سیل کا درمیانی حصہ وہ ہے جہاں مثبت اور منفی
کرنٹ آپس میں ملتے ہیں۔ یہی وہ مرکز ہے جہاں مثبت اور منفی دونوں رخوں کا بیک وقت
مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنے کی ہدایت
دی ہے تا کہ شعور میں آتے ہوئے خیال کو دونوں رخوں سے پرکھا جا سکے اور یہ اسی
وقت ہو سکتا ہے جب دونوں رخ سامنے ہوں۔ یہی طرز فکر نیوٹرل کہلاتی ہے۔ نیوٹرل طرز
فکر میں شعور ہر شئے کی علمی توجیہہ تلاش کرتا ہے۔ اس طرز فکر میں حواس کی حرکت بھی
بیلنس میں رہتی ہے۔ کیونکہ ہر خیال جو شعور میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی روشنیاں شعور
کے مرکز پر جذب ہو کر شعور کی دونوں طرح کی روشنی کی قوت فراہم کرتی ہیں۔ اس طرح
زہنی روشنی کے اندر موجود دونوں قوتوں کو جان لیتا ہے اور خیال کے اندر پازیٹیو
اور نیگیٹیو دونوں مفہوم کو پہچان لیتا ہے۔ تب اس کے لئے فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا
ہے۔ نیوٹرل طرسز فکر رکھنے والا ہر عمل کے اندر حکمت کو پالیتا ہے۔ اس کے حواس میں
اس کا شدید رد عمل نہیں ہوتا۔ حواس کا شدید رد عمل جسمانی نظام میں گڑ بڑ پیدا کر
لیتا ہے۔ جیسے رنج و غم کا شدید رد عمل بے خوابی اور ہاضمے کے نظام کو خراب کر لیتا
ہے۔ پس نیوٹرل طرز فکر میں دل، دماغ اور جسم سب کچھ پر سکون اور تندرست رہتے ہیں۔
شیخ
احمد میری روحانی ترقی پر بہت خوش تھے اور روحانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے
لئے ہمیشہ تلقین فرمایا کرتے تھے۔ جہاں کہیں بھی ان کا پروگرام ہوتا میری بھی شرکت
ضروری سمجھی جاتی۔ ان کے خطاب سے پہلے مجھے تقریر کا موقع دیا جاتا۔ شیخ احمد
فرماتے بندہ جتنی زیادہ اپنی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے اتنی ہی اللہ تعالیٰ کی صفات
بندے پر کھلتی رہتی ہیں۔ شیخ احمد نے فرمایا۔ بیٹا اللہ پاک کی شان جمالی کو زیادہ
سے زیادہ جذب کرو تا کہ تمہارا آئینۂ دل اس کے نور سے جگمگا اٹھے۔
دونوں
بچوں نعمان اور افشاں نے نریما کی مصروفیات بڑھا دیں۔ مگر اس کے ساتھ بچوں کی وجہ
سے گھر میں ایسی رونق تھی جیسے پھولوں سے باغ کی رونق ہوتی ہے۔ بچے سارا وقت چڑیوں
کی طرح چہکتے رہتے اور ان کے ساتھ ساتھ نریما بھی بلبل کی طرح ہنستی گاتی دکھائی دیتی۔
پہلے مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں نریما اپنے ابو کی موت کو سیریس نہ لے لے۔ مگر اس نے
پنڈلی سے لوٹنے کے بعد کبھی بیقراری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ جب بھی پھپھا عتیق
کا ذکر آتا۔ بڑے برباد انداز میں ان کے گزرے ہوئے واقعات سناتی جس میں ان کی
اچھائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور اجاگر ہو جاتا۔ اس طرح بچوں کے سامنے وہ ان کے
نانا کو بہترین نمونہ بنا کر پیش کرتی۔ ویسے بھی وہ ہر تیسرے چوتھے دن اپنے والد
کو ضرور خواب میں دیکھتی۔ وہ اکثر کہتی۔ ابو مجھ سے جد اتھوڑی ہوئے ہیں۔ جب بھی
مجھے یاد آتی ہے وہ کواب میں ملاقات کو آجاتے ہیں۔ اس ظاہر باطن میں ہم نے اتنا
لمبا چوڑا فاصلہ ڈال رکھا تھا۔ اگر اس سے قطع نظر صرف مرکز تصور پر نظر رکھی جائے
تو زمان و مکان کے فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں۔ مجھے تو بس اپنے ابو سے پیار ہے۔ پیار
تو روح کی ایک صفت ہے۔ اس میں ظاہر باطن، زمان مکان کا کیا تذکرہ۔ جب ابو دنیا میں
تھے تب بھی میں ان سے پیار کرتی تھی اور اب دوسری دنیا میں تب بھی اسی طرح کرتی
ہوں۔ غیب تو شعور کی آنکھ کے لئے ہے۔ روح کی آنکھ تو غیب کو ظاہر کی طرح دیکھتی
ہے۔ ابو سے میرا پیار روح کی طرح وابستہ ہے۔ پھر اس میں دنیا اور غیب کا کیا
تذکرہ۔ میں اس کی باتیں سن سن کر چونک جاتا۔ کیونکہ وہ گھر کے کاموں میں بچوں میں
ہنسنے بولنے میں مگن رہتی۔ جب سے افشاں ہوئی تھی تب سے مراقبہ کی محفل میں بھی اس
کا جانا کم ہو گیا تھا۔ گھر میں بھی آنا جانا لگا ہوا تھا۔ بچوں سے جو وقت بچتا
وہ مہمان داری میں خرچ ہو جاتا البتہ میں اس سے اکثر روحانی علوم کی باتیں کیا
کرتا۔ لیکن اس کی باتوں میں ایسے نقطے ہوتے کہ سننے والے قائل ہو جاتے۔ خصوصاً اس
کے ابو کی وفات کے بعد سے تو وہ بڑی وزن دار باتیں کیا کرتی تھی۔ میں سوچتا، زندگی
کا ہر عملی تجربہ عقل و شعور کی دانائی کا ایک زینہ ہے۔ عقل اس زینہ سے چڑھ کر
ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔ میں ہر وقت اللہ پاک کا شکریہ ادا کرتا کہ اس نے مجھے ایک
نیک بیوی اور میرے بچوں کو مثالی ماں عطا کی ہے۔ کیونکہ بلا شبہ بچوں کی تربیت میں
ماں کا ہاتھ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ میری تربیت میں دادی اماں کا سب سے بڑا
حصہ ہے۔ مگر یہ بات ضرور ہے کہ بچپن میں اگر میری ماں مجھے دادی کے حوالے نہ کرتیں
تو میں کبھی بھی ان کے قریب نہیں جاتا۔ ممی ہر وقت مجھے دادی اماں کے پاس رکھتیں۔
ان کا ادب کرنا سکھاتیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں کا دھیان رکھنے کی تلقین کرتیں۔
ان کی میرے ساتھ بے پناہ محبت کا احساس دلاتیں۔ میرے دل میں دادی اماں کے لئے محبت
پیدا کرنے میں میری ممی کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ اس لئے مجھے اس بات کا بخوبی
اندازہ ہے کہ بچوں کی تربیت میں ماں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ماں ہی بچے کے دل میں کسی کے
لئے محبت پیدا کر سکتی ہے اور کسی کے لئے نفرت بھی پیدا کر سکتی ہے۔
بچوں
سے پہلے ماں کی تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے۔ جیسے استاد بننے کے لئے ٹیچر ٹریننگ
ضروری ہے۔ ماں بننے سے پہلے ماں کو بچہ صحیح طور پر پالنے کی ٹریننگ لینی چاہئے۔ میرا
ذہن ان سب باتوں پر غور کرتے ہوئے سوچتا فطرت سے بڑھ کر کون استاد ہے۔ فطرت خود ہر
قدم پر انسان کی راہنمائی کرتی ہے۔ ماں بنتے ہی عورت کے اندر بتدریج تبدیلیاں اس
طرح رونما کرتی چلی جاتی ہیں کہ ماں کی صلاحیت خود بخود ابھرتی چلی جاتی ہے۔ بس
صرف ذہن کا فطرت سے رابطہ ہونا چاہئے۔ جب کوئی بندہ اپنے اندر کام کرنے والی فطرت
سے رابطہ جوڑ لیتا ہے تو اس کا رابطہ اللہ تعالیٰ کے تفکر کے ساتھ قائم ہو جاتا
ہے۔ پھر اللہ خود اس کا ہر قدم پر محافظ بن جاتا ہے۔ اس طرح بندہ بھی اس کی حفاظت
کو پہچان لیتا ہے۔
افشاں
ابھی تقریباً سوا سال کی تھی کہ پڑوس کے کسی بچے سے اسے کالی کھانسی لگ گئی۔ یہ بڑی
ظالم بیماری ہے۔ اپنی مدت پر ہی جاتی ہے۔ شروع شروع میں تو ہم اسے معمولی کھانسی
سمجھ رہے تھے۔ پھر ڈاکٹر سے باقاعدہ علاج کرایا۔ افشاں کی کھانسی کو ڈیڑھ ماہ ہو
چلا تھا، کبھی کبھی اس پر بڑی بری طرح کھانسی کے دورے پڑتے۔ ویسے یہ دورے کبھی
کبھار ہی سخت ہوتے۔ مگر پھر بھی نریما اور سارے گھر والوں کو سخت فکر ہو جاتی۔ شیخ
احمد نے دلاسہ دیا تھا کہ گھبرائو نہیں اپنی مدت پر ختم ہو جائے گی۔ مگر ماں ہونے
کے ناتے نریما بچی کے لئے اندر ہی اندر بہت فکر مند تھی۔
ایک
دن نریما نے افشاں کو نہلا کر میری امی کے پاس لٹا دیا۔دوپہر کو امی اس کے لے کر لیٹ
گئیں۔ دونوں سوگئے اور نریما طہر کی نماز کے بعد دعائوں کی کوئی کتاب پڑھنے بیٹھ
گئی۔ میں آفس میں تھا۔ ابو کام پر تھے۔ چچا بھی نہیں تھے۔ چچی اوپر والے کمرے میں
تھیں۔ بس نیچے نعمان، افشاں، ممی اور نریما تھے۔ بعد میں مجھے نریما نے سارا واقعہ
سنایا۔ ہوا یہ کہ کتاب پڑھتے وقت نریما کے ذہن میں بچی کی کھانسی کی وجہ سے یہ خیال
پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھے کیوں پیدا کیا۔ نہ پیدا کیا ہوتا، تو کیا ہوتا۔ آج مجھے
پریشانی تو نہیں ہوتی۔ اس وقت اس کا دل بچی کی کھانسی کی تکلیف کے احساس میں بالکل
ڈوب گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں تو کوئی نہ کوئی
پریشانی لگی رہتی ہے۔ مجھے اللہ نے نجانے کیوں اس دنیا میں بھیج دیا۔ اس خیال کے
دوران کتاب سامنے تھی۔ وہ پڑھ رہی تھی تو صفحہ کی آخری سطر پر لکھا تھا’’اور غور
سے سنو کہ ہر انسان کی ذمہ کوئی کام دیئے گئے ہیں اور کسی کی تخلیق بلا سوچے سمجھے
ہرگز نہیں کی گئی۔ پھر تم نادانی میں ایسا کیوں سوچتے ہو۔‘‘ یہ پوری عبارت صفحہ کے
آخری لائن پر آدھی تھی۔ اس کے بعد صفحہ پلٹ کر آخری حصہ تھا۔ اس کے پڑھتے ہی نریما
کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے سینے میں صبر انڈیل رہا ہے۔ اس کی ٹھنڈک اس نے
اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کو سکون ملا وہ جان گئی کہ اسے تسلی دی جارہی ہے کہ وہ
بچی کے لئے پریشان نہ ہو۔ وہ بار بار اس عبارت کو پڑھتی رہی۔ کتنی بار اس نے پڑھا۔
کیونکہ اس کو سکون اور تقویت مل رہی تھی اور وہ جان گئی تھی کہ یہ اللہ کی جانب سے
اس کے لئے تسکین کا سامان ہے۔ پھر اس نے کتاب کا صفحہ اور سطر نمبر بھی اچھی طرح
پڑھا اور بار بار دیکھا اور یاد کرایا کہ جب کبھی پریشانی ہو گی تو اس عبارت کو
پڑھ لیا کروں گی تا کہ دل کو قوت حاصل ہو جائے۔
اب
وہ آگے پڑھنے کے لئے دوسری سطر پر نظر ڈال رہی تھی۔ کہ ممی افشاں کو گود میں لئے
چیختی چلی آئیں۔ نریما، افشاں کی سانس بند ہو گئی۔ اس وقت نریما نے فوراً بچی کو
گود میں لے لیا۔ اس کی سانس بند ہو چکی تھی۔ چہرہ نیلا ہونے لگا۔ اس کے ذہن میں
پڑھے ہوئے الفاظ گونجنے لگے۔ وہ بالکل چپ تھی۔ جیسے سکتہ ہو گیا۔ ممی نے کچھ آیت
پڑھ کر اس پر دم کیا۔ اس کو ہلاتی رہیں۔ چند منٹوں میں بچی کے سانس کا بہائو واپس
آ گیا۔ نریما کہنے لگی۔ میں بالکل چپ چاپ اس اثناء میں دل میں اللہ پاک سے یہ
التجا کرتی رہی کہ غلط خیال میرے ذہن میں آیا تھا مجھے معاف کر دیں اور اس کے
ساتھ یہ بھی خیال تھا کہ اسی پریشانی کو برداشت کرنے کی سکت اس کے اندر ڈالی گئی
ہو۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ مگر ڈاکٹر نے کہا کہ بچی بالکل ٹھیک ہے۔ کھانسی کی وجہ سے
ایسا ہوا تھا کیونکہ گہری نیند میں کھانسی آ گئی تھی۔ تھوڑی دیر میں، میں آیا تو
سارا واقعہ معلوم ہوا۔ نریما نے فوراً کتاب دکھائی کہ یہ دیکھئے میں یہ پڑھ رہی تھی۔
اب جو صفحہ کھولا تو اس پر عبارت تھی ہی نہیں۔ وہ سخت حیران ہو گئی۔ بار بار آگے
پیچھے صفحہ پلٹتی اور بار بار یہی کہتی کہ سلمان میں نے تو اچھی طرح صفحہ نمبر وغیرہ
ذہن نشین کر لیا تھا تا کہ میں پھر پڑھ سکوں۔ میں نے اسے گلے لگا کر تسلی دی۔ اللہ
احسن الخالقین ہے۔ تم ماں ہو خالقیت کی ایک صفت تمہارے اندر بھی کام کر رہی ہے۔
خالقیت کا مزاج ممتا کا ادراک ہے۔ جب اس ادراک میں ہلچل مچی تو تسکین کا سامان کر
دیا گیا اور تمہارے خیال کی تصحیح کر دی گئی۔ آئندہ ایسا کبھی مت سوچنا۔ دکھ سکھ
تو زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ چچی نے اس دن شام کو بکرے کا صدقہ دیا۔ پھر اس کے بعد
افشاں کو کھانسی نہیں اٹھی۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء