Topics

قرآن میں اللہ کے اسرار و رموز


                 میرا دل کہتا، قرآن میں اللہ کے اسرار و رموز موجود ہیں۔ انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ دن بدن میرا انہماک قرآن کی حکمتوں کو جاننے میں بڑھتا چلا گیا۔ ایک رات میں قرآن پڑھ کر اس کی آیتوں میں غور کر رہا تھا کہ ثمینہ نے سلیم کے آنے کی اطلاع دی ۔اس وقت مجھے سلیم کا آنا کچھ ناگوار گزرا۔ میں خود اپنی طبیعت کی تبدیلی پر حیران رہ گیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو میں دوڑ کر جاتا۔ میں سوچنے لگا۔ دوست کی ذات میں میرا انہماک تبدیل ہو کر اب قرآن کے علوم جاننے سے وابستہ ہو گیا ہے۔ میں نے سوچا، ذہن کی مرکزیتیں بدلتی ہیں۔ ذہن کی مرکزیت جس کے ساتھ قائم ہو وہی شئے دل سے قریب ہو جاتی ہے۔ انسان ہر دم علم حاصل کر رہا ہے۔ میرا جی چاہا کسی ایسی ہستی کو ذہن کی مرکزیت بنا لوں جو مجھے قرآن کے اسرار سے آگاہ کر دے۔

                دن نہایت تیزی سے گزرتے رہے۔ کالج میں یہ میرا آخری سال تھا۔ میں پوری تندہی کے ساتھ پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔ پڑھائی کا اتنا بوجھ تھا کہ کتنے دن قرآن کھولنے کی نوبت نہ آتی تھی مگر علوم الٰہی سیکھنے کا تقاضہ اب بھی دل کی گہرائی میں موجود تھا۔ سوچتا تھا کہ پڑھائی سے فارغ ہو کر اس طرف توجہ دوں گا کیونکہ یہ میری روح کی پکار تھی۔ اس کے بغیر میں ایک تشنگی محسوس کرتا تھا۔ بلکہ یہ تقاضہ خود اپنے آپ کو بھولنے نہیں دیتا تھا۔ جب بھی کبھی خیال آتا۔ نظریں خلائوں میں اٹک کر رہ جاتیں۔ ایسا لگتا جیسے غیب کے اُس پار کوئی مجھے بلا رہا ہے۔ کون ہے وہ جسے میرا انتظار ہے۔ میرا دل اس انجانی ہستی کے لئے تڑپ اٹھتا مگر پڑھائی کے پریشر کی وجہ سے ایسی کیفیت کبھی کبھار ہی ہوتی۔ میرا فائنل امتحان ہو گیا اور اب میں اپنے آپ کو بہت ہی ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ دو تین دن تو گھر میں ہی گزر گئے۔

                اب پھر مجھے پہاڑوں پر جانے کا شوق ہوا۔ میں نے سمیرا باجی، ثمینہ اور راحیلہ سے ذکر کیا کہ چلو گھوم آتے ہیں ۔ مگر چار ماہ بعد سمیرا باجی کی شادی طے پائی تھی جس کی وجہ سے ممی نے جانے کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ ثمینہ اور راحیلہ کو بھی روک لیا کہ چھٹیوں میں تیاری کروا دو۔میں تو تم لوگوں کی چھٹیوں کا انتظار کر رہی تھی۔ کیونکہ شاپنگ تم لوگوں کی پسند سے ہو گی۔ کہنے لگے بھئی تم عورتوں کے تو مشاغل ہی مختلف ہیں ۔ تم لوگ کپڑوں کی سلائیوں اور شاپنگ میں لگی رہو گی تو کیا میرا بیٹا گھر میں بور ہوتا رہیگا۔ سلمان بیٹے تم اکیلے ہی راولپنڈی ہو آئو۔ اب تو تمھاری لمبی چھٹیاں ہیں۔ مہینے دو مہینے رہ آئو۔ میں خوش ہو گیا۔ سچ پاپا، میں چلا جائوں،ہاں بھئی ضرور جائو۔یہاں اکیلے کیا کرو گے۔ ذرا گھوم پھر آئو ۔ پھر تمہاری جاب کے متعلق سوچیں گے۔ میں نے جلدی جلدی پیکنگ کی۔ لڑکیوں کو کپڑے استری کرنے پر لگا دیا اور رات تک میرا سوٹ کیس تیار ہو گیا پھر میں راولپنڈی پھپھو کے یہاں پہنچ گیا۔ پہلا دن تو باتوں میں ہی گزر گیا۔ ملے بھی تو پورے ایک سال بعد تھے۔ پچھلی گرمیوں میں پھپھو کراچی آئی تھیں۔ اس کے بعد نہ ہم جا سکے تھے نہ وہ آ سکی تھیں۔

                اس ایک سال میں اور تو سب کچھ ویسا ہی تھا مگر نریما میں نمایاں تبدیلی آگئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کے اندر نسوانیت کے تقاضے اُبھر آئے ہیں۔ خوبصورت تو وہ پہلے ہی تھی ۔ اب اس حسن میں بانکپن اور حیا کے رنگ بھی شامل ہو گئے تھے ۔ اس کی ہنسی میں گھنٹیوں کی کھنک آگئی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی چور دروازے سے میرے دل میں چلا آ رہا ہے۔ عقل نے مہمیز لگائی۔ ابھی ان چکروں میں نہیں پڑنا ہے۔ ابھی تو قدرت کے سر بستہ رازوں کو تلاش کرنا ہے۔ شادی تو زندگی کا ٹھہرائو ہے۔ابھی تمہیں بہت آگے بڑھنا ہے۔ عقل چاہے دل پر کتنے ہی پہرے لگائے مگر جب دل کے چور دروازے کھل جاتے ہیں تو محبوب کو دل میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں نے وقاص بھائی کے ساتھ پہاڑ پر جانے کا پروگرام بنایا۔ وقاص بھائی آج کل جاب کر رہے تھے۔ باوجود کوشش کے انہیں چھٹی نہ ملی۔ میں نے پھوپھا سے کہا کہ چند دن کے لئے آزاد کشمیر کی پہاڑیوں میں رہنے کو جی چاہ رہا ہے۔ میں اکیلا ہی ہو آتا ہوں، پھوپھا کہنے لگے کہ میرا فلاں دوست رہتا ہے۔وہاں چلے جائو مگر میں پوری آزادی کے ساتھ پہاڑوں کی شامیں دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنا سلیپنگ بیگ اٹھایا اور چند ضرورت کی چیزیں کمر پر لاد کر گھر سے نکل کر کشمیر جا پہنچا۔

                گھر کے قریب ہی سے پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ وہ شام میں نے ایک پہاڑی پر گزاری۔ اس بلند پہاڑی کی چوٹی پر میرے سوا اور کوئی نہ تھا۔ سورج ڈوبنے لگا، سنہری دھوپ نے سبزے کو اور بھی نکھار دیا۔ میری نگاہیں اُفق پر جم گئیں۔ سنہری روشنی کی لطافت مجھے اپنے سینے کے اندر محسوس ہوئی۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا، یوں لگا جیسے اللہ تعالیٰ یہیں کہیں آس پاس موجود ہیں۔میرا دل اسے دیکھنے کو مچل پڑا۔ ایسی قربت ایسی دوری۔ کس طرح اس قربت اور دوری کے درمیانی فصل کو ڈھا دوں ۔  ابھی تو فصل ہی کا سراغ نہیں ہے۔

                 دیکھتے ہی دیکھتے سورج ڈوب گیا۔ میں نے اپنا سلیپنگ بیگ ایک ہموار زمین پر بچھایا اور بیٹھ گیا۔فضا کی لطافت روئیں روئیں میں بس رہی تھی۔ مجھے فطرت پر پیار آنے لگا۔ دور پہاڑوں کے پار اندھیرا اجالا گلے مل رہا تھا۔ اس لمحے جانے نظروں میں نریما کہاں سے آن سمائی۔ دور پہاڑوں کے پار سے میرے دل تک ایک راہ بن گئی۔ نریما اس راہ پر چلتی دکھائی دی۔ میں نے گھبرا کر یہ خیال جھٹکنا چاہا، یا اللہ میں تو تجھے تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ یا اللہ میں تو تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میرے دل کو غیر کے تصور سے نہ بہلا۔میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ محبت کی کسک لہر بن کر سر سے پائوں تک میرے اندر دوڑ گئی۔ مجھے لگا نریما اگر نہ ملی تو میں مر جائوں گا۔ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ مجھے تو بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے، اس کی قدرت کی نشانیوں کو تلاش کرنے کی جستجو تھی۔ پھر میرے اندر دنیا کے تقاضے کیوں آنے لگے ہیں۔ یا اللہ میں اپنے راستے سے بھٹکنا نہیں چاہتا۔ مجھے راستہ دکھا اور میں نے اللہ کا ورد شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ میرے وجود کو نیند نے اپنی چادر میں ڈھانپ لیا۔ صبح صادق کے وقت پرندوں کی آوازوں نے جگایا، میں نے تھوڑے سے پانی سے منہ دھو کر وضو کیا، چائے پی اور نماز و تسبیح کے بعد مراقبہ میں بیٹھ گیا۔ صبح صبح کے وقت دل دماغ بالکل صاف تھے۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء