Topics
اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں،
ستارالعیوب اور غفار الذنوب ہیں۔ یوم حشر میں انسان کا ہر عضو خود گواہی دے گا اور
اس گواہی پر اللہ تعالیٰ فیصلہ صادر کریں گے کہ کون دوزخی اور کون جنتی ہے۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:
‘‘سب تعریف اللہ کو ہے جو صاحب سارے
جہانوں کا بہت بڑا مہربان نہایت رحم والا، مالک انصاف کے دن کا۔’’
سورۂ فاتحہ کی ان آیات میں اللہ
تعالیٰ نے یوم انصاف متعین کر دیا ہے۔ یوم عدالت سے پہلے قبر کے عذاب یا ثواب میں
کیا حکمت ہے؟
جواب: مرنے کے بعد زندگی کی تشریح کی جائے تو کہا جائے گا کہ۔۔۔۔۔۔
جسم مثالی نے مٹی کے ذرات سے بنائے
ہوئے جسم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ اور دوسرے عالم میں وہاں کی فضا کے مطابق ذرات
یکجا کر کے ایک نیا جسم تخلیق کر لیا ہے ۔ عالم اعراف میں دنیا کی آبادی سے برابر
جو لوگ منتقل ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے دراصل یہ اس عالم سے اس عالم میں جسم
مثالی کی منتقلی ہے۔ عربی زبان میں اسی لئے اس عالم میں جانے کا نام انتقال کرنا
ہے یعنی اس عالم سے اس عالم میں آدمی منتقل ہو گیا۔
جسم مثالی، زندگی میں ہمہ وقت متحرک
و سرگرم رہتا ہے اس کی اپنی صفات میں سے ایک مخصوص صفت یہ ہے کہ جب تک یہ اپنے
لباس سے کلی طور پر قطع تعلق نہیں کر لیتا اس کی حفاظت کرتا ہے۔
ایک آدمی سویا ہوا ہے، نیند بہت گہری
ہے۔ کراچی میں سویا ہوا آدمی امریکہ کے بازاروں میں گشت کر رہا ہے۔ اس کے سوئی
چبھو دی جاتی ہے۔ جسم مثالی امریکہ سے چل کر فوراً اپنے لباس کی پاسبانی کے لئے آ
موجود ہوتا ہے۔ سوئی چبھنا، امریکہ سے جسم مثالی کا کراچی میں آ جانا۔ اتنا قلیل
وقفہ ہے کہ جس کی پیمائش کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔ اس پیمائش کو آپ لمحے کا
کھربواں حصہ کہہ سکتے ہیں اور لمحے کا کھربواں حصہ کہنا پیمائش کے دائرے میں نہیں
آتا۔ مقصد یہ ہے کہ جسم مثالی کے لئے ٹائم اسپیس کوئی چیز نہیں ہے لیکن جب یہ اپنے
لئے مادی جسم بناتا ہے تو اس کو ٹائم اسپیس میں بند رکھنے کے لئے پوری حفاظت کرتا
ہے۔
عالم اعراف کے بارے میں ہے۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:
‘‘خرابی ہے ڈنڈی مارنے والوں کی، جن
کا یہ حال ہے کہ جب لوگوں سے ماپ لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ماپ
یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھٹا دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن
اٹھا کر لائے جانے والے ہیں۔ اس دن جب کہ سب لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑے
ہوں گے۔ ہرگز نہیں یقیناً بدکاروں کا نامہ اعمال قید خانے (سجئین) میں ہے اور
تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر سجیئن کیا ہے؟ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔
تباہی ہے اس روز ان لوگوں کے لئے جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں اور روز جزا کو وہی
لوگ جھٹلاتے ہیں جو حد سے تجاوز کر جانے والے بدعمل ہیں۔ انہیں جب ہماری آیات
سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔
ہر گز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان
لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے۔ ہرگز نہیں یقیناً اس روز یہ
اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے۔ پھر یہ جہنم میں جا پڑیں گے۔ پھر ان سے
کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلا دیا کرتے تھے۔ ہرگز نہیں، بے شک نیک
آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے اور تجھ کو کیا خبر ہے کیا
ہیں اوپر والے۔۔۔ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔۔۔اس کو دیکھتے ہیں مقربان بارگاہ۔۔۔بے شک
نیک لوگ ہیں آرام میں، اونچی مسند اور تختوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔ ان کے
چہروں پر تم آرام اور تازگی محسوس کرو گے۔ ان کو نفیس ترین شراب پلائی جائے گی جس
پر مشک کی مہر لگی ہوئی ہو گی۔ جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز
کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی۔
یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے۔۔۔لوگ دنیا میں ایمان
لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر ان کی
طرف اشارہ کرتے تھے، اپنے گھروں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب
دیکھتے تو کہتے تھے یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں
بھیجے گئے۔ آج ایمان لانے والے کفار پر ہنس رہے ہیں۔ مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان کا
حال دیکھ رہے ہیں۔ اب بدلہ پایا منکروں نے جیسا کرتے تھے۔’’
(پارہ ۳۰۔ سورہ ۸۳)
قرآن پاک کی مندرجہ بالا آیتیں مرنے
کے بعد زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ روحانی نگاہ دیکھتی ہے کہ ہر آدمی کے کندھوں
پر دو فرشتے موجود ہیں اور کچھ لکھ رہے ہیں۔ لیکن لکھنے کی طرز یہ نہیں ہے جو
ہماری دنیا میں رائج ہے۔ نہ ان کے ہاتھوں میں قلم ہے اور نہ سامنے کسی قسم کا کاغذ
ہے۔ فرشتوں کا ذہن کوئی بات نوٹ کرتا ہے اور وہ بالقلم کی طرح ایک جھلی پر نقش ہو
جاتی ہے۔ نقش و نگار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی کے ذہن میں ذخیرہ اندوزی اور
منافع خوری ہے۔ دوسرے آدمی کے ذہن میں ایذا رسانی اور حسد کے جذبات متحرک ہیں۔
تیسرا آدمی کسی کو قتل کرنے کے درپے ہے۔ یہ آدمی قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے باہر
نکلا۔ ایک فرشتے نے فوراً اس کے ذہن میں ترغیب کے ذریعے یہ بات ڈالی کہ قتل کرنا
بہت بڑا جرم ہے اور جان کا بدلہ جان ہے۔ لیکن اس آدمی نے اس ترغیب کو قبول نہیں
کیا۔ اور اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتا رہا۔ ترغیبی پروگرام پر جب عمل
نہیں ہوا تو دوسرے فرشتے نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کر دیا اور اس فلم
پر یہ تصویر منعکس ہو گئی کہ وہ بندہ قتل کی نیت سے گھر سے باہر آیا اور اس کے
اوپر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ جان کا بدلہ جان ہے۔ یہ بندہ اور آگے بڑھا
اور متعین مقام پر پہنچ کر اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔
دوسرے فرشتے نے فوراً ہی اس کی فلم بنا دی۔
جرم کرنے کے بعد اس بندے کے ضمیر میں
ہل چل برپا ہو گئی۔ دماغ میں مسلسل اور تواتر سے یہ بات آتی رہی کہ میں نے یہ کام
صحیح نہیں کیا۔ جس طرح میں نے ایک جان کا خون کیا ہے اس طرح میری سزا بھی یہی ہے
کہ مجھے قتل کر دیا جائے۔ ضمیر کی اس ملامت کی بھی فلم بن گئی۔۔۔اس کے برعکس ایک
آدمی نماز کے ارادے سے مسجد کی طرف بڑھا۔۔۔مسجد میں پہنچ کر خلوص نیت سے نماز ادا
کی۔۔۔خلوص نیت اللہ کو پسند ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ کی اس پسندیدگی کے نتیجے میں وہ
انعامات و اکرامات کا مستحق قرار پایا۔ گو کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کا عمل مقبول
ہوا یا مقبول نہیں ہوا۔۔۔لیکن چونکہ اس کی نیت مخلصانہ تھی۔۔۔اس لئے عمل کرنے کے
بعد اس کا ضمیر مطمئن ہو کر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ میرا مقام جنت ہے۔ جیسے ہی
جنت سامنے آئی۔۔۔جنت کے اندر تمام انواع و اقسام کے پھل، شہر کی نہریں، حوض کوثر
وغیرہ وغیرہ سامنے آ گئے۔ جب ضمیر ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر ان انعامات و اکرامات
سے فیض یاب ہو چکا تو فرشتے نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کر دیا اور یہ
ساری کارروائی ویڈیو فلم بن گئی۔۔۔
ایک دوسرا آدمی گھر سے نماز کے لئے
چلا۔۔۔ذہن میں کثافت ہے۔۔۔اللہ کی مخلوق کے لئے بغض و عناد ہے۔ حق تلفی، سفاکی،
بربریت اور جبر و تشدد مشغلہ ہے۔ مسجد میں داخل ہوا۔۔۔نماز ادا کی۔۔۔لیکن ضمیر
مطمئن نہیں ہوا۔ ضمیر مطمئن نہ ہونا دراصل وہ کیفیت ہے جس کو دوزخ کی کیفیت کے سوا
دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ جب یہ آدمی نماز سے فارغ ہوا اور دل و دماغ خالی اور
بے سکون محسوس کئے تو فرشتے نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کیا اور یہ ساری
روئیداد بھی ویڈیو فلم بن گئی۔۔۔
اس وقت آپ کے سامنے دو کردار ہیں۔۔۔
ایک کردار وہ ہے جس نے ترغیبی
پروگرام سے روگردانی کی اور محض اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ہی بھائی
کو قتل کر دیا۔
ایک وہ شخص ہے جس نے بظاہر وہ عمل
کیا جو نیکو کار لوگوں کا عمل ہے لیکن اس کی نیت میں خلوص نہیں تھا۔ وہ خود کو اور
اللہ کے نظام کو دھوکہ دے رہا تھا۔
دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نیت میں خلوص
ہے۔۔۔ذہن میں پاکیزگی ہے اور اللہ کے قانون کا احترام ہے۔
آیئے! اب ہم ان دونوں گروہوں میں سے
ایک ایک فرد کی زندگی کا مطالعاتی تجزیہ کرتے ہیں۔
قتل کرنے والا بندہ جب دنیا کی ہما
ہمی اور گہما گہمی اور لامتناہی مصروفیات سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے اوپر جرم کا
احساس مسلط ہو جاتا ہے۔ بے چینی، پریشانی، ذہنی خلفشار اور دماغی کشاکش آلام و
مصائب کی تصویریں بن جاتی ہیں۔ اب فرشتے کی بنائی ہوئی فلم پر نقوش اس بندے کے
اپنے ارادے اور اختیار سے گہرے ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان نقوش میں گہرائی واقع
ہوتی ہے اس آدمی کے اندر روشن نقطے دھندلے ہونے لگتے ہیں اور روشنیاں تاریکی میں
ڈوب جاتی ہیں۔
ان روحانی حقائق کی روشنی میں یہ بات
واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اس دنیا میں جو عمل کرتا ہے اور اس عمل کے پس پردہ جو
سوچ کام کر رہی ہے وہ فلم کی صورت میں ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ جسے قرآن مجید نے کتاب
المرقوم کہا ہے۔ مرنے کے بعد انسان یہ فلم (کتاب المرقوم) دیکھتا رہتا ہے۔ برے
انسان کے سامنے اس کے برے ارادوں، برے اعمال اور برے اعمال پر ضمیر کی ملامت جب
فلم کی صورت میں ڈسپلے ہوتی ہے تو وہ اسے دیکھ کر شدید اذیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔
یہ اذیت پچھتاوا بن کر اس پر مسلط رہتی ہے۔ نیک انسان مرنے کے بعد جب اپنے نیک
ارادوں، نیک اعمال اور اعمال کے نتیجے میں ضمیر پر طاری ہونے والی سکون کی کیفیت
کو دیکھتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور قربت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔۔۔
ہر آدمی فلم دیکھتا ہے اور مناظر کی
نوعیت سے وہ فلم دیکھ کر کبھی قہقہے لگاتا ہے اور کبھی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا
ہے۔ کبھی آنسوؤں سے رونا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جو فلم میں دیکھ
رہا ہوں وہ کس کی لکھی ہوئی کہانی ہے۔۔۔
اعراف (مرنے کے بعد قبر کی زندگی)
میں جب آدمی یہ دیکھتا ہے کہ میں چوری کر رہا ہوں اور میرا ہاتھ کاٹ دیا گیا
ہے۔۔۔تو اس منظر کو دیکھ کر وہ بدحواس ہو کر رونے چیخنے لگتا ہے۔۔۔چونکہ فلم پوری
زندگی کی ہے۔ اس لئے جب دوسرے اعمال کی فلم دیکھتا ہے تو ہاتھ کتنے کی اذیت بھول
جاتا ہے۔ اور پھر جب چوری کی فلم کے مناظر سامنے آتے ہیں تو آدمی رونے لگتا ہے۔
اور یہ صورت یوم حساب قائم ہونے تک رہے گی۔ یوم انصاف کے بعد جنت دوزخ کے مراحل
ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے۔۔۔
((ایک دن دوزخ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے
گی۔ُُ
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے