Topics
پس تحقیق اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یعنی جہاں صبر ہے وہاں اللہ
تعالیٰ ہے۔ اور جہاں اللہ تعالیٰ ہے وہاں امید ہے، جہاں امید ہے وہاں یقین ہے،
جہاں یقین نہیں ہے وہاں شک ہے، جہاں شک ہے وہاں شیطان ہے، جہاں شیطان ہے وہاں آدمی
باغی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے۔ اور سماعت کو Sealedکر
دیتا ہے اور آنکھوں کے گہرے دبیز پردے پڑ جاتے ہیں جن کے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا۔
ایسے
ہی لوگ گونگے بہرے بن جاتے ہیں اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو یہ آنکھوں کے اندھے قدرت
کی نشانیاں دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاتے۔ صبر ایک ایسا
عمل ہے جس کی Beltپر
زندگی رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وہ جو ماں کے پیٹ میں طرح طرح کی تصویریں بناتا ہے‘‘۔
(سورۃ
آل عمران۔ آیت 6)
عمل تخلیق کی مختصر تعریف یہ ہے کہ تخلیق مسلسل صبر و ضبط ہے۔ صبر کے ساتھ رہنے کا
انتظار عالم ِموجود میں مظہر بنتا ہے۔ پیدائش کے بعد ہر مرحلہ صبر اور ہر لمحہ
مظہر ہے۔
والدین
اور خود بچے کو اس بات کے لئے صبر اور انتظار کرنا پڑتا ہے کہ بچہ دو دن کا کب ہو
گا۔ علیٰ ہذا القیاس یہ دن ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یوں
کہا جائے کہ بلوغت بچپن کے انتظار کا ثمر ہے اور بڑھاپا جوانی کے انتظار کا مظاہرہ
ہے۔ ایک دن کے ایک منٹ اور گھنٹے زمانیت ہیں۔ ان گھنٹوں اور منٹوں کی تقسیم کے بعد
حاصل جمع۔۔۔۔۔۔دو دن کی عمر ہے۔ اسی طرح پوری زندگی زمانیت کے اوپر سفر کر رہی ہے۔
جہاں سفر ہے وہ زمانیت ہے۔ جہاں مشاہدہ ہے وہ مکانیت ہے۔ زمانیت نظروں سے اوجھل رہتی
ہے اور آنکھ مکانیت کو دیکھتی ہے۔ زمانیت جہاں ہے وہاں صبر ہے۔ جہاں صبر ہے وہاں
اللہ تعالیٰ ہیں۔
حضور
پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’زمانے
کو بُرا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے‘‘۔
(موطا
امام مالک، جلد اول۔ حدیث 2355)
جب
کوئی بندہ اس راز سے واقف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تو
زندگی کے ہر دو لمحات کے درمیان اس کا ذہن اَز خود اللہ تعالیٰ کی طرف منتقل ہوتا
رہتا ہے۔
روایت
ہے کہ ایک روز فرشتے حضرت ایوبؑ کی اطاعت گزاری اور اللہ رب العالمین کے حضور
عبادت و ریاضت، عاجزی، انکساری اور فرمانبرداری کی تعریف کر رہے تھے کسی طرح ابلیس
بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے کہا۔ ایوبؑ پر اللہ تعالیٰ نے انعام و اکرام کی بارش کی
ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نیک اور عبادت گزار ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایوبؑ پر مصیبت
نازل کر دے تو وہ شکر گزار بندہ نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔
اچانک
حضرت ایوبؑ کے حالات خراب ہو گئے۔ مصیبتوں اور آزمائشوں کے دور نے حضرت ایوبؑ کو
تہی دست کر دیا۔ آپؑ کے غلے کے گوداموں میں آگ لگ گئی، مال اسباب جل کر راکھ کر
ڈھیر بن گئے، حملہ آوروں نے غلاموں اور نوکروں کو ہلاک کر دیا، سب کچھ لوٹ لیا اور
مویشی ساتھ لے گئے۔
حضرت
ایوبؑ کی اولاد ایک ضیافت میں شریک تھی کہ مکان کی چھت گر گئی اور سب ملبے میں دب
گئے۔ اولاد، مال و دولت، جاہ و حشم دیکھتے ہی دیکھتے نابود ہو گیا۔ خوشحالی کی ایک
علامت بھی باقی نہیں رہی۔ تباہی کی داستانیں لوگ آ کر سناتے تھے۔ لیکن حضرت ایوبؑ
کی پیشانی پر خوف اور حزن کی ایک شکن بھی نہیں ابھری۔
حضرت
ایوبؑ نے سجدہ میں گر کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی!
’’اے
اللہ میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا۔ برہنہ ہی دنیا سے جاؤں گا۔ تو نے
ہی مجھے یہ سب کچھ دیا تھا اور تو نے ہی اپنی امانت واپس لے لی‘‘۔
سب
کچھ ختم ہو گیا لیکن آزمائش کا دور ابھی باقی تھا۔ پیروں کے تلوے سے لے کر سر میں
اور سارے جسم میں تکلیف دہ پھوڑے نکل آئے۔ جن میں ٹیسیں بھی اٹھتی تھیں۔ حضرت
ایوبؑ ٹھیکرا لے کر راکھ پر بیٹھ جاتے اور اپنا جسم کھجاتے رہتے۔ زبان صبر کے ساتھ
حمد وثناء میں مصروف رہی اور شکایت کا ایک لفظ منہ سے نہیں نکلا۔ دنیا کے دستور کے
مطابق عزیز و اقربا نے قطع تعلق کر لیا صرف شریک حیات ساتھ رہ گئیں۔
حضرت
ایوبؑ کی تباہ حالی اور بیماری کی خبر بستی میں پھیلی تو تین دوست آپؑ کے پاس
آئے۔۔۔۔۔۔انہوں نے حضرت ایوبؑ کو راکھ کے اوپر لیٹے اور ٹھیکرے سے کھجاتے دیکھا تو
درد و کرب اور غم و اندوہ سے ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ یہ دوست سات دن اور سات
راتیں حضرت ایوبؑ کے پاس خاموش بیٹھے رہے۔
اللہ
تعالیٰ دانا و بینا اور علیم و خبیر ہیں۔ حضرت ایوبؑ کے اس صبر کو بارگاہ الٰہی
میں شرف قبولیت عطا ہوا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوا:
’’اور
ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا۔ اے میرے رب! شیطان نے مجھے ایذا
اور تکلیف دے رکھی ہے۔ رحمت خداوندی جوش میں آئی اور حکم ہوا:’’زمین پر پیر مارو،
یہ چشمہ نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو شیریں ہے‘‘۔
(سورۂ ص۔ آیت 41-42)
حضرت
ایوبؑ نے زمین پر پیر مارا، زمین سے شفا بخش پانی ابل پڑا۔۔۔۔۔۔حضرت ایوبؑ نے غسل
کیا، پیاس بجھائی۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے بدن پھوڑوں اور زخموں سے صاف ہو گیا۔ حضرت
ایوبؑ کی زوجہ کا نام بی بی رحمہ (رحمت) ہے۔ بی بی رحمہ شام کو واپس لوٹیں تو
بیمار اور ناتواں شوہر کو نہ پا کر پریشان ہو گئیں، دل گداز ہو گیا، آنکھیں برسنے
لگیں، روتے ہوئے اپنے شوہر کو ڈھونڈ رہی تھیں کہ قریبی پُل پہ ایک صحتمند نوجوان
مرد کو دیکھا۔ حضرت ایوبؑ نے مسکراتے ہوئے احوال سنایا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عنایت و رحم سے حضرت ایوبؑ اور ان کی بیگم کا شباب
لوٹ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو پہلے سے زیادہ اولاد عطا کی اور آزمائش کے
دنوں میں جن آسائشوں سے محروم کر دیئے گئے تھے وہ کئی گنا بڑھا کر عطا کر دی گئیں۔
سورۂ انبیاء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور
ایوب کا ذکر کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا مجھے بیماری لگ گئی ہے (کہ مجھے
ایذا ہو رہی ہے) اور تو رحم کرنیوالوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے
ان کی دعا قبول کر لی اور جو ان کو تکلیف تھی وہ دور کر دی۔ اور ان کو بال بچے بھی
عطا فرمائے اور اپنی مہربانی سے ان کے ساتھ اتنے ہی اور بخشے اور عبادت کرنیوالے
کیلئے نصیحت ہے‘‘۔
(سورۃ
الانبیاء۔ آیت 83-84)
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’کہہ
دو، اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو۔ اپنے پروردگار کے ساتھ تقویٰ اختیار کرو۔
جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کیلئے بھلائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ
ہے۔ جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے شمار اجر ملے گا‘‘۔
(سورۃ
الزمر۔ آیت 10)
صبر
اللہ تعالیٰ کا نور ہے جو مادی حواس میں نورانیت داخل کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ
سے قریب کر دیتا ہے۔ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنی تدابیر اور کوششوں کا نتیجہ
اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ اپنے ارادے کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ کو ’’قادر مطلق‘‘
جان لے اور اپنے کاموں میں تاخیر اور ناکامی پر اللہ تعالیٰ کے ارادے اور فیصلے کا
انتظار کرے۔ قدرت کی جانب سے جو حاصل ہو اس پر راضی رہے۔ صبر فرماں برداری کا سسٹم
ہے۔ صابر انسان پریشانی میں بھی مطمئن رہتا ہے اور اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ
وابستہ رہتا ہے۔ صبر کرنے سے آدمی بے بس اور مجبور ہونے کا تجربہ کر لیتا ہے۔ صبر
کرنے سے آدمی کے اندر نور کی مقداروں میں بے بہا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بندہ
صبر کرنے کا خوگر ہو جاتا ہے تو اس کے لئے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں
کو اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم کہا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’آپ(صلی اللہ علیہ و سلم) صبر کیجئے اور جس طرح اولوالعزم رسولوں
نے صبر کیا‘‘۔
(سورۃ الاحقاف۔ آیت 35)
اللہ
تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق صبر آدمی کو اولوالعزم بناتا ہے۔ جو پیغمبروں کی صفت ہے۔
صبر زندگی کے آداب سکھاتا ہے۔ صبر اسفل سے علیین کی طرف رجوع کرنے کی قوت عطا کرتا
ہے۔
ارشاد ہے:
’’جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کئے یہی ہیں جن کے لئے بخشش اور
اجر عظیم ہے‘‘۔
(سورۂ ہود۔ آیت 11)
’’اور صبر اور صلوٰۃ سے مدد لیا کرو بیشک یہ کام ’’دشوار‘‘ ضرور ہے
مگر ان لوگوں پر ’’دشوار‘‘ نہیں جو عجز کرنے والے ہیں‘‘۔
(سورۃ البقرہ۔ آیت 45)
’’ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے ہیں اور
بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے رہے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے۔ اس میں سے
خرچ کرتے ہیں‘‘۔
(سورۃ القصص۔ آیت 54)
’’اور اسمٰعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ یہ سب صبر کرنے والے تھے۔
ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا اور بلاشبہ وہ نیک تھے‘‘۔
(سورۃ الانبیاء۔ آیت 85-86)
صبر
کا مفہوم ہے روکنا اور آخری حد تک قوت برداشت سے سہارا لینا۔ ہر انسان اس بات سے
واقف ہے کہ اس کی اصل روح ہے۔ روح کے بغیر انسان ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ روح جسم کو
صبر کی تلقین کرتی رہتی ہے۔ صبر کی تلقین سے مراد ہے کہ روح شعور کو انسپائر کرتی
ہے کہ یہ تکلیف عارضی ہے۔ ہر تکلیف گزر جانے والی ہے۔ دنیا میں کوئی شئے مستقل
نہیں ہے۔ اس انسپائریشن سے آدمی کے اندر تکالیف کا مقابلہ کرنے کی جرأت اور ارادے
میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
جب
کوئی بندہ پریشان ہوتا ہے۔ اس کے اندر دور کرنے والی روشنیوں میں اعتدال نہیں
رہتا۔ صبر ان روشنیوں کو اعتدال میں رکھتا ہے چونکہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ
تعالیٰ ہے۔
ان اللّٰہ مع الصبرین
(سورۃ البقرہ۔ آیت 153)