Topics

شادی


                شادی کے لئے میں نے دفتر سے پندرہ دن کی چھٹی لے لی۔ اسی دوران ولیمہ بھی ہونا تھا۔ بارات کراچی سے پنڈی گئی۔  چند لوگ ہوائی جہاز میں گئے باقی ریل گاڑی میں ساری بارات گئی۔ شادی کے بعد تیسرے دن ہم کراچی روانہ ہوئے۔ ولیمہ ساتویں دن تھا۔ ولیمے سے ایک دن پہلے پنڈی سے سارے رشتہ دار اور نریما کے گھر والے آگئے۔ عجیب رنگین ماحول تھا۔ خوشیوں سے بھری فضا میں ہماری روحیں بھی خوشی میں جھوم رہی تھین۔ پیرو مرشد کی دعائیں رحمت بن کر ہمارے اوپر محیط تھیں ۔ نریما سے ملنے کے بعد میرا دل اور بھی زیادہ شیخ کی محبت او رتشکر کے جذبات سے لبریز ہو گیاتھا۔ جب بھی نریما کی جانب دیکھتا۔ شیخ کی دعائیں یاد آجاتیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا جس نے مجھے میرے شیخ سے ملایا اور شیخ کے زریعے نریما سے ملایا۔

                نریما گھر کی لڑکی تھی۔ اسے گھر کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوتے کچھ دیر نہ لگی۔ گھر کا ہر فرد اس پر جان دیتا تھا اور پھر سب سے بڑی چیز تو میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ ازدواجی زندگی کی سب سے بڑی خوشی میاں بیوی میں آپس کی محبت ہے۔ گھر کے سب افراد شیخ کے حضور حاضر باش ہو گئے۔ سب کے ساتھ نریما بھی پہلی بار وہاں گئی۔ شیخ احمد کا چہرہ خوشی سے چمک گیا۔ اس دن پیر و مرشد نے بہت اچھی اچھی باتیں بتائیں۔ کچھ اپنے شروع دور کی باتیں کہ کن کن مراحل سے گزر کر روحانیت میں قدم رکھا ۔ مجھے ان کی باتین سن کر یوں لگا جیسے نریما کی تربیت کا پہلا سبق ہے۔ چند روز بعد نریما نے بھی شیخ احمد سے بیعت کر لی۔ اب ہم دونوں آزادی کے ساتھ روحانیت پر بات چیت کرتے اور خوشی خوشی ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے۔ اگر ذہنی ہم آہنگی ہو تو دو دماغ مل کر ایک بڑی طاقت بن جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اب ہوا۔ اب قرآن کے چھپے ہوئے اسرار و حکمتیں بہت جلد ذہن میں آ جاتیں۔

                نریما کا جی چاہتا کہ وہ بھی ریاضتیں کرے مگر شیخ احمد نے کہا.......  ابھی نہیں ! ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے۔ ابھی تمہاری ریاضت یہ ہے کہ با ترجمہ قرآن پڑھا کرو اور تمہاری سب سے بڑی ریاضت امورِ خانہ داری ہے  اور گھر والوں کی خدمت ہے۔ عورت کے لئے مرد سے ہٹ کر مجائدہ کا پروگرام ہے۔کیونکہ عورت گھر سے باہر نہیں رہ سکتی۔ اس کے اوپر گھر کے کام کاج کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں میں ان کے لئے مجائدہ ہے۔ جیسے حضرت بیبی فاطمہ ؓ گھر کے کام کاج کرتی تھیں۔چکی پیستی تھین۔ مشکیزہ بھر کر کنوئیں سے پانی لاتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ ایک بار کسی نے انھیں اطلاع دی کہ مالِ غنیمت میں کچھ کنیزیں آئی ہیں۔ اپنے گھر کے کام کاج کے لئے آپ بھی حضور پاکﷺ سے ایک کنیز مانگ لیں۔ آپ نے حضور پاکﷺ سے کہلوا بھیجا کہ ایک کنیز مجھے بھی عنایت کر دیں تو مجھے گھر کے کاموں میں کچھ فراغت ہو جائے۔ یہ سن کر حضور پاک ﷺآٓپؓ کے گھر آئے اور فرمایا۔ بیٹی تمہارے لئے کنیز سے بہتر یہ اسماء ہیں۔تم ہر نماز کے بعد انھیں پڑھ لیا کرو۔ سبحان اللہ تینتس بار ، الحمداللہ تینتس بار او ر اللہ اکبر چونتیس بار۔ اسی لئے اس تسبیح کو تسبیح فاطمہؓ کہتے ہیں۔ حضور پاکﷺ  کے ذہن میں اپنی بیٹی کی روحانی تربیت تھی اور روحانی تربیت کے لئے مجائدوں کی ضرورت ہے۔ ایسے مجائدے جن سے نفس اپنی خواہشات سے کمزور پڑ جائے۔

                پیرو مرشد نے فرمایا بیٹا جب تک نفس مغلوب نہ ہو روح قوت نہیں پکڑتی۔ جیسے صبح کے ہلکے اجالے میں چاند دکھائی دیتا ہے۔ مگر جب دھوپ تیز ہو جاتی ہے تو چاند غائب ہو جاتا ہے۔ نفس خواہشات کی آماجگاہ ہے۔ وہ دنیاوی عیش و آرام چاہتا ہے۔ دنیاوی اقتدار و عزت چاہتا ہے۔ جب نفس کو ان خواہشات سے روک کر اعتدال میں رکھا جاتا ہے تو نفس مغلوب پڑ جاتا ہے۔ جب دنیاوی نفس مغلوب ہو جاتا ہے تو روح اپنے ارادے سے اس سے کام لیتی ہے، اس طرح روح کا ارادہ غالب آ جاتا ہے ۔ روح امرِ ربی ہے ۔ روح کے اندر اللہ کا امر کام کر رہا ہے۔ پس نفس کی حرکت مغلوب ہونے سے اللہ تعالیٰ کے امر کی حرکت پر نفس حرکت کرتا ہے۔اور آدمی کے اعمال و افعال اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ فرمانے لگے۔ پہلے زمانے میں روحانی استاد اپنے طالب علموں کو نفس پر کنٹرول کرنے کے لئے بڑے بڑے مجائدے کراتے تھے۔ جیسے کنوئیں میں الٹا لٹکانا، دریا میں کھڑا کرانا، درخت سے لٹکانا ، ننگے پیر چلانا، جنگلوں میں کافی عرصے کے لئے بھیج دینا، کشکول ہاتھ میں دے کر بھیک منگوانا، ٹاٹ کے کپڑے  اور روکھی سوکھی غذا کا استعمال کرانا۔ یہ سارے مجائدے نفس پر کنٹرول پانے کے لئے ہوتے تھے۔ وہ بھی ایک دور تھا۔ یہ بھی ایک دور ہے ۔ ہر دور میں نفس ِ انسانی کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ آج کا دور نوعِ انسانی کا ارتقائی دور ہے ۔ چونکہ نوع انسانی کا ارتقاء انسان کے اندر کام کرنے والی فطرت کے عین مطابق ہے اور فطرت اسمائے الٰہیہ کی صفات ہیں۔ اس وجہ سے آج کے دور میں نفس کو کنٹرول کرنے کے لئے مجائدے بھی اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ انسانی نفس کی یہ فطرت ہے کہ وہ یکسانیت سے گھبرا جاتا ہے۔ آج کے دور میں نفس کو اپنے تقاضے پورے کرنے کے لئے کچھ زیادہ جدو جہد نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے عیش و آ رام کے بے پناہ سامان سامنے آ چکے ہیں۔ آج کے دور کا انسان اگر روحانیت کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ جس کی وجہ سے نفسانی تقاضوں میں اس کے لئے دلچسپی باقی نہیں رہتی یا کم ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات سے پہلے ہی واقف ہو جاتا ہے کہ محض نفسانی خواہشات کی تکمیل آدمی کو روحانی سکون اور دلی تسکین نہیں پہنچا سکتی۔ بلکہ روحانی سکون حاصل کرنے کا کوئی اور راستہ ہے۔ تب اس کے دل میں اس راستے کی تلاش و جستجو پیدا ہوتی ہے۔

                شیخ احمد اپنے مشن کے کاموں سے اکثر باہر کے ممالک میں بھی جاتے تھے۔ گو بہت عرصے سے باہر ان کا جانا نہیں ہوا تھا۔ مگر ان دنوں ان کا سائوتھ افریقہ جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔ ایک ماہ کا دورہ تھا۔ ہم سب کو خصوصاً مجھے شیخ احمد کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ جدائی کے تصور سے ذہن سوچ میں پڑ جاتا کہ یہ مدت کیسے گزرے گی میں تو تقریباً روزانہ ہی وہاں جاتا تھا۔ بہرحال وہ دن بھی آ ہی گیا جب وہ ہم سے رخصت ہو کر ایک ماہ کے دورے پر چل دیئے۔ چلنے سے پہلے شیخ احمد نے مجھے یہ کہا کہ میری غیر موجودگی میں تم میرے نائب کی حیثیت سے کام کرو گے۔ جب مراقبہ کرو تو اجتماعی مراقبہ تصور شیخ کا کرانا اور خود تم یہ تصور کرنا کہ تمہارے اندر شیخ کی روشنیاں موجود ہیں اور یہ روشنیاں تمہارے قلب سے نکل کر لوگوں کے قلب میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس طرح تمہارے ذریعے سے شیخ کا تصرف تمام لوگوں پر ہو گا۔ پہلے ہی دن جب میں نے یہ مراقبہ کرایا تو مجھے یوں لگا کہ شیخ میرے اندر اس طرح موجود ہیں کہ میرے ہاتھ کے اندر ان کا ہاتھ میرے جسم کے اندر ان کا جسم اور پائوں کے اندر ان کے پائوں ہیں۔ میری ذات ان کے جسم کے اوپر ایک لباس کی حیثیت سے تھی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میری ذات محض ایک خول ہے۔ اس خول میں ساری روشنیاں شیخ کی ہیں۔میری ساری توجہ شیخ کی جانب چلی جاتی۔ اب جب بھی میں مراقبہ کرتا۔ تنہائی میں یا اجتماعی مجھے اپنی ذات سوائے خول کے کچھ دکھائی نہ دیتی۔ اپنے اندر شیخ کی روشنیوں کا دریا بہتا دکھائی دیتا۔ اوپر سے تو اپنی ذات اسی طرح مختصر نظر آتی۔ مگر جب باطن پر شیخ کی روشنیوں پر پڑتی تو یہ عالم دکھائی دیتا۔ آہستہ آہستہ یہ عالم پوری کائنات جتنا وسیع ہو گیا اور اسی وسعت کے ساتھ ساتھ شیخ سے میری محبت بھی بڑھتی گئی۔

                ان دنوں نریما پنڈی اپنی امی کے پاس چند ہفتوں کے لئے گئی تھی۔ میں کام سے آ کر زیادہ تر اپنے کمرے میں رہتا۔ خصوصاً رات کے کھانے کے بعد تو میرا جی صرف مطالعے کے لئے چاہتا  اور کسی کام کی رغبت نہ ہوتی یا پھر رات کو سوتے وقت مراقبہ کرتا۔ دو ہفتے اسی طرح گزر گے۔ اب چوبیس گھنٹے شیخ کا تصور دل دماغ پر چھایا رہتا۔ کبھی کبھی تنہائی میں یہ حالت ہو جاتی جیسے شیخ میرے پاس بھی موجود ہیں۔ مجھے اپنے اوپر ایک سایہ سا مسلط دکھائی دیتا اور یہی احساس ہوتا کہ یہ میرے شیخ ہیں۔ اپنے اندر نظر پڑتی تو ان کی روشنیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ جی چاہتا کہ کسی طرح ان کو دیکھ لوں انھیں چھو لوں۔  مجھے یوں لگتا جیسے شیخ ہی میری کائنات ہیں۔ ان سے بچھڑ کر میری موت واقع ہو جائے گی۔ شیخ کی محبت تمام محبتوں پر غالب آ گئی تھی۔ میں گھبرا کے یہی دعا کرتا تھا کہ اے میرے رب شیخ کو مجھ سے نہ چھیننا ۔ میرا وجود ان کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اپنے اندر باہر ان کی روشنیوں کو محیط دیکھتا اور محسوس کرتا۔ دفتر میں تو ذہن مصروف ہونے کی وجہ سے احساس اتنا گہرا نہ ہوتا مگر گھر پر یہ احساس اس قدر گہرا ہو جاتا کہ ان کی موجودگی کا یقین ہو جاتا۔ جیسے میری آنکھیں کسی گہرے چشمے سے ان کو دیکھ رہی ہیں یا اندھیرے میں دیکھ رہی ہیں۔ چونکہ نظر کو صاف اور روشن نظر نہیں آتا اس وجہ سے روح کا تقا ضہ بڑھتا جاتا ہے۔ جیسے جیسے قرب کا تقاضہ بڑھتا جاتا ہے۔  ویسے ویسے عشق جڑ پکڑتا جاتا ہے۔ کبھی مجھے یوں لگتا جیسے مرشد کا عشق ایک درخت ہے۔ جو میرے دل کی زمین پر بویا گیا ہے۔ میرا دل ساری کائنات ہے۔ مرشد کے عشق کا درخت میری کائنات میں پھیلتا جا رہا ہے مجھے اس کا پھیلائو دکھائی دیتا۔ جیسے یہ پھیلائو زمین سے آسمان تک ہے۔ تحت الثریٰ سے عرشِ معلی تک ہے۔ میرے جسم سے میری جان تک ہے۔ میرے ذہن میں اللہ کا کلام گونجتا.........

                ترجمہ:

’’ کلمہ ٔ طیبہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ دے رہا ہے اپنا پھل بر وقت اپنے رب کے حکم سے‘‘۔ (سورۃ ابراہیم  ۲۴)


 


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء