Topics
وہ لکھ رہا
تھا۔۔۔ مٹا رہا تھا۔۔۔ مٹا کر پھر لکھ رہا تھا۔۔۔ ایک سے زیادہ مرتبہ۔۔۔ایسا بھی
ہوتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے اور جب مرحلہ آتا ہے تو ذہن بھاری ہو جاتا ہے ۔
جیسے خیال رک گیا ہو یا اس طرح الجھ گیا ہو گرہ کھولے بغیر بڑھنا ممکن نہ ہو۔ اندر
کی آواز کو سننے کے بعد اب وہ اندر میں دیکھے بغیر کام نہیں کرتا، اگر کر لے تو
خمیازہ بھگتتاہے۔
گزشتہ تین سالوں میں نشیب در نشیب اور ہر
نشیب کے بعد فراز سے حیات کے معنی بدل گئے ہیں۔ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات،
زندگی نہیں ہے۔ زندگی پردہ میں ہے۔ کشش مادی شے میں ہو تو ثقل پیدا ہوتا ہے۔ کشش
ختم ہو جائے ، ثقل ختم ہو جاتا ہے۔
بندہ، بشر اور اعصاب کم زور ! شکست و ریخت کے مراحل سے دماغ شل ہے ۔ محبوب کا تصور ہو تو صبح
سے رات تک کام کرنے کے بعد تھکن بھی نہیں ہوتی۔ خود کو مزید توانا محسوس کرتا
ہے۔لیکن اس دوران کسی سے متاثر ہو جائے یا خیال پریشان کن دنیا میں لے جائے تو تھک
جاتا ہے جیسے بھاری پتھر اٹھا لیا ہو۔ اُس وقت وہ ” بظاہر جاگتی دنیا“ سے فرار
حاصل کرنے کے لیے سونا چاہتا ہے۔ اللہ مہربان ہے، نیند آغوش میں لے لیتی ہے۔ جانتا
ہے کہ مسئلہ کا حل یہ نہیں ۔۔۔ جاگنے کے بعد پھر وہی دنیا ہے۔
لکھنے کے لیے خاموشی چاہئے ۔۔۔ باہر
نہیں۔۔۔ اندر!
بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس کو لکھنا
نہیں آتا اور وہ چاہتا بھی نہیں ہے کہ کبھی لکھنا آئے۔بس آواز سننا، سن سن کر
لکھنا اور بولنا زندگی ہے۔ ” نہیں“ کے
مرحلہ سے گزر کر اسے ” ہاں“ چاہئے ۔
ایک لمحہ کو بھی خیال آئے کہ وہ ہے۔ دل
مضطرب ہو جاتا ہے۔ بس کسی طرح ذہن سے یہ بات حذف ہو جائے کہ وہ ہے جب کہ وہ نہیں
ہے۔یہ فلسفہ نہیں ، لاشعور کے اُس پار شعور میں گم ہونے کا راستہ ہے۔
ٹوٹے پھوٹے لفظ لکھ لکھ کر جب وہ مٹا رہا
تھا تو اندر باہر جنگ جاری تھی کہ ہر موڑ پر ایک کے بعد ایک امتحان ہے۔ ایک سے
نکلتا نہیں دوسرا سامنے ہوتا ہے۔
خیال نے کہا۔۔۔ جب آدمی نہیں سیکھتا تو بار بار
ان حالات سے گزرتا ہے۔ پہلی کلاس میں فیل ہونے کے بعد دوسری میں داخلہ کیسے ملے گا۔۔۔؟ پہلی پاس کرنے کے لیے ہر بار امتحان
ہوگا اور امتحانی پرچہ اسکول میں بھی ہر سال ایک نہیں ہوتا۔ Depreciation سے متعلق سوال ہر سال آتا
ہے لیکن ہر بار زاویہ مختلف ہوتا ہے۔ زندگی درسگاہ ہے۔ دھوکا کھانے والا ایک بار
سمجھ جائے کہ اب اعتبار نہیں کرنا۔۔۔ وہ دھوکا نہیں کھاتا۔۔۔ جو نہیں سیکھتا۔۔۔۔
بار بار دھوکا کھاتا ہے۔ اس لیے سیکھو اور آگے بڑھ جاؤ۔
کسی کے لیے برا خیال دل میں نہیں کہ مرشد
کریم نے معاف کرنا اور بےضرر ہونا سکھایا ہے۔ انجانے میں کسی کو تکلیف پہنچا دے تو
معافی مانگنا بھی سکھایا ہے لیکن جب کسی شخص کے بارے میں سوچے کہ وہ اچھا ہے۔ ایسی
ٹھوکر لگتی ہے کہ دماغ سن ہو جاتا ہے۔ پھر سوچتا ہے کہ کم از کم فلاں سے نقصان
نہیں پہنچے گا۔ نتائج زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ حالات کے تھپیڑوں سے گزرتا ہے تو مرشد
کریم براہ راست یا بالواسطہ دستگیری فرماتے ہیں۔
کچھ روز اسے خود سے لڑتے دیکھا تو ایک دن
فرمایا ، ” دیکھو! کسی کو اچھا کہو نہ برا۔ اچھا کہہ دیا تو اب اسے اچھا ہی کہنا
ہے۔۔۔ برا کہو تو پہلے یہ دیکھو کہ تم کہاں کھڑے ہو تو پھر وہ تمہیں برا نہیں لگے
گا۔“
عرض کیا، سر! اچھا برا کیوں ہو جاتا
ہے۔۔۔؟
انہوں نے پوچھا، ” اچھا کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟
وہ خاموش رہا۔
فرمایا، ” اس
لیے کہ وہ ہمارے کام آیا۔ ہم اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اب جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے تو
ہم برا کہہ دیتے ہیں۔ اگر وہ برا ہے تو اچھا کیوں کہا اور اچھا ہے تو برا کیوں کہہ
رہے ہیں؟ کوئی اچھا ہے نہ برا۔ اسی طرح جس کے ساتھ نیکی کی، اس نے نقصان پہنچایا
تو فوراً نیکی کا خیال آجاتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ اچھا کیا اور اس نے کیا کیا۔
بس نیکی ضائع ہو گئی۔ برا کرو نہیں اور اچھا بھول جاؤ۔“
عرض کیا، میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوں۔
فرمایا ، اچھی بات ہے لیکن حساسیت اپنے
کام سے متعلق ہو، رویوں سے نہیں۔ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے کہ،
” جب آدمی یہ جان لے کہ وہ کس کے
لیے اور کس کی خاطر رنج اٹھا رہا ہے تو
اسے دکھ اور درد کا احساس نہیں رہتا۔'
کچھ بھی ہو جائے آپ کو یہ یاد رکھنا ہے
کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔“
بات لکھنے سے شروع ہوئی تھی۔ جب اسے لکھنا
نہیں آتا تو ایسے میں وہ یہ لکھنا شروع کر دیتا ہے کہ اسے لکھنا کیوں نہیں آ رہا۔
خیال نے کہا تخلیق اس وقت ہوتی ہے جب بندہ
” اندر میں“ سے ہم آہنگ ہو۔ تخلیق
اندر میں ہے۔ مقصد مدِ نظر رہے تو ذہن
یکسو ہوگا۔
اس نے سوچا ،” یکسو“ کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟
خیال آیا کہ یکسو دو الفاظ ” یک سو“ کا
مجموعہ ہے۔ ” یک“ اور ” سو“ سمت کو کہتے ہیں۔
شیخ سے عرض کیا کہ ذہن بند ہے اور لکھنا
نہیں آرہا۔ قرآن میں تفکر کا سلسلہ رک گیا ہے۔
تاکید فرمائی ، ” وسوسہ ہے اور کچھ نہیں۔
روز لکھنا اور تفکر کرنا ہے۔“
سونے سے پہلے
قرآن کریم پڑھتے ہوئے آیات پر غور کیا۔ ایک بار پھر قلم اٹھایا۔ مفہوم واضح ہونے
لگے لیکن لفظ بے ترتیب تھے۔ خیر! کوشش کے بعد سو گیا۔ نیند کی دنیا میں دیکھا۔۔۔ صاحبِ
علم ہاتھ پکڑ کر لوح پر قلم سے لکھنا سکھا رہے ہیں۔ درمیان میں لکیر ڈال کر جگہ
خالی چھوڑتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ان کو ملاؤ۔ ہوم ورک دے کر جب وہ گئے تو
اس نے خود سے کہا کہ جس نے ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا ہے۔۔۔ وہی ہاتھ پکڑ کر خالی
جگہ پُر کرنا بھی سکھائے گا۔
مرشد کریم نے پوچھا تھا کہ وقت کیا ہے۔۔۔؟
بند ذہن کھلا ، مختلف زاویے ذہن میں آئے۔ جیسے کہ وہ آنکھیں کھول کر دنیا دیکھے تو
وقت کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ بند کر کے دیکھتا ہے تو لمحہ سے بھی کم وقت میں برسوں
کا وقت طے کر لیتا ہے۔مرشد کریم نے فرمایا تھا کہ اصل سے واقف ہونے کے لیے نقطۂ
ازل میں لوٹنا ہوگا۔ مشق دی کہ آنکھیں بند کر کے خود کو ماضی میں دیکھو۔
بھول بھلیوں میں گم ماضی میں داخل ہونے کی
کوشش کی تو تالاب کی تہ میں موجود لہریں متحرک ہونا شروع ہوئیں اور دائرہ بہ دائرہ
سطح پر نمودار ہوئیں۔ پہلے اسکول کا زمانہ یاد آیا۔ پھر ترتیب وار پہلی کلاس تک
پہنچا جب عمر چار سال تھی۔ اس سے آگے نقش دھندلے تھے۔ اگلی مرتبہ چار سال کی عمر
سے anti-clockwise
سفر شروع کیا
تو تیسرے سال میں داخل ہوا جب وہ نرسری میں تھا۔ کلاس میں بچوں کے لیے راؤنڈ ٹیبل اور ہر ٹیبل کے گرد چار کرسیاں تھیں۔ کاپی پر
اس کی ہینڈ رائٹنگ میں ABC
یا123 لکھا ہوا ہے۔
ایک لمحہ ذہن میں ABC آتا ہے تو اگلے لمحہ میں 123 کے نقش واضح ہوتے ہیں۔
فیصلہ نہیں کر سکا کہ کاپی میں چھوٹی بڑی آڑی ترچھی لائنیں کیا بتا رہی ہیں۔ تھوڑی
دیر بعد اسکرین پر بچوں کا ٹیبلو نظر آیا۔۔کلاس میں ہریالی پیش کرنے کے لیے پھل
پھول پودوں اور جانوروں کی تصویریں لگا کر جنگل کا ماحول بنایا گیاتھا، ہر بچہ کے
پاس ایک کاسٹیوم تھا۔ مس نے اسے خرگوش بنایا۔ جیسے ہی میوزک چلتا، سارے بچے رقص
کرتے جھومتے گاتے اپنے کردار کا نام آتے ہی خرگوش کے پاس دائرہ بنا کر اکٹھے ہوتے۔
دائرہ مکمل ہوتا اور جنگل میں۔۔۔ منگل ہو جاتا۔
مشق جاری رکھی اور کچھ عرصہ بعد بچپن کے
ڈھائی سال سامنے آگئے۔ دیکھا کہ وہ اور اس کا کزن مونٹیسری جاتے ہوئے ہر صبح خستہ
اور گرم پیٹیز کھاتے ہیں۔ پیٹیز یاد آتے ہی خوش بو پھیل گئی۔ زبان پر ذائقہ محسوس
ہوا جیسے ابھی ابھی کھایا ہو۔ خوش بو اور ذائقہ کے درمیان کئی سال حائل تھے لیکن
وقت کی بساط لپٹی تو فاصلہ حذف ہو گیا۔ کنڈرگارٹن (kindergarten) کے نقش ہلکے مگر خاکہ ذہن میں ہے۔ مزید پیچھے
گیا تو سب سے پرانا گھر یاد آیا۔ گھر کا انٹیرئیر ذہن میں بہت حد تک روشن ہے۔ بیڈ،
پردے ، لاؤنج، دروازہ، سیڑھیاں۔۔۔ والدہ سے اس وقت کی عمر پوچھی تو بتایا کہ دو
سال تھی۔ دو سال کی عمر سے پہلے کے مناظر تا حال بھول کے خانہ میں ہیں۔
آدمی ماضی میں برس ہا برس گزار دیتا ہے۔
واپس لوٹتا ہے تو گھڑی کی سوئی وہیں ہوتی ہے۔ کسی کی عمر پچاس سال ہے، جب وہ بچپن
میں لوٹتا ہے تو اس کاایک لمحہ پچاس سال کا وقت طے کر لیتا ہے۔ ماضی میں پچاس سال
گزار کر آگیا۔ ایک لمحہ میں پچاس برس کا طے ہونا کیا ہے۔۔۔؟ اس طرح کہ آدمی جب
واپس آتا ہے تو اس کی عمر سو سال نہیں ہو جاتی۔ ایک لمحہ میں پچاس برس ہیں تو پھر
اسپیس کہاں ہے۔۔۔؟ جب پچاس برس لمحہ گزر گئے تو پھر وقت کیا ہے۔۔۔؟
جاگنے کے بعد خواب لاشعور۔۔۔ خواب میں
بیداری کی دنیا لاشعور ہے۔ بات مشکل نہیں ہے۔ آدمی جس شعور کی نفی کرتا ہے اس کو
لاشعور کہتا ہے، جس میں رہتا ہے وہ شعور بن جاتی ہے۔
نیند میں خواب کی دنیا شعور ہوتی ہے۔۔۔
ایک لمحہ کے لیے بیداری کی دنیا کا خیال نہیں آتا کہ جب جاگے، تو یہ کرے گا وہ کرے
گا۔نیند میں بیداری کی دنیا حذف ہو جاتی ہے لیکن بیداری میں نیند کی دنیا حذف نہیں
ہوتی۔۔ نیند میں کیا گیا کم از کم ایک کام تو ضرور یاد رہتا ہے۔ آدمی حقیقت سے واقف
نہیں ہے اس لیے خواب کے شعور کی نفی کر کے اس کو لاشعور کہہ دیتا ہے جب کہ خواب و
خیال کے حواس غیب کی دنیا کا پہلا زون ہیں۔
مزید غور کرنے پر احساس ہوا کہ دوسرے زون
میں داخل ہونے سے پہلا زون فکشن ہو جاتا ہے۔ جب تیسرے میں داخل ہوگا تو دوسرا زون
فکشن ہوجائے گا۔ زون در زون آگے بڑھنے سے فکشن اور reality کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ ایسا مرحلہ بھی آتا ہے کہ
سوائے ایک حقیقت کے سب فکشن ہو جاتا ہے۔
اندر جھانکیں تو آئینہ نظر آتا ہے۔ آئینہ
ہمیں دیکھتا ہے اور آئینہ میں اپنا عکس دیکھتے ہیں۔ مرشد کریم نے فرمایا تھا کہ
کوئی برا کرے یا تم کسی کو برا کہو تو پہلے یہ دیکھو کہ تم کہاں کھڑے ہو۔۔پھر وہ
تمہیں برا نہیں لگے گا۔ خیال نے کہا کہ یہ خود کو آئینہ میں دیکھنا ہے۔
اس نے سوچا یہ کیسا آئینہ ہے جس کے لیے
کوئی سمت۔۔۔ سمت نہیں۔ آئینہ ماضی میں لے جاتا ہے۔ مستقبل کی حقیقت کھولتا ہے اور
حال سے واقف کراتا ہے۔ کائنات میں کوئی شے وقت ( زمان) اور فاصلہ ( مکان) کی حدود
سے باہر نہیں۔ کن سے زمان و مکان یعنی سمتیں تخلیق ہوئیں اور کن بذات خود زمان و
مکان کی نفی بھی ہے۔
صاحب طریقت سے عرض کیا۔۔۔ سر! آئینہ کے
دیکھنے کو دیکھنا کیا ہے۔۔۔؟
فرمایا ۔۔۔ ” زندگی
کے بارے میں یک سوئی کے ساتھ سوچا جائے تو
بات یقینی بن جاتی ہے کہ زندگی ۔۔۔ اطلاع کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ اطلاع کا وجود اس
وقت زیرِ بحث آتا ہے جب اطلاع کا کوئی ماخذ
(
source) ہو۔ Source کے بارے میں تفکر سے کام
لیا جائے تو راز کھلتا ہے کہ سوچ خیال کے تابع ہے۔ خیال وہم کے تابع ہے۔ ( وہم سے
مراد شک و شبہ نہیں) وہم سے اوپر ایک اور
ایجنسی ہے جس کو تصوف میں ورائے وہم کہتے ہیں۔ بات اس طرح آسان ہو جاتی ہے کہ خیال
آئے بغیر بندہ بشر یا کوئی بھی مخلوق کوئی عمل نہیں کر سکتی۔ خیال میں خیال ، خیال
میں dimension کا پیدا ہونا اس وقت ہوتا ہے جب خیال ٹوٹ کر بکھر جائے۔ یعنی ایک
آدمی کے اندر کھانے کا تقاضا پیدا ہوا جس کو عرف ِ عام میں بھوک کہا جاتا ہے۔ اس
تقاضے میں ایسی توانائی ہے کہ جب تک تعمیل نہ ہو زندگی مخدوش بن جاتی ہے۔ اس طرح سمجھئے
کہ ہر شے بھوک پیاس ، گرمی سردی کا احساس ، قربت دوری سب خیال کے تابع ہیں۔ آپ
آئینہ کے سامنے ہیں، آئینہ میں آپ کا عکس ہے۔ آپ کیا سمجھے کہ آئینہ میں عکس کی
کیا حیثیت ہے۔۔؟“
فرمایا ، ” آئینہ میں صلاحیت ہے کہ وہ
تصویر کا عکس اپنے اندر قبول کرے اور عکس۔۔۔ آپ کو دکھائے۔ آسان لفظوں میں اس طرح بیان
کیا جائے گا کہ آپ آئینہ کو نہیں دیکھ رہے اور اگر دیکھ رہے ہیں تو آئینہ کے
دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں ۔ اگر آئینہ آپ کو قبول نہ کرے تو کیا آپ آئینہ میں یعنی
آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ سکتے ہیں۔۔۔؟
اللہ آپ کو ، دوستوں اور بزرگوں کو سب کو اپنی حفظ و
امان میں رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ یعنی کمپیوٹر میں 12 کھرب صلاحیتیں
محفوظ کی ہیں۔ یہ صلاحیتیں شعور لاشعور کی تحریکات ہیں۔ مخلوقات وجود میں آتی ہیں
اور بکھر جاتی ہیں۔ یہ بکھرنا صلاحیت ہے۔ صلاحیتیں اسٹور کا کام کرتی ہیں۔ ٹوٹٹی
ہیں۔۔۔ بکھرتی ہیں۔ نور سے روشنی میں تبدیل ہوتی ہیں اور روشنی لاشعور سے شعور میں
منتقل ہوتی ہیں اور ہم مادی دنیا میں اپنا وجود دیکھتے ہیں جو فکشن کے علاوہ کچھ
نہیں لیکن اس فکشن کو متحرک رکھنے والے عوامل یا equation اللہ کا نور ہے۔ اللہ نور السمٰوٰت و الارض۔“
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے