Topics
میں
نے اس موقع پر مرشد سے سوال کیا جو لوگ بغیر مرشد کے روحانیت کے راستے پر قدم
رکھتے ہیں۔ وہ کس طرح یہ منازل طے کرتے ہیں۔ فرمایا: بیٹے ! کار خانۂ قدرت کا ہر نظام نہایت ہی مربوط
تنظیم کے ساتھ چل رہا ہے۔ کائنات کی ہر شے اپنے دائرہ قانون میں حرکت کر رہی ہے۔
روحانی علوم سیکھنے کے لئے ایک استاد کا ہونا ضروری ہے۔ روحانی علوم روحانی استاد
ہی سکھا سکتا ہے۔ جیسا کہ دنیاوی علوم استاد سے سیکھے جاتے ہیں۔ اس قانون کے تحت
اگر کوئی شخص روحانی علوم سیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی سعی کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور حا صل کر لیتا
ہے۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کا قانون ہے کہ بندے کسی بھی کام میں جب کوشش کرتے ہیں تو
کوشش کا صلہ اللہ انھیں دیتا ہے۔ مگر شیطان اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق انسان
کا کھلا دشمن ہے۔ بغیر مرشد کے جب کوئی آدمی روحانیت کے راستے پر قدم رکھتا ہے تو
شیطان ہر قدم پر اس کے راستے کی رکاوٹ بنتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے قریب نہ ہو
سکے۔ یہاں تک کہ اسے اللہ کے راستے سے اغواء کر لیتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے
مطابق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ جس طرح تو نے مجھے اپنے راستے سے اغواء کیا میں بھی
تیرے بندوں کو تیرے راستے سے اغواء کروں گا اور شیطان کو قیامت تک کے لئے اس کے
کام کی مہلت بھی دی گئی ہے۔ مرشد کی ذات روحانیت کے راستے پر مرید کی رہنمائی کرنے
کے ساتھ ساتھ اسے شیطان کے شر سے بھی تحفظ دلاتی ہے۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھو کہ
روحانی علوم روح سے تعلق رکھتے ہیں اور روح باطن ہے۔ کوئی مرید اپنے باطن میں شیخ
کی روشنیوں کو جس حد تک جذب کرتا ہے اور جس حد تک اپنی طرز فکر میں ڈھالتا ہے۔ اسی
قدر اسے شیخ کے علوم منتقل ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے مرید کی صلاحیتیں بھی ابھرتی
ہیں۔ اس سلسلے میں مرشد کی قربت و صحبت بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکے قصے میں اس قانون کو بیان کیا ہے۔ جب موسیٰ
ؑ سے غلطی ہو گئی اور نادانستگی میں آپؑ
سے ایک شخص کا قتل ہو گیا اور آپؑ مدین چلے گئے۔ وہاں حضرت شعیب علیہ السلام کے
ساتھ آپؑ کی ملاقات ہوئی اور آپؑ ان کے فرمانے سے ان کے پاس تقریباً دس سال رہے۔
یہ دس سال آپؑ کا تربیتی دور تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرعون کی طرف
رسول بنا کر بھیجا اور اللہ تعالیٰ جو کام آپؑ سے لینا چاہتے تھے وہ کام آپؑ سے
لے لیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی سنت کے قوانین کائناتی نظام کی اساس ہیں۔ ان میں کوئی
تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ازل اور ابدکی حدود میں کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے
قانون کی پیروی کرنے پر مجبور ہے۔ سزا و جزا کا دارو مدار بھی قانون کے دائرے میں
ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ اپنی ہستی میں مخلوق پر انتہائی رحم کرنے والی ہستی ہے۔ وہ
سراپا محبت ہے۔ مگر بندہ جب اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے دائرے میں قانون
کی گرفت میں آ جاتا ہے تو اللہ کا قانون اسے پکڑ لیتا ہے۔ جیسے قتل کی سزا پھانسی
ہے۔ کوئی آدمی قتل کرتا ہوا پکڑا جائے تو حکومت کا قانون اسے پھانسی کی سزا دے دیتا
ہے۔ پھانسی کی سزا اسے قانون نے دی۔ نہ کہ قانون بنانے والے نے۔ اللہ نے قانون بنا
کر بندوں کو ان کے علوم عطا کر دیئے ہیں تا کہ وہ ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں
اور کوئی ایسی خلاف ورزی نہ کریں کہ گرفت ہو جائے۔
کچھ
دن انہی کیفیات میں گزر گئے۔ میں حسبِ معمول شام کو شیخ احمد کے پاس ضرور جاتا۔
کبھی کبھار نریما کو بھی لے جاتا۔ وہ بڑی اچھی اچھی باتیں بتاتے۔ دعائیں دیتے۔
مرشد کی عنایات پرمیرے اندر ہر وقت اللہ تعالیٰ کے شکر کا تصور رہتا اور میں ہر
وقت سوچتا کہ اللہ کی ذات اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے۔ مرشد کی ان تھک کوششوں
سے یہ روحانی سلسلہ اب بڑھتا چلا جا رہا تھا
اور لوگ آپ کی روحانی تحریروں سے متاثر ہو کر آپ کے پاس آتے تھے۔ اب تو بہت سی عورتیں بھی محفل میں آنے لگی تھیں۔
محفل
میں ادب و احترام اور آداب ِ مجلس پر بہت زیادہ زور دیا جاتا۔ شیخ احمد اکثر
فرماتے۔ دنیا کی زندگی کے شب و روز کا ہر پل لوحِ محفوظ کی تحریر کا عملی مظاہرہ
ہے ۔ دنیا میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ یہی نوری تمثلات
لوحِ محفوظ سے عکس در عکس نیچے اترتے ہوئے مادی صورتوں میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ لوحِ
محفوظ پر آدم کا تمثل اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے موجود ہے۔ لوحِ محفوظ پر یہ
تمام تمثلات نوری صورتوں میں موجود ہیں۔ لوحِ محفوظ اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جسے
اللہ پاک نے کُن کہہ کرظاہر کیا ہے۔ دنیا میں مرشد یا روحانی استاد کی حیثیت اللہ
تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ کی ہے۔ ایک روحانی استاد اور مرشد اللہ کا نائب بن کر
روحانی علوم لوگوں کو سکھاتا ہے۔ اس طرح لوحِ محفوظ کا یہ تمثل دنیا میں عملی طور
پر اپنا مظاہرہ کرتا ہے۔ چونکہ روحانی استاد اپنے طالب علموں کی توجہ اور نظر عکس
سے ہٹا کر لوحِ محفوظ کے حقیقی تمثل کی جانب لے کر چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے
اندر آہستہ آہستہ وہی آداب اور خلوص و یگانگت
کے احساس کو متحرک کرتا ہے۔ جو آدم کو بندگی کی چوکھٹ پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر
دیتی ہے۔ کیونکہ لوحِ محفوظ کے حقیقی تمثل
میںآدم کا معبود اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ــ ’’ہم نے آدم کو اسمائے الٰہیہ کے کل علوم عطا
فرمائے ہیں‘‘۔ اللہ اور آدم کے درمیان خالق اور بندے کا رشتہ ہے۔ روحانیت کے
راستے میں مرشد کی محفل میں بیٹھ کر مرید بندگی کے آداب و اصول سیکھتا ہے۔ بندگی
کے آداب ذاتِ خالق کے اشاروں کو سمجھنا ہے تا کہ خالق کے اشاروں پر اس طرح حرکت
کرے، جس طرح کٹھ پتلی مالک کے اشاروں پر حرکت کرتی ہے۔ بندگی اپنی ذات کی ہستی اور
ذات خالق کی ہستی سے واقف ہونا ہے۔ مرشد کی محفل میں مرید جب بندگی کی چوکھٹ پر سر
رکھ دیتا ہے۔ تو اسے مرشد کی طرز فکر عطا ہو جاتی ہے۔ یہی منزل فنا فی الشیخ کہلاتی
ہے۔ اس منزل میں مرید شیخ کے اشاروں پر اپنے آپ کو کٹھ پتلی کی طرح متحرک کر دیتا
ہے۔ یہی بندگی کا پہلا قدم ہے جو مرید جس حد تک اپنی ذات کو شیخ کی ذات میں فنا کر
دیتا ہے۔ اسے اسی حد تک شیخ کے علوم منتقل ہو جاتے ہیں۔
زندگی
کا دریا نہایت ہی روانی کے ساتھ بہتا جا رہا تھا ۔ میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی یقیناً
قدرت کا بہترین تحفہ ہے۔ مجھے آج اس بات کا عملی تجربہ ہوا۔ نریما کے ساتھ زندگی
جنت کے خواب کی تعبیر دکھائی دی۔ بچپن میں دادی اماں اپنے پہلو سے لپٹائے ہوئے بڑے
پیار سے کہا کرتی تھیں۔ میرا بیٹا تو جنت میں رہے گا۔ میں کہتا جنت کیسی ہوتی ہے۔
دادی اماں کہتیں جیسا اپنا گھر ہے۔ خوب بڑا سا محل ، خوب بڑا سا باغ، خوبصورت لوگ،
خوبصورت حوریں۔ حوریں سب کی خدمت کرتی ہیں۔ میں پُر جوش لہجے میں کہتا، وہاں میرے
دوست بھی ہوں گے نا۔ دادی اماں کہتیں ہاں بیٹے وہاں سب لوگ ہوں گے۔ آج دادی اماں
کا یہ خواب بھی پورا ہو گیا۔ ان کے محبت بھرے تصور نے میرے لئے دنیا میں جنت تخلیق
کر دی۔
نریما
ان دنوں اُمید سے تھی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اپنی مخلوق پر محیط ہیں۔ ہم ہی
اسے بھول جاتے ہیں وہ ہمیں کبھی نہیں بھولتا۔ بھول کا خانہ تو ہمارے اندر ہے۔ جوں
جوں نریما کے ماں بننے کے دن قریب آ رہے تھے۔ میرے اندر بھی محبت کا ایک لطیف
چشمہ پھوٹتا محسوس ہوتا تھا۔ چھوٹے بچوں پر خود بخود نظر ٹھہر جاتی۔ ان کے پردے میں
مجھے اپنا بچہ نظر آتا اور بے ساختہ بچوں پر پیار آ جاتا۔ حالانکہ اس سے پہلے
مجھے بچوں سے کوئی محبت نہ تھی۔ اب اپنے اندر حواس کی ہر تبدیلی پر نظر جاتی تھی
اور ہر چیز کا رابطہ خودبخود اللہ تعالیٰ سے جا ملتا تھا۔ اب جب بھی میرے اندر بچے
کی محبت ابھرتی۔ یہی خیال آتا کہ یہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ جس طرح
بچہ ماں باپ کی تخلیق ہے۔ ماں باپ کو اپنی تخلیق سے اتنی انسیت ہوتی ہے تو اللہ
تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے کس قدر محبت ہوگی۔ میرا خیال گہرائی میں چلتا چلتا جیسے
اندھے کنوئیں میں ڈوب جاتا۔ میں سوچتا۔ اللہ کی محبت اندھے کنوئیں کی مانند ہے۔ جس
کی تہہ کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اس لمحے یوں محسوس ہوتا جیسے فطرت میری ماں ہے
۔ جس کی نرم و گرم آغوش میں میرا وجود سکون کی نیند لے رہا ہے۔ اللہ کی شان نرالی
ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو نت نئے طور سے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
انہی
دنوں نریما نے خواب دیکھا کہ دادی اماں ہمارے گھر آتیں ہیں۔ انھوں نے اپنی چادر میں
کچھ چھپایا ہوا ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی نریما کو آواز دیتی ہیں۔ نریما بھاگ کر
ان کے پاس آتی ہے اور گلے ملتی ہے۔ ان کے آنے پر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ دادی
اماں اپنی چادر میں سے ایک بڑا سا آم نکالتی ہیں اور نریما کو دیتی ہیں کہ یہ میں
تمہارے لئے جنت کے باغ سے توڑ کر لائی ہوں۔نریما خوشی خوشی اس آم کو لے کر اپنے سینے
سے لگا لیتی ہے۔ اس خواب کا مطلب ہم نے نیک اولاد سے لیا۔ چند ہی دنوں میں ہم
دونوں ایک بیٹے کے ماں باپ بن گئے۔ بچے کے کان میں شیخ احمد نے اذان دی اور نام بھی
انھوں نے ہی تجویز کیا سید نعمان علی۔ نریما بچے کو پہلی نظر دیکھتے ہی بول اُٹھی۔
سلمان دادی اماں نے جنت کا ایک آم نہیں بلکہ جنت کا سارا باغ ہی ہماری جھولی میں
ڈال دیا ہے۔ سارا گھر سارا خاندان بچے کی آمد پر خوش تھا۔ یوں لگتا تھا کہ زمین
سے آسمان تک خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔ شیخ احمد کے الفاظ میرے ذہن میں
گونجنے لگے ۔ خوشی اور غم داخلی کیفیات کا نام ہے۔ جب حواس کے دائروں میں خوشی کی
لہریں جذب ہو جاتی ہیں تو یہ لہریں حواس کے دائروں میں انتہا تک سفر کرتی ہیں۔ اس
وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات کی ہر شئے پر خوشی کا رنگ چھایا ہوا ہے۔ دراصل
ہمارے اندر حواس کے بے شمار دائرے کائناتی حواس کی درجہ بندیاں ہیں۔ جوں ہی حواس
کے ان دائروں میں تبدیلی آتی ہے۔ تو ساری کائنا ت میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ساری
کائنات انسان کے داخل میں ہے ۔ حواس کی درجہ بندی کا نام کائنات ہے۔
ہماری محفل میں نئے نئے لوگ دن بدن شامل ہوتے جا
رہے تھے۔ ایک دوسرے سے سن سنا کر لوگ آتے جاتے ہیں ۔ مگر روحانی طرزِ فکر کو
سمجھتے ہوئے بھی زمانہ لگ جاتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کثرت سے وظائف پڑھنے سے
ان کے اندر کوئی غیر معمولی قوت آ جائے گی۔ جس سے کام لے کر وہ دنیا میں اپنا سکہ
جما سکیں گے اور آخرت کو بھی اس کے عوض خرید سکیں گے۔ یہ درست ہے کہ انسان دنیا و
آ خرت دونوں کی ضمانت چاہتا ہے۔ مگر ہر کام اپنے اصول پر ہوتا ہے۔ بھلا انسان کی
عقل اللہ کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔ ایک صاحب نئے نئے آنا شروع ہوئے۔ ان
کی آنکھیں سرخ رہتیں۔ ذہن مائوف رہتا۔ جیسے نشے میں ہوں۔ انہوں نے اپنا حال یوں بیان
کیا کہ انہیں ہمزاد یا مؤکل طابع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ انھوں نے اس سلسلے میں کئی
کتابیں پڑھیں ۔ کئی عاملوں سے ملے جس نے جو عمل بتایا وہ کر لیا۔ آدھی آدھی
راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر چلے کھینچتے۔ کئی سال ان کا یہی معمول رہا۔ اس دوران ان کا
کاروبا ر بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔ کیونکہ بیک وقت کئی کئی وظیفے جاری تھے۔
کبھی ظہر کے بعد ، فجر کے بعد، سارا ذہن وظیفوں میں لگا رہتا۔ کاروبار کون کرتا ۔
بچے کو پڑھائی سے ہٹایا کہ وہ دکان پر بیٹھے۔ وہ چودہ سال کی عمر میں پڑھائی چھوڑ
کر دکان پر بیٹھا تو ناتجربہ کاری کی وجہ سے خراب ہی ہوتی گئی۔ جس کی وجہ سے باپ بیٹے
میں بھی کِل کِل ہونے لگی۔ گھر میں پریشانیوں نے ڈیرہ ڈال لیا۔ بال بچوں کی پریشانیاں
کبھی نظر ہی نہیں آئیں ۔ اگر کبھی ذہن اس طرف گیا بھی تو یہی خیال آتا کہ مؤکل
طابع ہو جائے تو اس سے الٰہ دین کے چراغ کے جن کی طرح کام لے کر گھر کے سارے دلّدر
دور کر دیں گے۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء