Topics
خیالات ریلیز ہوتے ہیں تو ہاتھ ماہر کاتب کا قلم بن جاتا ہے۔ کاغذ پر مختلف لکیریں بنتی ہیں۔ الفاظ کو لکیروں کے علاوہ کہا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں خیال ہاتھوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ہاتھ حرکت کرتے ہیں اور وہ ہاتھوں کو حرکت کرتا دیکھ کر خود سے پوچھتا ہے کہ خیال کا ” ادراک“ ابھی ہوا نہیں کہ ہاتھ واقف ہو گیا جب کہ ہاتھ کی حیثیت میڈیم کی ہے، پھر ہاتھ کو کیسے معلوم ہوا۔۔۔؟
مرشد کریم نے الست برکم کا قانون سمجھایا تو فرمایا کہ سماعت و بصارت کے بعد ادراک ہے۔ ادراک اس وقت ہوتا ہے جب آواز کے ساتھ مشاہدہ ہو جائے۔ مشاہدہ کے بغیر ادراک نہیں ہوتا ۔ سماعت ، بصارت اور ادراک در حقیقت تفہیم کے مدارج ہیں۔ اللہ کی سنت میں تبدیلی اور تعطل نہیں ہے ، جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ” ہو “ اور وہ ہو جاتی ہے۔
اسے بات سمجھ میں نہیں آتی تو تفہیم کے لئے نکتہ تلاش کرتا ہے۔ احکم الحاکمین اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ذہن میں کوئی لفظ یا جملہ وارد ہوتا ہے اور تفکر سے جس حد تک ہو، کشف ہو جاتا ہے ۔ خود سے کہا،
” میں ہاتھ کو لکیریں بناتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔“
جملہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک میں ہوں۔۔ ایک ہاتھ ہے۔۔ ایک وہ ہے جو لکیریں بنا رہا ہے۔۔۔ اور ایک وہ ہے جو یہ سب ہوتے دیکھ رہا ہے۔
مرشد کریم کئی مرتبہ سمجھا چکے ہیں کہ جسم نہیں، روح اصل ہے۔ خود سے پوچھا ، جب کوئی اور لکھ رہا ہے تو میں کون ہوں۔ میں لکھنے والے سے واقف کیوں نہیں۔۔۔؟ کیا ہاتھ کی طرح میں بھی میڈیم ہوں۔ اگر میں میڈیم نہیں ہوں تو ایک وجود میں دو کیسے ہو سکتے ہیں یا میں ہی ہوں جو لکھ رہا ہے لیکن اپنے آپ سے واقف نہیں۔۔۔؟ بات پھر وہی ہے کہ میں کون ہوں۔۔۔ ذہن یہاں رک جاتا ہے جب بندہ کہتا ہے کہ میرا جسم ۔۔۔ میری روح۔۔” میرا“ کہنے والا کون ہے ۔ اور کیا روح بھی میڈیم ہے۔۔۔؟
عرض کیا ، سر ! میں کون ہوں؟
فرمایا ، ” آپ الوژن ہیں۔“
پھر حقیقت کیا ہے۔۔۔؟
فرمایا ، ” حقیقت جاننے کے لئے مراقبہ کریں۔ کیا آپ مراقبہ کرتے ہیں۔۔۔؟“
وہ خاموش ہو گیا ۔ اس نے جب باقاعدگی سے مراقبہ شروع کیا ، یک سوئی میں مشکل ہوئی لیکن مراقبہ جاری رکھا۔ آٹھ سال پہلے ایک ملاقات میں صاحب حق الیقین نے فرمایا تھا،
” مراقبہ ذہن خالی ہونے کی مشق ہے ۔ خیالات آئیں گے، گزر جائیں گے خیالات کا آنا اور گزر جانا، ذہن کا خالی ہونا ہے۔خیالات کی رو میں بہنا نہیں ہے۔ پابندی سے مراقبہ کیا جائے تو ایک وقت آئے گا کہ ذہن ہر خیال سے خالی ہو جائے گا اور صرف ایک خیال باقی رہے گا۔“
مراقبہ سے خیال میں بے خیال ہونے کی مشق ہوئی اور فہم کی رفتار بڑھ گئی۔
ایک روز کسی بات پر جذبات مشتعل ہو گئے۔ خواہش کے برخلاف عمل ہوا، شعور کی مزاحمت بڑھی اور مراقبہ میں بے قاعدگی شروع ہوگئی۔
عرض کیا، مراقبہ کرتا ہوں لیکن پابندی نہیں ہے۔
پوچھا ، ” کھانے میں ناغہ ہوتا ہے۔۔۔؟“
وہ خاموش رہا۔
” مراقبہ میں ناغہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟“
عرض کیا کہ ذہن ڈسٹرب ہو تو تسلسل نہیں رہتا۔
فرمایا، ” اہمیت کا احساس نہیں ہے۔ کھانے کی اہمیت کا احساس ہے کہ کھانا ترک کرنے سے نقاہت ہوگی لیکن یہ خیال نہیں آتا کہ مراقبہ نہیں کریں گے تو روحانیت کیسے آئے گی ذہن کیسے کھلے گا۔“
عرض کیا ، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
فرمایا ، ” جب آپ مراقبہ کریں گے اور ' اندرمیں' کیا ہے، اس کا کھوج لگائیں گے تو خیال مشاہدہ بن جائے گا۔ مرشد راہ نما ہے، راستہ کی نشان دہی کرتا ہے، راستہ بہرحال مرید کو طے کرنا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ باقاعدگی سے مراقبہ کریں۔ مراقبہ سے لاشعوری اطلاع کو قبول کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔“
بہت سے مواقع پر مرشد کریم نے جب دیکھا کہ اس نے تفکر کیا ہے، کوشش کی ہے اور ذہن الجھ گیا ہے تو سوالوں کے جوابات دیئے اور خامی کی تصحیح کی۔ ایسا بھی ہوا کہ سوال پوچھا اور انہوں نے کوئی نکتہ بتا کر مزید تفکر کا حکم دیا۔یہ بھی کہا کہ سب کچھ مرشد بتا دے تو مرید ذہن کا استعمال کیسے سیکھے گا اور ۔۔۔آج سرزنش ہوگئی ۔ افسوس ہوا کہ وہ ناگواری کا سبب بن گیا۔ اس دن کے بعد سے تصور شیخ کے مراقبہ میں پابندی ہے۔
ظاہر اور باطن پر تفکر جاری تھا۔ بیٹھے بیٹھے خیال اندر کی طرف متوجہ کر دیتا۔ وہ غور سے جسم کو حرکت کرتا دیکھتا۔ توجہ بڑھتی تو اندر میں وجود کا احساس بڑھ جاتا۔ مر شد کریم نے فرمایا تھا کہ مراقبہ کرنے سے جواب مل جائے گا۔
ایک روز مراقبہ کے دوران ذہن میں یہ بات آئی کہ تصور شیخ خیال میں بے خیال ہونا ہے۔خیال ۔۔وجود اور بے خیال ہونا۔۔۔ عدم وجود ہے۔ عدم وجود کیا ہے۔۔۔؟ عدم وجود سے مراد جب وہ ناقابل تذکرہ تھا تو کہیں موجود تھا۔ اگر موجود تھا تو کیا موجودگی یہ تھی جس سے وہ واقف ہے۔۔۔؟
ذہن نے کروٹ بدلی، ہلکا سا ارتعاش محسوس کیا۔ دنیا میں آنے سے پہلے اگر وہ کہیں تھا تو کہاں تھا۔ اگر وجود کہیں تھا تو وجود کی شہادت کس طرح حاصل ہوئی؟ اور وجود کی تفصیلات جیسے دماغ ، آنکھ ، زبان، آدمی کی پوری مشینری اندر باہر نظام ، حرکت ۔۔۔ بے حرکت، وجود۔۔عدم وجود یہ سب کہاں تھا۔۔؟
سوچتے سوچتے سوچ کی پوری زنجیر ٹوٹ کر بکھر گئی۔ زنجیر کا ٹوٹنا اور اس کی منتشر کڑیاں دیکھنا یہ سوال بن گیا کہ کڑیاں کیسے بنیں۔۔۔ اور کڑیوں کا اتصال کیسے ہوا۔۔۔؟ یہ بات اس لئے ذہن میں آئی کہ جب اس نے اپنے اندر باہر غور کیا تو اپنا پورا مجسمہ ایک زنجیر کی طرح نظر آیا۔ جسم کا ہر عضو اور جسم ٹکڑے ٹکڑے محسوس ہوا۔ اطلاع وارد ہوئی۔ اطلاع سے مراد باخبری ہے۔ باخبری جب مشاہدہ بنی تو مشین کے کُل پرزوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نظر ائیں۔ حرکت محسوس ہوئی لیکن جو مجسمہ بنا اس میں حرکت نہیں تھی۔ جیسے کوئی بڑی مشین اور اس میں سینکڑوں کل پرزے ہوں اور حرکت نہ ہو۔
خیالات میں گم حیرت کے دبیز سایوں میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ تیز جھماکا ہوا۔ اتنا روشن کہ پورے ماحول میں روشنی پھیل گئی۔ مصور کو دیکھا کہ بنی ہوئی مشین یا کھلونے میں چابی بھری ہے۔ لمحہ کے ہزارویں حصہ میں مشین میں اس طرح حرکت ہوئی کہ تمام کُل پرزے متحرک ہوگئے۔
قربت میں خیالات کی اہمیت کا احساس ہوا۔ کائنات اور خود اپنے آپ سے واقف ہونے کے لیے بہت سارے خیالات کی ضرورت نہیں۔۔ ایک خیال کافی ہے۔ اس لئے کہ ہر خیال ایک ہی مقام سے آتا ہے اور وہیں لوٹ جاتا ہے۔ خیال پر غور کرنا شروع کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ کڑی در کڑی کائنات کی ہر شے پر وہ محیط ہے۔ اندر میں سے آواز آئی:
” خیال کائنات ہے اور کائنات خیال ہے۔“
صاحب علم و عرفان کے پاس بیٹھ کر جو خیال آتا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے۔ عمل کرنے سے خیالات قبول کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ کہے بغیر سمجھ جاتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن۔۔۔ بہرحال وہ علم و عرفان کا سمندر ہیں اور ان کے ہر خیال کو قبول کرنے کی استطاعت نہیں۔ صرف اس خیال کو قبول کر سکتا ہے جس میں اس کے لئے پیغام ہے۔
مرضی کے خلاف کوئی کام ہونے پر اگرچہ غصہ پہلے سے کم لیکن موجود ہے۔ ایسے میں ذہن تفکر سے ہٹ جاتا ہے اور مراقبہ میں بے قاعدگی ہوتی ہے جس پر سرزنش بھی ہوئی۔
اس نے پوچھا ، سر ! شک اور یقین زندگی کے دو رخ ہیں۔ ہم جو چاہتے ہیں وہ نہ ہو تو چھوٹی سی بات بہت بڑی بن جاتی ہے، ذہن کسی طور قبول نہیں کرتا اور بغاوت ہوتی ہے جب کہ احساس موجود رہتا ہے کہ ہم غلط ہیں۔ جلد سے جلد اس کیفیت سے کیسے نکلا جاسکتا ہے یا پھر ایسا کیا ہو کہ ہم حقیقت کو قبول کرنا سیکھیں۔۔۔؟
فرمایا،” ہر آدمی کے اندر گائیڈ کرنے والی مشین کا نام ضمیر ہے۔ ضمیر ہر بندہ کا محاسب ہے اور یہ محاسب آپ کی ہر بات کا احتساب کرتا ہے ۔ آپ کو بتائے گا کہ یہ صحیح ہے ، یہ غلط ہے۔ یہ کرو یہ نہ کرو۔ وہ دو دفعہ یا تین دفعہ کہتا ہے اس کے بعد خاموش ہو جاتا ہے ۔ اس لئے حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے فرمایا کہ پہلے جو خیال آئے وہ صحیح ہوتا ہے۔ دوسری دفعہ خیال سوچ بچار کے حساب سے صحیح بھی ہو۔ وہ صحیح نہیں۔ تیسری دفعہ جو خیال آئے اسے چھوڑ دینا چاہئے ، چاہے وہ نقصان کے اعتبار سے کتنا بڑا ہو۔ ضمیر اصل میں نور باطن ہے۔ نور باطن آدمی کو کسی برائی کی اجازت نہیں دیتا، تنبیہ کرتا ہے ، روکتا ہے لیکن ۔۔۔ جب کوئی اچھی بات ہوتی ہے تو خیال کے ساتھ خوشی کی ایک لہر آدمی کے اندر ضرور دوڑتی ہے جس کو آدمی بار بار رد کر کے اس لہر سے رشتہ توڑ لیتا ہے اور اگر اس میں عدم تعمیل ہو۔۔۔ مسلسل عدم تعمیل ہو تو پھر ضمیر خاموش ہو جاتا ہے یعنی نور باطن سے لاشعوری تعلق پردہ میں چلا جاتا ہے۔ جب کہ شعوری کیفیات میں بھی نور باطن یا ضمیر کی آواز یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ، اچھے کام کرنے کی ترغیب اور فواحشات اور برائی سے روکتی ہے۔ یہ دونوں صورتیں اس وقت تک جاری رہتی ہیں جب آدمی ضمیر کی راہ نمائی کو قبول کرے۔ مسلسل نظر انداز کیا جائے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ دلوں میں مہر لگا دیتے ہیں ، صحیح بات سننے کے لئے کان بند ہو جاتے ہیں یعنی اس طرف ذہن مائل نہیں ہوتا۔ آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں جب کہ بظاہر اندھی نہیں ہوتیں۔“
پوچھا ، پہلے خیال کو صحیح طور کیسے قبول کیا جائے۔۔۔؟ دوسری بات یہ ہے کہ چور کو جب چوری کا خیال آتا ہے تو وہاں پہلے خیال کا قانون کیسے کام کرتا ہے۔۔۔؟
فرمایا ، ” ضمیر نور باطن ہے۔ نور باطن انسان کی راہ نمائی کرتا ہے، اچھے برے کی تمیز کرنا سکھاتا ہے غور کرو! خیالات کے ہجوم میں آپ کو منفی خیال آیا۔ بادل نخواستہ آپ نے اسے رد کر دیا لیکن وہ رد نہیں ہوا اس لئے کہ ضمیر کی راہ نمائی نیوٹرل ذہن سے قبول نہیں کی۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا یا یوں کہنا چاہیئے کہ بار بار تجربہ کیا کہ دو کاموں میں کسی ایک کام کا خیال آتا ہے لیکن ساتھ ہی اندر راہ نمائی ہوتی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ فوراً پھر خیال آتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے اور اس طرح ضمیر کی راہ نمائی عدم قبول بن جاتی ہے۔ بالآخر ضمیر کی راہ نمائی کے خلاف آدمی وہ عمل کر لیتا ہے۔ عمل کے بعد ضمیر ملامت کرتا ہے۔ ملامت آدمی کے اندر احساس بن جاتی ہے اور یہ احساس عمل کرنے والے بندہ یا بندی کا محاسبہ کرتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں ہوا۔ آدمی اگر ضمیر کی آواز سن کر توبہ استغفار کر لیتا ہے تو ضمیر خاموش ہو جاتا ہے یا مطمئن ہو جاتا ہے لیکن پھر وسوسوں کے ہجوم میں گھر جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،
مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ
شیطان وسوسوں سے شر کی تلقین کرتا ہے، دلوں میں حقیقت مطلقہ کے خلاف بہت سارے شر اور فساد کو انسپائر کرتا ہے اور آدمی دو کشتیوں میں سوار ہو جاتا ہے۔ ایک کشتی کا مسافر طوفان میں گھر جاتا ہے اور دوسری کشتی حفاظت و امن کے ساتھ کنارے لگ جاتی ہے۔“
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے