Topics
ایک بار ” شرح
لوح و قلم “ پڑھتے وقت ذہن میں فلم ریلیز ہوئی۔ نوٹ کر لیتا تو علم کا ذخیرہ ہو
جاتا لیکن محض نشان لگانے پر اکتفا کیا کہ بعد میں ان سطروں پر غور کرے گا۔ تھوڑے
دنوں بعد کتاب اٹھائی، الفاظ پڑھے لیکن وہ باتیں یاد نہ آئیں جو پہلی مرتبہ پڑھتے
وقت ذہن پر وارد ہوئیں۔
آج پھر لکھتےوقت ذہن خالی ہو گیا۔ نہیں
معلوم اس کو ذہن خالی ہونا کہتے ہیں یا سن ہو جانا۔ بہر حال بہت سوچا کہ جو لکھنا
چاہتا ہوں وہ یاد آجائے لیکن خیال بے خیالی کے پردہ میں چھپ چکا تھا۔ قرآن کریم
میں تفکر کیا ، نکات نوٹ کئے لیکن معنی و مفہوم بھول گیا۔ معلوم نہیں یہ باتیں
کیوں لکھیں اور جب لکھیں اس وقت کیفیت کیا
تھی۔
شیخ سے عرض کیا ، سر ! ” شرح لوح و قلم “
پڑھتے وقت صفحات پر نشانات لگائے مگر جو لکھنا چاہتا تھا وہ اب ذہن میں نہیں۔ قرآن
کریم میں تفکر کیا لیکن لکھنے بیٹھا تو ذہن خالی تھا۔
فرمایا، ” جس وقت خیال آئے ، جو کچھ اس
خیال میں ہے ، مفہوم کے ساتھ نوٹ کر لیا کرو تا کہ بعد میں پڑھتے وقت یاد آجائے کہ
کیوں لکھا تھا۔ خیال لوح محفوظ سے آتا ہے،
نہیں معلوم واپس کب آئے۔ یہ آمد ہوتی ہے۔ جس کی کیفیت میں وہ خیالات آئے تھے، ذہن
کو اس کیفیت میں دوبارہ جانے میں وقت لگتا ہے۔“
اندر میں سے کسی نے پوچھا ، کبھی غور کیا
ہے کہ ذہن کا سن ہونا کیا ہے؟ بالخصوص ایسے وقت میں جب آدمی پریشان بھی نہ ہو لیکن
ذہن سن محسوس ہو۔
اس نے کہا ، اطلاع کے بہاؤ میں رکاوٹ؟
آواز نے کہا، اللہ کی سنت میں تبدیلی اور
تعطل نہیں ہے۔
سوچا کہ پھر کیا وجہ ہے۔
اندر میں جھماکا ہوا اور مرشد کریم کی بات
یاد آئی۔ فرماتے ہیں کہ جو شے نظر نہ آئے ہم اسے خلا کہہ دیتے ہیں جب کہ خلا بھی
وجود ہے۔
اس نے کہا، ہم جسے خلا کہتے ہیں وہ ہماری
فہم کی حد سے باہر ہے۔ نظر دھندلا جانے سے خلا نظر آتا ہے ۔ خلا اور ذہن کا سن
ہونا ایک ہے۔ ذہن اس لئے سن ہوا کہ اس وقت خیال میں جو کچھ ہے وہ فہم کی حد سے
باہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ خیال کا مطلب ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک فہم کی range میں ہو۔ پھر
ایک شے خیال میں آکر رینج سے باہر کیسے ہوئی۔۔۔؟
خیال بولا، اس وقت شعور کسی ایسی شے میں
الجھا ہوا ہوتا ہے جس سے فہم کی سطح معمول سے کم ہو جاتی ہے۔
خیر! بات یہ سمجھ میں آئی کہ لکھنا نہیں
آئے تو پریشان نہیں ہونا، لکھتے رہنا ہے۔
بظاہر اس تحریر میں ربط نہیں ہے لیکن
تحریر بے ربط بھی نہیں ہے اس لئے کہ جس کیفیت میں لکھی گئی ہے اس کیفیت میں ربط
ہے۔
ایک روز مرضی کے خلاف کام ہونے پر ذہن
بھاری ہوگیا۔ توجہ ہٹانے کی کوشش کے باوجود ذہن یک سو نہ ہو سکا اور دیگر کام
متاثر ہو گئے۔ دن میں سوچوں کا عکس ذہن پر نقش ہوا اور خواب میں انتشار نظر آیا۔
سرور کونین۔۔۔ رحمتہ للعالمین ؐ فرماتے
ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یعنی مقداریں معین ہیں۔ آدمی سے گلاب اور گلاب سے
شاہین پیدا نہیں ہوتا، آدمی سے آدمی، گلاب سے گلاب اور شاہین سے شاہین کی نسل
بڑھتی ہے۔ نیک عمل کی جزا نیکی ہے اور نیکی۔۔قربت ہے۔ عملِ بد کا نتیجہ بے سکونی
اور بے سکونی۔۔ اللہ سے دوری ہے۔
مرشد کریم سے بار بار سنا کہ کائنات میں
ربط ہے۔ محاسبہ کیا تو لاشعور نے راہ نمائی کی اور ربط کا ایک مطلب یہ سمجھ میں
آیا کہ ہر عالم دوسرے عالم کی تصویر کشی ہے۔ ایک عالم کا عکس دوسرے عالم میں مظہر
ہے۔ واقعات میں تسلسل نہ ہو تو ربط کیسے قائم ہوگا۔۔؟ سوال یہ ہے کہ یہاں سے جانے
کے بعد وہی ملے گا جو یہاں کیا لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جو یہاں کیا وہ کہاں سے آیا
، یہاں پر آنے سے پہلے کیا ہے۔۔؟
روزانہ محاسبہ کرنے پر احساس ہوا کہ جب
مرضی کے خلاف کام ہوتا ہے تو ذہن بھاری ہو جاتا ہے۔ ایسا ایک نہیں، اتنی مرتبہ ہوا
کہ یہ عمل عادت بن گیا۔ جو بات عادت بن جائے وہ غلط محسوس نہیں ہوتی۔ وہ عادت اس
لئے بنی کہ اسے صحیح سمجھا گیا۔
خیال بولا کہ تمہارے اندر قبولیت نہیں ہے۔
قبولیت کا تعلق ظرف سے ہے۔ سمندر کو دیکھو
کتنا وسیع ہے۔ ہر شے کو جگہ دیتا ہے لیکن جو شے تعفن پھیلاتی ہے اسے باہر
پھینک دیتا ہے۔ کسی کو جگہ دینے سے سمندر
کی وسعت کم نہیں ہوتی۔ ۔۔بڑھ جاتی ہے۔ زمین اور فضا کی بھی یہی صورت ہے۔ کائنات کی
فطرت میں قبولیت ہے۔ قبول کرنا ۔۔ آگے بڑھنا ہے۔۔۔ بات یہ ہے کہ مرضی کے خلاف کسی
عمل کو قبول کرنا اس طرح کہ وہ نظر انداز ہو جائے۔۔ راستہ بنانا ہے۔
نظر انداز کرنے اور رد کردینے میں فرق ہے
۔ نظر انداز ۔۔۔ دیکھ کر بھی نہیں دیکھنے کو کہتے ہیں کہ ہماری نظروں میں اس شے کی
اہمیت نہ ہو۔ دوسری طرف رد کرنے سے رد عمل ہوتا ہے۔
خیال بولا، راستہ دینے والا اس جگہ یا شے
کو امانت سمجھتا ہے۔ خیانت نہ ہو تو مزید امانتیں سپرد کی جاتی ہیں ورنہ چور کو
خزانہ کی چابی کون دے گا۔۔؟
تین سال پہلے خواب میں سورہ بقرۃ کی آخری
آیت کثرت سے پڑھنے کی تاکید کی گئی۔
” اے رب ہم سے بھول چوک میں جو
قصور ہو جائیں ، ان پر گرفت نہ کر۔
مالک ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو
نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔
پروردگار جس بار کو اٹھانے کی ہم
میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔
ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر
فرما، ہم پر رحم کر۔ تو ہمارا مولیٰ ہے،
کفار کے مقابلہ میں ہماری مدد
کر۔“
( البقرۃ : ۲۸۶ )
عربی اور ترجمہ دونوں یاد کیا تاکہ عربی
پڑھتے وقت معلوم ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ فانصر
نا علی القوم الکافر ین کا مطلب کیا ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ تو کسی کافر سے حالت جنگ
میں نہیں ہے پھر اس آیت میں کیا حکمت ہے۔۔؟
آواز آئی ، کفر کا مطلب رد کر دینا یا
انکار کرنا ہے۔ اللہ کی رضا میں راضی نہ ہونا۔ انکار ہے۔ انکار بغاوت اور بغاوت
کفر ہے۔ خوف و غم اور مایوسی و ناشکری علامات ہیں۔
اس نے سمجھا کہ فانصر نا علی القوم الکافرین،
نفس پر فتح پانے کی دعا ہے۔
اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں،
” پھر کیا تم
نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے خواہش نفس کواپنا معبود بنا لیا۔ اور اللہ نے علم کے
باوجود اسے گم راہی میں پھینک دیا اوراس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی ور اس کی
آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب ا ور کون ہے جو اسے ہدایت دے۔ کیا تم لوگ سبق نہیں
لیتے۔“ (
الجاثیہ : ۲۳) |
سورہ بقرۃ کی مذکورہ آیت میں حملنا اور
حملتہ کا بھی ذکر ہے۔ اس کا مطلب اس وقت سمجھ میں آیا جب مرشد کریم سے پوچھا ، بعض
رویے ایسے ہوتے ہیں جن سے معاملات متاثر ہو جاتے ہیں، میں چڑ جاتا ہوں اور اس بندہ سے کوفت ہوتی ہے۔
فرمایا، ” جس پر آپ کو غصہ آیا، اس نے جو
کیا یا کہا، وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ اسے اب یاد بھی نہیں اور آپ کڑھتے رہے۔ آپ کسی
کو نہیں بدل سکتے۔ صرف اپنے آپ پر کام کرنا ہے۔ کوئی کچھ بھی کرے ، متاثر نہیں
ہونا۔ اچھا یہ بتائیے کہ آپ کہیں جا رہے ہیں، راستہ میں جانور مرا ہو اہے اور وہاں
تعفن ہے تو کیا کریں گے۔؟“
عرض کیا ، آگے بڑھ جائیں گے۔
” اور اگر رک گئے۔۔۔ ؟“
بدبو آتی رہے گی۔
فرمایا، ” تھوڑی دیر کھڑے رہنے کے بعد بدبو نہیں
آئے گی یعنی آپ ماحول کا حصہ بن گئے اس لئے گزر جاؤ۔“
صاحب
ِ طریقت کی بات سے ذہن میں کئی در روشن ہوئے۔
آدمی کسی کا ذکر کرتا ہے، اس ذکر میں محبت ہو یا نفرت۔ دونوں صورتوں میں
کیفیات غالب ہو جاتی ہیں۔ ہماری اور اس شخص کی سوچ کی مقداریں کسی حد تک ایک ہونے
سے نفرت یا محبت محسوس ہوتی ہے یعنی ہم اس کے عمل میں شریک ہو گئے۔ شراکت کے بغیر
جذبات کا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ کسی کی تکلیف کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب آدمی خود
اس کیفیت سے گزرتا ہے۔
تجربہ ہے کہ مادی چیزیں ، شکوے شکایات اور لوگوں کے رویوں کی تکرار سے بے
چینی اور خوف و غم کی کیفیات ہوتی ہیں۔ ہوتا کچھ بھی نہیں ہے لیکن ایک کے بعد ایک
بات رائی کا پہاڑ بن جاتی ہے۔ آدمی سکون سے دور اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف اللہ کا ذکر ہو، رسول اللہ ؐ کی محبت اور اولیائے کرام کی قربت
ہو۔ قربت مقصد بن جائے تو سکون کی طرزیں غالب ہو جاتی ہیں۔ اب ذہن کی فریکوئنسی اس
فریکوئنسی کے قریب ہو رہی ہے جس میں غم میں خوف و غم نہیں ہے۔ بات یہ سمجھ میں آئی
کہ جب ہم کسی کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری اور اس کی مقدار متوازن ہو جاتی ہے۔
عرض کیا
، میں اس خامی پر قابو کیوں نہیں پا لیتا؟
فرمایا
، ” آپ اپنی اہمیت چاہتے ہیں۔ اگر آدمی اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے غصہ نہیں
آئے گا۔ بتایئے آپ کی ابتدا کس سے ہوئی؟“
عرض کیا، اسپرم سے۔
” اسپرم کیا ہے؟“
غلاظت ہے۔
” رحم میں نشو نما کیسے ہوئی؟“
ایسی خوراک سے جس کے اخراج
سے نماز معاف ہو جاتی ہے۔
” جب دنیا میں آئے تو غذا کیا بنی؟“
عرض کیا کہ خون اور گوبر کے درمیان میں سے دودھ غذا بنتا ہے۔
”
بتایئے ہماری خوراک میں کون سی ایسی چیز ہے جس میں بدبو نہ ہو۔۔؟ ہر فصل میں کھاد
استعمال ہوتی ہے۔ کھاد کیا ہے۔۔۔؟“
عرض کیا ، فضلہ ۔
” جب تک کھاد نہ ڈالیں، فصل آتی ہے؟“
جی نہیں۔
” مرنے کے بعد اگر بروقت تدفین نہ ہو تو کیا ہوتا ہے۔ لوگ ناک پر رومال نہیں رکھ لیتے؟“
جی، رکھ لیتے ہیں۔
” ہم کیا کھا رہے ہیں؟“
وہ خاموش رہا۔
” اب
یہ بتایئے بیٹا کہ آدمی کی حیثیت کیا ہوئی؟“
فرمایا ، ” یہ یاد رکھیں کہ انسان الگ اور آدمی الگ ہے۔۔ انسان احسن تقویم
ہے۔“
حضور ! میں کوشش کروں
گا کہ خامی دور ہو۔
فرمایا ، ” یہ آپ نے پہلے بھی کہا تھا۔“
سخت شرمندہ ہوا۔
عرض
کیا، مجھے علم ہے کہ غصہ نہیں کرنا لیکن جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو یاد نہیں
رہتا اور غلطی کے فوراً بعد یاد آجاتا ہے۔
مرشد کریم نے فرمایا ، ” جب کہ راہ نمائی غلطی سے پہلے کی جاتی ہے مگر غصہ
کے ابال کی وجہ سے آدمی سنتا نہیں۔ جب کہ غصہ پر قابو پانا ارادہ میں شامل نہیں
ہوگا ، غصہ آئے گا۔ یہ ایک وقت میں نہیں ہو جاتا، اس میں وقت لگتا ہے یہ بتایئے آپ
نے میٹرک کیا ہے، کتنا وقت لگا۔۔۔؟“
عرض کیا ، دس سال۔۔ وہ
مسکرائے اور شعر پڑھا،
گر چہ دانا
باشی و اہل ِ ہنر |
فرمایا ، ” اگر تم دانا اور ہنر مند بننا چاہتے
ہو تو خود کو دنیا کے بے وقوف آدمی سے کم تر اور برے آدمی سے بدتر شمار کرو۔“
گھر
جاتے ہوئے اس نے سوچا ، کوئی بھی کام کیا جائے، بات بالآخر رویوں پر آجاتی ہے۔
زندگی رویوں سے بنتی ہے۔ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن منزل تک پہنچنے میں طرز عمل
رکاوٹ ہے۔ رویہ صراط ِ مستقیم کے مطابق نہ ہو تو زندگی خوف و غم ، ناکامیوں اور
مایوسی کی تصویر ہے۔
حمل بوجھ کو کہتے ہیں اور بوجھ میں ثقل
ہے۔ ثقل سے آدمی اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ سورہ بقرۃ کی آیت میں دو مرتبہ بوجھ (
حمل) کا ذکر ہے کہ یا اللہ ہمیں اس ثقل سے محفوظ رکھ جو خواہشات کو مقصد زندگی
بنانے اور دنیا کے رنگ میں رنگ جانے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور آدمی عرفانِ
الٰہی سے دور ہوجاتا ہے۔
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے