Topics

خوا ب کیا ہے


                میرے روزے رکھنے کا شور سارے خاندان میں مچ گیا اور سب کو پتہ لگ گیا کہ میں بیعت ہو چکا ہوں اور روحانی علوم سیکھنے میں پوری طرح متوجہ ہوں۔ بجائے اس کے کہ لوگ میری اس کاوش پر مجھے سراہتے اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہر طرف سے یہی سننے میں آیا۔ میاں چھوڑو بھئی کن چکروں میں پڑ گئے۔ کوئی کہتا ابھی تو تمہارے کھیلنے کھانے کے دن ہیں۔ابھی کچھ گناہ تو کر لو پھر ثواب کے چکر میں پڑنا۔ میاں شادی کر لو تمہارے سر سے روحانیت کا بھوت اتر جائے گا۔ ارے تم جیسا نوجوان بغیر داڑھی مونچھ کہیں روحانی علوم حاصل کر سکتا ہے۔

                مجھے روزے رکھے تین ماہ ہو گئے۔ اس دوران مراقبہ میں بہت ہی لطف آتا۔ ایسی ایسی کیفیات ہوتیں کہ مراقبہ سے نکلنے کو جی نہ چاہتا۔ خواب بھی بہت اچھے اچھے آنے لگے تھے۔ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ حضرت دائود علیہ السلام آئے میں نے انھیں فوراً پہچان لیا۔ نہایت ہی ادب سے انھیں سلام کیا۔ آپؑ  مسکرائے اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم ایک راستے پر چلنے لگے۔ ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ ایک بڑا سا شہر کا دروازہ سامنے آ گیا۔یہ دروازہ انتہائی بڑا اور خوبصورت تھا۔ یہ ماربل کا بنا ہوا تھا۔ مگر اس کے اندر سلور اور گولڈن ماربل کا کام تھا عجیب و غریب چیز تھی۔میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ حضرت دائود علیہ السلام اس دروازے میں یہ کہہ کر داخل ہوئے کہ یہ ہمارا ملک ہے اندر روشنیوں کا ایک وسیع و عریض عالم تھا۔ ہر طرف روشنیاں تھیں مگر ہر جگہ مختلف لگتی تھیں ہم ایک ہال میں داخل ہوئے۔ یہاں پر ایک تخت تھا جس پر انتہائی نفیس قالین بچھا تھا۔ اس قالین پر بھی سلور اور گولڈن ڈیزائن تھے۔ کمرے کی سجاوٹ میں بھی یہی دو رنگ نمایاں تھے۔حضرت دائود علیہ السلام اس قالین پر بیٹھ گئے اور مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کے بعد ایک خادم ٹرے میں رکھ کر کچھ پھل لایا۔ حضرت دائود علیہ السلام نے وہ پھل مجھے دیئے جو میں نے کھا لئے۔ان کا مزہ میرے سارے جسم میں محسوس ہوا۔ پھر آنکھ کھل گئی۔

                شیخ احمد نے پہلے ہی کہا ہوا تھا کہ ہر خواب مجھے ہی بتانا۔ یہ خواب میں نے شیخ احمد کو بتایا ۔ فرمانے لگے۔ چونکہ تم سنتِ دائودی پر عمل کرتے ہوئے ان کے طریق پر روزے رکھ رہے ہو۔ اس عمل کے ذریعے سے حضرت دائود علیہ السلام کی فکر سے تمہارا رابطہ قائم ہو گیا ہے۔ پھل کھانا،  ان کا فیض ہے۔ جو تمہیں منتقل ہوا ہے۔

                میں نے کہا حضور خواب کیا ہے ۔ ہر خواب سچا کیوں نہیں ہوتا اور مرشد کو خواب بتانا کیوں ضروری ہے۔ شیخ احمد نے فرمایا مرشد کو خواب اس لئے بتایا جاتا ہے کیونکہ مرید زیرِ تربیت ہے ۔ خواب کے تمثلات سے مرشد مرید کی روحانی صلاحیتوں اور طرزِ فکر اور ذہن کی گہرائی کو پہچان لیتا ہے۔ اس طرح تربیت میں آسانی ہو جاتی ہے۔خواب کے علوم روحانی علوم کا ایک حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خواب کے علوم یوسف علیہ السلام کو عطا فرمائے۔قرآن نے سورۂ یوسف میں سچے خوابوں کا تذکرہ کیا ہے۔ خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک سچے خواب ، یہ خواب روح کی انفارمیشن ہیں۔ روح کی نظر عالم ِ غیب میں دیکھتی ہے۔ جو کچھ دیکھتی ہے۔ اس کی اطلاع شعور کو دیتی ہے۔ شعور میں سکت نہ ہونے کی وجہ سے روح کی یہ اطلاعات ایک فلیش کی طرح گزر جاتی ہیں۔ یہ فلیش دماغ کے وہ خیالات ہیں جنھیں ہم واہمہ کہتے ہیں۔ ذہن انھیں فوراً بھلا دیتا ہے۔ یہ شعور میں ریکارڈ نہیں ہوتے۔ اگر روح کسی انفارمیشن کو شعور میں ریکارڈ کرانا چاہتی ہے۔ تو وہ اس انفارمیشن کو نیند کی حالت میں ذہن کے پردے پر منتقل کر دیتی ہے۔ ایسے تمام خواب سچے ہوتے ہیں۔جن میں روح کی جانب سے کوئی نہ کوئی اطلاع ہوتی ہے۔ چونکہ روح کی اطلاع غیب کی اطلاع ہے۔ غیب میں وقت کا تعین دنیاوی اعتبار سے مختلف ہے۔ جیسے نوری سال اور دنیاوی سال۔ ٹائم اینڈ اسپیس کا فرق ہونے کی وجہ سے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ غیب میں دیکھی ہوئی شئے کو دنیاوی اعتبار سے معنی پہنانا خواب کی تعبیر ہے۔ مگر یہ وہی بتا سکتا ہے جو خواب کی نیچر سے واقف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خواب کی تعبیر کے علوم پیغمبر کو عطا ہوئے۔تاکہ لوگ اس بات کو جان لیں کہ خواب زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں، اگر کوئی ایسا شخص جو خواب کی تعبیر نہ جانتا ہو۔ اس سے خواب کی تعبیر پوچھی جائے گی تو وہ اپنی عقل و شعور سے معنی پہنائے گا۔ جس کی وجہ سے جو اطلاع روح دیناچاہتی ہے، وہ اطلاع آدمی کو صحیح طور پر پہنچ نہیں سکے گی اور اطلاع دینے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ پھر اس اطلاع میں جو معنی پہنائے گئے اسی پر عمل بھی کیا جائے گا، تو عمل بھی غلط ہو جائے گا اور روح کا مدعا پورا نہ ہو گا، یہی وجہ ہے کہ خواب ہر کسی سے نہیں کہنا چاہیئے۔

                 دوسری قسم کے خواب ہماری عملی زندگی کا عکس ہوتے ہیں۔ شعور کی سطح مجلا ہے۔ جیسے آئینہ ہوتا ہے۔ جب دن میں آدمی عمل کرتا ہے۔ تو اس سطح پر ان اعمال کا عکس پڑتا رہتا ہے۔ کبھی نیند کی حالت میں یہ عکس نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ جسم مثالی کی نظر ان پرپڑ جاتی ہے۔ ایسے خواب ذہن کا عکس ہوتے ہیں۔ یہ خواب دن بھر کے اعمال کا ریکارڈ ہیں۔ میں نے کہا اگر کوئی آدمی بار بار ڈرائونے خواب دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ذہن خوفزدہ ہے یا اگر کوئی خواب ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھا جائے تو اس کا کیا مطلب ہو گا۔ شیخ احمد نے فوراً فرمایا۔ اگر تم کو تین مرتبہ کہوںکہ رک جائو۔ میں نے فوراً کہا۔ تو میں رک جائوں گا۔ بولے کیوں؟  میں نے کہا تین مرتبہ کہنے میں حکم پر اصرار ہے۔ کہنے لگے ایک سے زیادہ مرتبہ خواب کا دیکھنا بھی اس بات کی علامت ہے کہ روح اس اطلاع پر یا خواب کے تمثلات پر شعور کی توجہ دلانا چاہتی ہے۔ بار بار ڈرائونے خواب دیکھنے کا مطلب بھی یہی ہے۔ روح یہ اطلاع دینا چاہتی ہے کہ اپنے اندر سے خوف  و ہراس کو ختم کر دیا جائے۔

                ان ہی دنوں میں نے خواب دیکھا کہ نریما کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جا رہی ہے اور میں دور کھڑا نہایت ہی رنج کے ساتھ اس منظر کو دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اسے اپنے ذہن میں چھپے ہوئے اندیشے سے محمول کیا اور نظر انداز کر دیا۔ نریما کے متعلق میں نے پیر و مرشد سے کبھی ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے بھی یہ خواب بتا نہ سکا۔اتنا تو مجھے معلوم تھا کہ میرے متعلق سارے خاندان میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے مولوی ہو گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے پٹڑی سے اتر گیا ہے۔میں نے کبھی ان باتوں کا اثر نہیں لیا۔ میری دادی اماں کہا کرتی تھیں۔ بیٹا سنو سب کی ، کرو اپنی۔ انسان کی عقلِ سلیم آدمی کو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔ عقلِ سلیم پیدا کرو۔ میں معصومیت سے کہتا۔ کیا سلیم کی عقل بہت اچھی ہے دادی اماں۔ وہ ہنستیں مجھے چوم کر کہتیں۔ نہیں بیٹے میرے سلمان کی عقل سب سے اچھی ہے۔یہی تو عقلِ سیلم ہے۔ ان دنوں تو مجھے عقلِ سلیم کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا مگر آج معلوم ہو گیا۔

                شیخ احمد نے ایک مرتبہ فرمایا تھا۔ بیٹے انسان کے دماغ سے نور کی ایک رو گزرتی ہے۔ جب آدمی اس نور کو جذب کر لیتا ہے تو اس کے شعور کی سطح آئینے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور ذہن کے اوپر منعکس ہونے والے خیالات کا عکس صاف پڑتا ہے۔ اس صاف اور شفاف عکس کو شعور صحیح معنی پہناتا ہے ۔ دراصل معنی پہنانے والی قوت شعورکی سطح پر جذب شدہ نور ہے۔ ذہن کا یہی نور عقلِ سلیم ہے۔ جو ذہن کے پردے پر منعکس ہونے والے تصورات میں معنی پہناتا ہے۔ اسی کے لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ’’مومن کی فراست سے ڈرو۔ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا‘‘۔ ذہن کا یہی نور انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر منتقل کرتا ہے۔ میرے لئے سب سے اطمینان والی بات یہ تھی کہ پاپا میرے اس لائن میں آنے سے بے حد خوش تھے۔وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ آخر دادی اماں کا بیٹا ہے نا۔ انھیں کا اثر تو آئے گا۔ وہ دادی اماں کے متعلق اب اکثر ایسی باتیں بتا یا کرتے جو پہلے مجھے کسی نے نہیں بتائی تھیں۔

                ایک دن کہنے لگے۔ بیٹے جب تم چند ماہ کے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے۔ انڈیا سے تمہارے دادا  ابا  اور دادی  اماں کے بہت پرانے پڑوسی بمع فیملی آئے۔ وہ سب یہاں پر اپنی بیٹی کی شادی کے لئے آئے تھے۔ انھیں اس کی تیاری وغیرہ کے لئے اور تقریب کے لئے کچھ عرصہ ٹھہرنے کی ضرورت تھی۔ دادی اماں بہت خوش ہوئیں ۔ فوراً ان کے لئے اوپر کی منزل خالی کی گئی۔ وہ بہت اچھے اور عبادت گزار لوگ تھے۔ خصوصاً لڑکی کی والدہ جو دادی اماں کی بہت گہری دوست تھیں۔ تہجد گزار تھیں۔ ایک دن صبح صبح وہ نیچے آئیں اور تمہاری امی سے کہنے لگیں۔ اے بہو!  کیا رات کو صحن کے جنگلے میں تالا لگانا بھول گئی تھیں۔ میں رات کو تہجد کے لئے اُٹھی تو نیچے صحن میں تمہاری اماں کو کھڑے دیکھا۔ وہ صحن میں کھڑی جانے فضا میں کیا دیکھ رہی تھیں۔ میں تو پھر اپنی نماز میں لگ گئی۔ میں بھی وہیں کھڑا تھا۔ میں ایک دم بول پڑا۔ باجی صبح تو میں نے خود جنگلے کا دروازہ کھولا ہے۔ اس کے تالے کی چابی بھی ایک ہی ہے۔جو میں اپنی تکیے کے نیچے رکھ کر سوتا ہوں۔ میں تو رات کو اسے اچھی طرح خود سوتے وقت دیکھ کر سوتا ہوں۔ آپ کو دھوکا تو نہیں ہوا۔ وہ بولیں۔ اے لو میں تو کتنی دیر اوپر کھڑی انھیں دیکھتی رہی کہ اتنی رات کو کیا صحن میں تہجد پڑھ رہی ہیں مگر وہ تو بس فضا میں دیکھ رہی تھیں۔ میں اور تمہاری امی یہ سن کر اچنبھے میں پڑ گئے۔ ہم نے تمہاری دادی اماں سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ وہ بولیں بیٹے یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے اور بس پھر نہ انھوں نے کچھ بتانا ضروری سمجھا۔ نہ ہم کو کچھ پوچھنے کی ہمت پڑی۔


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء