Topics

‘‘خواب کا علم’’

سوال: عام طور پر جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو ٹکڑوں میں دیکھتے ہیں، کبھی کوئی سین(Scene) چل رہا ہوتا ہے تو کبھی کوئی۔

انسان خواب میں کیے ہوئے اعمال یا دیکھے گئے واقعات میں ترتیب کیوں قائم نہیں کر سکتا؟

جواب: جب حضرت یوسف علیہ السلام کو قید کیا گیا اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ دو نوجوان اور بھی قید خانہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا شاہی باورچی خانے کا داروغہ۔ ایک دوز یہ دونوں نوجوان حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ساقی نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں شراب بنانے کے لئے انگور نچوڑ رہا ہوں اور داروغہ نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیوں کا خوان رکھا ہوا ہے اور اس خوان میں سے پرندے روٹی کھا رہے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا۔ میرے رب نے جو علوم مجھے عطا فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک علم خواب کی تعبیر کا علم ہے اور تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جس نے یہ خواب دیکھا ہے کہ وہ شراب کے لئے انگور نچوڑ رہا ہے، بادشاہ اس کو آزاد کر کے اس کے عہدے پر بحال کر دے گا۔

جس نے روٹیوں والا خواب دیکھا ہے، اس کو پھانسی دے دی جائے گی اور اس کو پرندے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور یہ باتیں تمہارے لئے مقدر ہو چکی ہیں۔

توراۃ پیدائش باب ۴۰۔ آیت ۱

علم لدنی کے علوم میں ایک علم خواب ہے۔ جو خواب کی پوری پوری تشریح کرتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان خواب کیوں دیکھتا ہے۔ خواب کے اندر کئے ہوئے اعمال اور دیکھے ہوئے واقعات میں تخلیق کا کونسا قانون کام کر رہا ہے۔ آج کی نشست میں ہم اس کا اجمالی بیان کر رہے ہیں۔

لوح محفوظ کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کارفرمائی ہے، حال، مستقبل اور ازل سے ابد تک کا درمیانی وقفہ لفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ کا فرمایا ہوا لفظ ہے اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا اسم ہے۔ اسی اسم کی مختلف طرزوں سے نئی تخلیق وجود میں آتی رہتی ہے اور آتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا اسم ہی پوری کائنات کو کنٹرول کرتا ہے، لفظ یا اسم کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہر قسم کے اسم یا الفاظ کا ایک سردار ہوتا ہے اور وہی سردار اسم اپنی قسم کے تمام اسماء کو کنٹرول کرتا ہے، یہ سردار اسم بھی اللہ تعالیٰ کا اسم ہوتا ہے اور اسی کو اسم اعظم کہتے ہیں۔ الفاظ اسماء کی حیثیت روشنیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرز کی جتنی روشنیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی ان ہی روشنیوں سے مرکب ہوتا ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزاء ہوتے ہیں مثلاً انسان کے اندر کام کرنے والے تمام تقاضے اور پورے حواس کو قائم رکھنے والا اسم ان سب کا سردار ہوتا ہے اور یہی اسم اعظم کہلاتا ہے۔

نوع جنات کے لئے الگ اسم اعظم ہے۔ نوع انسان کے اوپر الگ اسم اعظم کی حکمرانی ہے، نوع نباتات کے لئے الگ، نوع جمادات کے لئے الگ اور نوع فرشتوں کے لئے ال اسم اعظم ہے۔ کسی نوع سے متعلق اسم اعظم جاننے والا صاحب علم اس نوع کی کامل طرزوں تقاضوں اور کیفیات کا علم رکھتا ہے۔

انسان کے اندر پورے تقاضوں اور جذبات کے ساتھ دو حواس کام کرتے ہیں، ایک طرح کے حواس خواب میں کام کرتے ہیں اور دوسری طرح کے حواس بیداری میں کام کرتے ہیں، ان دونوں حواسوں کو اگر ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو ان کی کیفیات کی تعداد گیارہ ہزار ہوتی ہے اور ان گیارہ ہزار کیفیات یا تقاضوں کے اوپر ایک اسم ہمیشہ غالب رہتا ہے، اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء کام کر رہے ہیں ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہے اور ان گیارہ ہزار اسماء کو جو اسم کنٹرول کر رہا ہے وہ اسم اعظم کہلاتا ہے۔ ان گیارہ ہزار اسماء میں سے ساڑھے پانچ ہزار اسماء بیداری میں کام کرتے ہیں اور ساڑھے پانچ ہزار خواب میں کام کرتے ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان کے اندر کام کرنے والا ہر اسم کسی دوسری نوع کے لئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا ہے۔ تکوین یا اللہ تعالیٰ کے ایڈمنسٹریشن کو چلانے والے حضرات یا صاحب خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان اسماء کا علم رکھتے ہیں۔

اسم ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کامل طرزوں کے ساتھ اپنے اندر تخلیقی قدریں رکھتی ہے۔ تخلیق میں کام کرنے والا سب کا سب قانون اللہ کا نور ہے۔

(اللہ نور السموات والارض)

اور یہی اللہ کا نور لہروں کی شکل میں نباتات، جمادات، حیوانات، انسان، جنات اور فرشتوں میں زندگی اور زندگی کی پوری تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہ فیضان جاری ہے کہ کائنات میں ہر فرد نور کی ان لہروں کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ نتھی اور بندھا ہوا ہے۔

کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں، نور کی یہ لہریں ایک مرحلہ میں روشنی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ روشنی کی یہ چھوٹی بڑی لہریں ہم تک بے شمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں، ہم اپنے تصویر خانوں کا نام واہمہ، خیال، تصور اور تفکر رکھ دیتے ہیں۔

انسان صرف اس زمین پر ہی آباد نہیں ہے اور بھی بے شمار سیاروں میں انسانوں کی آبادیاں ہیں۔ ان کی زندگی کی طرزیں گو مختلف ہیں لیکن تقاضے سب کے یکساں ہیں۔ جس طرح زمین پر آباد انسان کے اندر بیداری اور خواب کے حواس کام کرتے ہیں، بالکل اسی طرح دوسرے لاکھوں سیاروں میں آباد انسان اور ان کی نوع میں بھی بیداری اور خواب کے حواس میں کام کرتے ہیں۔

خواب کے حواس ہوں یا بیداری کے حواس ہوں، دونوں کے تقاضے یکساں ہوتے ہیں، بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ بیداری میں حواس زمان و مکان کے پابند ہوتے ہیں، لیکن خواب میں زمانیت اور مکانیت کی حد بندی انسان پر اپنا تسلط نہیں رکھتی۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان خواب میں کیے ہوئے اعمال یا دیکھے ہوئے واقعات میں ترتیب قائم نہیں رکھ سکتا، کیونکہ اسے بیداری میں ایسے حواس میں زندگی گزارنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

****





 

Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے