Topics
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔۔۔۔۔۔تمہارا یہ شوق درست نہیں۔۔۔۔۔۔اس چکر میں
نہ پڑو ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔۔۔۔۔۔
وہ شخص مسلسل اصرار کرتا رہا اور بضد ہو گیا۔۔۔۔۔۔کہنے لگا۔۔۔۔۔۔اس میں آپؑ کا کیا
نقصان ہے۔۔۔۔۔۔آپؑ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم اور
اختیارات عطا کئے ہیں۔۔۔۔۔۔آپؑ میری عرض قبول فرمائیں گے تو آپؑ کے ان خزانوں میں
کیا کمی آ جائے گی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کر رکھے ہیں!۔۔۔۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے اس کی ضد کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مرضی معلوم کی اور عرض
کیا۔۔۔۔۔۔مولا! تیرا بندہ اپنی بات پر اڑا ہوا ہے تو اس معاملہ میں کیا چاہتا
ہے؟۔۔۔۔۔۔
حکم الٰہی ہوا۔۔۔۔۔۔جب یہ شخص تمہارے سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا تو اسے حیوانات
کی زبان سمجھنے کا علم سکھا دو۔۔۔۔۔۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم الٰہی کی تعمیل کی اور وہ شخص حیوانات کی
گفتگو کو سمجھنے لگا۔
اس
نے اپنے گھر میں مرغیاں، گائے، بیل، گھوڑے اور ایک کتا پال رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ایک دن
اس کی خادمہ نے دستر خوان جھاڑا تو اس میں سے روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرا۔۔۔۔۔۔جسے
کھانے کے لئے ایک مرغا اور کتا دونوں ساتھ ساتھ لپکے۔۔۔۔۔۔روٹی کا ٹکڑا مرغے کے
ہاتھ لگا اور وہ اپنی چونچ میں دبا کر ایک طرف بھاگا۔۔۔۔۔۔کتا اس کے پیچھے پیچھے
تھا۔۔۔۔۔۔
اس شخص نے سنا۔۔۔۔۔۔کتا مرغے سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ارے ظالم! میں کب سے بھوکا
ہوں۔۔۔۔۔۔روٹی کا یہ ٹکڑا مجھے کھانے دے۔۔۔۔۔۔تیری خوراک تو دانہ دنکا ہے۔۔۔۔۔۔تو
میرے حصے پر کیوں ہاتھ صاف کر رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔
مرغا بولا۔۔۔۔۔۔گھبراؤ نہیں کل ہمارے مالک کا بیل مر جائے گا کل تم جتنا چاہو اس
کا گوشت کھا لینا۔۔۔۔۔۔
اس شخص نے مرغے کی زبانی جو یہ سنا تو فوراً اپنے بیل کو فروخت کر دیا۔۔۔۔۔۔جس نے
وہ بیل خریدا، اسے نقصان بھگتنا پڑا، اس لئے کہ اگلے ہی روز بیل مر گیا۔۔۔۔۔۔دوسرے
دن اس شخص نے سنا۔۔۔۔۔۔کتا مرغے سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔تم تو بڑے ہی جھوٹے ہو! بتاؤ
کہاں ہے وہ بیل جس کے گوشت کا تم نے مجھے لالچ دیا تھا؟۔۔۔۔۔۔مرغا بولا۔۔۔۔۔۔میں
جھوٹا نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ہمارے مالک نے نقصان سے بچنے کے لئے بیل بیچ دیا اور اپنی
مصیبت دوسروں کے سر ڈال دی ہے۔۔۔۔۔۔مگر بھائی مایوس مت ہو! کل ہمارے مالک کا گھوڑا
مر جائے گا اس کا گوشت جی بھر کے کھا لینا۔۔۔۔۔۔اس شخص نے یہ سنتے ہی گھوڑا بھی
بیچ دیا۔۔۔۔۔۔اگلے روز اس نے کتے اور مرغے کی طرف توجہ دی تو سنا کہ کتا مرغے سے
شکایت کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔مرغا بولا۔۔۔۔۔۔کیا بتاؤں بھائی! ہمارا مالک بڑا ہی بے وقوف
ہے۔۔۔۔۔۔اپنے اوپر آئی مصیبت دوسروں کے سر ڈال رہا ہے۔۔۔۔۔۔بیل اور گھوڑا اگر اس
کے گھر مرتے تو اس کی جان کا صدقہ بن جاتے۔۔۔۔۔۔مگر اس نے دونوں کو بیچ کر اپنی
جان پر آفت مول لے لی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن سنو اور یقین کر لو کہ کل ہمارا مالک خود ہی مر
جائے گا، اس کے مرنے کے بعد جو کھانے پکیں گے اس میں سے تمہیں بھی بہت کچھ مل جائے
گا۔۔۔۔۔۔اس شخص نے جب یہ سنا تو اس کے ہوش ہی اڑ گئے۔۔۔۔۔۔اس کی سمجھ میں نہ آیا
کہ کیا کرے۔۔۔۔۔۔چار و ناچار دوڑتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا
اور بولا۔۔۔۔۔۔
حضرت! میری غلطی معاف فرمایئے اور مجھے موت سے بچا لیجئے۔۔۔۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ
السلام۔۔۔۔۔۔نادان! اب یہ بات بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔۔آئی قضا ٹل نہ سکے گی۔۔۔۔۔۔تجھے جو
بات اب معلوم ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے تو اسی دن نظر آ رہی تھی جب تو جانوروں کی بولیاں
سیکھنے کے لئے بضد تھا۔۔۔۔۔۔اور دوسرے روز وہ شخص مر گیا۔۔۔۔۔۔یہ قصہ مولانا رومؒ
نے اپنی مثنوی شریف میں بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔اس قصہ میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ آدمی
کتنا ہی بااختیار اور صاحب علم کیوں نہ ہو جائے، مشیت کا پابند ہے۔۔۔۔۔۔حضرت قلندر
بابا اولیاءؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگ نادان ہیں! کہتے ہیں کہ ہماری گرفت حالات کے
اوپر ہے انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں رد و بدل کر سکتا
ہے!۔۔۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں ہے!۔۔۔۔۔۔
انسان ایک کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔حالات جس قسم کی چابی اس کے اندر بھر دیتے ہیں اسی طرح
یہ کودنا اور ناچنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات کے
اوپر انسان کی دسترس ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا، کوئی آدمی بیمار نہ پڑتا،
کوئی آدمی بوڑھا نہیں ہوتا اور کوئی آدمی موت کے منہ میں نہ جاتا۔۔۔۔۔۔تاریخ کے
صفحات گواہ ہیں کہ ایسے لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت اور سلطنت کے بل
بوتے پر خدائی کا دعویٰ کیا، موت کے پنجے نے ان کی گردن مروڑ دی۔۔۔۔۔۔شداد، نمرود
اور فرعون کی مثالیں ایسی نہیں ہیں کہ جن کو ہم محض کہانی کہہ کر گزر
جائیں۔۔۔۔۔۔اس قسم کے واقعات تو ہر روز پیش آتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔بات صرف اتنی ہے کہ ہم
ان پر غور نہیں کرتے اور ان سب باتوں کو اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔جبکہ
کائنات میں اتفاق یا حادثہ کا دخل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کا نظام (System) اس قدر مربوط ہے کہ ہر نظام کی دوسرے نظام (System) کے ساتھ گہری وابستگی ہے، اللہ تعالیٰ کے نظام میں نہ کہیں اتفاق
ہے، نہ کہیں حادثہ اور نہ کوئی مجبوری ہے۔
جب کسی بندے کے اندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ اس دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی حرکت
اور بڑی سے بڑی شئے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے ذہن
میں یقین کا ایک مستقل Patternبن
جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اس پیٹرن کو جب تحریکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے
ہیں تو ان واقعات کی کڑیاں اس قدر مضبوط، مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ آدمی یہ
سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔کائنات پر حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ
ہے!۔۔۔۔۔۔