Topics
ہر انسان جو اس وقت دنیا میں ہے، آئندہ رہے گا اور دنیا میں آنے سے پہلے کہیں
موجود ہے، اس کی زندگی کا دارومدار حرکت پر ہے اور یہ حرکت ایسی ماورائی حرکت کے
تابع ہے۔۔۔۔۔۔انسان برادری جس کو خیال کے نام سے جانتی ہے۔زندگی اور زندگی میں
حرکت کو زمان اور مکان کہا جاتا ہے۔ کروڑوں سال گزر گئے ہیں لیکن زمان اور مکان کی
حقیقت پر سے پردہ نہیں اٹھ سکا۔ البتہ روحانی علوم قابل قبول تشریح پیش کرتے ہیں۔
کوئی
انسان اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ مخلوق نہیں ہے جب وہ مخلوق ہے تو اس کا
پیدا کرنے والا خالق بھی ہے۔
مخلوق کا ثانی ہوتا ہے۔ مخلوق وسائل کی محتاج ہے (وسائل میں والدین، خاندان اور
دیگر عوامل شامل ہیں) مخلوق میں درجہ بندی ہوتی ہے، مخلوق میں مختلف شباہتیں ہوتی
ہیں، مخلوق بدصورتی یا خوبصورتی کا عکس ہوتی ہے۔ مخلوق بڑھتی گھٹتی رہتی ہے۔ مخلوق
کا مطلب ہی تغیر ہے۔
تغیر
کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔تغیر وہ قدریں ہیں جو مخلوق کو پابند رکھتی ہیں۔ ہر آن اور ہر لمحہ
تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے کہ تغیر اور تبدیلی کے پیچھے کوئی طاقت ہے جس میں تغیر
اور تبدیلی نہیں ہے۔
ایک
آدمی پشاور سے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے عرس مبارک کی مرکزی تقریب میں شرکت کے
لئے کراچی مرکزی مراقبہ ہال آتا ہے۔ پشاور سے کراچی تک آنے میں اسے دو حالتوں سے
گزرنا پڑا۔ ایک حالت یہ ہے کہ وہ پیدل چل رہا ہے، دوسری حالت یہ ہے کہ وہ راستے پر
چل رہا ہے۔ راستہ اور راستے میں چلنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ پشاور سے
کراچی کے لئے روانہ ہوا۔ جو آدمی روانہ ہوا وہ مسافر ہے۔ پشاور سے کراچی تک آنے کے
لئے مسافر نے میلوں میل سفر کیا۔ پشاور سے کراچی کا فاصلہ 1685کلومیٹر ہے۔ چلنے
والے مسافر میں تغیر ہو رہا ہے۔ راستہ میں کوئی تغیر نہیں ہوا۔ مسافر اگر روزانہ
آٹھ گھنٹے پیدل چلے تو 44دن میں کراچی پہنچے گا۔
ہر انسان کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ پیدائش کے بعد ہر دوسرے منٹ میں تغیر ہو
جاتا ہے۔ یہی تغیر اسے گہوارے میں سے نکال کر زمین پر گھٹنوں کے بل چلاتا
ہے۔۔۔۔۔۔اس ہی تغیر سے وہ سہارے کے بغیر۔۔۔۔۔۔چل پڑتا ہے اور تغیر ہی اسے جوان کر
کے بوڑھا کر دیتا ہے۔ لیکن آج کے دن پیدا ہونیوالا بچہ جس بساط پر ۸۰ سال کا بوڑھا ہو گیا ہے
وہ زمانہ غیر متغیر ہے۔
بڑھنے اور گھٹنے کے عمل میں بڑھنا اور گھٹنا حرکت ہے۔ حرکت کے دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ
میں تغیر نہیں ہے اور دوسرے رُخ میں تغیر ہے۔ جہاں تغیر ہے۔ مکان ہے اور جہاں تغیر
نہیں ہے۔ زمان ہے۔
زمان
اگر سمجھ میں آ جائے تو مخلوقیت کی قدریں بھی منکشف ہو جاتی ہیں۔مسافر مکان اور
راستہ زمان ہے۔ مسافر یعنی مکان راستے کے بغیر خود کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ مسافر
راستے سے کتنا ہی غافل رہے کتنا ہی راستے سے لاتعلق ہو جائے۔۔۔۔۔۔مسافر اور راستے
میں اکائی سے بھی کم فاصلہ ہو، تب بھی مسافر راستے سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا۔
راستہ مسافر کی تخلیق نہیں ہے۔ مسافر راستہ کی تخلیق ہے۔ مسافر کی حرکات و سکنات،
کردار، زندگی کی تمام طرزیں زمانیت کی حدود سے باہر نہیں جا سکتیں۔ وہ ہر حال میں
زمان کا پابند ہے۔
مزید گہرائی میں تفکر کیا جائے تو ہم کہیں گے کہ۔۔۔۔۔۔
انسانی
زندگی میں راستہ لاشعور ہے اور مسافر شعور ہے۔ اگر کسی شخص کا انہماک شعور میں
زیادہ ہے تو اس کی توجہ لاشعور میں کم سے کم ہو جائے گی۔ اس لئے کہ مسافر راستے پر
کم سے کم چلا ہے۔ اگر مسافر کی توجہ زندگی کے محدود اور متغیر اعمال میں کم ہو
جائے گی تو شعور کے عمل کی مقدار کم ہو جائے گی۔ اور مسافر راستے کے پیچ و خم اور
راستے کے تعینات سے زیادہ زیادہ واقف ہو جائے گا۔
مکان انسان کا ظاہر ہے اور زمان انسان کا باطن ہے۔ انسان اور اس کی پوری ظاہری
زندگی۔۔۔۔۔۔باطن سے منتقل ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔باہر کچھ نہیں ہے۔ سب اندر ہے۔۔۔۔۔۔انسان
سر سے پیر تک قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ اس کے سر پر بال ہوتے ہیں۔ بال اندر سے نمو
پاتے ہیں۔ دماغ جس پر ساری اطلاعات کا دارومدار ہے۔ اندر ہے۔ دل جو دوران خون کو
جاری رکھتا ہے اور جس میں لاکھوں رگیں ہوتی ہیں۔ اندر ہے۔ علی
ہذاالقیاس۔۔۔۔۔۔جسمانی مشینری کے تمام کل پرزے، پھیپھڑے، گردے، تلی، آنتیں، معدہ،
کان کی سماعت، زبان کا نطق سب اِنر میں ہے۔
انسان
کے اندر کا نظام زمان ہے اور انسان کے باہر کا نظام مکان ہے۔ جب تک اندر Innerسے
رشتہ استوار رہتا ہے، زندگی اور زندگی کے تقاضے برقرار رہتے ہیں اور جب اندرونی
نظام سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ ’’زمان‘‘ اللہ تعالیٰ
ہے۔۔۔۔۔۔’’مکان‘‘ کائنات ہے۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں
تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔
(سورۃ
ق۔ آیت 16)
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’جس
نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا۔‘‘
نفس
اس حقیقت کا نام ہے جو مادی آنکھ سے نظر نہیں آتی اور اس میں تغیر نہیں ہوتا۔
حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظاہر انسان مکان ہے اور مکان
محدود اور تغیر پذیر ہوتا ہے۔اصل انسان زمان ہے، زمان میں تغیر نہیں ہوتا ہے۔
چونکہ زمان میں تغیر نہیں ہوتا ہے اس لئے زمان میں سفر کرنے والا مسافر خوف و غم،
اضطراب اور پریشانی سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ بے سکون نہیں ہوتا۔
زمان
سے واقف خواتین و حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ زمان سے واقف ہوئے بغیر کوئی
بندہ عارف ذات نہیں ہو سکتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
’’زمانہ
کو برا نہ کہو زمانہ اللہ ہے‘‘۔(موطا امام مالک، جلد اول۔ حدیث2355)
سورۃ
الحدید میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کے بارے میں تفصیلات بیان کی ہیں:
’’اللہ
تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ زبردست
حکمت والا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی، وہی حیات دیتا ہے وہی موت
دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی پہلے وہی پیچھے اور وہی ظاہر اور وحی مخفی
ہے۔ اور ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ وہ ایسا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ
روز میں پیدا کیا، پھر تخت پر قائم ہوا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر
داخل ہوتی ہے اور جو چیز اس سے نکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز
اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے خواہ تم لوگ کہیں بھی ہو اور وہ
تمہارے سب اعمال کو بھی دیکھتا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور
اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سب امور لوٹ جائیں گے‘‘۔(سورۃ الحدید۔ آیت 1-5)
بتاریخ
۲۷ جنوری جس پاک ہستی کو
خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے دنیا بھر سے زائرین حاضر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ برگذیدہ ہستی
کہاں ہے؟
غیب
کے عالم میں محوِ استراحت ہے۔ غیب کی دنیا باطن کی دنیا ہے اور باطن زمان ہے۔ مادی
وسائل کا محتاج انسان اس ہستی کو ڈھونڈنے نکلا ہے جس نے نوع انسانی کو زمان اور
مکان Time & Spaceکی
حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔
اللہ
تعالیٰ ہماری جدوجہد کو کامیاب کرے اور ہمیں رفیق ہمدم کی آغوش نصیب
فرمائے۔۔۔۔۔۔آمین