Topics
سب
تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں، جس نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ وسلم) کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔
جب
کائنات کا وجود نہیں تھا، اللہ وحدہٗ لا شریک کی ہستی موجود تھی۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ
نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔۔۔۔۔۔پہچان اور تعارف کیلئے ضروری ہے کہ کوئی پہچاننے
والا ہو۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی اور اپنی منشاء سے تخلیقی پروگرام
بنایا۔۔۔۔۔۔تخلیقی عوامل میں تین عوامل کائنات کی بنیاد ہیں۔
۱۔ ملائکہ
۲۔ جنات
۳۔ آدم
فرشتوں
کے گروہ بنائے۔
<=
ملاء اعلیٰ
<=
ملائکہ سماوی
<=
ملائکہ عنصری
ان
تین گروہ کے الگ الگ تین مقامات کا تعین ہوا۔
ملاء
اعلیٰ کا مقام۔۔۔۔۔۔بیت المعمور یا حضیرۃ القدس ہے۔
ملائکہ
سماوی کا مقام۔۔۔۔۔۔سمٰوٰات
ملائکہ
عنصری کا مقام۔۔۔۔۔۔زمین ان تینوں گروہوں
کو فرائض سونپے گئے۔۔۔۔۔۔لیکن ڈیوٹی پوری کرنے میں کوئی اختیار نہیں دیا
گیا۔۔۔۔۔۔جو حکم مل جائے اسے ذرہ برابر فرق کئے بغیر پورا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔
جنات!۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کروڑوں دنیائیں یا زمین بنائی ہیں۔۔۔۔۔۔ہر زمین پر جنات
کا وجود ہے۔۔۔۔۔۔لیکن یہ وجود زمین کی سطح پر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔کرۂ زمین کے خلا میں
واقع ہے۔۔۔۔۔۔یہ مخلوق بھی عناصر اربعہ سے تخلیق کی گئی ہے لیکن اس مخلوق کی تخلیق
میں ’’نار‘‘ کا عنصر غالب ہے۔۔۔۔۔۔اور اس مخلوق کو نیکی یا بدی کے انتخاب کا
اختیار دیا گیا ہے۔
تیسری
مخلوق آدم!۔۔۔۔۔۔
اللہ
تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق آدم کا پہلا مقام جنت تھا۔۔۔۔۔۔جنت کے ماحول میں جنت کے
پُرفضا اور باغِ خلد میں رہنے کیلئے آدم سے کہا گیا کہ یہاں خوش ہو کر رہنا
ہے۔۔۔۔۔۔اس درخت کے قریب نہیں جانا۔۔۔۔۔۔اور اگر نافرمانی سہواً بھی ہو گی تو جنت
سے نکال دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔جنت سے نکلنے کے بعد آدم دنیا میں آ گیا اور جنات کی طرح
کروڑوں دنیاؤں میں آباد ہے۔۔۔۔۔۔اس مخلوق کو بھی اچھائی اور برائی کے تصور سے
آراستہ کیا گیا ہے یعنی نیک و بداعمال کا اختیار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔یہ مخلوق بھی
عناصر اربعہ سے تخلیق کی گئی ہے لیکن آدم کی تخلیق میں مٹی کا عنصر غالب
ہے۔۔۔۔۔۔جس طرح ابوالبشر آدم آدمیوں کا باپ ہے!۔۔۔۔۔۔اور ام البشر حوا آدمیوں کی
ماں ہے۔۔۔۔۔۔اسی طرح ابوالجن طارہ نوس جنات کی نسل کا باپ ہے اور اُم الاجنہ جنات
کی قبیلوں کی ماں ہے۔۔۔۔۔۔
*****
بیت
المعمور سے اوپر اور بھی مقامات ہیں۔۔۔۔۔سب سے اعلیٰ مقام پر اللہ تعالیٰ کی
تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔
یہ تجلیات مشیت الٰہی ہیں!۔۔۔۔۔۔تخلیق کا ہر پروگرام مشیت کے تابع ہے۔۔۔۔۔ہر گھر
میں بجلی جلتی ہے۔۔۔۔۔قمقمے روشن ہوتے ہیں۔۔۔۔۔پنکھے ہوا پھینکتے ہیں۔۔۔۔۔ACسے
ٹھنڈی لہریں اور ہیٹر سے گرم لہروں کا اخراج ہوتا ہے۔۔۔۔۔
بجلی کا سسٹم کچھ اس طرح ہے۔۔۔۔۔ڈیم میں پانی جمع ہوتا ہے۔۔۔۔۔وہاں سے بڑی بڑی
سرنگوں کے ذریعے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔جہاں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے وہاں
ٹربائن لگے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔پانی کی تیز دھار سے ٹربائن کا پہیہ گھومتا ہے۔۔۔۔۔ پہیے
کی تیز رفتاری سے ہیٹ پیدا ہوتی ہے جس کو میگنٹ بجلی میں تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔۔۔ڈیم
سے جب بجلی نکلتی ہے تو اس کا وولٹیج چھبیس ہزار وولٹ تک ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔اسے مختلف
پراسس سے گزار کر 220وولٹ تک کم کر دیا جاتا ہے۔ جس سے گھر میں لگے بجلی کے قمقمے
روشن ہو جاتے ہیں۔
اگر
اس کرنٹ کے فلو اور کرنٹ کے وولٹیج کو کم نہ کیا جائے تو کسی گھر میں کوئی قمقمہ
روشن نہیں ہو گا۔۔۔۔۔اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کا ACٹھنڈی
لہریں باہر نہیں پھینکے گا۔۔۔۔۔اس طرح کوئی ہیٹر کمرے کو گرم نہیں کر سکے گا۔
****
’’تجلیات کا نزول!‘‘۔۔۔
حقیقت میں اللہ وحدہٗ لا شریک کے ذہن کی روشنیاں ہیں۔۔۔۔۔۔یہ روشنیاں کائنات میں
کوئی مخلوق کسی بھی طرح برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ کسی مخلوق میں براہ
راست روشنیوں کو قبول کرنے کی سکت اور طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے ان روشنیوں یا تجلیات کی ناقابل برداشت توانائی کو ہلکا کرنے
کیلئے۔۔۔۔۔۔مقام محمود کا تعین کیا۔۔۔۔۔۔
اور مقام محمود میں اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے اور تخلیقات
کے درمیان میڈیم بنایا۔۔۔۔۔۔اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح
بیان فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔
اول ماخلق اللہ نوری
’’اللہ تعالیٰ نے سب سے
پہلے میرا نور تخلیق کیا‘‘
مشیت
الٰہی کا پورا پروگرام تجلیات کے نزول کی صورت میں نشر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔اور تجلیات کا
پہلا نزول سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ اقدس پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ذاتِ
اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے زہن پہ
تخلیقی پر وگرام جب نکی پُر نور ہستی سے نور کی لہریں نکل کر حضیرۃ القدس میں آتی
ہیں۔۔۔۔۔۔اور حضیرۃ القدس میں ملاء اعلیٰ پر نزول کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ملاء اعلیٰ اعلان
کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے!۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں!۔۔۔۔۔۔اللہ
تعالیٰ ان امور کو پسند فرماتے ہیں!۔۔۔۔۔۔اور ان امور کو ناپسند کرتے ہیں!۔۔۔۔۔۔
ملاء
اعلیٰ کا یہ اعلان لہروں کی صورت میں ملائکہ سماوی کے ذہنوں پر منکشف ہوتا
ہے۔۔۔۔۔۔ملائکہ سماوی اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں!۔۔۔۔۔۔ان امور
کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں اور ان اعمال و افعال کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے
ہیں!۔۔۔۔۔۔
ملائکہ سماوی کا یہ اعلان ملائکہ عنصری کے ذہنوں پر نزول کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ملائکہ
عنصری بھی یہ اعلان دہراتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ملائکہ عنصری کے اعلان کا دہرانا۔۔۔۔۔۔تصوف یا روحانیت میں Inspirationکہلاتا
ہے۔ یعنی وہ نوع انسانی اور نوع اجنہ کو انسپائر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ترغیب دیتے
ہیں۔۔۔۔۔۔اچھائی اور برائی کے تصور کے ساتھ دونوں نوعوں کو متوجہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ
مسلسل اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ نوع انسانی اور نوع اجنہ اچھے اعمال کو اپنائے
اور بُرے اعمال سے اجتناب کرے۔۔۔۔۔۔وہ بار بار تنبیہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔بار بار ترغیب
دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ذرہ برابر نیکی تولی جاتی ہے اورذرہ برابر برائی تولی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
جبرئیل
امینؑ اللہ کے دوست محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی لے کر آئے۔۔۔۔۔۔’’جب
ہلا ڈالے زمین کو اس کے بھونچال سے اور نکال باہر کرے زمین اپنے اندر سے بوجھ اور
کہے آدمی اس کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔۔اس دن کہہ ڈالے گی وہ اپنی باتیں اس واسطے کہ تیرے
رب نے حکم بھیجا اس کو، اس دن بول پڑیں گے لوگ طرح طرح پر کہ ان کو دکھا دیئے
جائیں گے ان کے عمل۔۔۔۔۔۔سو جس نے کی ذرہ برابر بھلائی وہ دیکھ لے گا اسے اور جس
نے ذرہ بھر برائی کی وہ دیکھ لے گا اُسے۔۔۔۔۔۔‘‘(سورۃ الزلزال)
اللہ
تعالیٰ ساری زمین کو ایک نہایت سخت اور ہولناک زلزلے سے ہلا ڈالے گا۔۔۔۔۔۔اس روز
کوئی عمارت کوئی پہاڑ یا درخت زمین پر نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔
زمین
میں جو کچھ ہے۔۔۔۔۔۔زمین اسے اُگل دے گی۔۔۔۔۔۔آدم زاد نے جو کام کئے تھے اس کی
اچھائی اور برائی اس کے اوپر آشکار ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں
فرمایا ہے:
’’اور
تم کیا سمجھے کیا ہے سجّین۔۔۔۔۔۔ایک دفتر ہے لکھا ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘
(سورۃ المطففین۔ آیت 8-9)
’’اور
علیین۔۔۔۔۔۔ایک دفتر ہے لکھا ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘
(سورۃ
المطففین۔ آیت 19-20)
انسان
دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔سانس لیتا ہے۔۔۔۔۔۔پلک جھپکتا ہے۔۔۔۔۔۔کوئی بات
کرتا ہے۔۔۔۔۔۔کسی کو دُکھ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔دل آزاری کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق
کو آرام پہنچاتا ہے۔۔۔۔۔۔جو کچھ اللہ تعالی نے اس کو دیا ہے اس میں سے خلوصِ دل کے
ساتھ خیرات کرتا ہے۔۔۔۔۔۔نماز پڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔روزہ رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔حج کرتا ہے یا وہ
اعمال کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔یہ سب امور ریکارڈ ہو رہے
ہیں۔۔۔۔۔۔موجودہ سائنسی دور میں اس کی مثال وڈیو فلم ہے۔۔۔۔۔۔یعنی مکلف مخلوق
انسان یا مکلف مخلوق جنات جو بھی عمل کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اچھا یا بُرا۔۔۔۔۔۔ان اعمال کی
جزا یا سزا کے ساتھ فلم بن رہی ہے۔۔۔۔۔۔اور اس عالم کے بعد جب دونوں مخلوق کے
افراد دوسرے عالم میں جائیں گے، انہیں ان کی وڈیو فلم دکھائی جائے گی اگر یہ فلم
اعمال کی جزا کے ساتھ ہے تو وہ خوش ہوں گے اور اگر یہ فلم اعمال کی سزا کے ساتھ ہے
وہ ناخوش ہوں گے۔۔۔۔۔۔روئیں گے چلائیں گے۔۔۔۔۔۔اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہو
گا۔۔۔۔۔۔
اللہ
تعالیٰ نے اپنے لئے فرمایا ہے:
’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے‘‘
(سورۃ الفاتحہ۔ آیت 1)
اور
اپنے محبوب بندے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا:
’’اور ہم نے تجھے عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
(سورۃ الانبیاء۔ آیت 108)
اللہ
تعالیٰ بحیثیت خالق کے رب العالمین ہیں۔
یعنی
ہماری دنیا کی طرح کروڑوں دنیاؤں میں بسنے والی مخلوق۔۔۔۔۔۔جن و انس، حیوانات،
نباتات، جمادات۔۔۔۔۔۔سب کیلئے آسمان سے رزق اتارتے ہیں۔۔۔۔۔۔رزق سے مراد بچپن،
جوانی اور بڑھاپے کے تقاضوں کے مطابق وسائل ہیں۔
ہر مخلوق کی مختلف طبیعتوں اور ضرورت کے مطابق وسائل پیدا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اللہ
تعالیٰ بحیثیت ذات ان تمام اوصاف سے ماوراء ہیں جو مخلوق میں ہیں۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ
یکتا ہیں۔۔۔۔۔۔جبکہ مخلوق ایک نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کو کسی بھی شئے کی
احتیاج نہیں۔۔۔۔۔۔جبکہ مخلوق کی تعریف ہی یہ ہے کہ مخلوق محتاج ہے۔۔۔۔۔۔اللہ
تعالیٰ کسی کے باپ نہیں۔۔۔۔۔۔کسی کی اولاد نہیں اور اللہ تعالیٰ کا کوئی خاندان
نہیں۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور مشیت کے تحت وسائل سے مخلوق کو فائدہ
پہنچانے کیلئے اپنے خاص محبوب بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تخلیق
کیا۔۔۔۔۔۔ایسی تخلیق! جو مخلوق کی ضروریات کا ادراک رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔تا کہ وسائل کی
تقسیم میں مخلوق محروم نہ رہے۔۔۔۔۔۔اور یہ ذات اقدس اور اللہ تعالیٰ کا نور حضرت
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔۔۔۔۔۔اسفل السافلین کے مادی شعور میں احسن
تقویم کی یاددہانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع کیا۔۔۔۔۔۔جن
کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔قانون تخلیق کے تحت رسول اللہﷺ
کی تخلیق سب سے پہلی تخلیق ہے۔۔۔۔۔۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا:
’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘
یہی
وجہ ہے کہ پیغمبروں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی
ہے۔۔۔۔۔۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے بعد نبوت کا مقصد پورا ہو گیا ہے
اور دین کی تکمیل ہو گئی۔۔۔۔۔۔اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب تمہارے پاس آ چکی ہے‘‘(سورۃ
المائدہ۔ آیت 15)
’’جو کوئی بھی اس کی راہ میں کوشش اور جدوجہد کرے گا اللہ ضرور اسے
اپنا راستہ دکھا دے گا‘‘۔
(سورۃ العنکبوت۔ آیت 69)
’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا
جو ان کو اللہ تعالیٰ کی آیات کھول کر بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں
اور کتاب و حکمت کا علم سکھاتے ہیں ورنہ اس سے قبل تو وہ کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
(سورۃ الجمعہ۔ آیت 2)
’’آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم
پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔ آیت 3)