Topics
مشرق میں عباسیوں کی خلافت مادی اور سیاسی
اقتدار کھو چکی تھی اور بغداد کے خلیفہ کی حیثیت ایک یادگار یا تبرک سے زیادہ نہ
رہی تھی۔ مسلمانوں پر زر و جواہر کے حصول کا غلبہ تھا۔ مسلمان جب دعوت کرتے تھے تو
ایک ایک دعوت میں نمود و نمائش کے لئے ہزاروں من شکر خرچ کر دیتے تھے۔ جہاں دعوت
ہوتی تھی اس میدان یا جگہ کو مجسموں سے سجایا جاتا تھا۔ شکر کو صاف کر کے شیشے کی
طرح جماتے تھے اور اس شکر سے بنے ہوئے ٹکڑوں سے شیر، گیدڑ کے مجسمے اور پرندوں کی
تصویریں دعوت گاہ کی دیواروں پر مزین کی جاتی تھیں۔ دستر خوان پر طلائی اور نقرئی
ظروف میں کھانے چنے جاتے تھے۔ شہر سے باہر جس میدان میں دعوت کا اہتمام ہوتا تھا
وہاں دیبا و حریر کے خیمے لگائے جاتے تھے۔ دسترخوان پر مشک و عنبر کی بنائی ہوئی
خوبصورت خوبصورت چڑیاں رکھی جاتی تھیں۔
حکومت کے وزراء اور امرا کی بیویاں اپنی اپنی پالکیوں میں شمع برداروں اور سواروں
کے جلوس میں ایک گھر سے دوسرے گھر جاتی تھیں۔ شادی ہوتی تھی تو دلہن کی ڈولی پر
زرنگار پردہ پڑا ہوتا تھا جس میں نہایت قیمتی قسم قسم کے جواہرات ٹکے ہوئے ہوتے تھے۔
زرق برق لباس میں ملبوس ترکی قلماقیس گھوڑوں پر سوار ڈولی کے آگے پیچھے اور دائیں
بائیں چلتے تھے۔ جہیز کا سامان سجے بنے ہوئے اونٹ اور خچروں پر جاتا تھا۔ اونٹوں
کی گردن میں سونے کی گھنٹیاں اور خچروں کی گردن میں چاندی کی گھنٹیاں بجتی تھیں۔
اونٹوں اور خچروں پر چاندی سے بنے ہوئے صندوقوں میں زیورات اور دلہن کے ملبوسات
ہوتے تھے۔
عیش
کوشیوں میں مسلمان اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ گانے بجانے اور دوسرے لہولعب کے مشاغل
کے لئے ایک ایک نواب کے گھر میں پانچ پانچ سو لڑکیاں اور اتنی ہی تعداد میں خدام
اور غلام جمع رہتے تھے۔ ایک کنواری لڑکی کی قیمت ۱۴،۱۴ ہزار اشرفی تک لگتی تھی۔
احمد بن مروان ایک معمولی نواب تھا۔ اس کا نگار خانہ جس میں داد عیش دیتا تھا، اس
میں آرائش و آسائش کا سامان تقریباً دو لاکھ اشرفیوں کا تھا۔ فرنیچر اور زیب و
زینت کے آلات جڑاؤ تھے۔ ان میں بیش قیمت جواہرات لگے ہوئے تھے۔ یہ تذکرہ ہے ایک
ہزار سال پہلے کا۔۔۔۔۔۔
قیاس ہے کہ اس وقت سونا ایک روپے تولہ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ اس وقت سونے کی قیمت
اگر چھ ہزار روپے مان لی جائے تو ایک ہزار سال پہلے کے دو لاکھ روپے آج تقریباً دو
ارب روپے ہیں۔
تاریخ
بتاتی ہے کہ اندلس کے مشہور اور نامی شاعر اور ادیب رئیس معتمد کے حرم میں آٹھ سو
کنیزیں تھیں۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی اولادوں کی تعداد ایک سو تہتر تھی۔
آٹھ سو رطل(دس من) گوشت روزانہ اس کے باورچی خانے میں پکتا تھا۔
بڑوں
کا کہنا ہے کہ دیگ میں سے ایک چاول دیکھ کر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ چاول پک گئے ہیں
یا کچے ہیں۔ آپ نے ابھی اوپر دو واقعات پڑھے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی دیگ
کے دو چاول ہیں۔ پوری دیگ میں کیا پک رہا تھا اس کا اندازہ بڑی آسانی سے ہو سکتا
ہے۔
اسی زمانے میں ایک صاحب امام غزالیؒ تھے۔
یہ
بہت بڑے فقیہہ، بہت بڑے اصولی، بہت بڑے متکلم، مدرس، مصنف، واعظ اور مناظر تھے۔
اپنی فکر کی بلند پروازیوں کی وجہ سے ایک مکتبہ فکر کے بانی تھے۔ شہرت و عزت کے جس
مقام پر امام غزالیؒ پہنچے یہ مقام آدم کی اولاد میں چند خوش نصیبوں کو ملا ہے۔
اپنے عہد کی سب سے بڑی حکومت کے فرمان روا، کرتا دھرتا وزیر، نظام الملک طوسی کی نگاہوں
میں نہایت قدر و منزلت انہیں حاصل تھی۔ زرنگار ریشمی عبا اور چوغے ان کا لباس تھا۔
غزالیؒ کے خوبصورت گھر میں باغ تھا۔ جس گھوڑے میں غزالیؒ سوار ہوتے تھے اس کی
لگام، رکاب اور زین کی قیمت ہزار سال پہلے پانچ سو اشرفی تھی۔ غزالیؒ کے دوست
الفارسی نے لکھا ہے کہ فطرتاً غزالیؒ بڑے تند خو، تنک مزاج آدمی تھے۔ عام آدمیوں
کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ نخوت و خود پسندی کا جذبہ غالب تھا۔ قوت گویائی، ذہنی فکر
اور دلیل پر ان کو بڑا ناز تھا۔
دوسری جگہ الفارسی لکھتے ہیں:
اس
شخص پر رعونت کا شیطان سوار تھا۔ اور لیڈری کا شوق ان کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ علم
کا یہ حال تھا کہ مناظروں میں ان کے شاگرد کہتے تھے کہ پہلے ہم سے بات کرو اگر ہم
تمہیں مطمئن نہ کر سکے پھر غزالیؒ کے پاس جانا۔
ابن
جوزی نے لکھا ہے:
جب
غزالیؒ پہلی مرتبہ بغداد آئے تو ان کا حال یہ تھا کہ جتنے القاب و آداب ان کے نام
کے آگے پیچھے لگائے جاتے تھے وہ ان کو کم خیال کر کے چاہتے تھے کہ لوگ ان القاب و
آداب میں اور اضافہ کریں۔ (صفحہ نمبر ۱۲۰۔
جلد ۹۔
منتظم ابن جوزی)
مختصر
یہ کہ غزالیؒ دارالعلوم نظامیہ کے صدر عالی قدر تھے۔ دارالعلوم نظامیہ کی کرسی کی
صدارت تک پہنچنا اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو دین و دنیا کی ہر شئے میسر آ گئی
ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ امام غزالیؒ نظام الملک طوسی کے منظور نظر تھے۔ امام غزالیؒ
نے پچاس کتابیں لکھیں۔ ان ہی کتابوں میں ایک کتاب ’’قرآن کی تفسیر‘‘ جس کا نام
’’یاقوت التاویل فی النفسیر التنزیل‘‘ تھی۔ جس کی چالیس جلدیں تھیں۔ امام غزالیؒ
نے عربی اور فارسی زبان میں بھی کتابیں لکھیں۔
غزالیؒ
نے جب ظاہری علوم کی بلندیوں کو چھو لیا اور علم فقہ، اصول فقہ و کلام، منطق و
فلسفہ، تصوف و اخلاق پر بہترین کتابیں لکھ چکے تو انہیں خیال آیا کہ ظاہرہی علوم
کے علاوہ بھی دوسرے علوم ہیں۔ ان کو بھی دیکھنا چاہئے۔ اس زمانے کے فقرا کے پاس
گئے اور دس سال اس تلاش و جستجو میں سیاحی کی اور تھک کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔اور فیصلہ
کیا کہ علوم باطن کی کوئی حیثیت ایسی نہیں ہے جس کا ظاہری علوم سے موازنہ کیا
جائے۔ غزالیؒ کے ایک دوست نے کہا ’’ایک علوم باطن کے عالم ابو بکر شبلیؒ رہ گئے جن
کے پاس آپ نہیں گئے‘‘۔ غزالیؒ نے سوچا ان کے پاس بھی ہو آنا چاہئے ورنہ یہ خیال
دامن گیر رہے گا کہ سفر پورا نہیں ہوا۔ غرض یہ کہ امام غزالیؒ پانچ سو اشرفیوں کے
زرق برق لباس اور مزین سواری گھوڑے پر ابوبکر شبلیؒ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ جس
وقت ابوبکرشبلیؒ کے پاس پہنچے وہ مسجد کے صحن میں بیٹھے گدڑی سی رہے تھے۔۔۔۔۔۔پشت
پر کھڑے ہو کر کہا’’السلام علیکم!‘‘ ابوبکرشبلیؒ نے پیچھے دیکھے بغیر کہا:
’’وعلیکم السلام! غزالی تم آ گئے؟‘‘۔۔۔۔۔۔
شریعت
میں علم پہلے ہے عمل بعد میں۔ طریقت میں عمل پہلے ہے علم بعد میں۔
اگر
تمہیں علم باطن کے بارے میں جاننا ہے، کچھ سیکھنا ہے تو پہلے عمل کرو۔ اور عمل یہ
ہے کہ سامنے کونے میں جا کر کھڑے ہو جاؤ‘‘۔۔۔۔۔۔
امام غزالیؒ نے حکم کی تعمیل کی۔
تین
روز نہایت اعلیٰ پیمانے پر مہمان نوازی ہوئی اور چوتھے روز سے یہ ڈیوٹی لگی کہ
کھجور کی ایک بوری لے جاؤ اور بازار میں کھڑے ہو کر آواز لگاؤ کہ جو میرے سر پر
ایک چپت لگائے گا اس کو ایک کھجور ملے گی۔۔۔۔۔۔
اللہ
اکبر۔۔۔۔۔۔یہ ریاضت تین سال جاری رہی۔
تین
سال کے بعد مراقبات و مجاہدات نے لوگوں کے تلخ و تند الفاظ کے ہتھوڑوں نے جھوٹی
عزت و شوکت کے چھلکوں کو اتار دیا۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ پانچ سو اشرفیوں کے لباس
اور زر و جواہرات سے مرصع زین اور رکاب کے ساتھ مزین سواری پر نکلنے والا امام
بغداد کا ایک فقیر ہے۔
امام
غزالیؒ کے دوست الفارسی نے لکھا ہے:
گذشتہ
جنوں سے جب اس شخص کو افاقہ ہوا تو اس نے ہر قسم کی رسمی وضع قطع ترک کر دی۔ حالت
یہ ہو گئی تھی کہ ذرا سی بھی کسی میں معرفت اور خدا شناسی کی جھلک ان کو نظر آتی
اس کے پیچھے دوڑ پڑتے۔ لوگ چہ مگوئیاں کرتے، ان سے مختلف قسموں کی خبریں منسوب
کرتے لیکن وہ خاموشی کے سوا کسی کا جواب نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں کا ہجوم جمع ہوا
اور قال کے مقابلے میں حال کے بارے میں استفسار کیا تو امام غزالیؒ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم یہ وقت میرے اوپر نہ آتا تو میری ساری زندگی ضائع ہو
جاتی‘‘۔
امام
غزالیؒ مجیب الدولہ جیسے سر پھرے وزیر کو لکھتے ہیں:
’’تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے جس بلا و آفت میں تم مبتلا ہو، کوئی
اور وزیر مبتلا نہ تھا۔ کسی وزیر کے دور میں اس قدر ظلم و تباہی نہ پھیلی ہوئی تھی
جتنی تمہارے زمانے میں پھیلی ہوئی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص خدمت خلق کرنا چاہتا ہے
تو جذبہ خدمت خلق زرق برق لباس پہننے سے ناممکن ہے کیونکہ زیب و زینت کا لباس
رعونت اور خود داری کا موجب ہے۔ اگر وہ اس درجہ پہنچ جائے کہ عوام اس کی خدمت کریں
تو یہ ریاء اور تکبر کا قیدی بن کر رہ جائے گا۔ دراصل یہ ایک نادان ہے جس کی صورت
عقل مندوں جیسی ہے۔
ایک
بادشاہ کو نصیحت کرتے ہوئے امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’نصیحت اور خیر خواہی ایک مملکت ہے جس کا منشور یہ فرمان نبوی صلی
اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’میں نے تمہارے درمیان دو واعظ چھوڑے ہیں، ایک خاموش دوسرا
گویا۔ خاموش واعظ موت ہے اور ناطق واعظ قرآن۔‘‘موت کہتی ہے کہ
جتنے انسان دنیا میں بستے ہیں وہ جان لیں کہ میں تمہاری گھات میں بیٹھی
ہوں۔۔۔۔۔۔ایک دم نکلوں گی۔۔۔۔۔۔کسی کے پاس اپنا ایلچی نہیں بھیجوں گی۔ تمہیں معلوم
ہونا چاہئے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والی ہوں، اگر تم چاہتے ہو کہ میری پاداش
سے بچو تو تم یہ عمل اختیار کرو۔۔۔۔۔۔امرا کو چاہئے کہ گذشتہ امرا کو
دیکھیں۔۔۔۔۔۔بادشاہوں کو چاہئے کہ وہ گزرے ہوئے بادشاہوں کو دیکھیں۔
ملک
شاہ علق ارسلان اور تغرل بیگ قبر کے اندر سے منادی کرتے ہیں۔ اے بادشاہ! اے آنکھوں
کی ٹھنڈک، اپنی رعایا کے معاملے میں احتیاط کرو۔ بچتے رہو۔ ڈرتے رہو۔ اگر تمہیں یہ
معلوم ہو جائے کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور ہمارے اوپر کیا بیت رہی ہے اور ہم کس
ہولناک منظر کو دیکھ رہے ہیں تم ایک رات بھی شکم سیر ہو کر کھانا نہیں کھاؤ گے۔ تم
ایک دن بھی کپڑے نہیں پہنو گے۔ اگر تمہاری رعایا میں سے کوئی شخص بھی بھوکا ننگا
رہا تو تمہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔قرآن پاک میں ہے:
’’جو شخص ذرہ برابر بھلائی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص
ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔
(سورۃ الزلزال۔ آیت 7-8)
اللہ
تعالیٰ کی طرف سے چار نعمتیں عطا ہوئی ہیں:
۱۔ ایمان
۲۔ درست عقیدہ
۳۔ اچھی صورت
۴۔ اچھی سیرت
اچھی
سیرت انسان کے اختیار میں ہے لیکن پہلی تینوں نعمتوں پر انسان کا کوئی اختیار
نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو تینوں نعمتیں بھرپور طریقے سے عطا کی ہیں تو
انسان کو بھی چاہئے کہ چوتھی نعمت کو آراستہ کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔جس شخص
کی زبان کا ذائقہ بگڑ گیا اس کو میٹھا پانی بھی کھارا اور کڑوا لگتا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معلوم ہونا چاہئے کہ مضبوط دیواریں، آہنی دروازے اور مال و دولت کے
ذخیرے آفات و مصائب کو دور نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔ہرظالم کی گردن پر دوسرا ظالم سوار
ہے اور یہ دونوں مکافات عمل کی چکی میں پستے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مرض دل کی دوا کتاب اللہ
میں تفکر و تدبر ہے۔۔۔۔۔۔۔اوروں کو وعظ نصیحت مت کرو۔ اور یہ نکتہ یاد رکھ جو حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کو بتایا گیا۔
’’اے فرزند مریم! پہلے اپنے نفس کو نصیحت کر اگر تو نے نصیحت قبول
کر لی ہے تو لوگوں کو نصیحت کر، ورنہ شرمسار ہو جا‘‘۔
نظر کے معانی یہ ہیں کہ جس شئے پر تم نظر ڈالو اس شئے کے اندر تمہیں اللہ تعالیٰ
نظر آئے۔موجودات میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جو شخص اس درجے پر فائز ہو
جاتا ہے وہ ہدایت کیا ابتدا سے ہدایت کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ
کی اطاعت اور فرماں برداری تحسین و آفرین اور ثواب کی خاطر نہیں کرتے اور ان کے
پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ بارگاہ ایزدی تک ان کی رسائی
ہو جاتی ہے۔ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایسا ربط پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کی
دعائیں قبول بارگاہ ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا‘‘۔(سورۃ
المومن۔ آیت60)
جو
لوگ ان صفات کے بغیر دعا کرتے ہیں وہ بے ثمر رہتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی مال
و دولت کا مالک نہیں ہے۔ ہر شخص جو مال و دولت اور جائیداد کے عشق میں مبتلا ہے۔
لامحالہ اسے سب کچھ چھوڑ دینا ہے۔ وہ لوگ سعادت مند ہیں جو اپنا مال غریبوں اور
مسکینوں کو صدقہ کر دیتے ہیں۔ اور جو لوگ مال و دولت جمع کرنے میں الٰہی قانون کا
احترام نہیں کرتے ان کے لئے عذاب اور رسوائی ہے۔ ایسا عذاب اور ایسی رسوائی جس کو
اللہ تعالیٰ نے عذاب الیم کہا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مال و زر کو اپنے اوپر
خرچ کرتے ہیں نہ اپنی مرضی و اختیار سے دوسروں کو دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا معاملہ
ملک الموت کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ملک الموت آ جاتا ہے تو پہنے ہوئی
معمولی کپڑے بھی انسان ساتھ نہیں لے جا سکتا۔
امام
غزالیؒ ۴۵۰
ھ میں پیدا ہوئے ۵۰۵
ھ میں وفات پائی۔ تاریخ بتاتی ہے:ایک دن کفن کے کپڑے ہاتھ میں پکڑے امام غزالیؒ یہ
کہتے ہوئے باہر نکلے۔۔۔۔۔۔بہ سر و چشم بندہ حاضر ہے۔۔۔۔۔۔اور اس دنیا سے رخصت ہو
گئے۔