Topics
وہ پشاور سے
کراچی آ رہا تھا۔ فضائی سفر کے دوران آنکھ خلا اور خلا میں موجود بادلوں کو قریب
سے دیکھتی ہے۔نظر جہاز سے باہر دنیا پر جمادی۔ ادراک ہوا کہ بلندی پر آنکھ تھوڑے
فاصلہ سے آگے نہیں دیکھ سکتی۔ بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن نظر کسی انجانی شے
سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے یا پھر خلا میں گم ہو جاتی ہے۔ دن میں فضائی سفر کر یں تو دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہر طرف سفید
ہی سفید نظر آتا ہے یا پھر آنکھ کا لینس دھندلا (blur) ہو جاتا ہے اور ہم اسے
سفید رنگ کا نام دیتے ہیں۔جب کہ زمین سے آسمان کی طرف دیکھا جائے تو یہی آنکھ کروڑوں میل دور چاند کو
بھی دیکھتی ہے، ستاروں کو بھی، سورج کو بھی اور جسے ہم آسمان سمجھتے ہیں وہ نیلا
آسمان بھی۔سوچ رہا تھا زمین والی آنکھ بلندی پر جا کر محدود کیوں ہو جاتی ہے۔ ہونا
تو یہ چاہیئے کہ جسمانی طور پر بلندی پر پہنچ کر لاکھوں کروڑوں میل آگے دنیا کیا
ہے، نظر آنا چاہئے۔لیکن یہاں پہنچ کر نظر بمشکل آدھے میل کا سفر طے نہیں کرتی کہ
دھندلا جاتی ہے۔ وہاں ایسا کیا ہے جس کا یہ آنکھ احاطہ نہیں کر سکتی۔۔۔؟
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ایک گھنٹے کے بعد
جہاز کی بلندی تھوڑا کم ہوئی تو دیکھا جہاز سے باہر اور اوپر ہر طرف مطلع صاف اور
روشن ہے لیکن نیچے ایک علاقہ ایسا ہے جس کے اوپر گہرے سیاہ بادل ہیں اور وہاں
اندھیرا ہے۔ سیاہ بادلوں کی وجہ سے اندھیرے
پر تعجب نہیں تھا۔ سیا رنگ غالب ہوتا ہے تو ہر رنگ کو سیاہ کر دیتا ہے۔
تعجب اس حقیقت پر تھا کہ وہ بیک وقت دو وقت دیکھ رہا تھا۔۔ بادل کے نیچے رات اور
بادل کے اوپر دن، نیچے موجود لوگوں کے لیے
رات اور بلندی پر موجود لوگوں کے لیے دن۔ رات اور دن کے درمیان بادل پردہ بن گئے تھے۔اس
نے اس بات کو ایسے سمجھا کہ جب رات ہوتی ہے تو وہ رات نہیں ہوتی بلکہ سیاہ بادل
زمین کو گھیر لیتے ہیں۔ ان بادلوں کے پیچھے تیز روشنی ہے۔ یہی صورت حال دن کی ہے۔
یہ تفکر جب اس نے مرشد کریم کے سامنے پیش
کیا تو انھوں نے بات کو اس طرح بیان کیا، ” رات اور دن کی مثال ایک ورق کی ہے۔
صفحہ کا ایک رخ سفید دن ہے اور صفحہ کا دوسرا رخ تاریکی یعنی رات ہے۔ سمجھنے کے
لیے اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کتاب کا ایک ورق سفید (reverse) لکھا ہوا ہے۔ورق کا دوسرا صفحہ سیاہ (black) لکھا ہوا ہے۔ سفید دیکھنا
دن ہے اور تاریک دیکھنا رات ہے۔ روحانی علوم میں جو قوانین پڑھائے جاتے ہیں( جس کا
تذکرہ آسمانی کتابوں اور آخری الہامی کتاب قرآن پاک میں موجود ہے) اس کی تشریح اس
طرح کی گئی ہے، “
” وہ رات کو دن میں داخل کرتا اور
دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔“
(
فاطر : ۱۳)
اس نے عرض کیا، حضور ! یہ رات کا دن میں
نکالنا اور دن کا رات میں نکالنا کیا ہے۔۔۔؟ کچھ دیر خاموش رہے اور فرمایا۔۔”یہ
اگلی کلاسوں کی بات ہے۔ روحانیت ایک مکمل ضابطہ عمل اور حیات و ممات کی ضامن ہے۔
روحانیت میں 23 کلاسیں ہوتی ہیں۔“
وہ جو بغور ان کی طرف دیکھ رہا تھا یہ بات
سن کر خاموش رہا۔ مزید کچھ نہیں پوچھا اور سر جھکا کر جو کچھ سمجھایاگیا تھا اس پر
غور کیا۔ خیال میں ڈوبا تو بے ساختہ پوچھ بیٹھا کہ حضور ! یہ تو معلوم ہے کہ زمین
سے نگاہ فضا میں ایک حد تک دیکھ سکتی ہے لیکن جسمانی طور پر بلندی پر پہنچ کر نگاہ
مزید محدود کیوں ہو جاتی ہے یا پھر جس محدودیت کو میں دور سے محسوس کرتا تھا قریب
پہنچ کر وہ زیادہ محسوس ہو رہی تھی؟
فرمایا۔۔ ” لکھو !“ کاغذ پین ہاتھ میں تھا۔ لکھنا شروع کیا۔
” اور ہم نے قرآن میں ساری باتیں
طرح طرح سے بیان کر دی ہیں۔“
(
بنی اسرائیل : ۸۹)
” قرآن ایسی کتاب ہے جس میں ہر ظاہر و
باطن بات وضاحت سے لکھ دی ہے۔ یہ ظاہر اور باطن کیا ہے؟ اس کا جواب بظاہر یہ ہے
کہ ظاہر جس کی منظر کشی ہے۔ باطن وہ ہے جس کی منظر کشی ہمارے سامنے نہیں ہے جب کہ
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس چھپی ہوئی منظر کشی کو اندر کی آنکھ دیکھتی
ہے۔ قرآن نے فہم کی جو عینک عطا کی ہے اگر اسے لگا لیا جائے تو ظاہر و
باطن، ابتدا انتہا آج اور کل ۔۔۔ آج اور کل کے درمیان ہونے والے مناظر۔۔ کیا تھا،
کیا ہے کیا ہوگا۔ پیدا ہونے سے پہلے ہم کہاں تھے۔۔۔ بچپن کہاں چھپ گیا۔۔ جوانی کی
قدریں کیسے نمودار ہوئیں اور یہ قدریں منہ زور گھوڑے کی طرح مغلوب کیوں ہو جاتی
ہیں؟ تفصیل غیب سے مشاہدہ بن
جاتی ہے۔
کیا ہم جانتے ہیں دنیا میں آنے سے پہلے ہم
کہاں تھے۔ اس بات کا بھی کوئی علم ہے دس سال کے بچہ کے شب و روز ماہ و سال کہاں
چھپ گئے۔ جوانی پہ انحطاط کیوں آجاتا ہے جب کہ کوئی نہیں چاہتا۔ جوانی خزاں میں
کیوں چھپ جاتی ہے؟ اگر جوانی چھپ جاتی ہے تو بڑھاپا غالب آجاتا ہے اور بالآخر
بڑھاپا بھی غائب ہوجاتا ہے۔ بڑھاپا خزاں کی طرح کیسے چھا جاتا ہے۔ درخت مرجھا جاتا
ہے، آدمی سکڑ جاتا ہے۔ آدمی پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا، نہیں معلوم۔ آدمی بڑھاپے
کی دہلیز سے نہ چاہتے ہوئے جب اس دنیا کے اُس پار پھینک دیا جاتا ہے کیا اس کے
بارے میں دنیا کے تمام علوم جمع ہو کر کوئی ایک صحیح بات کہہ سکتے ہیں۔۔۔؟
بڑے بڑے محقق ، دنیا سمیٹنے والے شہنشاہ ،
زور آور لوگ، کم زور لوگوں کا شکار کرتے ہیں۔ جب وہ اس دنیا میں آئے تھے کیا کچھ
ساتھ لائے تھے؟ جب جاتے ہیں کیا کچھ ساتھ لے جاتے ہیں؟ یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ ہم آسمانوں
کی بات کرتے ہیں ، زمین کی گہرائی کی
پیمائش کرتے ہیں، پانیوں کی نشان دہی کرتے ہیں، آندھی طوفان روز زمین کی رونق کو
تہ بالا کرتے ہیں۔ کیا ہم ان باتوں پر کسی طرح بھی قدرت رکھتے ہیں۔۔۔؟“ اتنا فرما کر وہ
خاموش ہوگئے۔
اس کی باتوں کا جواب اسی تفصیل میں تھا۔
ایک ایک سطر ( لائن) اس نے کئی بار پڑھی۔ ذہن سوال در سوال کی بھنور میں تھا۔ ظاہر
اور باطن کیا ہے۔۔۔؟ فہم کی عینک کیا ہے۔۔۔؟
ہم کہاں سے آئے ہیں اور ہر لمحہ کہاں جا
رہے ہیں۔۔۔۔؟
مڑ کر پیچھے دیکھتے ہیں تو زندگی کیا
ہے۔۔۔؟
مستقبل حال اور حال ماضی بن رہا ہے ۔
زندگی ماضی ہے تو ماضی کیا ہے۔۔۔؟
خلا میں جا کر تحقیق کرتے ہیں لیکن خلا سے
آگے اور خود خلا کیا ہے، نہیں دیکھتے۔
جن چیزوں پر بات کرتے ہیں ان پر قدرت نہیں
رکھتے۔ سائنس تحقیق کے لیے ہبل پر انحصار کرتی ہے۔ ہبل کیا ہے اور یہ معرکہ الآر اءدور
بین بنائی کس نے ہے۔۔۔؟
ہبل دور بین ماہر فلکیات Edwin Hubble نے ایجاد کی۔ یہ خلا میں لگائی گئی ہے اور اس
کے نتائج کو دیکھ کر محقق کائنات سے متعلق نظریات اخذ کرتے ہیں۔ ہبل مخصوص قسم کی
دھاتوں اور گلاس سے بنائی گئی ہے۔ مرشد کریم اپنی تحریروں میں پڑھنے والوں کو سمجھ
کر پڑھنے کی طرف راغب کرنے کے لیے سوال و جواب کا سلسلہ ہمیشہ رکھتے ہیں۔ کئی
مرتبہ ہبل سے متعلق سوال پوچھ چکے ہیں۔
ایک مرتبہ شیخ نے پوچھا ، ” یہ سائنسی دور
ہے، تحقیق و تلاش مختلف زاویوں سے پردہ کشائی کرتی ہے۔
۱۔ فرض کیجیئے
میری دور کی نظر کم زور ہے eye specialist کے مشورہ پر عینک لگا لیتا ہوں۔ دور کی چیزیں چشمہ سے روشن اور
قریب نظر آتی ہیں۔
۲۔ خورد بین سے
بہت چھوٹی چیزیں بڑی نظر آتی ہیں۔
۳۔ Hubble ( دور بین) 340 میل دور خلا
میں ہے اس میں 100 انچ کا شیشہ لگا ہوا ہے۔ شیشہ کی معرفت ہم کہکشانی نظام اور
سیارے کو دیکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ
محقیقن کی آنکھ نے براہ راست دیکھا یا دور بین کے شیشہ کے دیکھنے کو دیکھا۔۔۔؟ “
کائنات لامحدود ہے۔ شیشہ سو انچ کا ہو یا
دو سو انچ کا۔۔ عدد میں آجائے تو محدود ہو جاتا ہے۔ محقق زمین پر بیٹھ کر دور بین
کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہے۔ دور بین بھی اس نے خود بنائی ہے۔ محقق کی نظر محدود ہے
اس لیے اس کو دور بین بنانی پڑی۔ لامحالہ بنائی ہوئی چیز بھی محدود ہوگی۔ سو انچ
کے لینس کے دیکھنے کی بھی ایک حد ہوگی۔ اس کے بعد اس لینس کے لیے منظر ویسے ہی
دھندلا ہو جائے گا جیسے ہماری آنکھ کے لیے ہوتا ہے۔ محدود لینس کی حد جہاں تک لے
جاتی ہے محقق اس چیز کو حتمی مان کر نتائج اخذ کر رہا ہے۔ جب کہ مشاہدہ یہ ہے کہ
خلا کے پیچھے بھی ایک دنیا ہے یا پھر دنیا ہی خلا کے پیچھے ہے۔ ہبل نے دیکھنے کی
صلاحیت کو بڑھایاضرور ہے لیکن صلاحیت تو ہبل کی بڑھی۔۔آدمی کی آنکھ تو وہیں کی وہیں
ہے۔
اسے فوٹو گرافی کا شوق ہے۔ تصویریں
کھینچتے ہوئے ہمیشہ وہ ایک بات محسوس کرتا ہے کہ ظاہری آنکھ محدودیت کے باوجود
سامنے موجود منظر کو جیسا دیکھتی ہے، کیمرے کا لینس اس کا حق ادا نہیں کر
سکتا۔آنکھ صرف پیچھے نہیں دیکھ سکتی ورنہ
سامنے اور دائیں بائیں کا منظر ایک ہی وقت میں اس کا ادراک بنتا ہے۔ آنکھ جو دیکھ
رہی ہے وہ منظر ویسا ہی دکھانے کے لیے panoramic shot
ایجاد کیا۔ کیمرے
کو دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں
گھماتا جاتا ہے۔ اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور اس حد پر پہنچ کر شاٹ اینڈ ہو جاتا
ہے۔ یوں ایک فریم بنتا ہے۔ فریم کہیں، still shot کہیں
یا تصویر، ایک ہی بات ہے۔ جو لوگ واقف نہیں وہ panoramic شاٹ
کو گوگل (Google) کریں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ظاہری آنکھ کیمرے
سے بہتر دیکھتی ہے یہ اور بات ہے کہ وہ کیا دیکھتی ہے۔ کیمرا ظاہری آنکھ سے اس وقت
بہتر ہوجاتا ہے جب لینس کی صلاحیت بڑھا دی جائے۔ وہ سوچ رہا تھا یہ صلاحیت جو لینس
کو دی گئی اگر انسانی آنکھ کو دےدی جاتی تو آدمی کی آنکھ منظر کو زیادہ بہتر دیکھتی۔
خیال نے کہا، ظاہری آنکھ دیکھے یا کیمرا دکھائے، بات تو ایک ہی ہے۔ ظاہری آنکھ اور
کیمرا ایک طرح سے کام کرتے ہیں۔ آنکھ کو دیکھ کر ہی تو کیمرا بنایا گیا ہے۔ دونوں
محدود ہیں۔ کیا کوئی ذی شعور محدود دیکھنے کو نتیجہ مانے گا۔۔۔؟
کائنات میں دور کرنے والی لہریں ذہن کی
اسکرین سے ٹکرا کر لفظ بن رہی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کیمرا دکھاتا ہے، آنکھ
دیکھتی ہے۔ جب آنکھ دیکھتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ ہم خود کب دیکھتے ہیں؟ اگر آنکھ
بند کر لی جائے تو ہم دیکھتے کیوں نہیں ہیں۔۔۔؟ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آنکھ کے تل
پر گلاس جو عکس منتقل کر رہا ہے اس عکس کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یعنی آئینہ کے دیکھنے
کو ہماری آنکھ دیکھ رہی ہے۔ براہ راست ہماری آنکھ نہیں دیکھ رہی۔
اس نے مرشد کریم سے عرض کیا کہ ہماری آنکھ
براہ راست کیوں نہیں دیکھتی۔۔۔؟
فرمایا، ” آنکھ براہ راست بھی دیکھتی ہے۔
چوں کہ راہ راست دیکھنے والی آنکھ سے ہم واقف نہیں یا واقفیت حاصل کرنا نہیں چاہتے
اس لیے عکس نمایاں ہونے کے بجائے دھندلا ہوتا ہے۔ کوئی شخص جس وقت چاہے جب چاہے
تجربہ اس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کسی شے کے بارے میں سوچے یا خیال کرے، شے کا عکس
دماغ کی اسکرین پر آجاتا ہے۔ واضح طور پر ہم اس لیے نہیں دیکھتے کہ ہمیں،
۱۔ دیکھنے کی مشق نہیں ہے۔
۲۔ اس دیکھنے کو ہم وہم یا خیال کہہ کر گزر جاتے ہیں۔
وہم خیال کی اگر کوئی حیثیت نہیں ہے تو
نفسیاتی مرض کیا ہے۔ کیا یہ خیال اور واہمہ کے دائرہ کار سے باہر ہے۔۔۔؟ ایک آدمی
کو سانپ سے ڈر لگتا ہے وہ سانپ کو دیکھ نہیں رہا۔ سانپ کے ہونے کا عکس دماغ کی
اسکرین پر ظاہر ہوتا ہے اور آدمی ڈر جاتا ہے۔ اگر خیال گہرا ہو جائے تو آدمی فرش
پر پڑی ہوئی رسی کو سانپ تصور کر کے ڈر جاتا ہے۔ اتنا ڈر جاتا ہے کہ شور مچا دیتا
ہے سانپ سانپ! سوال یہ ہے کہ جب سانپ دیکھا نہیں گیا اور سانپ کا مادی وجود سامنے
نہیں ہے تو ہم ڈرتے کیوں ہیں۔ خوف سے
پسینہ کیوں آ جاتا ہے۔۔۔؟ اس قسم کی مثالیں اگر تلاش کی جائیں تو ہر شخص کی زندگی
میں لاشمار مثالیں سامنے آجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم نے سانپ کومادی وجود میں
دیکھا نہیں ہمارے اوپر خوف کا غلبہ کیوں ہوا۔۔؟“
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے