Topics
جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہو
گئی، خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو، بہرصورت معرفت ہے اور ہر معرفت لوح محفوظ کے
قانون میں ایک حقیقت ہوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لاعلمی کی معرفت
کا نام بھی علم ہی رکھیں۔ اہل تصوف لا علمی کی معرفت کو علم ’’لا‘‘ اور علم کی
معرفت کو علم ’’اِلّا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دونوں معرفتیں الف انوار کی دو تجلیاں
ہیں۔۔۔۔۔۔ایک تجّلی ’’لا‘‘ اور دوسری تجّلی
’’اِلّا‘‘۔
جب کوئی فرد اپنے ذہن میں ان دونوں
حقیقتوں کو محفوظ کر لے تو اس کے لئے شہود کے اجزاء کو سمجھنا آسان ہے۔ چنانچہ ہر
شہود کے یہی دو اجزاء ہیں جن میں سے پہلا جزو یعنی علم’’لا‘‘ کو لاشعور کہتے ہیں۔
جب کوئی طالب روحانیت لاشعور یعنی علم ’’لا‘‘سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اسے خارجی
دنیا کے تمام تواہمات، تصورات اور خیالات کو بھول جانا پڑتا ہے۔ اس کو اپنی ذات
یعنی اپنے ذہن کی داخلی گہرائیوں میں فکر کرنی چاہئے۔ یہ فکر ایک ایسی حرکت ہے جس
کو ہم کسی فکر کی شکل اور صورت میں محدود نہیں کر سکتے۔ ہم اس فکر کو ’’فکرِلا‘‘
کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذہن میں تھوڑی دیر کے لئے یا زیادہ دیر کے لئے ایسی حالت
وارد ہو جائے جس میں ہر زاویہ لا علمی کا ہو۔ اس ’’فکر لا‘‘ کو ہم عمل استرخاء کے
ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ عمل استرخاء کے تواتر سے ذہن کے اندرونی دائرے ہر فکر سے
خالی ہو جاتے ہیں۔ گویا اس وقت ذہن ’’فکرِلا‘‘میں مستغرق ہو جاتا ہے اور اس
استغراق میں لاشعور کا شہود حاصل ہو جاتا ہے۔
’’لا‘‘
کے انوار الم
کے انوار کا جزو ہیں۔ الم
کے انوار کو سمجھنے کے لئے لا کے انوار کا تعین اور ان کی تحلیل ذہن میں رکھنا
ضروری ہے۔ لا کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی
ہیں۔ کئی مرتبہ لوگ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے کیا تھا؟ ایک
صوفی کے یہاں جب سالک کا ذہن پوری طرح تربیت پا جاتا ہے اور لا کے انوار کی صفت سے
واقف ہو جاتا ہے تو پھر اس کے ذہن سے اس سوال کا خانہ حذف ہو جاتا ہے کیونکہ صوفی
اللہ تعالیٰ کی صفت لا سے واقف ہونے کے بعداس خیال کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
کی موجودگی سے پہلے بھی کسی موجودگی کا امکان ہے۔ لا کے انوار سے واقف ہونے کے بعد
سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ نقطۂ اول ہے جس سے
ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔ اس قدم کے حدود اور
دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی وہ
تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا
صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کو بعض لوگ
فناء الٰہیت بھی کہتے ہیں۔ جب تک کسی سالک کے ذہن میں ’’لا‘‘ کے انوار کی
پوری وسعتیں پیدا نہ ہو جائیں وہ اس وقت تک ’’لا‘‘ کے مفہوم یا معرفت سے
روشناس نہیں ہو سکتا۔ کوئی سالک ابتدا میں ’’لا‘‘ کے انوار کو اپنے ادراک کی
گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس شعور کی حدوں سے بہت دور اور بعید تر رہتا ہے۔ اس ہی لئے اس
احساس کو شعور سے بالاتر یا لاشعور کہہ سکتے ہیں لیکن فکر کی پرواز اس کو چھو لیتی
ہے۔ وہ حالت جو عام طور سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا استغراق پیدا کرتی ہے۔ سالک کے
ذہن میں اس فکر کو تخلیق کرتی ہے اور تربیت دیتی ہے۔ تفہیم کے اسباق میں پہلا سبق
جو جاگنے کا عمل ہے، اس استغراق کے حصول میں بڑی حد تک معاون ہوتا ہے جب اس سبق کے
ذریعے صوفی کا ذہن استغراق کے نقش و نگار کی ابتدا کر چکتا ہے اور اس کے اندر قدرے
قوتِ القاء پیدا ہو جاتی ہے تو اس فکر کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں۔ پھر استرخاء کے
ذریعے اس فکر میں حرکت، آب و تاب اور توانائی آنے لگتی ہے۔ جب یہ توانائی نشوونما
پا چکتی ہے، اس وقت ’’لا‘‘ کے انوار ورود میں نگاہ باطن کے سامنے آنے لگتے ہیں اور
پھر ان انوار کا ورود اس فکر کو اور زیادہ لطیف بنا دیتا ہے۔ جس سے لاشہود نفسی کی
بنا قائم ہو جاتی ہے۔ اس ہی لاشہود کے ذہن میں خضر علیہ السلام، اولیائے تکوین اور
ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے اور ان سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے۔ اس ہی لاشہود
نفسی کی ایک صلاحیت خضر علیہ السلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات
کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوال و جواب کی
نوبت آ جاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے
ہیں۔
’’لا‘‘
کے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ مناسب ہے
کہ کوئی روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جائے۔ بہتر
ہو گا کہ کپڑا تولیہ کی طرح روئیں دار ہو یا اس قسم کا تولیہ ہی استعمال کیا جائے۔
جس کا رؤاں لمبا اور نرم ہو۔ لیکن رؤاں
باریک نہ ہونا چاہئے۔ بندش میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آنکھوں کے پپوٹے
تولیہ یا کپڑے کے روئیں کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہئے۔ اور
نہ اتنی سخت کہ آنکھیں درد محسوس کرنے لگیں۔ منشاء یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے تھوڑا
سا دباؤ محسوس کرتے رہیں۔ مناسب دباؤ سے آنکھوں کے ڈیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطل
ہو جاتی ہے۔ اس تعطل کی حالت میں جب نگاہ سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ
کی باطنی قوتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی کہہ سکتے ہیں، حرکت میں آ جاتی
ہیں۔
مراقبہ
کی حالت میں باطنی نگاہ سے کام لینا ہی مقصود ہوتا ہے۔ یہ مقصد اس ہی طرح پورا ہو
سکتا ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے زیادہ معطل رکھا جائے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے
تعطل میں جس قدر اضافہ ہو گا اس ہی قدر باطنی نگاہ کی حرکت بڑھتی جائے گی۔ دراصل
یہی حرکت روح کی روشنی میں دیکھنے کا میلان پیدا کرتی ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں میں تعطل
ہو جانے سے لطیفۂ نفسی میں اشتعال ہونے لگتا ہے۔ اور یہ اشتعال باطنی نگاہ کی حرکت
کے ساتھ تیز تر ہوتا جاتا ہے جو شہود میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
مثال:انسان کے جسم کی
ساخت پر غور کرنے سے اس کی حرکتوں کے نتائج اور قانون کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
بیداری میں آنکھوں کے ڈیلوں پر جلدی غلاف متحرک رہتا ہے۔ جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے
تو ڈیلوں پر ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ایک لمحہ کے لئے روشنیوں اور مناظرے سے
منقطع کر دیتا ہے۔ غلاف کی اس حرکت کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خارجی چیزیں
جس قدر ہیں آنکھ ان سے بالتدریج مطلع ہوتی ہے اور جس جس طرح مطلع ہوتی جاتی ہے ذہن
کو بھی اطلاع پہنچاتی رہتی ہے۔ اصول یہ بنا کہ مادی اشیاء کا احساس ہلکی ضرب کے
بعد روشنیوں سے انقطاع چاہتا ہے۔ اس اثناء میں وہ ذہن کو بتا دیتا ہے کہ میں نے
کیا دیکھا ہے جن چیزوں کو ہم مادی خدوخال میں محسوس کرتے ہیں ان چیزوں کے
احساس کو بیدار کرنے کے لئے آنکھوں کے مادی ڈیلے اورغلاف کی مادی حرکات ضروری ہیں۔
اگر ہم ان ہی چیزوں کی معنوی شکل وصورت کا احساس بیدار کرنا چاہیں تو اس عمل کے
خلاف اہتمام کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو
معطل اور غیر متحرک کر دینا ضروری ہے۔ مادی اشیاء کا احساس مادی
آنکھ میں نگاہ کے ذریعے واقع ہوتا ہے۔ اور جس نگاہ کے ذریعے مادی احساس کا
یہ عمل وقوع میں آتا ہے وہی نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل وصورت دیکھنے
میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ یا یوں کہیئے کہ نگاہ مادی حرکات میں اور روحانی حرکات
میں ایک مشترک آلہ ہے۔ دیکھنے کا کام بہر صورت نگاہ ہی انجام دیتی
ہے۔ جب ہم آنکھوں کے مادی وسائل کو معطل کر دیں گے اور نگاہ کو متوجہ
رکھیں گے تو لوح محفوظ کے قانون کی رو سے قوت القاء اپنا کام انجام
دینے پر مجبور ہے۔ پھر نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل و صورت کو لازمی
دیکھے گی۔ اس لئے کہ جب تک نگاہ دیکھنے کا کام انجام نہ دے دے، قوت القاء
کے فرائض پورے نہیں ہوتے۔ اس طرح جب ہم کسی معنوی شکل وصورت کو دیکھنا
چاہیں، دیکھ سکتے ہیں۔ اہل تصوف نے اس ہی
قسم کے دیکھنے کی مشق کا نام مراقبہ رکھا ہے۔ یہاں ایک اور ضمنی قانون بھی زیر بحث
آتا ہے۔ جس طرح لوح محفوظ کے قانون کی رو سے مادی اور روحانی دونوں مشاہدات میں
نگاہ کا کام مشترک ہے ، اس ہی طرح مادی اور روحانی دونوں صورتوں میں ارادے کا کام
بھی مشترک ہے۔ جب ہم آنکھیں کھول کر کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی حرکت
ارادہ کرنا ہے یعنی پہلے قوت ارادی میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس حرکت سے نگاہ اس
قابل ہو جاتی ہے کہ خارجی اطلاعات کو محسوس کر سکے۔ اس ہی طرح جب تک قوت ارادی میں
حرکت نہ ہو گی معنوی شکل وصورت کی اطلاعات فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی شخص
عادتاً نگاہ کو معنوی شکل وصورت کے دیکھنے میں استعمال کرنا چاہے تو اسے پہلے پہل
ارادے کی حرکت کو معمول بنانا پڑے گا۔ یعنی جب مراقبہ کرنے والا آنکھیں بند کرتا
ہے تو سب سے پہلے ارادے میں تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس تعطل کو حرکت میں تبدیل کرنے کی
عادت ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات مسلسل مشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب آنکھ بند کرنے کے
باوجود ارادہ میں اضمحلال پیدا نہ ہو اور ارادہ کی حرکت متوسط قوت سے جاری رہے تو
نگاہ کو معنوی شکل و صورت دیکھنے میں تساہل نہ ہو گا اور مخفی حرکات کی اطلاعات کا
سلسلہ جاری رہے گا۔ جب ہر قسم کی مشق مکمل ہو چکے گی تو اسے آنکھ کھول کر دیکھنے
میں یا آنکھ بند کر کے دیکھنے میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا۔
لوح
محفوظ کے قانون کی رو سے قوت القاء جس طرح مادی اثرات پیدا کرنے کی پابند رہے، اس
ہی طرح معنوی خدوخال کے تخلیق کرنے کی بھی ذمہ دار ہے۔ جتنا کام کسی شخص
کی قوت القاء مادی قدروں میں کرتی ہے۔ اتنا ہی کام روحانی قدروں میں بھی انجام
دیتی ہے ۔ دو آدمیوں کے کام کی مقدار کا
فرق ان کی قوت القاء کی مقدار کے فرق کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔
قوت
القاء کی تفصیل یہ ہے کہ صوفی جس کا نام ’’ہوئیت‘‘ رکھتے ہیں اس کو تفصیلی طور پر
ذہن نشین کر لیا جائے۔ دراصل ’’ہوئیت‘‘’’لا‘‘ کی تجلیات کا مرکز ہے۔ اس مرکزیت کا
تحقق قوت القاء کی بنا قائم کرتا ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ ذات کی تجلیات جب تنزل کر
کے ’’واجب‘‘ کی انطباعیت میں منتقل ہوتی ہیں تو موجودات کے بارے میں علم الٰہی کا
عرف تخلیق پا جاتا ہے۔ یہ پہلا تنزل ہے۔ اس چیز کا تذکرہ ہم نے پہلے ’’علم القلم‘‘
کے نام سے بھی کیا ہے۔ یہ تجلیات ایسے اسرار ہیں جو مشیت ایزدی کا پورا احاطہ کر
لیتے ہیں۔ جب مشیت ایزدی ایک مرتبہ اور تنزل کرتی ہے تو یہی اسرار لوح محفوظ کے
اجمال کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان ہی شکلوں کا نام مذہب ’’تقدیر مبرم‘‘ رکھتا
ہے۔ دراصل یہ عرف کی عبارتیں ہیں۔ عرف سے مراد وہ معنویت ہے جو حکم الٰہی کی بساط
بنتی ہے۔ یہ عرف اجمال کی نوعیت ہے۔ اس میں کوئی تفصیل نہیں پائی جاتی۔ یہاں یہ
سمجھنا ضروری ہے کہ ابھی تک ’’دورِ ازلیہ‘‘ کا اجراء پایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ
میں جہاں تک افادہ بالفعل یا فعلیت کی شاخیں یعنی اختراعات و ایجادات کا سلسلہ
جاری ہے، دور ازلیہ شمار ہو گا۔ قیامت تک اور قیامت کے بعد ابد الآباد تک جو جو
نئے اعمال پیش آتے رہیں گے۔ خواہ اس میں جنت و دوزخ کے قرون
اُولیٰ، قرون وسطیٰ اور قرون اخریٰ ہی کیوں نہ ہوں، دور ازلیہ کے حدود میں ہی سمجھے جائیں گے۔ ابد
تک ممکنات کا ہر مظاہرہ ازل ہی کے احاطے میں مقید ہے۔ اس ہی لئے جو بھی تنزل علم
القلم کے اسرار کا پیش آ رہا ہے یا پیش آئے گا وہ اس ہی اجمال کی تفصیل ہو گی جو
لوح محفوظ کی کلیات کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ہے کہ میں لوح محفوظ کا مالک ہوں جس حکم کو چاہوں برقرار رکھوں اور جس حکم کو
چاہوں منسوخ کر دوں۔
لِکُلِّ
اَجَلٍ كِتَابٌ oیَمْحُواللّٰہُ
مَاَ یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ
وَعِنْدَہٗٓ
اُمُّ الْکِتٰبِo (سورۂ
رعد۔ آیت- 38-39)
ترجمہ :
ہر وعدہ ہے لکھا ہوا۔ مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور رکھتا ہے اور اس
کے پاس ہے اصل کتاب۔
یہ
فرمان اس ہی اجمال کے بارے میں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب چاہیں اور
جس طرح چاہیں اسرار کے مفہوم اور رجحانات بدل سکتے ہیں۔
یہاں
ذرا شرح اور بسط کے ساتھ مذکورہ بالا آیت پر غور کرنے سے دور ازلیہ کی وسعتوں کا
اندازہ ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی کسی مصلحت کو تخلیقی اختراعات اور
ایجادات کے اجمال میں بدلنا پسند فرماتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے منافی
نہیں ہے۔ دوسرے تنزل کے بعد اجمال کی تفصیل احکامات کے پورے خدوخال پیش کرتی ہے۔
یہاں تک مکانیت اور زمانیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ البتہ ’’جُو‘‘ یعنی تیسرے تنزل
کے بعد جب کوئی شئے عالم تخلیط کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کے لباس کو قبول
کرتی ہے۔ اس وقت مکانیت کی بنیادیں پڑتی ہیں۔ یہ القاء کی آخری منزل ہے۔ اس منزل
میں جو حالتیں اور صورتیں گزرتی ہیں ان کو
افادہ بالفعل کہتے ہیں۔ اس کی مثال سینما سے دی جا سکتی ہے۔ جب آپریٹر مشین کو
حرکت دیتا ہے تو فلمی رِیل کا عکس کئی لینسوں(LENSES) کے ذریعے خلاء سے گزر کر پردہ پر پڑتا ہے۔ اگرچہ خلاء میں ہر وہ
تصویر جو پردہ پر نظر آ رہی ہے، اپنے تمام خدوخال اور پوری حرکات کے ساتھ موجود ہے
لیکن آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ شعاع نظر آتی ہے جس شعاع کے اندر
تصویریں موجود ہیں۔ جب یہ تصویریں پردہ سے ٹکراتی ہیں اس وقت ان کی فعلیت پوری طرح
دیکھنے والی آنکھ کے احاطے میں سما جاتی ہے۔ اس مظاہرہ کا نام ہی افادہ بالفعل ہے۔
اس مظاہرہ کی حدود میں ہی ہر مکانیت اور ہر زمانیت کی تخلیق ہوتی ہے۔ جب تک کوئی
چیز صرف اللہ تعالیٰ کے علم کے حدود میں تھی اس وقت تک اس نے واجب کا لینس(LENSE) عبور نہیں کیا تھا یعنی اس میں حکم کے خدوخال موجود نہیں تھے
لیکن واجب کے لینس سے گزرنے کے بعد جب اس چیز کے وجود نے کلیات یا لوح محفوظ کی
حدود میں قدم رکھا۔ اس وقت حکم کے خدوخال مرتب ہو گئے۔ پھر اس لینس سے گزرنے کے
بعد ’’جُو‘‘ میں جس کو عالم تمثال بھی کہتے ہیں تمثلات یعنی تصویریں جو حکم کے
مضمون اور مفہوم کی وضاحت کرتی ہیں وجود میں آ گئیں۔ اب یہ تصویریں’’جُو‘‘ کے لینس
سے گزر کر ایک کامل تمثل کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ اس عالم کو عالم تخلیط یا
عالم تمثل بھی کہتے ہیں۔ لیکن ابھی عنصریت ان میں شامل نہیں ہوئی یعنی ان تصویروں
نے جسم یا جسد خاکی کا لباس نہیں پہنا۔ جب تک ان تصویروں کی عنصریت سے واسطہ نہ
پڑے، یہ احساس سے روشناس نہیں ہوتیں۔
القاء
کی ابتدا پہلے لینس کے عبوری دور سے ہوتی ہے جب تک موجودات کی تمام فعلیتیں اللہ
تعالیٰ کے علم میں رہیں، القاء کی پہلی منزل میں تھیں اور جب لوح محفوظ کے لینس سے
گزریں تو احکامات الٰہیہ میں خدوخال اور آثار پیدا ہو گئے۔ یہ القاء کی دوسری منزل
ہے۔ جب احکام اور مفہوم کی فعلیتیں ’’جُو‘‘ کے لینس سے گزر کر شکل وصورت اختیار کر
لیتی ہیں تو یہ القاء کی تیسری منزل ہوتی ہے۔ اس منزل سے عبور حاصل کرنے کے بعد
تمام تصاویر عالم ناسوت کے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ یہاں ان کو مکانیت اور
زمانیت اور احساس سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہ القاء کی چوتھی منزل ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )