Topics

اسمائے الٰہیہ



معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

بہت بخشنے والا

رَحْمٰنُ

 

اﷲ

شہنشاہ

اَلْمَلِکُ

بہت رحم والا

رَحِیْمُ

سلامت رکھنے والا

سَلَامُ

بزرگ تر

قُدُّوْسُ

نگہبان

مُھَیْمِنُ

امن دینے والا

مُوْمِنُ

زبردست

جَبَّارُ

غالب

عَزِیْزُ

پیدا کرنے والا

خَالِقُ

بڑائی والا

مُتَکَبِّرُ


معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

صورت گر

مُصَوِّرُ

سب کا پیدا کنندہ

بَارِیءُ

سب پر غالب

قَھَّارُ

گناہ بخشنے والا

غَفَّارُ

روزی دینے والا

رَزَّاقُ

بہت دینے والا

وَھَّابُ

جاننے والا

عَلِیْمُ

کھولنے والا

فَتَّاحُ

فراخ کرنے والا

بَاسِطُ

قبضہ رکھنے والا

قَابِضُ

بلند کرنے والا

رَافِعُ

پست کرنے والا

خَافِضُ

خوار کرنے والا

مُذِلُّ

عزت دینے والا

مُعِزُّ

دیکھنے والا

بَصِیْرُ

سننے والا

سَمِیْعُ

انصاف کرنے والا

عَدْلُ

حکم کرنے والا

حَکَمُ

خبردار

خَبِیْرُ

باریک بیں

لَطِیْفُ

بزرگ تر

عَظِیْمُ

بُردبار

حَلِیْمُ

قدرداں

شَکُوْرُ

بخشش کا مالک

غَفُوْرُ

سب سے بڑا

کَبِیْرُ

بلند مرتبہ والا

عَلِیُّ

قوت دینے والا

مُقِیْتُ

نگاہ رکھنے والا

حَفِیْظُ

بزرگ قدر

جَلِیْلُ

حساب والا

حَسِیْبُ

واقف کار

رَقِیْبُ

کرم کرنے والا

کَرِیْمُ

بہت دینے والا

وَاسِعُ

قبول کرنے والا

مُجِیْبُ








معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

دوست رکھنے والا

وَدُوْدُ

استوارکار

حَکِیْمُ

اٹھانے والا

بَاعِثُ

بزرگ

مَجِیْدُ

ثابت

حَقُّ

حاضر

شَھِیْدُ

قوت والا

قَوِیُّ

کارساز

وَکِیْلُ

دوست

وَلِیُّ

مضبوط

مَتِیْنُ

گھیرنے والا

مُحْصِیْ

حمد والا

حَمِیْدُ

انتہا والا

مُعِیْدُ

ابتدا بخشنے والا

مُبْدِیءُ

قائم رہنے والا

قَیُّوْمُ

قائم

حَیُّ

بزرگی والا

مَاجِدُ

پانے والا

وَاجِدُ

ایک

اَحَدُ

یکتا

وَاحِدُ

قدرت والا

قَادِرُ

بے نیاز

صَمَدُ

قدرت ظاہر کرنے والا

مُقْتَدِرُ

جس کی عبادت کی جائے

مَعْبُوْدُ

پیچھے والا

مؤخِّر

آگے والا

مُقَدِّمُ

پچھلا

اٰخِرُ

پہلا

اَوَّلُ

خیال سے پوشیدہ

بَاطِنُ

واضح

ظَاھِرُ

بہت اعلیٰ

مُتَعَالِیْ

کام بنانے والا

وَالِیْ




معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

توبہ قبول کرنے والا

تَوَّابُ

صاحب انتقام

مُنْتَقِمُ

معاف کرنے والا

عَفُوُّ

دو جہاں کا مالک

مہربان

رَءُوفُ

صاحبِ بڑی بخشش و کرم والا

ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامُ

 

مَالِکَ الْمُلْکِ

جمع کرنے والا

جَامِعُ

انصاف کرنے والا

مُقْسِطُ

بے پرواہ

غَنِیُّ

بے پرواہ کرنے والا

مُغْنِیُّ

باز رکھنے والا

مَانِعُ

ضرر دینے والا

ضَارُّ

نفع دینے والا

نَافِعُ

روشن

نُوْرُ

راہ دکھانے والا

ھَادِیْ

بے نمونہ پیدا کنندہ

بَدِیْعُ

ہمیشہ رہنے والا

بَاقِیْ

جہان کا رہنما

رَاشِدُ

بُردبار

صَبُوْرُ

نعمت عطا کرنے والا

مُنْعِمُ

پرورش کنندہ

رَبُّ

شفا دینے والا

شَافِیْ

ہر امر میں کفایت کرنیوالا

کَافِیْ

گفتگو کرنے والا

کَلِیْمُ

حکومت کرنے والا

حَاکِمُ

دوست

خَلِیْلُ

علم رکھنے والا

عَالِمُ

بلندی والا

رَفِیْعُ

خوشخبری دینے والا

بَشِیْرُ

ڈرانے والا

نَذِیْرُ

مدد دینے والا

نَاصِرُ

حفاظت کرنے والا

حَافِظُ



 

اسمائے الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے

اسمائے الٰہیہ تین تنزلات پر منقسم ہیں۔

اول ۔۔۔۔۔۔ اسمائے اطلاقیہ

دوئم ۔۔۔۔۔۔ اسمائے عینیہ

سوئم ۔۔۔۔۔۔ اسمائے کونیہ

اسمائے اطلاقیہ اللہ تعالیٰ کے وہ نام ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے تعارف میں ہیں۔ انسان کا یا موجودات کا ان سے براہ راست کوئی ربط نہیں۔ مثلاً علیم۔ بحیثیت علیم کے اللہ تعالیٰ اپنے علم اور صفات علم سے خود ہی واقف ہیں۔ انسان کا ادراک یا ذہن کی کوئی پرواز بھی اللہ تعالیٰ کے ’علیم‘ ہونے کے تصور کو کسی طرح قائم نہیں کر سکتی۔ علیم کی یہ نوعیت اسم اطلاقیہ بھی ہے یہاں پر اسم اطلاقیہ کی دو حیثیتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ علیم بحیثیت ذات اور علیم بحیثیت واجب باری تعالیٰ۔ علیم بحیثیت ذات باری تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کی نسبت موجودات کو حاصل نہیں اور علیم بحیثیت واجب باری تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کی نسبت موجودات کو حاصل ہے پہلی نسبت تنزل اول ہے۔

اسمائے اطلاقیہ کی تعداد اہل تصوف کے نزدیک تقریباً گیارہ ہزار ہے۔ ان گیارہ ہزار اسمائے اطلاقیہ کے ایک رخ کا عکس لطیفۂ اخفیٰ اور دوسرے رخ کا عکس لطیفۂ خفی کہلاتا ہے۔ اس طرح پہلی نسبت میں ثابتہ اللہ تعالیٰ کی گیارہ ہزار صفات کا مجموعہ ہے۔ ثابتہ کا نقش پڑھ کر ایک صاحب اسرار ان گیارہ ہزار تجلیوں کے عالم مثال کا مشاہدہ کرتا ہے۔

ثابتہ کو جب علیم کی نسبت دی جاتی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ موجودات اللہ تعالیٰ سے بحیثیت علیم ایک واسطہ رکھتی ہے لیکن یہ واسطہ بحیثیت علیم کُل نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت علیم جزو ہوتا ہے۔ بحیثیت علیم کُل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا اپنا خصوصی علم ہے چنانچہ ثابتہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسماء کا علم عطا فرمایا تو اسے علیم کی نسبت حاصل ہو گئی۔ اس  ہی علم کو" غیب  اکوان" کہتے ہیں۔ اس علم کا حصول علیم کی نسبت کے تحت ہوتا ہے۔

قانون:

اگر انسان خالی الذہن ہو کر اس نسبت کی طرف متوجہ ہو جائے تو ثابتہ کی تمام تجلیات مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ نسبت دراصل ایک یادداشت ہے۔ اگر کوئی شخص مراقبہ کے ذریعے اس یادداشت کو پڑھنے کی کوشش کرے تو ادراک ورود یا شہود میں پڑھ سکتا ہے۔ انبیاء اور انبیاء کے وراثت یافتہ گروہ نے تفہیم کے طرز پر اس یادداشت تک رسائی حاصل کی ہے۔

طرز تفہیم

طرز تفہیم دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ، دو گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی گھنٹے سونے اور باقی وقت بیدار رہنے کی عادت ڈال کر حاصل کی جا سکتی ہے۔

طرز تفہیم کو اہل تصوف ’’سیر‘‘ اور ’’فتح‘‘ کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ تفہیم کا مراقبہ نصف شب گزرنے کے بعد کرنا چاہئے۔ انسان کی عادت جاگنے کے بعد سونا اور سونے کے بعد جاگنا ہے، وہ دن تقریباً جاگ کر اور رات سو کر گزارتا ہے۔ یہی طریقہ طبیعت کا تقاضا بن جاتا ہے۔ ذہن کا کام دیکھنا ہے۔ وہ یہ کام نگاہ کے ذریعے کرنے کا عادی ہے۔ فی الواقع نگاہ ذہن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جاگنے کی حالت میں ذہن اپنے ماحول کی ہر چیز کو دیکھتا، سنتا اور سمجھتا ہے۔ سونے کی حالت میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے البتہ اس کے نقوش گہرے یا ہلکے ہوا کرتے ہیں۔ جب نقوش گہرے ہوتے ہیں تو جاگنے کے بعد حافظہ ان کو دہرا  سکتا ہے۔ ہلکے نقوش حافظہ بھلا دیتا ہے۔ اس لئے ہم اس پورے ماحول سے واقف نہیں ہوتے جو نیند کی حالت میں ہمارے سامنے ہوتا ہے۔


معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

بانٹنے والا

قَاسِمُ

اختیار رکھنے والا

مُخْتَارُ

دلیل

بُرْھَانُ

عدل کرنے والا

عَادِلُ

ہدایت دینے والا

رَشِیْدُ

احسان کرنیوالا

مُحْسِنُ

مشورہ دینے والا

مَشِیْرُ

روشن کرنے والا

مُنِیْرُ

بھاری بھر کم

اَلْرَفِیْعُ

قائم

اَلْوَاقِعُ

سچا

صَادِقُ

امانت دار

اَمِیْنُ

پاکیزہ

طَیِّبُ

بہت سخی فیاض

جَوَّادُ

ہر نقص سے پاک

اَلْقُدُّوْسُ

پاک،مقدس

طَاھِرُ

پاک

صُبَّوْحُ

غیر ناقص

کَامِلُ

تعریف کرنے والا

حَامِدُ

بہت قابل تعریف

مَحْمُوْدُ

ہدایت بخشنے والا

رَاشِدُ

حاضر

شَاھِدُ

Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )