Topics
مخلوق کی ساخت میں روح کے تین حصے
ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔روح اعظم، روح انسانی، روح حیوانی۔
روح اعظم علم واجب کے اجزاء سے مرکب
ہے۔
روح انسانی علم وحدت کے اجزاء سے بنتی
ہے۔ اور
روح حیوانی ’’جُو‘‘ کے اجزائے ترکیبی
پر مشتمل ہے۔
روح اعظم کی ابتدا لطیفۂ اخفیٰ اور
انتہا لطیفۂ خفی ہے۔ یہ روشنی کا ایک دائرہ ہے جس میں کائنات کی تمام غیب کی
معلومات نقش ہوتی ہیں۔ یہ وہی معلومات ہیں جو ازل سے ابد تک کے واقعات کے متن
حقیقی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس دائرے میں مخلوق کی مصلحتوں اور اسرار کا ریکارڈ
محفوظ ہے۔ اس دائرہ کو ثابتہ کہتے ہیں۔
روح
انسانی کی ابتدا لطیفۂ سری ہے اور انتہا لطیفۂ روحی ہے۔ یہ بھی روشنی کا ایک دائرہ
ہے۔ اس دائرے میں وہ احکامات نقش ہوتے ہیں جو زندگی کا کردار بنتے ہیں۔ اس دائرے
کا نام ’’اعیان‘‘ہے۔
روح
حیوانی کی ابتدا لطیفۂ قلبی اور انتہا لطیفۂ نفسی ہے۔ یہ روشنی کا تیسرا دائرہ ہے۔
اس کا نام ’’جویہ‘‘ ہے۔ اس دائرے میں زندگی کا ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ عمل کے وہ
دونوں حصے جن میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ جن و انس کا اختیار بھی شامل ہے
جزو درجزو نقش ہوتے ہیں۔
روشنی
کے یہ تینوں دائرے تین اوراق کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں۔ ان کا
مجموعی نام روح، امر ربی، جزولاتجزاء یا انسان ہے۔
لطیفہ
اس شکل وصورت کا نام ہے جو اپنے خدوخال کے ذریعے معنی کا انکشاف کرتا ہے۔ مثلاً
شمع کی لَو ایک ایسا لطیفہ ہے جس میں اجالا، رنگ اور گرمی تینوں ایک جگہ جمع ہو
گئے ہیں۔ (ان کی ترتیب سے ایک شعلہ بنتا ہے جو شہود کی ایک شکل ہے)ان تین اجزاء سے
مل کر شہود کی ایک بننے والی شکل کا نام شعلہ رکھا گیا ہے۔ یہ شعلہ جن اجزاء کا
مظہر ہے۔ ان میں سے ہر جزو کو ایک لطیفہ کہیں گے۔
لطیفہ
نمبر۱: شعلہ کا اجالا ہے۔
لطیفہ
نمبر۲: شعلہ کا رنگ ہے۔
لطیفہ
نمبر۳: شعلہ کی گرمی ہے۔
ان
تینوں لطیفوں کا مجموعی نام شمع ہے۔ جب کوئی شخص لفظ شمع استعمال کرتا ہے تو معنوی
طور پر اس کی مراد تینوں لطیفوں کی یکجا صورت ہوتی ہے۔
اس
طرح انسان کی روح میں چھ لطیفے ہوتے ہیں جس میں پہلا لطیفہ اخفیٰ ہے۔ لطیفۂ اخفیٰ
علم الٰہی کی فلم کا نام ہے۔ یہ فلم لطیفۂ خفی کی روشنی میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔
ان دونوں لطیفوں کا اجتماعی نام ثابتہ ہے۔ اس طرح ثابتہ کے دو اطلاق ہوئے۔ ایک
اطلاق علم الٰہی کے تمثلات ہیں اور دوسرا اطلاق روح کی وہ روشنی ہے جس کے ذریعے
تمثلات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
تصوف
کی زبان میں دونوں اطلاق کا مجموعی نام تدلّٰی ہے۔ تدلّٰی دراصل
اسمائے الٰہیہ کی تشکیل ہے۔ اسمائے الٰہیہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات
ہیں جو ذات کا عکس بن کر تنزل کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
یہی صفات موجودات کے ہر ذرے میں تدلیّٰ بن کر محیط ہوتی ہیں۔
پیدائش، عروج اور زوال کی مصلحتیں اس ہی تدلیّٰ میں مندرج ہیں۔ اس
ہی تدلیّٰ سے علم الٰہی کے عکس کی ابتدا ہوتی ہے۔ جس انسان
پر علم الٰہی کا یہ عکس منکشف ہو جاتا ہے وہ تقدیر ربانی سے مطلع ہو
جاتا ہے۔ اس ہی تدلّٰی یا تجّلی
کا اندراج ثابتہ میں ہوتا ہے۔ جیسےالم خالق اور مخلوق کے درمیانی
ربط کی تشریح ہے یعنی المکی
رموز کو سمجھنے والا اللہ تعالیٰ کی صفت تدلیّٰ یا رمز حکمرانی کو پڑھ لیتا ہے۔
تدلیّٰ
کا علم رکھنے والا کوئی انسان جب الم
پڑھتا ہے تو اس پر وہ تمام اسرار و رموز منکشف
ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں بیان فرمائے ہیں۔
المکے ذریعے صاحب شہود پر وہ اسرار منکشف
ہو جاتے ہیں جو موجودات کی رگ جاں ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت
تدلّٰی کو دیکھ لیتا ہے جو کائنات کے ہر ذرے کی روح میں بشکل تجّلی پیوست
ہے۔ کوئی اہل شہود جب کسی فرد کے لطیفۂ خفی میں الملکھا
دیکھتا ہے تو یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نقطے میں صفت تدلّٰی کی روشنیاں جذب ہیں۔ یہی
روشنیاں ازل سے ابد تک کے تمام واقعات کا انکشاف کرتی ہیں۔ لطیفۂ خفی کے باطن کا
انکشاف لطیفۂ اخفیٰ کا انکشاف ہے اور دونوں لطیفوں کا اجتماعی نام روح اعظم یا
ثابتہ ہے۔
اگر ہم ثابتہ کو ایک نقطہ یا ایک ورق فرض کر لیں
تو اس ورق کا ایک صفحہ لطیفۂ اخفیٰ اور دوسرا صفحہ لطیفۂ خفی ہو گا۔ فی الواقع
لطیفۂ خفی نوری تحریر کی ایک مختصر شکل(SHORT FORM) ہے جس کو پڑھنے کے بعد کوئی صاحب اسرار اس کے پورے مفہوم سے مطلع
ہو جاتا ہے۔ اس مفہوم کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مختصر ہے کیونکہ SHORT
FORMہونے کے باوجود وہ اپنی جگہ کسی فرد کی
پیدائش سے متعلق اللہ تعالیٰ کی تمام مصلحتوں کی تشریح ہوتا ہے۔ اس ہی چیز کو
اسرار کی اصطلاح میں اسماء یا علم قلم کہا جاتا ہے۔ یہ علم دو حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا
حصہ: اسمائے الٰہیہ
دوسرا
حصہ: علم حروف مقطعات
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )