Topics

علم الکتاب

حضرت سلیمان علیہ السلام بنی اسرائیل کے مشہور، جلیل القدر نبی تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت سلیمان بچپن سے ہی ہونہار، ذہن، فہم اور ہوشیار تھے۔ اپنے والد کے ساتھ مقدمات کے فیصلوں میں شریک رہتے تھے۔سورۃ النساء میں ایک مقدمہ کا ذکر ہے۔ جس میں اپنے والد کے ساتھ شریک سماعت تھے۔
ایک مرتبہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دربار میں دو شخص حاضر ہوئے اور ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس کی بکریاں کھیت میں آ گئیں اور سارا کھیت چر گئیں اور برباد کر دیا۔حضرت داؤد علیہ السلام نے مقدمہ کا فیصلہ سنایا کہ مدعی کی کھیتی کا نقصان چونکہ مدعا علیہ کے گلہ کی قیمت کے برابر ہے۔ لہٰذا مدعا علیہ اپنا گلہ مدعی کو دے دے۔ 
حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا۔
ابا جان! آپ کا فیصلہ صحیح ہے مگر بہتر صورت یہ ہے کہ مدعا علیہ کا ریوڑ مدعی کو دے دیا جائے اور اس کو اجازت دی جائے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے اور مدعی کا کھیت مدعا علیہ کے حوالے کر دیا جائے اسے حکم دیا جائے کہ اسے بوئے اور جوتے۔ جب کھیت کی کھیتی پورے طور پر تیار ہو جائے تو مدعی کو اس کی کھیتی دلوادی جائے اور مدعا علیہ کو اس کا ریوڑ واپس کرا دیا جائے۔
قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلہ کی ان الفاظ میں تعریف کی ہے۔
’’ہم نے سلیمانؑ کو اس فیصلہ کی فہم عطا فرمائی۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت سلیمانؑ نبوت اور سلطنت کی مسند پر فائز ہوئے۔ ’’اور سلیمانؑ ، داؤدؑ کے وارث ہوئے‘‘۔۔۔۔۔۔ شرف نبوت اور عظیم الشان سلطنت کے علاوہ اللہ قادر مطلق نے چند اختیارات عطا فرمائے تھے۔
(۱) انسانوں کے علاوہ جن اور جانور بھی آپ کے تابع فرمان تھے۔ جو خدمت جس طرح چاہتے۔ ان سے لیتے۔ چنانچہ قرآن کی وضاحت کے مطابق جنات آپ کے حکم کی تعمیل میں قلعے، عبادت گاہیں، نقش و نگار بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند ہوتے تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو زمین میں گڑی رہتی تھیں بناتے تھے اور پرندے آپ کے حکم سے انتظار میں پر باندھے کھڑے رہتے۔ 
چنانچہ بیت المقدس بھی جنات نے تعمیر کی اور ہد ہد نے ملکہ سبا کے دربار میں قاصد کے فرائض انجام دیئے۔
(۲) اللہ قادر مطلق نے آپ کو جانوروں کی بولیاں سمجھنے کا علم دیا تھا۔ آپ اسی طرح جانوروں کی زبان سمجھتے تھے جس طرح انسانوں کی زبان سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ وادی نمل میں آپ کا گزر ہوا اور چیونٹیوں کے سردار نے چیونٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے بلوں میں گھس جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ کا لشکر ان کو روند ڈالے۔ حضرت سلیمانؑ چیونٹیوں کے سردار کی بات سن کر ہنس پڑے۔
اللہ قادر مطلق نے ہوا کو آپ کے لئے مسخر کر دیا تھا۔ حضرت سلیمانؑ اپنے ہوائی تخت پر سوار ہو کر یمن سے شام، شام سے یمن جاتے تھے۔ حضرت سلیمانؑ اپنے ہوائی تخت پر بیٹھ کر ایک سو بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کی طاقت کے باوجود نہایت انکساری، عاجزی اور بندگی میں زندگی گزارتے تھے۔
ایک روز حضرت سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات بھی دربار میں حاضر تھے جو اپنے اپنے مرتبہ اور سپرد کردہ خدمات پر بے چون و چرا عمل کیا کرتے تھے ایک بار دربار سلیمانی پورے جاہ و حشم کے ساتھ منعقد تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جائزہ لیا تو ہد ہد کو غیر حاضر پایا۔ ارشاد فرمایا کہ میں ہد ہد کو موجود نہیں پاتا کیا وہ واقعی غیر حاضر ہے۔ اگر اس کی غیر حاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتائے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہد ہد حاضر ہو گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی باز پرس پر اس نے کہا۔
میں ایک ایسی یقینی خبر لایا ہوں جس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ یمن کے علاقے میں ملکہ سبا رہتی ہے۔ خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے مگر۔۔۔۔۔۔ملکہ اور اس کی قوم سورج کی پرستش کرتی ہے۔ شیطان نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔ وہ خدائے لا شریک کی پرستش نہیں کرتے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا۔ تیرے سچ اور جھوٹ کا امتحان ابھی ہو جائے گا۔ تو اگر سچا ہے تو میرا یہ خط لے جا اور اسے ملکہ سبا تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔
ہد ہد نے۔۔۔۔۔۔یہ خط ملکہ کے سامنے ڈال دیا۔۔۔۔۔۔تو ملکہ نے اسے پڑھا اور پھر اپنے درباریوں سے کہا۔ ابھی میرے پاس ایک معزز مکتوب آیا ہے جس میں درج ہے۔
’’یہ خط سلیمان کی جانب سے، اللہ کے نام سے شروع ہے۔
تم کو ہم سے سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تم ہمارے پاس خدا کے فرماں بردار ہو کر آؤ۔‘‘
ملکۂ سبا نے خط کی عبارت پڑھ کر کہا۔’’اے میرے ارکان حکومت! تم جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتی۔ اس لئے اب تم مشورہ دو کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔‘‘ ارکان حکومت نے عرض کیا۔’’جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے۔ اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں۔ رہا مشورے کا معاملہ تو آپ جو چاہیں فیصلہ کریں۔ ہم آپ کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ ملکہ نے کہا۔ ’’بے شک ہم طاقتور اور صاحب شوکت ہیں لیکن سلیمان علیہ السلام کے معاملہ میں ہم کو عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے۔ پہلے ان کی قوت اور طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے جس عجیب طریقہ سے سلیمانؑ کا پیغام ہم تک پہنچا ہے وہ ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ سلیمانؑ کے معاملہ میں سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھایا جائے۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کروں وہ سلیمان علیہ السلام کے لئے عمدہ اور بیش قیمت تحائف لے کر جائیں اور اس طرح ہم ان کی شان و شوکت کا اندازہ لگا سکیں گے اور ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر واقعی وہ زبردست قوت و شوکت کے مالک اور وقت کے بادشاہ ہیں تو ان سے ہمارا لڑنا فضول ہے اس لئے کہ صاحب طاقت و شوکت بادشاہوں کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی بستی میں فاتحانہ غلبہ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں۔
جب ملکہ سبا کے قاصد تحائف لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سلیمانؑ نے فرمایا:
’’تم اور تمہاری ملکہ نے میرے پیغام کو غلط سمجھا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ان تحائف کے ذریعہ جن کو تم بہش بہا سمجھ کر بہت مسرور اور خوش ہو۔ مجھ کو راضی کر لو گے۔ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو کچھ مرحمت فرمایا ہے اس کے مقابلے میں تمہاری یہ بیش قیمت دولت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تم اپنے تحفے واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو۔ اگر اس نے میرے پیغام کو قبول نہیں کیا تو میں ایسے زبردست لشکر کے ساتھ سبا والوں تک پہنچوں گا کہ تم اس کی مدافعت اور مقابلے سے عاجز رہو گے اور پھر تم کو ذلیل و رسوا کر کے شہر بدر کر دوں گا۔‘‘
قاصدوں نے واپس آ کر ملکہ سبا کے سامنے تمام روئیداد سنائی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی شوکت و عظمت کا جو کچھ حال دیکھا تھا حرف بہ حرف کہہ سنایا اور بتایا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جن اور حیوانات بھی ان کے تابع فرمان اور محکوم ہیں۔ملکہ نے جب یہ سنا تو طے کر لیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقابلہ پر آنا اور ان سے لڑنا خود اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ان کی دعوت پر لبیک کہا جائے لہٰذا اس نے سفر شروع کر دیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم ہو گیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہو رہی ہے۔ آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا شاہی تخت اس دربار میں موجود ہو تم میں سے کون اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے؟‘‘ ایک دیو پیکر جن نے کہا۔ اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں۔ میں تخت لا سکتا ہوں۔ مجھے یہ طاقت حاصل ہے اور یہ کہ میں اس تخت کے بیش بہا سامان میں کوئی بددیانتی نہیں کروں گا۔
جن کا یہ دعویٰ سن کر ایک انسان نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ کہا۔ ’’اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے۔۔۔۔۔۔یہ تخت دربار میں موجود ہو گا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیر کر دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت دربار سلیمانی میں موجود تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا
’’یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے وہ مجھ کو آزماتا ہے کہ میں شکر گزار بندہ ہوں یا نافرمان۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اس کا شکر گزار ہوتا ہے وہ اپنی ذات ہی کو نفع پہنچاتا ہے اور جو نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نافرمانی سے بے پرواہ اور بزرگ تر ہے اور اس کا وبال خود نافرمانی کرنے والے پر ہی پڑتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس تخت کی ہیئت میں کچھ تبدیلی کر دی جائے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا یہ دیکھ کر حقیقت کی طرف راہ پاتی ہے یا نہیں۔ کچھ عرصے کے بعد ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گئی۔ ملکہ جب دربار میں حاضر ہوئی تو اس سے پوچھا گیا۔ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے عقلمند ملکہ نے جواب دیا۔ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے، گویا وہی ہے۔‘‘ ملکہ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا۔’’مجھ کو آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال قوت کا پہلے سے علم ہو چکا ہے اسی لئے میں مطیع اور فرماں بردار بن کر حاضر خدمت ہوئی ہوں اور اب تخت کا یہ محیر العقول معاملہ تو آپ کی لاثانی طاقت کا کھلا مظاہرہ ہے جو ہماری اطاعت کے لئے مزید ثبوت فراہم کرتا ہے ہم پھر ایک مرتبہ آپ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی مدد سے ایک عالی شان محل تیار کروایا تھا جو آبگینوں کی چمک، قصر کی رفعت اور عجیب و غریب صنعتکاری کے لحاظ سے بے مثال تھا اوراس میں داخل ہونے کے لئے سامنے جو صحن پڑتا تھا اس میں بہت بڑا حوض کھدوا کر پانی سے لبریز کر دیا گیا تھا۔ پھر شفاف آبگینوں اور بلور کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنایا گیا کہ دیکھنے والوں کی نگاہ دھوکا کھا کر یہ یقین کر لیتی تھی کہ صحن میں شفاف پانی بہہ رہا ہے۔
ملکہ سبا سے کہا گیا کہ وہ قصر شاہی میں قیام کرے۔ ملکہ محل کے سامنے پہنچی تو شفاف پانی بہتا ہوا دیکھا جب ملکہ نے پانی میں اترنے کے لئے پنڈلی سے کپڑے اوپر اٹھائے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پانی نہیں ہے۔ سارا محل اور اس کا خوبصورت صحن چمکتے ہوئے آبگینوں سے بنایا گیا ہے۔ ملکہ نے ندامت اور شرم سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے بارگاہ الٰہی میں اقرار کیا۔
’’پروردگار! آج تک ماسواللہ کی پرستش کر کے میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا مگر اب میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہو کر صرف ایک اللہ پر ایمان لاتی ہوں جو تمام کائنات کا پروردگار ہے۔‘‘
حکمت:
اس قصہ میں اللہ نے یہ حکمت بیان کی ہے کہ ہم نے دوؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو ایک علم دیا ہے۔ یعنی یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسپائر ہوا ہے۔ انسپائر ہونا۔ خواہ سن کر ہو یا کوئی منظر دیکھ کر ہو بہرصورت وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کے پاس وحی آتی تھی۔ وحی کے ذریعہ نزول علم ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذہن میں کوئی بات آتی ہے تو بھی وہ اللہ تعالیٰ کا علم ہوتا ہے کسی انسان کا علم نہیں ہوتا۔ ہوائی جہاز، ٹیلی فون، ٹی وی، ٹیلکس، ریڈیو وغیرہ جن لوگوں نے بنائے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے انسپائر کیے جاتے ہیں۔ 
سائنٹسٹ کیا تھے اور کیا ہیں اس سے ہمیں بحث نہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قادر مطلق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے تحت انسان کو وہ چیز مل جاتی ہے جس کی اسے تلاش ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس بات کی کوئی خصوصیت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے یا نہیں۔ قانون یہ بھی ہے کہ انسان اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ تن من دھن سے کسی چیز کی تلاش میں لگ جائے اور تلاش کو زندگی کا مقصد قرار دے دے تو اسے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے۔ پہلے بھی جاری تھی۔ اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ اس بات کو ہمارے بزرگوں نے دو لفظوں میں بیان کیا ہے۔ جو ئندہ پائندہ۔ ’’جو ڈھونڈتا ہے وہ پا لیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں صرف کہانی بیان نہیں کی ہے۔ کہ کہانیاں سنا کر اللہ ہمیں مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری حیثیت اور حقیقت ہی کیا ہے جو مرعوب کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اللہ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اللہ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی اس کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس کہانی کا منشاء ہماری ہدایت اور رہنمائی ہے۔
اللہ نے اس قصہ میں جنات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جنات انسانوں کے زیر اثر آ سکتے ہیں اگر لوگ اس علم کو قرآن پاک میں تلاش کریں جس کو علم الکتاب (علم بمعنی قرآن) کہا گیا ہے تو یقیناً وہ علم انہیں مل جائے گا۔ جو انسان کو جنات پر فوقیت دیتا ہے ہم میں بعض مسلمان ایسے بھی ہیں جو جنات پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنات ایک فکشن ہے۔ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے ایک ایک حرف پر یقین رکھتا ہو۔ اگر ہم ایمان کو اپنے دل میں جگہ دیں اور دل کی گہرائیوں تک لے جائیں اور دل کے احاطہ میں رکھیں یعنی اس کا پورا یقین کر لیں تو ہمارے اوپر وہ تمام رموز جو قرآن پاک میں موجود ہیں، ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعوت دی ہے جگہ جگہ فرماتا ہے فکر کرو۔ یہ بھی فرمایا ہے۔’’کہتے ہیں گنوار ہم ایمان لائے تو کہو تم ایمان نہیں لائے، پر کہو مسلمان ہوئے اور ابھی نہیں داخل ہوا۔ ایمان تمہارے دلوں میں (ترجمہ شاہ عبدالقادر)۔ 
بعض لوگوں کے ذہن میں فرشتے بھی ایک فکشن ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہمارے مشاہدے میں ہے وہ ہے اور جو چیز ہمارے مشاہدے میں نہیں ہے۔ وہ نہیں۔ یہاں یہ بات بہت زیادہ غور طلب ہے کہ ایٹم انسان کے مشاہدے میں نہیں آیا ہے۔ جس طرح ایٹم مشاہدہ میں نہیں آیا ہے۔ اس طرح وائرس بھی انسان کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ جس طرح ہم ایٹم اور وائرس کو نہیں دیکھتے اسی طرح جنات کا مشاہدہ بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ یقین حاصل نہیں ہے جس سے مشاہدہ ہوتا۔ بالمقابل اس بات کے ایٹم کا یقین انہیں بی ہیویئر(Behaviour) سے ملا ہے۔ ایٹم کے بی ہیویئر(Behaviour) سے اس لئے انکار نہیں کر سکتے کہ مٹھی بھر آدمی ایٹم کے بی ہیویئر(Behaviour) کو دیکھ چکے ہیں۔ کیا ایٹم کی طرح، جنات سے وقوف رکھنے والے انسانوں کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے۔ جتنی ایٹم کا بی ہیویئر مشاہدہ کرنے والوں کی ہے۔ یقیناً ہے لیکن ان کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاتا اس کی وجہ بجز بے یقینی کے کچھ نہیں ہے۔ ابھی ہمارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے۔ جس وقت ہمارے دلوں میں ایمان اتر جائے گا یقیناً ہم جنات اور فرشتوں کو دیکھ لیں گے۔ مسلمانوں میں ایسے گروہ بن گئے ہیں جو قرآن کو اپنی عقل کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ جبکہ اللہ کا حکم ہے کہ
اور اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ (القرآن)
اگر فرقوں میں بٹی ہوئی قوم متحد ہو جائے تو ساری دنیا پر اسلام کی حکمرانی ہو گی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ نوع انسانی کے لئے تفکر کا ایک نایاب خزانہ ہے۔ ہد ہد کا دیر سے آنا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا کے متعلق اطلاع دینا اور یہ بتانا کہ وہ اور اس کی قوم سورج پرست ہے اور ہد ہد کا پیغام لے جانا یہ سب باتیں نکات سے خالی نہیں ہیں۔ ان باتوں میں خالق کائنات کی حکمت پوشیدہ ہے۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جو انسان تھے، انسانوں، جنوں، پرندوں، درندوں اور ہوا پر حکومت کرتے تھے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی سرکشی نہیں کرتا تھا اور اگر سرکشی کرتا تھا تو سزا پاتا تھا۔ جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کے لئے فرمایا تھا۔ تیسری حکمت یہ ہے کہ باوجود اتنے بڑے لشکر کے جس میں جنات، انسان، پرندے وغیرہ شامل تھے۔ اللہ قادر مطلق انہیں اس تمام لشکر کی شکم پُری کے لئے رزق فراہم کرتا تھا۔
اس قصہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں ایسا جن بھی تھا کہ جو ایک یا دو ساعت میں ملکہ سبا کا تخت یمن سے بیت المقدس لا سکتا تھا(یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار میل بتایا جاتا ہے)اس قصہ میں یہ حکمت بھی بیان ہوئی ہے کہ جو انسان قرآن کا علم جانتا ہے اس کی رسائی جنات سے زیادہ ہے اور جو بندہ قرآن پاک میں موجود تسخیری فارمولے جانتا ہے زمان و مکان (Time & Space) اس کے تابع فرمان ہو جاتے ہیں اور اس کی روشن مثال یہ ہے کہ دربار میں موجود ایک انسان پلک جھپکتے ملکہ سبا کا تخت دربار میں لے آیا۔
اللہ قادر مطلق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن پاک میں وہ علم موجود ہے جس سے ہم ہر طرح کا استفادہ کر سکتے ہیں اور اس میں نبی ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ ہر بندہ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے۔ اب اس صلاحیت کو اگر کوئی بندہ ٹھکرا دے اور یہ سمجھے کہ میری کیا حقیقت ہے کہ میں اس علم کو سمجھ سکوں اس لئے غلط ہے کہ اللہ قادر مطلق نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ میں بندہ کا تذکرہ کر کے انسان کے لئے یہ چیز عام کر دی ہے بشرطیکہ وہ تفکر سے کام لے۔
علم کتاب کو حاصل کرنا تفکر کے ذریعہ ممکن ہے۔ تفکر کا اصل اصول معلوم کرنے کے لئے اپنی روح سے واقف ہونا ضروری ہے جو لوگ اپنی روح سے واقف ہو جاتے ہیں۔ (روحانی صلاحیتوں سے بھی واقف ہو جاتے ہیں)
کتاب ’’لوح و قلم‘‘ مصنف حضرت قلندر بابا اولیاءؒ میں درج ہے کہ انسان چھ لطیفوں سے مرکب ہے اور ہر دو لطیفوں سے سے ایک دائرہ بنتا ہے یعنی انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا دارومدار ان تین دائروں پر ہے۔ پہلے دائرے میں اللہ قادر مطلق کی مشیئت اور تسخیر کائنات کے فارمولے نقش ہیں۔ دوسرے دائرے میں حیات بعد الممات کی تشریح ہے اور تیسرے دائرہ میں اعمال و حرکات کی تشریح کرتا ہے جن سے زندگی بنتی اور خرچ ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی آیات میں تفکر کیا جائے تو یوں کہا جائے گا۔ 
انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اس کے اندر روح ڈال دی گئی تو زندگی دوڑنے لگی اور روح امر رب ہے اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے۔ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ مقام فکر ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی روح ہے لیکن بظاہر کتنا مجبور و لاچار ہے، مجبور و لاچار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان علم کتاب سے ناواقف ہے یہی وہ ناواقفیت ہے جس نے ہمیں تسخیر کائنات کے فارمولے سے محروم کر دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن پاک میں تفکر کر کے اس گم کردہ نعمت کو تلاش کریں اور اللہ قادر مطلق کے انعامات و اکرامات سے فیض یاب ہو کر سرفرازی اور سربلندی حاصل کرے۔


Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔