Topics

دین فہم دانشور

دو دانشور ایک جگہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

ایک نے دوسرے سے سوال کیا۔

ہم وہی زبان کیوں بولتے ہیں جو ہماری ماں بولتی تھی۔ ہم کھانا اسی طرح کیوں کھاتے ہیں جس طرح ہمارے ماں باپ کھاتے تھے۔ہمیں ہماری ماں جائی بہن اور مادر زاد بھائی زیادہ محبوب ہوتا ہے جب کہ ہمارے دوست بھی ہوتے ہیں اور وہ بہن بھائیوں سے زیادہ مخلص ہوتے ہیں۔ 

دوسرے دانشور نے جس کا نام دنیا فہم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہا۔

’’اس لئے کہ میں، میرا بھائی، میری بہن ایک Materialسے بنے ہیں۔ ہمارا جسمانی وجود دیکھنے میں تو الگ الگ ہے لیکن فی الواقع ہمارے اندر ایک ماں کا خون دوڑ رہا ہے۔ ہمارے وجود کا ہر ایک حصہ ہر ہر عضو ماں کے خون سے تیار ہوا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

ہماری مادری زبان اس لئے ہماری زبان ہے کہ ماں کے پیٹ میں بھی ہم نے وہ الفاظ سنے ہیں جو ماں بولتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیدائش کے بعد ہمارے کان اسی آواز سے مانوس رہے ہیں جو الفاظ ماں کے دماغ سے لہروں کے ذریعے ہمارے کانوں میں منتقل ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔کھانا ماں کی طرح ہم اس لئے کھاتے ہیں کہ ماں ہمیں لقمے بنا کر کھلاتی تھی۔

دوسرا دانشور جس کا نام دین فہم تھا۔

گویا ہوا۔

میرےبھائی کیا تم یہ بتانا چاہتے ہو کہ یہاں ہر آدمی کی زندگی ایک کتاب کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔جس طرح ایک کتاب کے کئی ابواب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔کتنے ہی صفحے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔صفحات پر پیرے الفاظ حروف اور نقطے ہوتے ہیں۔

دنیا فہم و دانشور نے کئی بار آنکھیں کھولیں اور بند کیں پلک جھپکنے کے عمل سے اس کے دماغ میں موجود اسکرین پر نہیں معلوم کب سے مدھم پڑ جانے والے نقوش ابھرے۔۔۔۔۔۔اور ان نقوش میں اسے اپنا بچپن لڑکپن جوانی طبیعت میں جولانی کا دور، جذبات سے پرزندگی کے واقعات نمایاں نظر آنے لگے۔ اس نے دیکھا۔۔۔۔۔۔میں گوشت پوست کی ایک ننھی منی صورت ہوں۔ 

معصوم نرم اور مخملی پھول کی ایک تصویر۔۔۔۔۔۔ایسی تصویر جو کہ اپنا پرایا ہر شخص محبت بھری مخمور نظر سے دیکھتا تھا۔۔۔۔۔۔پھر یہ تصویر نہیں معلوم کیوں بڑی ہو گئی۔ جیسے جیسے بڑی ہوئی تصویر میں پھول کا حسن کم ہوتا رہا۔۔۔۔معصومیت کی جگہ کرختگی آ گئی۔

جو لوگ دیکھ کر خوش ہوتے تھے وہ دور ہونے لگے۔

دنیا فہم دانشور نے کہا ۔۔۔۔۔۔میں ادوار کی ستائی ہوئی ایک تصویر ہوں۔ زمانے کی اونچ نیچ، خود غرضی اور خود ستائشی نے مجھے داغ داغ کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔

دین فہم دانشور بولا۔

میری بات سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں جب اپنی ماں کے پیٹ میں آیا۔۔۔۔۔۔پیٹ میں آنے سے پہلے دراصل میں اپنی ماں کے دماغ میں کتاب کے مسودے کی طرح تھا۔۔۔۔۔۔پھر اس مسودے کے بکھرے ہوئے اوراق ایک جگہ جمع ہوئے۔ پیدائش کے بعد تحریر بنی اور جذبات نے جب احساسات کا جامہ پہنا تو لفظ بنے اور جذبات احساسات کے چھوٹے بڑے تقاضوں نے حروف کی شکل اختیار کر لی۔

دنیا فہم دانشور نے یہ ساری گفتگو سن کر کہا۔

اے میرے دین فہم دانشور کیا تم یہ بتانا چاہتے ہو کہ لمحات سیکنڈ منٹ گھنٹے دن رات مہینے اور سالوں کی تقسیم انسانی زندگی کی ایک کتاب ہے؟

دین فہم دانشور نے نعرہ تحسین بلند کرتے ہوئے کہا۔ ہاں بے شک ! زمین پر پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک کتاب ہے اور اس کے اوراق اور تحریر اس کی زندگی ہے۔

میرے دوست! کتاب کا پہلا ورق وہ ہے جس دن میں پیدا ہوا۔ کتاب کا آخری ورق وہ ہے جب میری کتاب کرم خوردہ ہو کر ختم ہو جائے گی۔ 

دنیا فہم دانشور میرے عزیز!

میں اس کتاب میں وہ سب کچھ لکھ رہا ہوں جو میں کرتا ہوں۔ جو میں سوچتا ہوں۔ جو میں سنتا ہوں یا کسی کو سناتا ہوں۔

دنیا فہم دانشور میرے دوست!

یہ کتاب میری ذاتی خفیہ ڈائری ہے۔ اس میں وہی کچھ لکھا ہوتا ہے جو میں لکھتا ہوں اس کتاب میں ایک نقطہ لگانے کا بھی کسی دوسرے کو اختیار نہیں۔ اس کتاب کا منصف میں خود ہوں اس کتاب کو پڑھنے والا بھی میں خود ہوں۔ میں نے یہ کتاب خود اپنی کاوش سے لکھی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن جب قلم خشک ہو جائے گا میں اپنی لکھی ہوئی اس کتاب میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ 

ایک حروف بھی اس خود نوشت کتاب میں سے قلم زد نہیں کر سکتا۔

دنیا فہم دانشور۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھبرا کر بولا۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ میں اپنی کتاب خود کیوں لکھ رہا ہوں۔ میں اتنا مجبور اور بے بس کیوں ہوں کہ اپنی لکھی ہوئی تحریر میں ایک حرف کا اضافہ نہیں کر سکتا۔ ایک نقطہ حذف نہیں کر سکتا۔

دین فہم دانشور نے کہا۔

جس نے میرے باپ میری ماں میرے باپ کے باپ اور میری ماں کی ماں کو پیدا کیا ہے اور انہیں اپنی کتاب حیات لکھنے کا اختیار دیا ہے۔۔۔۔۔۔وہ ہستی چاہتی ہے کہ اس کی بنائی ہوئی تصویر خوشنما رہے، تصویر بدنما نہ ہو اور جب کوئی تصویر خود کو بدنما اور بدہیئت بنا لیتی ہے تو وہ ہستی ناخوش ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔خوشی اور ناخوشی بھی ایک تحریر ہے۔ وہ ہستی چاہتی ہے کہ کتاب حیات خوبصورت خوشنما رہے اور داغ دھبوں سے پاک ہو۔۔۔۔۔۔ اور جب تصویر کتاب حیات کو خراب کر دیتی ہے تو کتاب کے اوپر لکھی ہوئی تحریر بھی خراب ہو جاتی ہے۔ یہاں اوروہاں دونوں جہاں میں عذاب بن جاتی ہے۔

وہ ہستی چاہتی ہے کہ تصویر کو خراب نہ کیا جائے تصویر کی پھول جیسی معصومیت برقرار رہے ۔ چہرے کا نکھار فرشتوں کا حسن بنا رہے۔

یہ سب باور کرانے کے لئے اس ہستی نے جو تصویر کا خالق ہے۔۔۔۔۔۔ہمیں بتایا ہے:

’’وہی ہے جو ماں کے پیٹ میں طرح طرح کی تصویر کشی کرتا ہے۔‘‘ 

(القرآن)

تصویر کے خالق نے اپنے پاس سے ایک کتاب لکھ کر دی ہے جس میں تمام ہدایات جمع کر دی ہیں۔

’’پڑھ اپنی کتاب۔۔۔۔۔۔آج اپنے اعمال کا جائزہ لینے کے لئے تو خود ہی کافی ہے۔ 

(القرآن)

جن لوگوں نے اپنی کتاب زندگی کی حفاظت نہیں کی اور اپنی خوبصورت تصویر کو خراب کر دیا ان کے لئے تصویر کا خالق اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

وہ کیسا دن ہو گا جب تم لوگ پیش کئے جاؤ گے تمہارا کوئی راز چھپا نہیں رہے گا۔ اس وقت جس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا اور دیکھو۔ پڑھو میرا نامہ اعمال۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہو گا اونچے باغ ہیں جس کے میوے جھک رہے ہیں مزے سے کھاؤ پیواپنے ان نیک اعمال کے صلہ میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کئے ہیں۔

(الحاقہ ۲۴۔۱۸)



Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔