Topics

ترتیب و پیشکش

مرشد کریم الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب مدظلہ تعالیٰ کے کتابچوں پر مبنی کتابیں ’’اسم اعظم‘‘ اور’’ قوس قزح ‘‘آپ نے پڑھی ہو گی اور اپنے استاد کی نگرانی میں پڑھتے وقت تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل یعنی مراقبہ پر بھی توجہ دی ہو گی۔

اس کتاب میں مرشد کریم کے مزید 13عدد کتابچوں کو کتابی شکل دے کر ’’محبوب بغل میں‘‘ کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔

اب انشاء اللہ چوتھی جلد میں مزید کتابچوں کو شامل کر کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔

انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ خالق اور مخلوق کے علاوہ استاد اور شاگرد کا بھی ہے۔ عادت اپنی اسی طرح جاری ہے کہ ایک استاد ہو اور ایک شاگرد، ایک مقتدر ہو اور دوسرا مصاحب، ایک پیشوا ہوا اور دوسرا پیرو یہ عادت اپنی حضرت آدمؑ کے وقت سے جاری اور قیامت تک جاری رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کے بعد علوم سکھائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بحیثیت استاد آدم کو علوم سکھائے پھر تعلیم و تہذیب سے آراستہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں معلم، استاد اور شیخ بنا دیا۔ جنت میں مقام عطا فرمایا اور ملائکہ کو ان کے گرد قطار اندر قطار کھڑا کیا اور آدم سے فرمایا کہ وہ علوم ظاہر کرے ۔ فرشتوں نے کہا۔

ترجمہ: الٰہی! تو پاک ہے۔ تو نے جو کچھ ہمیں نہیں سکھایا اس کا ہمیں علم نہیں، بے شک تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔

گویا فرشتوں پر آدم کی فضیلت علم ٹھہری۔ اس کے بعد آدم کو شجر ممنوعہ کے قریب جا کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کام کرنے کے ارتکاب میں جنت سے نکال کر اور ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کر کے زمین پر بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔

آپ سے گذارش ہے کہ آپ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل یعنی مراقبہ ضرور کریں تا کہ آپ کے مشاہدے میں تفکر کے ذریعے ساری بات آ جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔(آمین)

پڑھنے دانہ  مان کریں  تو ، نہ آکھیں  میں  پڑھیا

او جبار ستار کہاوے متاں روڑھ سٹے دودھ کڑھیا


میاں مشتاق احمد عظیمی

روحانی فرزند

الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی

 

 


Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔