Topics
سلسلہ چشتیہ میں
کلمہ شہادت پڑھتے وقت ’’الا اللہ‘‘ پر زور دیا جاتا ہے بلکہ سلسلہ کے اراکین الا
اللہ کے الفاظ کو ادا کرتے وقت سر اور جسم کے بالائی حصے کو ہلاتے ہیں اور ان
حضرات پر سماع کے وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے امام حضرت
ممشاد دینوریؒ ہیں۔ اور ہندوستان میں یہ سلسلہ حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ خواجہ
غریب نواز کے ذریعے خوب پھیلا اور مقبول ہوا۔
حضرت معین الدین
چشتی اجمیریؒ ، غریب نواز کی ولادت سنجر صوبہ سیستان ایران میں ہوئی۔ تاریخ ولادت ۱۱۴۱ء ہے۔ سلجوقیہ خاندان کے حکمران سلطان سنجر
نے گیارہویں صدی عیسوی میں اس شہر کو آباد کیا تھا۔ خواجہ غریب نواز کے والد
بزرگوار کا اسم گرامی سید غیاث الدین اور والدہ کا نام ماہ نور تھا۔
حضرت خواجہ غریب
نواز کی عمر تیرہ برس کی تھی جو حسن بن صباح کے فدائیوں نے سنجر پر حملہ کر کے اسے
تاراج کر دیا۔۔۔۔۔۔نامور علماء اور مشائخ کو چن چن کر قتل کر دیا گیا۔ خواجہ غریب
نواز کے والد خاندان کے افراد کے ساتھ خراسان میں نیشاپور منتقل ہو گئے۔ سفر کی
سختی اور مصائب و آلام نے سید غیاث الدین کی صحت پر برا اثر ڈالا۔
حالات اور صحت کی
خرابی کی وجہ سے دو سال میں ان کا انتقال ہو گیا اور ایک سال کے بعد والدہ ماجدہ
ماہ نور بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ خواجہ غریب نواز ان لگاتار حوادث اور صدموں کی
وجہ سے زیادہ وقت خاموش رہنے لگے۔
ایک روز ایک درویش
ابراہیم قندوزی تشریف لائے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے انہیں سائے میں بٹھایا۔
درویش بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنے تھیلے سے کھلی کا ایک ٹکڑا نکالا، دانتوں سے
چبایا اور خواجہ صاحبؒ کو دے دیا۔ آپؒ نے بلا تکلف کھلی کا ٹکڑا کھا لیا۔
سترہ سال کی عمر
میں آپ نے سمرقند کے عالم دین مولانا حسام الدین بخاری کی شاگردی اختیار کی اور دو
سال تک ان سے تفسیر، حدیث فقہ کے علوم پڑھے۔ ۲۰ سال کی عمر میں ریاضی فلکیات اور علم طب میں مہارت
حاصل کی۔
حضرت خواجہ ممشاد
دینوریؒ نے اپنے شاگرد حضرت ابو اسحاقؒ کو وسط ایشیائی ریاستوں میں تبلیغ کے لئے
بھیجا۔ ان ریاستوں میں آتش پرست بہت بڑی تعداد میں رہتے تھے۔
امام سلسلہ حضرت
ممشاد دینوریؒ نے رخصت کے وقت سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا کی اور اس نئے سلسلے کا
نام چشتیہ رکھا۔
لفظ چشتی نے آتش
پرستوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا اور تبلیغ اسلام کے لئے حضرت ممشاد
دینوریؒ کی حکمت سے بہت فائدہ ہوا۔ چشتیہ بزرگوں کی جدوجہد سے بے شمار آتش پرست
مسلمان ہو گئے چونکہ چشتی کے لفظ سے آتش پرست بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے ان
بزرگوں کو اپنے لئے اجنبی محسوس نہیں کیا۔
چشتیہ سلسلہ کے
بزرگوں نے خدمت، اخلاق اور سخاوت کے ذریعہ لوگوں کو اپنے قریب کر لیا اور ان تک
اسلام کی روشنی پھیلائی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ جب سلسلہ چشتیہ کے بزرگ
خواجہ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر ۱۸ برس تھی۔ خواجہ عثمان ہارونیؒ نے بیعت
کرنے کے بعد آپ کو خانقاہ میں پانی بھرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔
دن مہینوں اور
مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ کم و بیش ۲۲
سال خواجہ صاحب یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ جب خواجہ معین الدینؒ کی عمر ۴۰ سال ہوئی تو ایک روز حضرت خواجہ عثمان
ہارونیؒ نے آپ کو بلایا اور پوچھا۔ ’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘
خواجہ صاحب نے عرض
کی۔ حضور اس خادم کا نام معین الدین ہے۔
معین الدین چشتیؒ
اپنی تصنیف ’’انیس الارواح‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’مرشد کریم نے
ارشاد فرمایا۔ دو رکعت نماز ادا کرو۔ میں نے ادا کی۔ پھر فرمایا قبلہ رو بیٹھ جا۔
میں بیٹھ گیا۔ حکم دیا! سورۃ بقرہ پڑھ۔ میں نے پڑھی۔ فرمان ہوا کہ اکیس مرتبہ درود
شریف پڑھ۔ میں نے پڑھا۔ پھر مرشد کریم کھڑے ہو گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی
جانب منہ کر کے فرمایا۔ تجھے خدا سے ملا دوں۔ پھر فرمایا۔ آسمان کی طرف دیکھ۔ میں
نے دیکھا۔ پوچھا کہاں تک دیکھتا ہے۔ عرض کیا، عرش اعظم تک۔ فرمایا زمین کی طرف
دیکھ۔ میں نے دیکھا۔ دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے۔ عرض کیا تحت الثریٰ تک۔ پھر
فرمایا سورہ اخلاص پڑھ۔ میں نے پڑھی۔ فرمایا۔ آسمان کی طرف دیکھ۔ میں نے دیکھا۔
پوچھا اب کہاں تک دیکھتا ہے۔
عرض کیا۔ حجاب
عظمت تک۔ فرمایا آنکھیں بند کر۔ میں نے بند کر لیں۔ فرمایا کھول۔ میں نے کھول دیں۔
پھر مجھے اپنی دو انگلیاں دکھا کر پوچھا کیا دیکھتا ہے؟۔۔۔میں نے عرض کیا۔ مجھے
اٹھارہ ہزار عالمین نظر آ رہے ہیں۔ پھر سامنے پڑی ہوئی اینٹ اٹھانے کا حکم
دیا۔۔۔میں نے اینٹ اٹھائی تو مٹھی بھر دینار برآمد ہوئے۔۔۔فرمایا۔ یہ فقراء میں
تقسیم کر دے۔۔۔میں نے دینار تقسیم کر دیئے۔‘‘
خواجہ غریب نوازؒ
فرماتے ہیں:
’’رخصت کرتے وقت
مرشد کریم نے مجھے اپنے سینہ سے لگایا۔ سر اور آنکھوں کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھے
خدا کے سپرد کیا۔ اور عالم تحیر میں مشغول ہو گئے۔‘‘
حضرت خواجہ غریب
نوازؒ نے اپنے مرشد کریم سے رخصت ہونے کے بعد مختلف شہروں اور ملکوں سے ہوتے ہوئے
حرم شریف کا سفر اختیار کیا۔ راستہ میں اصفہان شہر میں خواجہ بختیار کاکیؒ سے
ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بیعت کی درخواست کی۔
جو خواجہ غریب
نوازؒ نے قبول فرمائی۔ دونوں حضرات مکہ معظمہ پہنچے اور حج کیا پھر مدینہ منورہ
تشریف لے گئے۔ مسجد نبوی میں آپ مسلسل مراقبہ اور مشاہدہ میں مشغول رہے۔ ایک روز
آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی۔
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے معین الدینؒ
تو میرے دین کا معین ہے۔ میں نے ولایت ہندوستان تجھے عطا کی۔ وہاں کفر و ظلمت
پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر چلا جا۔ تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق
افروز ہو گا۔‘‘
دربار رسالتﷺ کی
اس بشارت سے خواجہ غریب نوازؒ پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اجمیر کے بارے میں آپؒ
کچھ نہیں جانتے تھے کہ اجمیر کس ملک میں ہے؟ میں وہاں کیسے پہنچوں؟ سفر کے لئے کون
سا راستہ اختیار کروں۔ اس ہی سوچ میں آنکھ لگ گئی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم
نے اجمیر کے بارے میں باخبر کیا۔
اجمیر کے ارد گرد
قلع وکوہستان بھی دکھائے اسی خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواجہ
معین الدینؒ کو جنت کا ایک انار عطا فرمایا اور آپ کو سفر کے لئے رخصت کر دیا۔
فوراً آپؒ نے سفر
کی تیاری شروع کر دی۔ ۱۱۸۹ ء میں آپ مدینہ
منورہ سے بغداد پہنچے کچھ عرصہ قیام کر کے افغانستان کے راستے لاہور پہنچے اور
لاہور میں حضرت سید علی ہجویریؒ کے مزار پر چالیس روز مراقبہ میں مشغول رہے۔
لاہور سے ملتان
تشریف لائے۔ خواجہ صاحب نے ملتان میں تقریباً پانچ سال قیام فرمایا۔ ملتان میں
سنسکرت اور دیگر مقامی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا، وہاں کی
ثقافت کا جائزہ لیا۔ مذہب اور عقائد کو گہری نظر سے دیکھا۔ ہندوؤں میں موسیقی کی
مذہبی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آپ نے راگ اور سُر کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور ساز
بجانا سیکھا پھر اجمیر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت اجمیر کا فرماں رواں پرتھوی
راج تھا۔
خواجہ غریب نواز
اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ہرے بھرے علاقے میں ٹھہر گئے لیکن مقامی حکام نے آپ کو اس
جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے لئے مخصوص
ہے۔ خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا۔ ’’اچھا اونٹ بیٹھتے ہیں تو بیٹھیں۔‘‘ اس کے بعد
آپ نے اناساگر کے کنارے ایک جگہ کو منتخب فرمایا۔
شام کے وقت اونٹ
آکر میدان میں بیٹھ گئے لیکن اگلے دن صبح اونٹ بیٹھے ہی رہے۔ بہت کوشش کر کے انہیں
اٹھایا گیا لیکن وہ نہیں اٹھے۔ داروغہ نے اس واقعہ کی اطلاع اپنے افسران کو
پہنچائی۔ ان لوگوں نے بھی کوشش کی لیکن اونٹ نہیں اٹھے۔ بالآخر یہ معاملہ پرتھوی
راج تک پہنچ گیا۔ اسے بھی حیرت ہوئی جب اسے پتہ چلا کہ کوئی مسلمان سادھو یہاں آئے
تھے اور انہوں نے اس جگہ کو اپنے قیام کے لئے منتخب کیا تھا تو راجہ نے سپاہیوں کو
حکم دیا کہ جا کر اس سادھو فقیر سے معافی مانگو۔ سپاہی حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی کے خواستگار ہوئے۔ خواجہ غریب نوازؒ مسکرائے اور
ازراہ شفقت گردن کے اشارے سے معاف کر دیا۔ سپاہی اس جگہ پہنچے تو دیکھا کہ اونٹ
کھڑے تھے۔ مندر کے پنڈت یہ کرامت دیکھ کر خواجہ غریب نوازؒ کے گرویدہ ہو گئے۔ ان
پنڈتوں اور سادھوؤں میں سے جو افراد تلاش حق کا جذبہ رکھتے تھے ان میں سے شادی دیو
اور راجے پال نے اسلام قبول کر لیا۔
لفظ اجمیر۔۔۔آجا۔
میر، سے بنا ہے۔ آ جا سورج کو اور میر پہاڑ کو کہتے ہیں۔
ایک سادھو خواجہ
غریب نوازؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سادھو گیان دھیان سے اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ
جہاں نظر آئینہ ہو جاتی ہے۔ مقابل آدمی ایسا نظر آتا ہے جیسے ٹیلی ویژن کی اسکرین
پر تصویر نظر آتی ہے۔
سادھو نے مراقبہ
کیا۔ اس نے دیکھا کہ خواجہ صاحبؒ کا سارا جسم بقعۂ نور ہے لیکن دل میں ایک سیاہ
دھبہ ہے۔ سادھو نے جب خواجہ صاحب سے مراقبہ کی کیفیت بیان کی تو خواجہ غریب نوازؒ
نے فرمایا۔ تو سچ کہتا ہے۔
سادھو یہ سن کر
حیرت کے دریا میں ڈوب گیا اور کہا چاند کی طرح روشن آتما پر یہ دھبہ اچھا نہیں
لگتا۔ کیا میری شکتی سے یہ دھبہ دور ہو سکتا ہے؟
خواجہ غریب نوازؒ
نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘ تو چاہے تو یہ سیاہی دھل سکتی ہے۔
سادھو نے بھیگی
آنکھوں اور کپکپائے ہونٹوں سے عرض کیا۔
’’میری زندگی آپ
کی نذر ہے۔‘‘
خواجہ صاحب نے
فرمایا:
’’اگر تو اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے تو یہ دھبہ ختم ہو جائے گا۔ سادھو کی
سمجھ میں یہ بات نہیں آئی لیکن چونکہ وہ اپنے اندر سے مٹی کی کثافت دھو چکا تھا اس
لئے وہ اللہ کے دوست محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لے آیا۔ خواجہ
صاحب نے فرمایا۔ ’’آتما کی آنکھ سے اندر دیکھ۔‘‘ سادھو نے دیکھا تو روشن دل سیاہ
دھبے سے پاک تھا۔
سادھو نے خواجہ غریب
نوازؒ کے آگے ہاتھ جوڑ کر بنتی کی۔ مہاراج اس انہونی بات پر سے پردہ اٹھایئے۔
خواجہ اجمیریؒ نے فرمایا۔ ’’وہ روشن آدمی جس کے دل پر تو نے سیاہ دھبہ دیکھا تھا
تو خود تھا۔ لیکن اتنی شکتی کے بعد بھی تجھے روحانی علم حاصل نہیں ہوا۔‘‘ وہ علم
یہ ہے کہ آدمی کا دل آئینہ ہے اور ہر دوسرے آدمی کے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر
آتا ہے تو نے جب اپنی روشن آتما میرے اندر دیکھی تو تجھے اپنا عکس نظر آیا۔ تیرا
ایمان حضرت محمد رسول اللہﷺ کی رسالت پر نہیں تھا اس لئے تیرے دل پر سیاہ دھبہ تھا
اور جب تو نے کلمہ پڑھ لیا تو تجھے میرے آئینے میں اپنا عکس روشن نظر آیا۔
تاریخ کا مطالعہ
کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مشائخ چشت کی خانقاہیں اسلامی جدوجہد کا مرکز بنی
رہیں۔ یہ خانقاہیں تقویٰ، دین، خدمت خلق، توکل اور روحانی علوم حاصل کرنے کی
یونیورسٹیاں تھیں۔ ان خانقاہوں میں طالب علم کو ایسی فضا اور ایسا ماحول میسر آ
جاتا تھا کہ وہاں تزکیۂ باطن اور تہذیب نفس کیلئے خود بخود انسانی ذہن متوجہ ہو
جاتا تھا۔
حصول علم کا مرکز
حضرت بابا فرید گنج شکرؒ تھے۔ لیکن اس تعلیم کو حسن و خوبی اور منظم جدوجہد کے تحت
حضرت بابا نظام الدین اولیاءؒ نے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ پچاس سال تک یہ
خانقاہیں ارشاد و تلقین کا مرکز بنی رہیں۔ مُلک مُلک سے لوگ پروانہ وار آتے تھے۔
اور ان کی خدمت میں حاضر باش رہ کر عشق الٰہی اور دین اسلام کو لوگوں تک پہنچانے
کا جذبہ لے کر رخصت ہوتے تھے۔ ان خانقاہوں کا دروازہ امیر و غریب، شہری، دیہاتی، بوڑھے
جوان اور بچوں کے لئے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔
حضرت نظام الدین
اولیاء نے بیعت کو عام کردیا تھا ۔ جب متلاشیان ِحق ان کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے
تو ان کو خرقہ پہناتے اور ان کی تعظیم
کرتے تھے۔
حضرت نظام الدین
اولیاءؒ نے اپنے جلیل القدر خلیفہ برہان الدین کو چار سو ساتھیوں کے ساتھ تعلیم کے
لئے دکن روانہ کیا۔خلیفہ برہان الدین نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دکن کو
اسلامی، دینی اور روحانی علوم سے فیضیاب کیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے