Topics
سلسلہ سہروردیہ
شیخ عبدالقاہر سہروردیؒ سے منسوب ہے۔ اس سلسلے کے خانوادے حضرت شیخ شہاب الدین
سہروردیؒ اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ہیں۔ سلسلہ میں تین سال کے مجاہدات کے
بعد مرشد دیکھتا ہے کہ قلب کے اندر کتنی سکت پیدا ہوئی اور تزکیہ نفس میں کیا مقام
حاصل ہوا ہے۔ تزکیہ نفس اور قلب مصفیٰ اور مجلیٰ ہونے کے بعد فیض منتقل کیا جاتا
ہے۔ سلسلہ سہروردیہ میں سانس بند کر کے اللہ ھو کا ورد کرایا جاتا ہے اور ذکر جلی
اور خفی دونوں کرائے جاتے ہیں۔
حضرت شیخ بہاؤ
الدین زکریا قریشی تھے۔ ان کے جد امجد کمال الدین علی شاہ تھے۔ کمال الدین شاہ مکہ
معظمہ سے خوارزم آئے اور مکہ معظمہ سے رخصت ہو کر ملتان میں سکونت اختیار کی۔ کمال
الدین علی شاہ کے بیٹے کا نام وجیہہ الدین محمد تھا۔ وجیہہ الدین محمد کی شادی
مولانا حسام الدین ترمذی کی بیٹی سے ہوئی۔ شیخ بہاؤالدین زکریاؒ مولانا وجیہہ
الدین کے بیٹے ہیں۔
بہاؤالدین زکریاؒ ۱۸ سال کی عمر میں حج کے لئے تشریف لے گئے۔
مکہ سے مدینہ منورہ چلے گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ۲۱ سال کے ہوئے تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد
آپ نے قرآن حفظ کیا اور خراسان چلے گئے۔ سات سال تک علمائے ظاہر اور علمائے باطن
سے اکتساب فیض کیا۔ شب و روز جوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ریاضت و
مجاہدہ اور مراقبہ میں مشغول رہے۔ مدینہ منورہ کی نورانی فضاؤں سے معمور ہو کر بیت
المقدس پہنچے اور وہاں سے بغداد شریف آ گئے۔ بغداد میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین
سہروردی کی خدمت میں ایک عرصہ حاضر باش رہے۔ اذکار و اسباق میں استقامت اور دلجمعی
کے ساتھ مشغول رہے۔
مرشد کریم نے خرقہ
خلافت عطا فرمایا۔ شجرہ طریقت شیخ شہاب الدین سہروردی سے شروع ہو کر خواجہ حبیب
عجمی۔ حضرت امام حسن۔ حضرت امام علی اور سرور کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک
پہنچتا ہے۔
مرشد کریم کے حکم
سے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی ملتان کے لئے عازم سفر ہوئے۔ ان کے ساتھ پیر بھائی
شیخ جلال الدین تبریزی بھی تھے۔ دونوں بزرگ بغداد پہنچے تو شیخ جلال الدین تبریزی
حضرت شیخ فریدالدین عطارؒ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے، فریدالدین عطارؒ نے پوچھا کہ
بغداد میں کون سا درویش مشغول بحق ہے۔ جلال الدین خاموش رہے۔ جب یہ بات بہاؤالدین
کو معلوم ہوئی تو انہوں نے شیخ جلال الدین سے کہا۔ تم نے اپنے مرشد کا نام کیوں
نہیں لیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ شیخ فرید الدین کی عظمت کا مرے دل پر اتنا اثر ہوا
کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کو بھول گیا۔ یہ سن کر شیخ بہاؤالدین کو بہت ملال ہوا۔
سفر میں دونوں
حضرات الگ الگ ہو گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتان آ گئے اور جلال الدین تبریزی
خراسان چلے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد جلال الدین تبریزی دہلی چلے گئے۔
اس وقت سلطان شمس
الدین التمش ہندوستان کا حکمران تھا۔ اللہ والوں سے محبت و عقیدت رکھتا تھا۔ حضرت
جلال الدین تبریزیؒ کی آمد کی خبر سلطان کو ملی تو وہ آپ کے استقبال کے لئے شہر
پناہ کے دروازہ پر حاضر ہوا گھوڑے سے اتر کر آپ کو تعظیم دی۔ نجم الدین صغریٰ اس
وقت شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھا۔ اس نے سلطان کی عقیدت اور حضرت جلال الدین
تبریزیؒ کی بے انتہا پذیرائی دیکھی تو اس کے اندر حسد کی آگ بھڑک گئی۔
بغض و عناد کے تحت
اس نے ایک گھناؤنی سازش تیار کی اور حضرت جلال الدین تبریزیؒ پر تہمت لگا دی۔ گوہر
نامی ایک طوائف کو اس گھناؤنی سازش میں شریک کیا اور سلطان التمش کے دربار میں
مقدمہ پیش کر دیا۔ جب مقدمہ پیش ہوا تو گوہر نے سچ سچ بتا دیا کہ یہ ساری سازش شیخ
الاسلام نجم الدین صغریٰ کی بنائی ہوئی ہے۔
شیخ بہاؤالدین
زکریاؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے صوفیاء کے بارے میں یہ مشہور کر دیا ہے کہ ان کے
پاس نذر و نیاز اور فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب روحانی بزرگوں پر تارک الدنیا
ہونے کا لیبل لگا دیا جائے گا تو ان کے پاس روحانی افکار کے حصول اور معاشرتی
مسائل کے حل کے لئے کوئی نہیں آئے گا۔ ظاہر پرستوں کو معلوم نہیں ہے کہ کم کھانا،
کم سونا، کم بولنا، غیر ضروری دلچسپیوں میں وقت ضائع نہ کرنا۔۔۔۔۔۔تزکیہ نفس کے
لئے ضروری ہے۔ ہم روزہ رکھتے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسلام فقر و فاقہ کا مذہب
ہے۔
روزہ کے فوائد اس
بات کے شاہد ہیں کہ کم کھانا، کم بولنا، کم سونا روح کی بالیدگی کے وظائف ہیں۔
سہروردیہ سلسلہ کے
معروف بزرگ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کی تبلیغی کوششوں کا اپنا ایک الگ نہج
تھا۔ اس منظم روحانی تحریک کے ذریعے سندھ، ملتان اور بلوچستان کے علاقوں میں
ہزاروں افراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ روحانی تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور بے
شمار خواتین و حضرات حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔
حضرت زکریا
ملتانیؒ نے ایک اعلیٰ درسگاہ قائم کی تھی۔ اس درسگاہ میں بہت اچھے مشاہرہ پر
اساتذہ کا تقرر کیا گیا تھا۔ طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بہترین ہوسٹل تھے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس پیدا کرنا اس درسگاہ کی
پالیسی تھی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جو شخص جس علاقے میں فرائض انجام دینے کی
درخواست کرتا۔ اس علاقے کی زبان و ثقافت کی تعلیم کا بندوبست کر دیا جاتا تھا۔ اس
غرض کے لئے اسے دو برس مزید ٹریننگ دی جاتی تھی۔
دو برس بعد معلمین
کو مناسب سرمایہ فراہم کر دیا جاتا تھا تا کہ معلم اس سرمایہ سے کاروبار کرے اور کاروبار
کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ انجام دے۔
حضرت زکریا
ملتانیؒ اساتذہ کو یہ ہدایت فرماتے تھے۔ ’’سامان کم منافع پر فروخت کرنا لین دین
میں سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا۔ ناقص
اشیاء فروخت نہ کرنا، خریداروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ جب تک لوگوں کا اعتماد
حاصل نہ ہو اسلام کی تعلیمات پیش نہ کرنا‘‘۔ اس کے بعد آپؒ اپنی دعاؤں کے ساتھ
رخصت فرماتے تھے۔
تاجروں کے روپ میں
اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے والے یہ پاکیزہ بندے چین، فلپائن، جاوا، سماٹرا اور
دیگر علاقوں تک پھیل گئے۔ یہ حضرات بڑے بڑے شہروں میں ایگزی بیشن منعقد کرتے،
صنعتی نمائش کا اہتمام کرتے تھے۔
پیشہ وارانہ
دیانت، صفائی، ستھرائی، حسن سلوک کی وجہ سے ہر شخص ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ان
کے اعلیٰ کردار سے متاثر ہو کر لوگ ان سے محبت کرنے لگتے تھے اور یہ خدا رسیدہ لوگ
نہایت دلنشین انداز میں قلبی سکون کا راز ان لوگوں کے گوش گزار کرتے تھے اور اسلام
قبول کر کے لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب سے آشنا ہو جاتے تھے۔ مشرق بعید کے بے شمار
جزائر میں کروڑوں مسلمان ان ہی روحانی بزرگوں کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔
شیخ شہاب الدین سہروردیؒ
کے تربیت یافتہ شاگردوں اور بزرگوں نے ساتویں صدی ہجری میں دین کی ظاہری اور
روحانی تبلیغ کے لئے ساری دنیا میں مراکز قائم کئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریاؒ نے مختلف
علاقوں میں جماعتیں روانہ کیں۔ آپؒ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے کشمیر سے راس کماری
اور گوادر سے بنگال تک کو اسلام کی روشنی سے منور کر دیا۔
حضرت زکریا
ملتانیؒ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تربیت کا الگ الگ اہتمام فرماتے
تھے۔ یہ روحانی تحریک Scientificاور جدید خطوط پر استوار تھی۔ قدرت نے حضرت
بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کو فلاحی ذہن عطا کیا تھا۔ آپؒ نے جنگلوں کو آباد کروایا،
کنویں کھدوائے، نہریں تعمیر کروائیں اور زراعت پر بھرپور توجہ دی۔ انہیں ہر وقت
عوام کی خوشحالی کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت ان کے
لئے سرمایۂ آخرت تھی۔
آپ عوام الناس کے
خادم تھے اور عوام آپ سے محبت کرتے تھے۔ یہی حسن اخلاق اور محبت تھی کہ لوگ جوق در
جوق مراقبوں میں شریک ہوتے تھے۔ لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ و سلم کے عرفان کیلئے ایمانداری اور خلوص نیت کو زندگی کا معیار بنا لیا تھا۔
روح کی تقویت کیلئے درود شریف اور اذکار کی محفلیں سجتی تھیں۔ لوگ خود غرضی اور
خود پرستی کے ہولناک عذاب سے بچنے کی ہر مم
کن تدبیر کرتے تھے۔
شیخ زکریا ملتانیؒ
ڈولی میں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی۔
اے اہل ملتان!
میرا سوال پورا کرو ورنہ میں ملتان شہر الٹ دوں گا۔ حضرت نے ڈولی رکوا کر کچھ دیر
توقف کیا۔ اور کہاروں سے کہا۔ چلو۔۔۔دوسری آواز پر کہاروں سے کہا۔ ڈولی زمین پر
رکھ دو۔ تھوڑی دیر بعد فرمایا۔۔۔چلو کچھ نہیں۔۔۔تیسری آواز پر کہاروں سے فرمایا
ڈولی کندھوں سے اتار دو۔۔۔اور ڈولی سے باہر آ کر کہا۔۔۔اس فقیر کا سوال جس قدر جلد
ممکن ہو پورا کر دو۔
لوگوں نے
پوچھا۔۔۔یا حضرت آپ نے دو مرتبہ ڈولی رکوائی اور کچھ نہیں فرمایا۔۔۔تیسری دفعہ
فرمایا کہ جتنی جلد ممکن ہو فقیر کا سوال پورا کر دو۔۔۔اس کے پس منظر میں کیا حکمت
ہے؟
فرمایا۔۔۔پہلی
دفعہ فقیر نے سوال کیا تو میں نے اس کی استعداد دیکھی۔ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔
دوسری مرتبہ میں نے اس کے مرشد کریم کی استعداد پر نظر ڈالی۔ وہاں بھی کوئی خاص
بات نظر نہیں آئی۔ تیسری دفعہ آواز کا میرے دل پر اثر ہوا۔
میں نے توجہ کی تو-----
دیکھا کہ اس فقیر کے سلسلہ کے دادا پیر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار
اقدس میں با ادب کھڑےہیں۔
حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ایک روز اپنے حجرہ میں عبادت میں مشغول تھے کہ
ایک نورانی چہرہ بزرگ آئے اور ایک سربرمہر خط حضرت صدر الدین کو دے کر چلے گئے۔
انہوں نے خط والد بزرگوار کی خدمت میں پیش کر دیا۔
والد بزرگوار نے
فرمایا:۔ بزرگ سے میرا سلام کہو۔ اور عرض کرو کہ آدھے گھنٹہ کے بعد آئیں۔ حضرت
بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ نے امانتیں واپس کیں۔ بیٹوں سے کہا کہ درود شریف پڑھیں۔
آواز سنائی دی، ’’دوست بدست دوست رسید‘‘ یہ آواز سن کر حضرت شیخ صدر الدین دوڑے
ہوئے حجرے میں گئے۔ دیکھا کہ والد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ تدفین کے بعد
صاحبزادہ کو خیال آیا کہ وہ کون بزرگ تھے جن سے ابا نے کہا تھا آدھے گھنٹہ بعد
آنا۔ صاحبزادے کو خط کی تلاش ہوئی۔ تکئے کے نیچے رکھے ہوئے خط میں تحریر تھا:
’’اللہ تعالیٰ نے
آپ کو حضوری میں طلب فرمایا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔
فرشتہ عزرائیل۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے