Topics
صوفیاء کرام کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان ہر لمحہ مرتا ہے اور لمحہ کی موت انسان کے اگلے لمحے کی زندگی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
تھوڑے سے تفکر سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی کی جتنی بھی کاوشیں ہیں چاہے وہ اعمال ہوں، علم و فہم ہو، اخلاقیات ہوں، یہ سب قبر تک کے معمولات ہیں۔ اگر زندگی اور حیات کی ہم آہنگی کا ادراک انسان کر لے تو حیات ابدی کا راز اسی زندگی کے لیل و نہار میں کھل جاتا ہے۔
ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان مادی ماحول میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اس نے مذہب کو مادی لذتوں کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے تو بہت ہیں مگر ایمان یقین اور مشاہدے کی طلب اس دور میں ناپید ہو چکی ہے۔ جب صاحب ایمان ہی ناپید ہو جائیں تو ایمان کی طلب کون کرے گا؟
آج کا انسان:
آج کا انسان موجودہ سائنسی ترقی کو نوع انسان کا انہتائی شعور سمجھتا ہے۔ یہ ایک گمراہ کن سوچ ہے اس لئے کہ قرآن بتاتا ہے کہ انسان کی ترقی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اتنی تھی کہ ایک شخص نے جو پیغمبر نہیں تھا پلک جھپکنے کے وقفے میں ڈیڑھ ہزار میل کے طویل فاصلے سے مادی FORMمیں دربار سلیمان میں تخت منتقل کر دیا تھا۔ دانشوروں کا کردار گزشتہ صدیوں سے آج تک انہتائی مایوس کن رہا ہے۔ انہوں نے کبھی انسانی تفکر کو اس طرف مائل نہیں کیا اور انہوں نے کبھی نہیں بتایا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم بغیر کسی وسیلے کے جسمانی طور پر کون سی سائنس کے ذریعے معراج کے شرف سے مشرف ہوئے۔
الیکٹران:
انسان روشنی سے بنا ہوا ہے اس کے سارے محسوسات الیکٹران کے اوپر قائم ہیں۔ اگر انسان اپنے اندر دور کرنے والی الیکٹرک سٹی سے واقفیت حاصل کر لے تو وہ مادی وسائل کے بغیر کسی بھی مادی شئے کو جہاں چاہے منتقل کر سکتا ہے۔ سائنس کا نظریہ قیاس پر مبنی ہے۔
قیاس جہاں تک کام کرتا ہے نتیجہ مرتب ہوتا رہتا ہے یا نہیں ہوتا۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ساتھ ضرور دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے بذات خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہوئے ہیں۔ توحید کے علاوہ اب تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے ہیں وہ تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ آج کی نسلیں گذشتہ نسلوں سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہوں گی۔
مفکرین اور اقوام عالم:
مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسان کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے صرف روحانی وظائف ہیں جن میں پوری نوع انسانی اشتراک رکھتی ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے روحانی وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکے تو وہ اقوام عالم کو ایک دائرہ میں اکٹھا کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’انسان ہماری بہترین صناعی ہے۔‘‘ (سورۂ والتین۔ آیت نمبر۴)
انسان کو مخلوقات میں فضیلت اس بنیاد پر قائم ہے کہ اس کے اندر مخفی علوم جاننے سمجھنے اور ان علوم سے استفادہ کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اب سے صدیوں پہلے کی سائنسی ایجادات ہوں یا موجودہ دور میں سائنسی ایجادات ہوں یہ سب مخفی صلاحیتوں کے استعمال کا مظاہرہ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے