Topics
اس سلسلے میں مراد
مرید کو سامنے بٹھا کر توجہ کرتا ہے اور مرید کا قلب جاری ہو جاتا ہے یہ حضرات ذکر
خفی زیادہ کرتے ہیں اور مراقبہ میں سر جھکا کر آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں۔
ان کے ہاں مرشد
اپنے مریدوں سے الگ نہیں بیٹھتا بلکہ حلقے میں ان کے شریک ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ حضرت
ابوبکرصدیقؓ سے شروع ہوا اور حضرت بہاؤالدین نقشبند کے نام سے منسوب ہے۔ حضرت
بہاؤالدین ۴ محرم ۷۱۸ھ
کو بلخ میں پیدا ہوئے اور ۲۰
ربیع الاول دوشنبہ بوقت شب وفات پائی۔
خواجہ بہاؤالدین
نقشبند کی ولادت سے پہلے جب خواجہ محمد سماسی بابا ان کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے
تو کہتے تھے کہ مجھے یہاں سے کسی مرد حق آگاہ کی خوشبو آتی ہے۔ ایک دن اینٹ اور
گارے سے بنے ہوئے اس گھر سے علم و عرفان کی روشنیاں طلوع ہونگی۔ حضرت بہاؤالدین
نقشبند کے دادا نے آپ کو خواجہ محمد سماسی بابا کی گود میں ڈال دیا۔ آپ نے
نوزائیدہ بچہ کو گود میں لے کر فرمایا۔ یہ میرا فرزند ہے۔ یہ بچہ بڑا ہو کر زمانے
کا پیشوا ہو گا۔
حضرت بہاؤالدین
نقشبندؒ فرماتے ہیں کہ جب مجھے شعور کا ادراک ہوا تو دادا نے مجھے سماسی بابا کی
خدمت میں بھیج دیا۔ بابا سماسی نے میرے اوپر شفقت فرمائی۔ میں نے شکرانے کے طور پر
دو رکعت ادا کی۔ نماز میں میرے اوپر سرشاری طاری ہو گئی اور بے اختیار یہ دعا
نکلی۔ ’’یا الٰہی! مجھ کو اپنی امانت اٹھانے کی قوت عطا فرما۔‘‘
صبح کو بابا سماسی
کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ اے فرزند! دعا اس طرح مانگنی
چاہئے۔ ’’یا الٰہی! جو کچھ تیری رضا ہے اس ضعیف بندے کو اس پر اپنے فضل و کرم سے
قائم رکھ‘‘۔ پھر فرمایا کہ جب اللہ کسی بندے کو اپنا دوست بنا لیتا ہے تو اس کو
بوجھ اٹھانے کی سکت بھی عطا فرماتا ہے۔
ایک روز کھانا
تناول کرنے کے بعد آپ نے مجھے کچھ روٹیاں عنایت کیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ
میں نے تو خوب سیر ہو کر کھانا کھایا ہے۔ میں اتنی روٹیوں کا کیا کروں؟ کچھ دیر
بعد آپ نے مجھے ایک دوست کے گھر چلنے کے لئے کہا۔ راستے میں میرے دل میں پھر وہی
خیال آیا کہ روٹیوں کا کیا کرنا ہے۔ حضرت میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ دل
کی نگرانی کرنی چاہئے تا کہ اس میں کوئی وسوسہ داخل نہ ہو۔ جب ہم اس دوست کے گھر
پہنچے تو وہ حضرت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حضرت کے سامنے دودھ پیش کیا۔ حضرت
سماسی بابا نے ان سے کھانے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے سچ کہہ دیا کہ آج روٹی نہیں
کھائی۔ حضرت نے فرمایا۔
روٹیاں پیش کر دو۔
اس واقعہ کے بعد حضرت کی عزت و توقیر اور عقیدت میرے اندر بہت زیادہ ہو گئی۔
ایک دن فرمایا۔ جب
استاد شاگرد کی تربیت کرتا ہے تو یہ بھی چاہتا ہے کہ شاگرد بھی استاد کی تعلیمات
کو قبول کرے۔
خواجہ محمد بابا
سماسی نے خواجہ بہاؤالدین نقشبندؒ کو اپنی فرزندی میں قبول کیا۔ اگرچہ ظاہری اسباب
میں طریقت کے آداب سید امیر کلال سے سیکھے مگر حقیقتاً آپ اویسی ہیں اور آپ نے
خواجہ عبدالخالق نجدوانی کی روح سے فیض پایا۔
آپ فرماتے ہیں کہ
ایک رات میں نجا کے مزارات میں سے تین متبرک مزاروں پر حاضر ہوا۔ میں نے ہر قبر پر
ایک چراغ جلتا ہوا دیکھا۔ چراغ میں پورا تیل اور بتی ہونے کے باوجود چراغ کی لو کو
اونچا کرنے کے لئے بتی کو حرکت دی جا رہی تھی۔ لیکن بابا سماسی کے مزار کے چراغ کی
لو کو مسلسل روشن دیکھ کر میں نے چراغ کی لو پر نظر جما دی۔
میں نے دیکھا کہ
قبلہ کی طرف کی دیوار پھٹ گئی اور ایک بہت بڑا تخت نمودار ہوا دیکھا کہ سبز پردہ
لٹکا ہوا ہے اس کے قریب ایک جماعت موجود ہے۔ میں نے ان لوگوں میں بابا سماسی کو
پہچان لیا۔ میں جان گیا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اس جہان سے گزر چکے ہیں۔ ان
میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ تخت پر خواجہ عبدالخالق نجدوانی جلوہ افروز ہیں اور
یہ ان کے خلفاء کی جماعت ہے اور ہر خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام بتائے۔ یہ
خواجہ احمد صدیق ہیں، یہ خواجہ اولیاء کلال ہیں، یہ خواجہ دیوگری ہیں، یہ صاحب
خواجہ محمود الخیر فقتوی ہیں اور یہ خواجہ علی راستی ہیں، جب وہ شخص خواجہ محمد
بابا سماسی پر پہنچا تو کہا یہ تیرے شیخ ہیں اور انہوں نے تیرے سر پر کلاہ رکھا ہے
اور تجھے کرامت بخشی ہے۔ اس وقت اس نے کہا کان لگا اور اچھی طرح سن کہ حضرت خواجہ
بزرگ ایسی باتیں فرمائیں گے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں تیرے لئے مشعل راہ بنیں
گیں۔
میں نے درخواست کی
کہ میں حضرت خواجہ کو سلام اور ان کے جمال مبارک کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ یکایک
میرے سامنے سے پردہ اٹھ گیا۔ میں نے نور علی نور بزرگ کو دیکھا۔ انہیں سلام کیا۔
انہوں نے جواب دیا اور وہ باتیں جو ابتدائی طور پر سلوک اور اس کے درمیان اور اس
کی انتہا سے تعلق رکھتی ہیں، مجھے سکھائیں۔
انہوں نے فرمایا۔
جو چراغ تجھے دکھائے گئے ہیں ان میں تیرے لئے ہدایت اور اشارہ ہے کہ تیرے اندر
روحانی علوم سیکھنے کی استعداد موجود ہے اور تیرے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ
تجھے اسرار و رموز سکھائیں گے لیکن استعداد کی بتی کو حرکت دینا ضروری ہے تا کہ
چراغ کی روشنی تیز ہو جائے۔
دوسری مرتبہ بتایا
کہ ہر حال میں امرونہی کا راستہ اختیار کرنا۔ احکام شریعت کی پابندی کرنا۔ ممنوعات
شرعیہ سے اجتناب کرنا۔ سنت والے طریقوں پر پوری طرح عمل کرنا۔ بدعات سے دور رہنا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو ہمیشہ اپنا راہنما بنائے رکھنا اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے اخبار و آثار یعنی ان کے
اقوال و افعال کی تلاش ہو اور جستجو میں رہنا۔ تیرے اس حال یعنی مشاہدے کی سچائی
کا ثبوت یہ ہے کہ کل علی الصبح تو فلاں جگہ جائے گا اور فلاں کام کرے گا۔
ان لوگوں نے
فرمایا۔ اب تو جانے کا قصد کر اور جناب سید امیر کلالؒ کی خدمت میں حاضر ہو۔ ان
حضرات کے فرمانے کے بموجب میں حضرت امیر کلالؒ کی خدمت میں پہنچا۔ تو حضرت امیرؒ
نے خاص مہربانیاں فرمائیں۔ مجھے ذکر کی تلقین کی اور خفیہ طریقہ پر نفی اثبات کے
ذکر میں مشغول فرما دیا۔
شیخ قطب الدین
نامی ایک بزرگ نے بتایا کہ میں چھوٹی عمر میں تھا کہ حضرت خواجہ نے فرمایا۔ فلاں
کبوتر خانے سے کبوتر خرید کر لے آؤ۔ ان کبوتروں میں سے ایک کبوتر بہت خوبصورت تھا۔
میں نے یہ کبوتر باورچی خانے میں نہیں دیا۔ کھانا تیار ہونے کے بعد حضرت خواجہ
نقشبندؒ نے مہمانوں میں کھانا تقسیم کیا تو مجھے کھانا نہیں دیا اور فرمایا انہوں
نے اپنا حصہ زندہ کبوتر لے لیا ہے۔
دہلی بھارت میں
حضرت خواجہ باقی بااللہ کا مزار ہے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ باقی
بااللہ کے خلیفہ ہیں۔
احمد سرہندی مجدد
الف ثانیؒ کی پیدائش سے قبل آپ کے والد بزرگوار نے خواب میں دیکھا کہ تمام جہاں
اندھیرے میں گھرا ہوا ہے۔ بندر، ریچھ اور سور آدمیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ آپ کے
سینہ مبارک سے نور کا جھماکہ ہوا اور اس میں سے ایک تخت ظاہر ہوا اس تخت پر ایک
بزرگ تشریف فرما ہیں۔ ان کے سامنے ظالم، بے دین اور ملحد لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا
ہے۔
حضرت مجدد الف
ثانی کے والد نے یہ خواب حضرت شاہ کمال کیتھلؒ سے بیان کیا تو شاہ کمال صاحب نے یہ
تعبیر دی کہ آپ کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا جس سے اللہ کے دین میں شامل کی ہوئی
بدعتیں اور خرافات ختم ہو جائیں گی۔ مجدد صاحب کا نام احمد، لقب بدرالدین ہے۔ آپ
کا نسب نامہ حضرت امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کی ستائیسویں پشت سے ملتا ہے۔
ہندوستان میں آپ
نے کفر و شرک کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ نے ہزاروں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی
اور اپنے دور کے طاقتور بادشاہ اکبر کی ملحدانہ سرگرمیوں کا نہایت کامیابی کے ساتھ
مقابلہ کیا۔
اکبر نے کفر و
الحاد کو یہاں تک پھیلا دیا تھا کہ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے اکبر
خلیفتہ اللہ کا حکم جاری کر دیا تھا۔ حضرت مجددؒ نے نا صرف ان حالات کا مردانہ وار
مقابلہ کیا بلکہ ان کی بیخ کنی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اکبر
و جہانگیر کے قائم کردہ دین الٰہی کا خاتمہ ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے
مجدد الف ثانیؒ کو کامیاب و کامران کیا۔
چنگیز خانی طوفان
نے جب دنیائے اسلام کو تہ و بالا کر دیا۔ شہر ویران ہو گئے، لوگوں کو قتل کر کے ان
کے سروں کے مینار بنا دیئے گئے، بغداد کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ قتل و
غارتگری کی بھینٹ چڑھ گئی، علم و حکمت کی کتابوں کا ذخیرہ آگ کی بھٹیوں میں جھونک
دیا گیا، علماء اور فضلاء اسلام کے مستقبل سے مایوس ہو گئے۔ اس وقت بھی اس سرکش
طوفان کا صوفیاء نے مقابلہ کیا۔
ان لوگوں نے اسلام
دشمن لوگوں کی اس طرح تربیت کی کہ اسلام کے دشمن شمع اسلام بن گئے۔
سلسلہ قادریہ کے
ایک بزرگ، ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے
گئے، تگودار خان شکار سے واپس آ رہا تھا کہ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو
دیکھ کر ازراہ تمسخر پوچھا:
اے درویش تمہاری
داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم؟ اس بیہودہ اور ذلت آمیز سوال پر بزرگ
برہم نہیں ہوئے، شگفتہ لہجہ کے ساتھ تحمل سے فرمایا:
’’میں اپنی جاں
نثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کر لوں تو میری داڑھی کے بال اچھے
ہیں ورنہ آپ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لئے
شکار کی خدمت انجام دیتا ہے۔
تگودار خان اس غیر
متوقع اور انا کی گرفت سے آزاد جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بزرگ کو اپنا
مہمان بنا لیا اور درویش کے حلم و بردباری اور اخلاق سے متاثر ہو کر اس نے درپردہ
اسلام قبول کر لیا لیکن اپنی قوم کی مخالفت کے خوف سے تگودار خان نے درویش کو رخصت
کر دیا۔ وفات سے پہلے درویش نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ تگودار خان کے پاس جائے
اور اس کو اپنا وعدہ یاد دلائے۔ صاحب زادے تگودار خان کے پاس پہنچے اور اپنے آنے
کی غایت بیان کی۔ تگودار خان نے کہا تمام سردار اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہیں لیکن
فلاں سردار تیار نہیں ہے اگر وہ بھی مسلمان ہو جائے تو مشکل آسان ہو جائے گی۔
صاحب زادے نے جب
اس سردار سے گفتگو کی تو اس نے کہا۔ میری ساری عمر میدان جنگ میں گزری ہے۔ میں
علمی دلائل کو نہیں سمجھتا میرا مطالبہ ہے کہ آپ میرے پہلوان سے مقابلہ کریں۔ اگر
آپ نے اسے پچھاڑ دیا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔
درویش زادے، لاغر،
دبلے اور جسمانی لحاظ سے کمزور تھے۔ تگودار خان نے اس مطالبہ کو مسترد کرنا چاہا
لیکن درویش کے بیٹے نے سردار کا چیلنج منظور کر لیا۔ مقابلے کے لئے جگہ اور تاریخ
کا اعلان کر دیا گیا۔ مقررہ دن مخلوق کا اژدہام یہ عجیب و غریب دنگل دیکھنے کے لئے
میدان میں جمع ہو گیا۔ ایک طرف نحیف اور کمزور ہڈیوں کا ڈھانچہ لاغر جسم تھا اور
دوسری طرف گرانڈیل اور فیل تن پہلوان تھا۔
تگودار خان نے
کوشش کی کہ یہ مقابلہ نہ ہو لیکن درویش مقابلہ کرنے کے لئے مصر رہا اور جب دونوں
پہلوان اکھاڑے میں آئے تو درویش زادے نے اپنے حریف کو زور سے طمانچہ مارا اور وہ
پہلوان اس تھپڑ کو برداشت نہ کر سکا۔ اس کی ناک سے خون کا فوارہ ابلا اور پہلوان
غش کھا کر زمین پر گر گیا۔ سردار حسب وعدہ میدان میں نکل آیا۔ اس نے درویش زادے کے
ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ تگودار خان نے بھی اپنے
ایمان کا اعلان کر کے اپنا نام احمد رکھا۔ ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی بھی شیخ شمس
الدین باخوریؒ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا۔
قسطنطنیہ کی تاریخ
اسلام کا ایک لافانی باب ہے۔ حضرت شمس الدین، سلطان محمدؒ کے مرشد کریم تھے۔ انہی
کی ترغیب اور بشارت سے سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ ہم تاریخ کے صفحات جتنے
زیادہ پلٹتے ہیں اہل تصوف اور روحانی لوگوں کا ایک قافلہ ہمارے سامنے آتا ہے جو
دین اسلام کو پھیلانے میں ہمہ تن مصروف نظر آتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے