Topics
امام سلسلہ قادریہ
پیران پیر سید عبدالقادر جیلانیؒ کو حضرت علی مرتضیٰؓ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام سے براہ راست فیض ملا۔ ۴۷۰ ہجری کو قصبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔ اسم گرامی
عبدالقادر اور محی الدین لقب ہے۔
سلسلہ قادریہ آپ
کے نام عبدالقادر سے منسوب ہے۔ آپ کا شجرہ نسب سیدنا امام حسینؓ بن امیر المومنین
علی ابن ابی طالبؓ سے ملتا ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر
جیلانیؒ کا روحانی شجرہ شیخ حماد الیاسؒ اور ابوسعید المبارکؒ سے حضرت حسن بصریؒ ،
حضرت علیؓ اور رحمت اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔
ریاضت و عبادت اور
مشکل و کٹھن مراحل سے گزرنے کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ شیخ ابو سعید مبارک صبح کے وقت
ایک کوٹھے میں بند کر دیتے تھے اور اگلے روز عصر کے وقت کمرہ سے باہر نکالتے تھے۔
کچھ عرصہ تک حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کمرہ سے آنے کے بعد احتجاج کرتے غصہ کرتے اور
کہتے مجھے کیوں قید کیا ہوا ہے۔ لیکن جب مرشد فرماتے عبدالقادر کمرہ میں چلو باہر
رہنے کا وقت پورا ہو گیا تو خاموشی کے ساتھ کوٹھے میں چلے جاتے تھے۔ مزاحمت نہیں
کرتے تھے۔ یہ ریاضت مسلسل تین سال تک جاری رہی۔
اس ہی طرح کے
واقعات حضرت ابوبکر شبلیؒ اور امام غزالیؒ کی ریاضت و عبادات کے ہیں۔
صوفیاء کے سرخیل
حضرت جنید بغدادیؒ سے جب بغداد کے گورنر ابوبکر شبلی نے اہل تصوف کے گروہ میں داخل
ہونے کی درخواست کی تو حضرت جنید نے فرمایا کہ آپ تصوف کے تقاضوں کو پورا کر سکیں
گے۔ ابوبکر شبلی نے کہا میں اس کے لئے تیار ہوں۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا
کیونکہ تم بغداد کے گورنر رہ چکے ہو اور اس گورنری کا تکبر تمہارے اندر موجود ہے۔
جب تک یہ تکبر نہیں نکل جاتا تم تصوف کے علوم نہیں سیکھ سکتے۔ اور اس تکبر کو ختم
کرنے کا پہلا سبق یہ ہے کہ تمہیں بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگنا پڑے گی اور پھر
اہل بغداد نے دیکھا کہ شبلی نے بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگی۔
امام غزالیؒ اپنے
زمانے کے یکتائے روزگار تھے۔ بڑے بڑے جید علماء ان کے علوم سے استفادہ کرتے تھے۔
بیٹھے بیٹھے ان کو خیال آیا کہ خانقاہی نظام دیکھنا چاہئے کہ یہ لوگ کیا پڑھاتے
ہیں۔ پھر وہ اس تلاش و جستجو میں سات سال تک مصروف رہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے دور
دراز کا سفر بھی کیا۔ بالآخر مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ کسی نے پوچھا۔ ’’آپ ابوبکر سے
بھی ملے ہیں؟‘‘
امام غزالیؒ نے
فرمایا کہ: میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ جو فقراء نے اپنے
بارے میں مشہور کر رکھی ہیں۔ لیکن پھر وہ حضرت ابوبکر شبلی سے ملاقات کے لئے عازم
سفر ہو گئے جس وقت وہ سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ اس وقت ان کا لباس اور سواری میں
گھوڑے اور زین کی قیمت ہزار اشرفی تھیں۔ شاہانہ زندگی بسر کرنے والے امام غزالی
منزلیں طے کر کے ابوبکر شبلی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ایک مسجد میں بیٹھے ہوئے
گڈری سی رہے تھے۔ امام غزالیؑ حضرت ابوبکرشبلی ؑکی پشت کی جانب کھڑے ہو گئے۔ حضرت
ابوبکرشبلیؒ نےپیچھے مڑ کر دیکھے بغیر فرمایا کہ:
’’غزالی تو آ
گیا۔۔۔۔۔۔تو نے بہت وقت ضائع کر دیا۔ میری بات غور سے سن! شریعت میں علم پہلے اور
عمل بعد میں ہے۔ طریقت میں عمل پہلے اور علم بعد میں ہے۔ اگر تُو قائم رہ سکتا ہے
تو میرے پاس قیام کر ورنہ واپس چلا جا۔‘‘
امام غزالیؒ نے
ایک منٹ توقف کیا اور کہا میں آپ کے پاس قیام کروں گا۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے
فرمایا کہ سامنے کونے میں جا کر کھڑے ہو جاؤ۔ امام غزالی مسجد کے کونے میں جا کر
کھڑے ہو گئے کچھ دیر بعد ابوبکر شبلی نے بلایا اور دعا سلام کے بعد اپنے گھر لے
گئے۔
تین سال کی سخت
ریاضت کے بعد امام غزالیؒ جب بغداد واپس پہنچے تو ان کے استقبال کے لئے پورا شہر
اُمنڈ آیا۔ لوگوں نے جب ان کو صاف ستھرے عام لباس میں دیکھا تو پریشان ہو گئے۔
انہوں نے کہا: ’’امام! شان و شوکت چھوڑ کر تم کو کیا ملا ہے؟‘‘
امام غزالیؒ نے
فرمایا کہ:
’’اللہ کی قسم!
اگر میرے اوپر یہ وقت نہ آتا اور میرے اندر سے بہت بڑا عالم ہونے کا زعم ختم نہ
ہوتا تو میری زندگی برباد ہو جاتی۔‘‘
سلسلہ قادریہ میں
درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ذکر خفی اور ذکر جلی دونوں
اشغال کثرت سے کئے جاتے ہیں۔ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے آفاقی
قوانین کے راز ہائے سربستہ کا انکشاف فرمایا ہے۔ قدرت کے قوانین کے استعمال کا
ایسا طریقہ پیش کیا ہے اور ان قوانین کو سمجھنے کی ایسی راہ متعین فرمائی جہاں
سائنس ابھی تک نہیں پہنچ سکی۔
شیخ عبدالقادر
جیلانیؒ نے بتایا کہ زمین و آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ
کا نور فیڈ کرتا ہے۔ اگر نوع انسانی کا ذہن مادے سے ہٹ کر اس روشنی پر مرکوز ہو
جائے تو انسان یہ سمجھنے کے قابل ہو جائے گا کہ اس کے اندر عظیم الشان ماورائی
صلاحیتیں ذخیرہ کر دی گئی ہیں۔ جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی
ہوئی اشیاء کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی
قوتوں اور لہروں کو حسب منشاء استعمال کر سکتا ہے۔ پوری کائنات اس کے سامنے ایک
نقطہ بن کر آ جاتی ہے اس مقام پر انسان مادی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔ وسائل اس
کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں۔ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نظام تکوین میں ممثل
کے درجے پر فائز ہیں اور نظامت کے امور میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
وزیر حضوری ہیں۔
رجال الغیب اور
تکوینی امور میں خواتین و حضرات کا بڑے پیر صاحبؒ سے ہر وقت واسطہ رہتا ہے۔
حضور پاک صلی اللہ
علیہ و سلم کے دربار اقدس میں بڑے پیر صاحبؒ کا یہ مقام ہےکہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے آج تک ان کی کوئی درخواست نامنظور نہیں فرمائی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ
وہ بڑے پیر صاحبؒ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اتنے مزاج شناس ہیں کہ وہ ایسی
کوئی بات کرتے ہی نہیں جو حضورﷺ کی طبیعت اور مزاج مبارک کے خلاف ہو۔ سیدنا شیخ
عبدالقادر پیران پیر دستگیرؒ کی تمام کرامات کو مختصر سے وقت میں سمیٹ لینا ممکن
نہیں ہے۔
تین کرامات سائنسی
توجیہہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہیں۔
ایک شخص نے آپؒ کی
خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ ’’یا شیخ! میں فرزند ارجمند کا خواستگار ہوں۔‘‘
شیخ نے فرمایا:
’’میں
نے دعا کی ہے اللہ تمہیں فرزند عطا کرے گا۔‘‘
اس کے ہاں لڑکے کے
بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو وہ لڑکی کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضرہوا۔
شیخ نے فرمایا:
’’اس
کو کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے جا اور دیکھ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
گھر جا کر دیکھا
تو لڑکی لڑکا بن گیا تھا۔ اس کرامت کی علمی توجیہہ یہ ہے۔
قرآن پاک میں
ارشاد ہے:
’’اور
ہم نے تخلیق کیا ہر چیز کو جوڑے دوہرے۔‘‘
Equationیہ ہے کہ ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔ ایک
پرت ظاہر اور غالب رہتا ہے اور دوسرا پرت مغلوب اور چھپا ہوا رہتا ہے۔ عورت بھی دو
رخ سے مرکب ہے اور مرد بھی دو رخ سے مرکب ہے۔ عورت میں ظاہر رخ وہ ہے جو صنف لطیف
کے خدوخال میں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو ظاہر آنکھوں سے مخفی ہے۔ اسی طرح
مرد کا ظاہر رخ وہ ہے جو مرد کے خدوخال میں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو ہمیں
نظر نہیں آتا۔ اس کی تشریح یہ ہوئی کہ مرد بحیثیت مرد کے جو نظر آتا ہے وہ اس کا
ظاہر رخ ہے عورت بحیثیت عورت کے جو نظر آتی ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے۔ Equationیہ بنی کہ مرد کے ظاہر رخ کا متضاد باطن رخ
عورت، مرد کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور عورت کے ظاہر رخ کے ساتھ اس کا متضاد باطن رخ
مرد چپکا ہوا ہے۔
جنسی تبدیلی کے
واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ باطن رخ میں اس طرح تبدیلی واقع ہو
جاتی ہے کہ مرد کے اندر اس کا باطن رخ عورت غالب ہو جاتا ہے اور ظاہر رخ مغلوب ہو
جاتا ہے۔ نتیجہ میں کوئی مرد عورت بن جاتی ہے اور کوئی عورت مرد بن جاتا ہے۔
صاحب بصیرت اور
صاحب تصرف بزرگ چونکہ اس قانون کو جانتے ہیں اس لئے تخلیقی فارمولے میں رد و بدل
کر سکتے ہیں۔ وزیر حضوری پیران پیر دستگیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو کائنات میں
جاری و ساری تخلیقی قوانین کا علم حاصل ہے۔ انہوں نے تصرف کر کے لڑکی کے اندر باطن
رخ مرد کو غالب کر دیا اور وہ لڑکی سے لڑکا بن گیا۔
ایک روز حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانیؒ ایک محلہ سے گزرے وہاں ایک عیسائی اور ایک مسلمان دست و گریبان
تھے۔ پوچھا۔
’’کیوں
لڑ رہے ہو؟‘‘
مسلمان نے کہا:
’’یہ
کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے
افضل ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سب سے افضل ہیں۔‘‘
حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانیؒ نے عیسائی سے دریافت کیا:
’’تم
کس دلیل کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر
فضیلت دیتے ہو؟‘‘
عیسائی نے کہا:
’’حضرت
عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔‘‘
بڑے پیر صاحبؒ نے
فرمایا:
’’میں
نبی نہیں ہوں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا غلام ہوں۔ اگر میں مردہ زندہ کر دوں
تو تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آؤ گے؟‘‘
عیسائی نے کہا:
’’بے
شک میں مسلمان ہو جاؤں گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت
عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا۔۔۔مجھے کوئی پرانی قبر دکھاؤ۔
عیسائی، حضرت
عبدالقادر جیلانیؒ کو پرانے قبرستان میں لے گیا اور ایک پرانی قبر کی طرف اشارہ کر
کے کہا:
’’اس
قبر کے مردہ کو زندہ کرو۔‘‘
حضرت غوث پاکؒ نے
فرمایا:
’’قبر
میں موجود یہ شخص دنیا میں موسیقار تھا۔ اگر تم چاہو تو یہ قبر میں سے گاتا ہوا
باہر نکلے گا۔‘‘عیسائی نے کہا:
’’ہاں
میں یہی چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت شیخؒ قبر کی
طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’قم
باذن اللہ‘‘
قبر پھٹ گئی اور
مردہ گاتا ہوا قبر سے باہر آ گیا اور عیسائی حضرت شیخؒ کی یہ کرامت دیکھ کر مسلمان
ہو گیا۔
اس کرامت کی علمی توجیہہ
یہ ہے کہ ہم جسے آدمی کہتے ہیں وہ گوشت پوست کے پنجرہ سے بنا ہوا پتلا ہے اس پتلے
کی حیثیت اسی وقت تک برقرار ہے جب تک کہ پتلے کے اندر روح ہے۔ روح نکل جائے تو ہم
اس کو زندہ آدمی نہیں کہتے۔
اللہ تعالیٰ کا
ارشاد ہے:
’’ہم
نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی سے بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘
روح اللہ کا امر
ہے۔
سورۃ یٰسین میں
اللہ تعالیٰ نے امر رب کی تعریف یہ فرمائی ہے:
’’اس
کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی
ہے۔‘‘ اس کی Equationیہ بنی۔۔۔۔۔۔آدمی پتلا ہے، پتلا خلاء ہے۔۔۔۔۔۔خلاء
میں روح ہے، روح امر رب ہے اور امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو
کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ چیز مظہر بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ محی الدین
عبدالقادر جیلانیؒ کو روح اور تخلیقی فارمولوں کا علم عطا کیا ہے۔ حضرت شیخؒ نے
اسرار و رموز الٰہیہ کے اس فارمولے کے مطابق جب فرمایا:
قم باذن اللہ
تو مردہ قبر سے
باہر نکل آیا۔
ایک ولی سے ولایت
چھن گئی جس کی وجہ سے لوگ اسے مردود کہنے لگے۔ بے شمار اولیاء اللہ نے اس کا نام
لوح محفوظ پر اشقیاء کی فہرست میں لکھا ہوا دیکھا۔ وہ بندہ نہایت سراسیمگی اور
مایوسی کے عالم میں پیران پیر دستگیرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو رو کر اپنی
کیفیت بیان کی۔ حضرت غوث پاکؒ نے اس کے لئے دعا کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز
آئی:’’اسے میں نے تمہارے سپرد کیا، جو چاہے کرو۔‘‘
آپؒ نے اسے سر
دھونے کا حکم دیا اور اس کا نام بدبختوں کی فہرست سے دھل گیا۔
اس کرامت کی
توجیہہ یہ ہے:
حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانیؒ کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وراثتاً علوم اور
اختیارات منتقل ہوئے ہیں۔ یہ علوم اور اختیارات ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے
تفویض ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں
اپنے بندے کو دوست رکھتا ہوں اور میں اس کے کان آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں، پھر وہ
میرے ذریعے سنتا ہے، میرے ذریعے بولتا ہے اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتا ہے۔‘‘
شیخ عبدالقادر
جیلانیؒ علم لدنی کے حامل بندے ہیں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو اس
کا نام اشقیاء کی فہرست سے نکل کر سعید روحوں میں درج ہو گیا۔
ماہ ربیع الثانی ۵۶۱
ھ کے شروع میں شیخ عبدالقادرجیلانیؒ سخت علیل ہو گئے اور ۹ ربیع الثانی کو نوے سال
سات ماہ کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ دوران علالت صاحبزادہ کو نصیحت فرمائی
کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھنا، تقویٰ اور عبادت کو شعار بنانا،
توحید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور اللہ کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہ کرنا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے