Topics
ولادت……۷۹ھ بمقام بصرہ
وفات……۵۸۱ھ بمقام بصرہ
حضرت رابعہ ۷۹ھ میں بصرہ شہر میں ایک
نہایت غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ابھی کمسن تھیں کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ
گیا۔ آپ خاصان خداوندی اور پردہ نشینوں کی محزویہ، سوختہ عشق اور پاکیزگی میں مریم
ثانی تھیں۔ آپ کی طبیعت عبادت و ریاضت کی طرف مائل تھی۔ گھر کا کام کر چکتیں تو
عبادت میں لگ جاتیں اور اکثر ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتیں۔
ایک دفعہ بہت رات گئے آقا
کی آنکھ کھلی تو اس نے حضرت رابعہ کو سجدے میں دیکھا۔ آپ گڑگڑا کر دعا مانگ رہی
تھیں۔ آقا نے کان لگا کر سنا حضرت رابعہ فرما رہی تھیں۔ اے میرے اللہ! میں بہت
مجبور اور بے بس ہوں، گھر کا کام کاج کرنے کی پابندی تیری عبادت کے راستے میں حائل
ہے۔ تو میری معذرت قبول فرما اور میرے گناہ معاف کر دے۔ آقا نے ایک کم عمر لڑکی کی
پرہیز گاری کا یہ عالم دیکھا تو دل میں خدا کا خوف پیدا ہو گیا۔ اور اگلے ہی دن اس
نے حضرت رابعہ کو آزاد کر دیا۔
آپ دن رات عبادت میں
مصروف رہنے لگیں۔ پہلے کچھ عرصہ ویران گلیوں میں رہ کر گزارا۔ پھر بصرہ شہر میں آ
کر رہنے لگیں۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ فرض اور سنت نمازوں کے علاوہ ایک ہزار نفل
دن رات میں پڑھا کرتی تھیں۔ اس کے سوا اور کوئی شغل نہ تھا۔ جو کوئی ان کے پاس
جاتا اسے وعظ و نصیحت کرتیں۔ آپ نے قرآن حفظ کر رکھا تھا۔ اور حدیث پر بھی عبور
حاصل کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کے بعض اولیاء کرام اور بزرگان دین حضرت
رابعہ کی مجلس میں آ کر ان سے کئی باتیں سیکھا کرتے تھے۔ حضرت رابعہ نے کئی حج کئے
اور متعدد مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت کی۔ آپ کھانے پینے کے لئے کسی سے کبھی کچھ نہ
مانگتیں۔ کئی کئی دن فاقوں سے رہتیں لیکن زبان پر کبھی شکایت یا سوال کا لفظ نہ
آیا بلکہ اس کے برعکس کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کھانے کو کچھ آیا۔ آپ کو خود کھانے کی
حاجت تھی مگر جو چیز آئی وہ اٹھا کر کسی سوالی کو دے دی اور خود بھوکی رہیں۔ تکلیف
اور خوشی دونوں باتوں کا انہیں کبھی احساس تک نہ ہوتا تھا۔ آپ فرمایا کرتی تھیں
اللہ کی عبادت کسی لالچ سے نہیں کرنی چاہئے۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ اچھے کام کریں
تو جنت ملے گی۔ آپ فرمایا کرتی تھیں کہ خدا کی عبادت صرف خدا کی خوشنودی کے لئے
کرنی چاہئے۔ جنت کے لالچ سے عبادت کرنا تجارت ہے۔ عبادت ہرگز نہیں۔
مشہور ہے کہ ایک روز آپ
کے ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا لوٹا لے کر بڑے جوش میں
چلی جا رہی تھیں۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا۔ فرمایا پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے چلی
ہوں اور آگ لے جا رہی ہوں کہ جنت کو جلا کر پھونک دوں تا کہ وہ لوگ جو جنت کی لالچ
سے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ انہیں جنت ہاتھ نہ آئے۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ
دو بھوکے افراد آپ کے یہاں بغرض ملاقات حاضر ہوئے اور باہمی گفتگو کرنے لگے کہ اگر
رابعہ اس وقت کھانا پیش کر دیں تو بہت اچھا ہو کیونکہ ان کے یہاں رزق حلال میسر آ
جائے گا اور آپ کے ہاں اس وقت صرف دو ہی روٹیاں تھیں، وہی ان کے سامنے رکھ دیں۔
دریں اثناء کسی سائل نے سوال کیا تو آپ نے وہ دونوں روٹیاں اٹھا کر اس کو دے دیں۔
یہ دیکھ کر حٰرت زدہ سے رہ گئے لیکن کچھ ہی وقفہ کے بعد ایک کنیز بہت سی گرم
روٹیاں لئے ہوئے حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ میری مالکہ نے بھجوائی ہیں۔ جب آپ نے
ان روٹیوں کا شمار کیا تو وہ تعداد میں اٹھارہ تھیں۔ یہ دیکھ کر کنیز سے فرمایا کہ
شاید تجھے غلط فہمی ہو گئی ہے کہ یہ روٹیاں میرے یہاں نہیں بلکہ کسی اور کے ہاں
بھیجی گئی ہیں۔ لیکن کنیز نے وثوق کے ساتھ عرض کیا کہ یہ آپ ہی کے لئے بھجوائی
ہیں۔ مگر آپ نے کنیز کے مسلسل اصرار کے باوجود واپس کر دیں اور جب کنیز نے اپنی
مالکہ سے واقعہ بیان کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس میں مزید دو روٹیوں کا اضافہ کر
کے لے جا ؤ۔ چنانچہ جب آپ نے بیس روٹیاں شمار کر لیں تب ان مہمانوں کے سامنے رکھا
اور وہ محو حیرت ہو کر کھانے میں مصروف ہو گئے اور جب فراغت طعام کے بعد رابعہ
بصری سے واقعہ کی نوعیت معلوم کرنا چاہی تو فرمایا کہ جب تم یہاں حاضر ہوئے تو
مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ تم بھوکے ہو اور جو کچھ گھر میں حاضر تھا وہ میں نے
تمہارے سامنے رکھ دیا۔ اسی دوران ایک سائل آ پہنچا اور وہ دونوں روٹیاں میں نے اسے
دے کر اللہ سے عرض کیا کہ تیرا وعدہ ایک کی بجائے دس دینے کا ہے اور مجھے تیرے قول
صادق پر مکمل یقین ہے۔ لیکن کنیز کے اٹھارہ روٹیاں لانے سے میں نے سمجھ لیا کہ اس
میں ضرور کوئی سہو ہوا ہے۔ اس لئے میں نے واپس کر دیں۔ اور جب وہ پوری بیس روٹیاں
لے کر آئی تو میں نے وعدے کی تکمیل میں لے لیں۔
حضرت سفیان اکثر یہ
فرمایا کرتے تھے کہ ایک شب کو میں حضرت رابعہ بصریؒ کے یہاں پہنچا تو وہ پوری شب
مشغول عبادت رہیں اور میں بھی ایک گوشہ میں نماز پڑھتا رہا۔ پھر صبح کے وقت حضرت
رابعہ بصریؒ نے فرمایا کہ عبادت کی توفیق عطا کئے جانے پر ہم کسی طرح بھی معبود
حقیقی کا شکر ادا نہیں کر سکتے اور میں بطور شکرانہ کل کا روزہ رکھوں گی اور اکثر
آپ یہ دعا کیا کرتیں کہ یا خدا اگر رو زمحشر تو نے مجھے نار جہنم میں ڈالا تو میں
تیرا ایک ایسا راز افشا کر دوں گی جس کو سن کر جہنم مجھ سے ایک ہزار سال کی مسافت
پر بھاگ جائے گی اور کبھی یہ دعا کرتیں کہ دنیا میں میرے لئے جو حصہ متعین کیا گیا
ہے وہ اپنے معاندین کو دے دے اور جو حصہ عقبیٰ میں مخصوص ہے۔ وہ اپنے دوستوں میں
تقسیم فرما دے کیونکہ میرے لئے صرف تیرا ہی وجود بہت کافی ہے۔ اور اگر میں جہنم کے
ڈر سے عبادت کرتی ہوں تو مجھے جہنم میں جھونک دے اور اگر خواہش فردوس وجہ عبادت ہو
تو فردوس میرے لئے حرام فرما دے۔ اور اگر میری پرستش صرف تمنائے دیدار کے لئے ہو
تو پھر اپنے جمال عالم افروز سے مشرف فرما دے لیکن اگر تو نے مجھے جہنم میں ڈال
دیا تو میں یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہوں گی کہ دوستوں کے ساتھ دوستوں ہی جیسا
برتا ؤ ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ندائے غیبی آئی کہ تو ہم سے بدظن نہ ہو ہم تجھے اپنے
ایسے دوستوں کی قربت میں جگہ دیں گے جہاں تو ہم سے ہم کلام ہو سکے گی۔ پھر آپ نے
خدا تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرا کام تو بس تجھے یاد کرنا ہے اور آخرت میں تمنائے
دیدار لے کر جانا ہے۔ ویسے مالک ہونے کی حیثیت سے تو مختار کل ہے۔
حضرت مالک بن دینار کہا
کرتے تھے کہ میں ایک مرتبہ بغرض ملاقات حضرت رابعہ بصریؒ کے یہاں پہنچا تو دیکھا
کہ ایک ٹوٹا ہوا مٹی کا لوٹا ہے جس سے آپ وضو کرتی ہیں اور پانی پیتی ہیں اور ایک
بوسیدہ چٹائی ہے جس پر اینٹ کا تکیہ بنا کر استراحت فرماتی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ
میرے بہت سے احباب مالدار ہیں اگر اجازت ہو تو ان سے آپ کے لئے کچھ طلب کر لوں۔ آپ
نے سوال کیا کہ کیا مجھے اور تمہیں اور دولتمندوں کو رزق عطا کرنے والی ایک ہی ذات
نہیں ہے۔ تو پھر کیا درویشوں کو ان کی غربت کی وجہ سے اس ذات نے فراموش کر دیا ہے
اور امراء کو رزق دینا یاد رہ گیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ایسا تو نہیں ہے۔ فرمایا
کہ جب وہ ذات ہر فرد کی ضروریات سے واقف ہے تو پھر ہمیں یاددہانی کی کیا ضرورت ہے؟
اور ہمیں اس کی خوشی میں خوشی ہونی چاہئے۔
ایک مرتبہ آپ نے سات شب و
روز مسلسل روزے رکھے اور شب میں قطعاً آرام بھی نہیں کیا۔ لیکن جب آٹھویں دن بھوک
کی شدت کی نفس نے فریاد کی کہ مجھے کب تک اذیت دو گی تو اسی وقت ایک شخص کھانے کی
کوئی شئے پیالے میں لئے ہوئے حاضر ہوا۔ آپ لے کر شمع روشن کرنے اٹھیں۔ اور اس وقت
ایک بلی کہیں سے آئی اور وہ پیالہ الٹ دیا اور جب پانی سے روزہ کھولنے اٹھیں تو
شمع بجھ گئی اور آب خورہ گر کر ٹوٹ گیا۔ اس وقت آپ نے ایک دلدوز آہ بھر کر اللہ
تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ یہ کیا معاملہ کیا جا رہا ہے۔ ندا آئی کہ اگر
دنیاوی نعمتوں کی طلب گار ہو تو ہم عطا کئے دیتے ہیں۔ لیکن اس کے عوض میں اپنا درد
تمہارے قلب سے نکال لیں گے۔ اس لئے کہ ہمارے اور غم روزگار کا ایک قلب میں اجتماع
ممکن نہیں اور نہ کبھی جداگانہ مرادیں ایک قلب میں جمع ہو سکتی ہیں۔ یہ ندا سنتے
ہی دامن امید چھوڑ کر اپنا قلب حُب دنیا سے اسی طرح خالی کر لیا کہ جس طرح موت کے
وقت مرنے والا امید زندگی ترک کر کے قلب کو دنیاوی تصورات سے خالی کر دیتا ہے۔ اور
اس کے بعد آپ بھی دنیا سے اس طرح کنارہ کش ہو گئیں کہ ہر صبح یہ دعا کرتیں کہ اے
اللہ مجھے اس طرح اپنی جانب متوجہ فرما لے کہ اہل جہان مجھے تیرے سوا کسی کام میں
مشغول نہ دیکھ سکیں۔
بعض لوگوں نے آپ سے سوال
کیا کہ بلا کسی ظاہری عرض کے آپ گریہ و زاری کیوں کرتی رہتی ہیں۔ فرمایا کہ میرے
سینے میں ایک مرض پنہاں ہے کہ جس کا علاج نہ تو کسی طبیب کے بس میں ہے اور نہ وہ
مرض تمہیں دکھائی دے سکتا ہے اور اس کا واحد علاج صرف وصال خداوندی ہے۔ اس لئے میں
مریضوں جیسی صورت بنائے ہوئے گریہ زاری کرتی رہتی ہوں کہ شاید اس سبب سے قیامت میں
خواہش پوری ہو جائے۔
ایک مرتبہ آپ نماز ادا کر
رہی تھیں کہ کمزوری کے باعث نماز پڑھتے پڑھتے سو گئیں اور اس اثناء میں ایک چور
آیا اور آپ کی چادر اٹھا کر چل دیا۔ جب دروازے سے باہر نکلنے لگا تو اسے دروازہ
نظر نہ آیا۔ اس نے چادر رکھ دی تو دروازہ دکھائی دینے لگا۔ دوبارہ چادر اٹھا کر
چلا تو دروازہ پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس نے دوبارہ چادر رکھ دی تو دروازہ پھر
نظر آنے لگا۔ تیسری مرتبہ چادر اٹھانے لگا تو آواز آئی اپنے آپ کو مصیبت میں نہ
ڈالو۔ اس گھر کی مالکہ نے اپنے آپ کو ہماری نگہبانی اور دوستی میں دے رکھا ہے۔
یہاں تو کسی کی مجال نہیں کہ کچھ کر سکے۔ ایک دوست سویا ہوا ہے تو پھر کیا دوسرا
دوست تو بیدار ہے۔
ایک دن خواجہ حسن بصریؒ
آپ کے ہاں گئے اور پوچھا مجھے دو باتیں بتا ؤ جو تم نے علم و تعلیم سے حاصل کیں
اور نہ کسی سے سنیں بلکہ مخلوق سے بلاواسطہ تجھے پہنچی ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ میں نے
چند رسیاں بنی تھیں کہ انہیں بیچ کر اپنی ضروریات خرید لوں۔ چنانچہ وہ دو درہم میں
فروخت کیں۔ ایک درہم ایک ہاتھ میں لیا اور دوسرا دوسرے ہاتھ میں کیونکہ مجھے ڈر
تھا کہ مبادا ایک ہی ہاتھ میں دونوں درہم لینے سے گمراہ ہو جا ؤں۔ بس یہی آج کی
حاصل شدہ بات ہے۔
ایک بار لوگوں نے آپ سے
پوچھا کہ آپ نکاح کیوں نہیں کرتیں۔ فرمایا۔ مجھے تین باتوں کا اندیشہ ہے۔ اگر ان
سے فارغ کرو تو مجھے نکاح کرنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے۔ اول یہ کہ مرتے وقت ایمان
سلامت لے جا ؤں گی یا نہیں؟ لوگوں نے کہا معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ دوسرا یہ کہ
میرا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں؟ لوگوں نے کہا۔
ہمیں اس کا بھی علم نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تیسرا یہ کہ قیامت کے دن ایک گروہ کو
بہشت میں دائیں طرف سے لے جائیں گے اور دوسرے گروہ کو بائیں طرف سے دوزخ میں تو
میں کس جانب سے ہوں گی؟ لوگوں نے عرض کیا۔ ہمیں علم نہیں۔ فرمایا تو پھر جسے اس
قدر غم ہوں وہ عورت شوہر کی خواہش کیسے کر سکتی ہے؟
ایک دفعہ آپ بیمار تھیں
حضرت حسن بصری بیمار پرسی کے لئے آئے۔ دیکھا تو دروازہ پر ایک رئیس روپوں کی تھیلی
پکڑے کھڑا ہے اور آنسو جاری ہیں۔ خواجہ حسن بصری نے اس سے پوچھا کیا ماجرا ہے۔ اس
نے کہا میں اس یکتائے زمانہ (رابعہ) کے لئے ایک چیز لایا ہوں۔ لیکن اس خیال سے رو
رہا ہوں کہ شاید وہ لینے سے انکار کر دیں۔ اگر آپ میری سفارش کر دیں تو شاید قبول
فرما لیں۔ حضرت حسن بصری اندر داخل ہوئے اور حضرت رابعہ کو اس رئیس کا پیغام دیا۔
حضرت رابعہ نے سن کر فرمایا جو کوئی اللہ تعالیٰ کو برا کہتا ہے، خدا اس کی روزی
بند نہیں کرتا اور جس کی زندگی اسی کی محبت کے دم سے ہو اسے تو وہ بغیر رزق کے ہی
زندہ رکھ سکتا ہے۔ جب سے میں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ تمام مخلوق سے منہ پھیر لیا ہے۔
اب تم ہی بتا ؤ جس شخص کو میں جانتی ہی نہیں اس کا مال میں کیسے لے لوں۔ کیا خبر
وہ حلال ہے یا حرام۔
حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی
نے سوال کیا کہ آپ نے شادی نہیں کی۔ کیا آپ کو شیطان سے ڈر نہیں لگتا؟
میرے مرشد کریم خواجہ شمس
الدین عظیمی اس طرح فرماتے ہیں کہ حضرت مائی صاحبہ نے فرمایا:
‘‘مجھے رحمٰن سے ہی فرصت
نہیں۔’’
اس بات کو خواجہ غریب
نواز نے اس طرح فرمایا:
‘‘بار دم بدم دبار باری آید’’
خواجہ غریب نواز فرماتے
ہیں کہ میری ہر سانس کے ساتھ اللہ بسا ہوا ہے اور میرا ہر سانس اللہ کے ساتھ
وابستہ ہے۔ ایسے برگزیدہ اور پاکیزہ نفس بندے جن کا ذہن ایمان و ایقان سے معمور
ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ ہر وقت خیر کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ وہ
یہ جانتے ہیں کہ شر اور خیر دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے روشنی اور
تاریکی گرم اور سرد، تلخ اور شیریں، راحت اور تکلیف، خوشی اور غم، غصہ اور محبت
وغیرہ لازم و ملزوم ہیں۔ بظاہر یہ بات خلاف عقل ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ وہ
پاکیزہ نفوس ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہمارے بندے ایسے بھی
ہیں جو ہماری زبان سے بولتے ہیں جو ہمارے کانوں سے سنتے ہیں اور ہمارے ہاتھ سے
پکڑتے ہیں۔ ان بندوں کی طرز فکر میں یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری
حیثیت ایک معمول کی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے
جو اچھائی اس لئے اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ اور برائی
سے اس لئے بچتا ہے اور پرہیز کرتا ہے کہ برائی کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں۔
خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ دونوں طرز فکر ان کی امت کو منتقل ہوئیں۔
علم کے بارے میں گفتگو کے
دوران حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علم کے دو
لفظ ملے۔ ایک میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو چھپا لیا۔ لوگوں نے کہا علم بھی
کوئی چھپانے کی چیز ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر وہ لفظ
میں لوگوں پر ظاہر کر دوں تو تم لوگ مجھے قتل کر دو گے۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ علم
جس کو حضرت ابو ہریرہؓ نے چھپایا کسی کو منتقل نہیں ہوا یا حضرت ابوہریرہؓ نے کسی
کو نہیں سکھایا۔ بات یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم میں سے ایک علم
وہ ہے جو عوام الناس کی ذہنی اور شعوری سکت سے ماوراء ہے۔ علم شریعت تقرب الیٰ
اللہ کے وہ اعمال و اشغال اور قوانین ہیں جن پر ہر فرد چل کر و وہ زندگی اختیار کر
سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ ہے۔ اور دوسرے علم میں اللہ تعالیٰ کے وہ
اسرار و رموز ہیں جو صرف کائنات کے نظام
(Administration) کے متعلق ہیں۔ ایسے بندوں کی زندگی
سراپا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ کو پکارتے ہیں تو ان کے
ذہن میں یہ تصور نہیں ہوتا کہ اس کے صلے میں انہیں جنت ملے گی اور نہ ہی کوئی عمل
وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اس عمل کے کرنے سے انہیں دوزخ سے نجات ملے گی۔ وہ صرف اور
صرف اس لئے اللہ کو پکارتے ہیں کہ ان کے سامنے اللہ کی ذات کے علاوہ اور کچھ نہیں
ہوتا۔ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم صادر ہوتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے
ہیں۔
قرآن پاک میں حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے واقعہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ
تعالیٰ کے اس بندے سے یہ کہا کہ آپ نے ناحق ایک جان کو ہلاک کر ڈالا تو اس بندے نے
جواباً کہا کہ میں نے جو کچھ کیا اپنی طرف سے نہیں کیا، اللہ تعالیٰ ایسا چاہتے
تھے۔ میں نے ایسا کر دیا۔
اب ہم یوں کہیں گے کہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم کا وہ لفظ حاصل تھا جس کو علم شریعت کہتے ہیں اور
بندے کے پاس وہ علم تھا جس کو تکوین یا (Administration) کا
نام دیا جاتا ہے۔ راستے دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہیں۔ ایک راستہ پر طرز
فکر آزاد ہے اور دوسرے راستہ پر طرز فکر پابند ہے۔ پابند طرز فکر اطلاعات کو اپنے
دائرہ اختیار میں قبول کرتی ہے۔ دوسرا راستہ آزاد طرز فکر ہے جس میں ایسا ویسا یا
چوں چرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ رات کے لئے اگر یہ فرما دیں کہ یہ دن ہے تو آزاد طرز
فکر میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ یہ دن ہے۔ دنیا کے چار ارب انسان یہ کہیں کہ یہ رات
ہے لیکن وہ ایک تنہا آدمی یہی کہے گا کہ یہ دن ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے
فرمانے کے بعد رات اس کے مشاہدے میں دن بن جاتی ہے اور اس کے تمام حواس وہی بن
جاتے ہیں جو دن کے حواس ہیں۔ اس میں ایک راز ہے یہ کہ رات دن کی کوئی حیثیت نہیں
ہے بلکہ رات دن اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک تخلیق ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے رات کو
دن فرمایا تو تخلیقی فارمولے بدل گئے۔ لیکن چونکہ ایک مخصوص آدمی کے لئے فرمایا۔
‘‘اس لئے فارمولے میں تبدیلی صرف اسی آدمی کے لئے مظہر بنی۔ رات اور دن دراصل ایک
تخلیق یا ایک یونٹ کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ کا نام دن ہے اور دوسرے رخ کا نام رات ہے۔
یہ دونوں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں۔
رات کے حواس آزاد طرز فکر
ہے اور دن کے حواس پابند طرز فکر ہے۔ دن کے حواس وہ زندگی ہے جہاں انسان اپنے
اختیارات استعمال کر کے زندگی بسر کرتا ہے۔ رات کے حواس وہ طرز فکر ہے جہاں انسانی
اختیارات زیر بحث نہیں آتے۔ کوئی فرد دن کے حواس میں اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل
نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے یا غیبی دنیا میں داخل ہونے کے لئے
بہرحال رات کے حواس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اور جب رات کے حواس دن کے حواس پر غالب
آ جاتے ہیں تو طرز فکر آزاد ہو جاتی ہے۔ اور آزاد طرز فکر سے انسان اللہ تعالیٰ کی
تجلیات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
۱۔ اے نفس تو اللہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے حالانکہ تو
اس کی نافرمانی بھی کرتا رہتا ہے اس سے بڑھ کر بھی کوئی عجب بات ہو سکتی ہے۔
۲۔ اگر تیری محبت سچی ہے تو اپنے اللہ کی فرمانبرداری کر کیوں
کہ محبت کرنے والا جس سے محبت کرتا ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت بھی ضرور کرتا
ہے۔
۳۔ اے میرے اللہ اگر میں تیری عبادت دوزخ سے ڈر کر کرتی ہوں تو
مجھے جہنم میں ڈال دے اور اگر جنت کے لالچ میں ایسا کرتی ہوں تو تُو مجھے جنت سے
محروم رکھ اور اگر میں تجھ سے تیری ذات سے اور صرف تیرے لئے محبت کرتی ہوں تو اے
میرے پروردگار مجھے اپنے جمال ازلی سے محروم نہ رکھیو۔
۴۔ اے اللہ میں تجھ سے محبت کرتی ہوں۔ دو طرح کی محبت ایک محبت
آرزو اور تمنا کی اور دوسری صرف تیری ذات کی۔ میری وہ محبت جو آرزو اور تمنا سے
معمور ہے وہ تو کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن وہ محبت جو صرف تیری ذات سے ہے تو اسی
کا واسطہ تو حجاب کو دور کر دے تا کہ آنکھیں تیرا جلوہ دیکھ سکیں۔
۵۔ جو دل بیدار ہو گیا وہ گم ہو گیا۔
۶۔ جو دروازہ کھٹ کھٹاتا ہے اسی کے لئے کھولا جاتا ہے۔
۷۔ خدا کا اور دنیا کا غم ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔
۸۔ دنیا خدا کی ملکیت ہے دنیا والوں سے نہ طلب کرو۔
حضرت رابعہ نے ۵۸۱ھ میں ۸۸ برس کی عمر میں وفات
پائی۔ وفات سے تھوڑی دیر قبل بصرہ کے کچھ لوگ بیمار پرسی کے لئے آئے۔ وہ لوگ
دروازے کے پاس راستہ روک کر کھڑے تھے۔ حضرت رابعہ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا
‘‘فرشتوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔’’ وہ لوگ دروازے سے باہر ہو گئے۔ اور دروازہ بند
کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولا گیا تو حضرت رابعہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکی
تھیں۔ وفات کے بعد کسی نے آپ کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ رابعہ کہو نکیرین سے
کیا معاملہ پیش آیا۔ فرمایا۔ جب وہ آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ تیرا رب کون
ہے؟ میں نے ان سے کہا کہ واپس جا ؤ اور رب العزت سے یہ کہو کہ اتنے ہزاروں آدمیوں
میں تو نے ایک ضعیفہ کو فراموش نہیں کیا تو میں جو تجھے دل و جان سے عزیز رکھتی
ہوں، تجھے کیسے بھول سکتی ہوں۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔