Topics
ولادت……بمقام قصبہ خواجہ ضلع بلند شہر
یوپی (بھارت) ۸۹۸۱
وفات……بمقام کراچی ۷۲ جنوری ۹۷۹۱
سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے
بانی کا اصلی نام حضرت حسن آخریٰ محمد عظیم برخیا تھا۔ مرتبہ قلندریت کے مقام پر
فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملاں عرش میں بہی عرفیت یعنی قلندر
بابا اولیاء کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ ۸۹۸۱
میں قصبہ ‘‘خواجہ’’ ضلع بلند شہر یوپی(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ا بتدائی تعلیم
محلہ کے مکتب سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میٹرک بلند شہر سے کیا
اور انٹرمیڈیٹ کے لئے داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیا۔
علی گڑھ میں قیام کے
دوران آپ کی طبیعت میں درویشی کی طرف میلان بہت زیادہ بڑھ گیا اور وہاں مولانا
کابلیؒ کے قبرستان کے حجرے میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ صبح تشریف لے جاتے اور رات
گئے واپس آتے۔ اسی اثناء میں قلندر بابا اولیاءؒ اپنے نانا حضرت تاج الدین
ناگپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نانا نے انہیں وہاں روک لیا۔ قلندر باباؒ کے والد
صاحب کو جب یہ پتہ چلا تو وہ ناگپور تشریف لے گئے۔ اور بابا تاج الدین صاحب سے عرض
کیا کہ اس کی تعلیم نامکمل رہ جائے گی اسے واپس علی گڑھ بھیج دیجئے۔ استادوں کے
استاد واقف اسرار و رموز حامل علم لدنی بابا تاج الدین نے فرمایا کہ اس کو اگر اس
سے زیادہ پڑھایا گیا۔ جتنا یہ اب تک پڑھ چکا ہے تو یہ میرے کام کا نہیں رہے گا۔
قلندر بابا اولیاءؒ کے والد صاحب نے ایک مشفق باپ کی طرح بیٹے کو سمجھایا اور جب
دیکھا کہ بیٹے کا میلان طبع فقر کی طرف مائل ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر بیٹے تم خود
سمجھدار ہو۔ جس طرح چاہو اپنا مستقبل تعمیر کرو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
قلندر بابا اولیاءؒ اپنے نانا تاج الدین اولیاءؒ کے پاس نو سال تک مقیم رہے۔ نو
سال کے عرصہ میں بابا تاج الدین نے ان کی روحانی تربیت فرمائی۔ حضرت تاج الدین
ناگپوری کے حکم کے مطابق ان کے ایک عقیدت مند کی صاحب زادی سے آپ کی شادی ہوئی۔
تقسیم ہند کے بعد حضور قلندر بابا اولیاءؒ مع اپنے اہل و عیال اور والد اور بہن
بھائیوں کے ساتھ کراچی تشریف لے آئے۔ کراچی میں لی مارکیٹ کے محلے میں ایک نہایت
خستہ و بوسیدہ مکان کرائے پر لیا اور کافی عرصہ وہاں مقیم رہے۔ حضرت قلندر بابا نے
زندگی میں کبھی صابن سے ہاتھ نہیں دھوئے۔ گرم پانی سے ہاتھ دھو کر تولئے سے صاف کر
لیا کرتے تھے۔ ہاتھ دھونے میں کافی وقت صرف ہو جاتا تھا۔ جب تک ہاتھ میں لگی ہوئی
چکنائی دور نہیں ہو جاتی تھی، ہاتھ دھوتے رہتے تھے۔ روزمرہ استعمال کی چیزوں کی
ایک جگہ مقرر تھی۔ کوئی چیز جگہ سے بے جگہ پر جاتی تو طبیعت پر گراں گزرتی تھی۔
ایک دور ایسا بھی آیا کہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ پر جذب و مستی اور عالم استغراق
کا غلبہ ہو گیا۔ اکثر اوقات خاموش رہتے اور گاہے گاہے گفتگو بھی بے ربط ہو جایا
کرتی تھی لیکن جذب و کیفیت کی یہ مدت زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہتی تھی۔ علم لدنی
کی تعلیم کے دوران اور اس کے بعد بھی حضور بابا صاحب ڈھائی تین گھنٹے سے زیادہ
کبھی نہیں سوئے۔ نیند پر ان کو پوری طرح غلبہ اور دسترس حاصل تھی۔ غذا کے معاملے
میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ چوبیس گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ دو چپاتی اور کبھی ایک
چپاتی تناول فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے ذریعہ معاش کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ لارنس
روڈ کراچی کی فٹ پاتھ پر روزانہ صبح جا کر بیٹھ جاتے تھے اور بجلی کے فیوز وغیرہ
لگا کر اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔ پھر ڈان میں سب ایڈیٹر ہو گئے۔ اس کے بعد ایک
عرصہ تک رسالہ ‘‘نقاد’’ میں کام کرتے رہے۔
۶۵۹۱ء
میں سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی صاحب لاہور
سے کراچی تشریف لائے اور حضور بابا صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت حاصل
کرنے کی درخواست پیش کی۔ حضرت ابوالفیض قلندر سہروردی نے فرمایا کہ رات کو ۳ بجے آ ؤ۔ سخت سردی کا
عالم تھا کہ حضور بابا صاحب گرانڈ ہوٹل میکلوڈ روڈ کی سیڑھیوں پر رات کے دو بجے جا
کر بیٹھ گئے۔ اور ٹھیک تین بجے سہروردی بزرگ نے دروازہ کھولا اور اندر بلا لیا۔
سامنے بٹھا کر حضرت بابا صاحب کی پیشانی مبارک پر تین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک
میں عالم ارواح منکشف ہو گیا۔ دوسری پھونک میں عالم ملکوت و جبروت سامنے آ گیا اور
تیسری پھونک میں حضور بابا صاحب نے عرش معلیٰ کا مشاہدہ کیا۔
حضرت ابوالفیض قلندر علی
سہروردی نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتے میں پوری کر کے خلافت عطا فرما دی۔ اس
کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رحمتہ اللہ علیہ کی روح پر فتوح نے حضور بابا
صاحب کی روحانی تعلیم شروع کی۔ اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی ہمت اور نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار
و رموز کا علم حاصل ہوا۔ اس زمانے میں حضور بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مسلسل دس
رات اور دس دن شب بیداری کی اور تہجد کی نوافل میں کئی کئی سو مرتبہ سورہ اخلاص
پڑھی۔ آپ فطرتاً، سخن، سنج اور پر مزاح تھے۔ اپنے حلقہ احباب میں خاص طور پر اور
عامتہ الناس میں عام طور سے نہایت عزت و جاہ کے مالک مانے جاتے تھے اور بہت ہی
مقبول اور ہر دلعزیز تھے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
کے فیض کو عام کرنے کے لئے سلسلہ کو تین کتابیں بطور ورثہ منتقل ہوئی ہیں۔
۱) علم و عرفان کا سمندر رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ
۲) اسرار و رموز کا خزانہ ‘‘لوح و قلم’’
۳) کشف و کرامات اور ماورائی علم کی توجیہات پر مستند کتاب
تذکرہ تاج الدین بابا
۴) حضور بابا صاحب کی زیرسرپرستی روحانی ڈائجسٹ یکم دسمبر
۸۷۹۱ء سے شروع ہوا اور اب تک باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔
ابدال حق حسن آخری سید
محمد عظیم برخیا حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے دست کرم سے آپ کے نام نامی اسلم گرامی
سے منسوب سلسلہ عالیہ عظیمیہ کی بنا و سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ
اقدس میں شرف قبولیت کے بعد جولائی ۰۶۹۱ء
میں رکھی۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ جذب و
سلوک دونوں روحانی شعبوں پر محیط ہے۔ امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا
اولیاءؒ رحمتہ اللہ علیہ اور سلاسل طریقت کے مربی و مشفی ہیں۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ میں
روایتی پیری مریدی نہیں ہے۔ نہ جبّہ دستار ہے نہ منبر و محراب۔ اگر کسی طالب کو اس
در سے کچھ لینا ہے تو اس کے لئے خلوص اور طلب علم کے لئے ذوق و شوق کا ہونا کافی
ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی خدمت میں عرض کیا۔
‘‘حضور! کیا آپ کو نماز میں مزہ آتا ہے؟’’
فرمایا۔ ‘‘ہاں۔’’
میں نے عرض کیا۔ ‘‘مجھے
تو کبھی یہ پتہ نہ چلا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ خیالات ایک
نقطہ پر مرکوز ہو جائیں مگر ذرا سی دیر کے لئے کامیابی ہوتی ہے اور پھر ذہن بھٹک
جاتا ہے۔’’
فرمایا۔ ‘‘میں ایک ترکیب
بتاتا ہوں۔ اس سے ذہنی مرکزیت حاصل ہو جائے گی۔’’
حضور بابا جیؒ نے مجھے
سجدہ کی حالت میں انگلیوں کی مخصوص حرکت تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ عمل صرف
عشاء کی نماز میں آخری رکعت کے آخری سجدہ میں کرنا۔
میں نے تہجد کے بعد وتروں
کی آخری رکعت کے آخری سجدہ میں یہ عمل کیا تو واقعی میری پریشاں خیالی دھواں بن کر
اڑ گئی۔ میں نے فجر کی نماز میں بھی اس عمل کو دہرایا اور پھر ظہر، عصر اور مغرب و
عشاء اور تہجد میں بھی یہ عمل کرتا رہا۔ میں یہ بھول گیا کہ صرف ایک وقت یہ عمل
کرنا ہے۔ تہجد کی آخری رکعت کے آخری سجدہ میں جب میں نے یہ عمل کیا تو سجدہ کی
حالت میں محسوس ہوا کہ میرے دائیں اور بائیں کوئی کھڑا ہے لیکن میں خوف زدہ ہونے
کے باوجود یہ عمل دہراتا گیا۔ اور سجدہ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا۔ اب ڈر کے مارے
میرا دم گھٹنے لگا اور میں جلدی جلدی نماز ختم کر کے پلنگ پر جا لیٹا۔
یہ اس زمانے کا واقعہ ہے
جب میرے غریب خانے میں بجلی نہیں تھی۔ ہو کا عالم تھا اور ماحول کے سناٹے میں
گیدڑوں کی آواز کے سوا اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میرے گھر کے آس پاس
کوئی مکان بھی نہیں تھا۔ اور جو مکان تھے وہ کافی فاصلے پر تھے۔ لیمپ بھی بجھا ہوا
تھا۔ گھبراہٹ میں دیا سلائی بھی نہیں ملی۔ اتفاق سے پورے گھر میں اکیلا تھا۔ اور
ڈر کے مارے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔ جیسے تیسے پلنگ پر لیٹے لیٹے آیت الکرسی
پڑھنا شروع کر دی۔ لیکن آیت الکرسی کے ورد سے دہشت اور زیادہ بڑھ گئی۔ اور دل کی
حرکت بند ہوتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ پھر ایک دم دل کی حرکت تیز ہو گئی۔ ایسا محسوس
ہو رہا تھا کہ دل سینہ کی دیوار توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ میں نے اب قل ہو اللہ
شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی قل ہو اللہ شریف ختم ہوئی میرا جسم اوپر اٹھنے
لگا اور اٹھتے اٹھتے چھت سے جا لگا۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا کہ یہ واقعی چھت ہے
یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ ہاتھ سے چھُو کر دیکھا تو واقعتاً میں چھت سے لگا
ہوا تھا۔
مجھے یہ خوف ہوا کہ اب
میں نیچے گروں گا اور ہڈی پسلی نہ بھی ٹوٹی تو بھیجا تو ضرور باہر آ جائے گا۔ اسی
وقت میں نے دیکھا کہ دو ہاتھ تیزی سے میری گردن کی طرف آئے۔ ایک ہاتھ نے میرے دل
کو سنبھالا۔ اور ایک ہاتھ نے میرا منہ بند کر دیا۔ مجھ پر اس نادیدہ ہاتھ کی اس
قدر دہشت طاری ہوئی کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ صبح کے وقت سے پہلے میں نے خواب میں
دیکھا کہ میرے دادا حضرت مولانا خلیل احمد انیسٹوی، حضرت ابوالفیض قلندر علی
سہروردیؒ، حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ بے چین ادھر سے
ادھر ٹہل رہے ہیں اور فرما رہے ہیں:
‘‘یہ کیا ہو گیا؟’’ پھر زور
سے فرمایا جیسے کسی سے کہہ رہے ہوں۔ ‘‘اس کو ہر حال میں زندہ رہنا ہے۔’’
صبح کو جب میں اٹھا تو
میرے جسم کا ایک ایک عضو دکھ رہا تھا۔ شام تک قدرے قرار آیا اور میں حضور قلندر
بابا اولیاءؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
فرمایا۔ ‘‘تم نے میرے
کہنے کے خلاف عمل کر کے سب کو پریشان کر دیا۔ اللہ نے فضل فرمایا، نہیں تو کام
تمام ہو گیا تھا۔’’
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی فرماتے ہیں کہ میرے پیر بھائی ذکی صاحب حیدر آباد میں فرنیچر کا کام کرتے
ہیں۔ ان کی شادی کا مسئلہ درپیش تھا۔ ذکی صاحب کے والد صاحب نامساعد حالات کی بنا
پر ابھی شادی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ان سے فرمایا کہ
شادی فوراً کر دی جائے ورنہ یہ شادی عرصے تک نہیں ہو سکے گی۔ بہرحال جیسے تیسے کر
کے شادی ہو گئی۔ رخصتی کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کے ایک قریبی رشتہ دار
کا انتقال ہو گیا۔ ابھی ان کا چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا کہ خاندان میں ایک اور
موت واقع ہو گئی۔ اس سلسلے نے اتنا طول کھینچا کہ چالیس دن پورے نہیں ہوتے تھے کہ
کسی ایک کا انتقال ہو جاتا تھا اور یہ المناک سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔
ایک صاحب ہیں، جاوید
صاحب۔ لالو کھیت میں ان کی گارمنٹس (ملبوسات) کی دکان ہے۔ ان کے بچے کو پولیو ہو
گیا۔ حضور بابا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بچے کو چارپائی پر لٹا دیا۔ حضور
بابا صاحبؒ نے کوئی مفرد دوا بتائی اور فرمایا کہ اس کو پانی میں پکا کر ٹانگ کو
بھپارا دو۔ صرف ایک دفعہ کے عمل سے پولیو ختم ہو گیا۔ لیکن عجب رمز ہے کہ اب جاوید
صاحب کو نہ تو اس بوٹی کا نام یاد ہے اور نہ ہی اس کی شکل یاد ہے۔ وہ جب بھی کسی
پولیو زدہ بچے کو دیکھتے ہیں ان کے دل سے ایک آہ نکلتی ہے کہ کاش میں نے اس دوا کا
نام لکھ لیا ہوتا!
اکثر یہ ہوتا تھا کہ حضور
قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی ٹوپی غائب ہو جاتی تھی۔ کبھی کبھی انہیں اس
بات پر ناراض ہوتے ہوئے بھی دیکھا یگا۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟
دیکھتے ہی دیکھتے ٹوپی غائب ہو جاتی ہے، آخر یہ کون لے جاتا ہے؟
فرمایا۔‘‘جنات لے جاتے
ہیں۔ میں ان کو سخت سست کہتا ہوں لیکن ان کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ سر جھکائے
کھڑے رہتے ہیں۔’’
رات کے وقت حضور بابا
صاحبؒ کی کمر دبا رہا تھا۔ پسلیوں کے اوپر جب ہاتھ پڑا تو حضور بابا صاحبؒ کو
تکلیف محسوس ہوئی۔ کرتا اٹھا کر دیکھا تو تقریباً چار پانچ انچ کا زخم تھا۔ میں یہ
دیکھ کر بے قرار ہو گیا اور پوچھا کہ یہ کیسا زخم ہے۔ فرمایا۔ ‘‘میں ایک درہ سے
گزر رہا تھا۔ جگہ کم تھی پہاڑ کی نوک سے یہ زخم آ گیا’’۔ صبح جب میں نے کرتا اٹھا
کر دیکھا تو زخم کا نشان تک ان کے جسم پر نہیں تھا۔
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی فرماتے ہیں کہ برصغیر اور بیرون ملک ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ایک
دن اور ایک وقت میں مختلف مقامات پر حضور قلندر بابا اولیاءؒ کو دیکھا ہے۔ کسی کے
ساتھ حضور بابا صاحبؒ نے مصافحہ کیا، کسی کو سینے سے لگایا، کہیں چائے نوش فرمائی
اور کسی کو ہدایت دی کہ ایسا کرو، ایسا نہ کرو۔ اس بات کا اظہار اس طرح ہوا کہ
مجھے (راوی کو) لوگوں نے بتایا اور کچھ لوگوں نے خطوط کے ذریعے اطلاع دی کہ حضور
بابا صاحبؒ تشریف لائے تھے۔
مجھے (خواجہ شمس الدین
عظیمی) اللہ کے فضل و کرم سے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ حضور بابا صاحبؒ کے نام جتنے
خطوط آتے تھے ان کا جواب میں لکھتا تھا۔ ایک مرتبہ سوئٹزرلینڈ سے خط آیا۔ جس میں
حضور بابا صاحبؒ کی تشریف آوری سے متعلق بہت زیادہ تشکر و امتنان کا اظہار تھا اور
یہ بھی تحریر تھا کہ میں نے آپ کے ارشاد کے مطابق فلاں کام کر دیا ہے۔ جب میں نے
یہ خط بابا صاحبؒ کو سنایا تو ان سے عرض کیا کہ اس عرصے میں تو آپ کہیں نہیں گئے،
یہ کیا لکھا ہے؟
قلندر بابا اولیاءؒ
مسکرائے اور فرمایا۔ ‘‘اہل تکوین حضرات کے پچیس جسم ہر وقت کام کرتے ہیں اور جب
کام کی زیادتی ہوتی ہے تو ان کی تعداد چالیس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔’’
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی فرماتے ہیں کہ برکھا رت تھی۔ سماں بھیگا ہوا تھا۔ بجلی چمک رہی تھی۔ آسمان
ابر آلود تھا۔ بارش برس رہی تھی۔ باہر یہ خوبصورت منظر تھا اور کمرے میں تخلیقی
فارمولوں پر گفتگو ہو رہی تھی۔ دوران گفتگو سچے موتیوں کا تذکرہ آ گیا۔ اس غلام کو
حضور بابا صاحبؒ کے مزاج میں بہت دخل تھا۔ میں نے عرض کیا۔ ‘‘حضور! بارش کا ایک
قطرہ جب سیپ کے پیٹ میں نشوونما پاتا ہے تو موتی بن جاتا ہے۔’’
یہ عرض کرنے کے بعد میں
باہر نکلا اور ایک کٹورے میں بارش کا پانی جمع کر کے لے آیا۔ حضور بابا صاحبؒ نے
ڈراپر سے بارش کا پانی اٹھایا اور اس کے اوپر اپنی نگاہ مرکوز کر دی۔ اب ڈراپر میں
سے جتنے قطرے گرے وہ سب سچے موتی تھے۔
میں نے ان موتیوں کو سرمے
کے ساتھ پیش لیا۔ جتنے لوگوں نے بھی یہ سرمہ استعمال کیا، ان کی نظر کو ناقابل
بیان فائدہ پہنچا۔
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں قلندر بابا اولیاءؒ رسالہ ‘نقاد’ کراچی میں کام
کرتے تھ ے، میرا یہ معمول تھا کہ شام کو چھٹی کے وقت حاضر خدمت ہوتا اور حضور بابا
صاحبؒ کو اپنے ساتھ لے کر ‘نقاد’ کے دفتر سے کچھ دور رتن تالاب پر واقع اپنے
جھونپڑے میں لے جاتا۔ وہاں ایک بہت خوبصورت نشست ہوتی تھی۔ غیر تعلیم یافتہ مگر
بہت مخلص، تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے دوست تشریف لاتے تھے۔ ایک روز کا واقعہ ہے
کہ میں دوپہر کو گھر آیا تو ایک صاحب جن کا نام زبیر احمد انصاری تھا، مجھے ملے۔
انہوں نے بتایا کہ حضور قلندر بابا صاحبؒ قبلہ اور دو اور بزرگ کمرے میں تشریف
رکھتے ہیں اور اندر سے کنڈی لگا لی ہے۔ دروازے کے پاس میں نے بزرگوں کی سرگوشی سنی
لیکن کوئی لفظ میرے کان میں نہیں اترا۔ سوچا کہ بازار سے دودھ لے آ ؤں اور چائے
بنا لوں۔ چولہا جلا کر پانی رکھا اور دودھ لینے چلا گیا۔ دودھ لے کر واپس آیا تو
تینوں صاحبان تشریف لے جا چکے تھے۔ بہت افسوس ہوا۔ بہرحال، شام کو جب میں حضور
بابا صاحبؒ کو لینے کے لئے ‘نقاد’ کے دفتر پہنچا تو میں نے پوچھا۔ ‘‘حضور! دوپہر
کے وقت آپ چلے آئے۔ میں چائے پیش کرنا چاہتا تھا اور آپ کے ساتھ وہ بزرگ حضرات کون
تھے؟’’
فرمایا۔ ‘‘بو علی قلندرؒ
اور خواجہ معین الدین چشتیؒ تشریف لائے تھے۔ کچھ قانون کے اوپر تبادلہ خیال کرنا
تھا۔’’
مجھے آج تک اس بات کا
ملال ہے کہ میں نے دودھ لینے کے لئے زبیر کو کیوں نہیں بھیج دیا! کاش ایسا ہو جاتا
اور اس خاکسار کو حضور خواجہ غریب نوازؒ اور بو علی شاہ قلندرؒ کی جسمانی زیارت ہو
جاتی!
مرشد کریم خواجہ شمس
الدین عظیمی سے ایک بار حضرت قلندر بابا اولیاءؒ نے اس کی روحانی توجیہہ فرمائی۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کو اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ صفات اور کشف و الہامات کا
مرکز بنایا ہے۔ تجلیات کے سمندر میں سے نور میں ڈھلے ہوئے موتیوں سے آپ بھی فیض
یاب ہوں:
حضور بابا صاحب رحمتہ
اللہ علیہ نے فرمایا:
بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو
انسان غیر حقیقی کہہ کر سمجھنے کی کوشش کرنا اور واہمہ یا خیال و خیال کہہ کر نظر
انداز کر دیتا ہے حالانکہ کائنات میں کوئی شئے فاضل یا غیر حقیقی نہیں ہے۔ ہر خیال
اور ہر واہمہ کے پس پردہ کوئی نہ کوئی کائناتی حقیقت ضرور کارفرما ہوتی ہے۔
وہم کیا ہے؟ خیال کہاں سے
آتا ہے؟ یہ بات غور طلب ہے۔ اگر ان سوالات کو نظر انداز کر دیں تو کثیر حقائق مخفی
رہ جائیں گے۔ اور حقائق کی زنجیر جس کی سو فی صد کڑیاں اس مسئلے کے سمجھنے پر
منحصر ہیں، انجانی رہ جائیں گی۔ جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی
کائناتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں
میں حرکت ہوئی ہے۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق کائنات کے ان
تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں۔ مثلاً جب ہوا
کا کوئی چیز جھونکا آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کرہ ہوائی میں کہیں کوئی
تغیر واقع ہوا ہے۔ اسی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وارد ہوتی ہے تو اس کے
معنی بھی یہی ہیں کہ انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا
خود انسانی ذہن کی تلاش پر ہے۔ ذہن انسانی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جو فرد
کی ذہنی حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے۔ یعنی یہ حرکت فرد کے ارادوں اور
محسوسات کو کائنات کے ہمہ گیر ارادوں اور محسوسات تک لاتی ہے۔ ذہن کی دونوں سطحیں
دو قسم کے حواس کو تخلیق کرتی ہیں۔ ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس کہیں تو دوسری
سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔ دراصل مثبت حواس ایک معنی میں حواس کی
تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے۔ (اسی قسم کو زمان متواتر
کہتے ہیں)۔ اس تقسیم کے حصے اعضائے جسمانی ہیں۔ چنانچہ ہماری جسمانی فطیت میں یہی
تقسیم کام کرتی ہے۔ ایک ہی وقت میں آنکھ کسی ایک شئے کو دیکھتی ہے اور کان کسی
آواز کو سنتے ہیں۔ ہاتھ کسی تیسری شئے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں۔ اور پیر کسی چوتھی
چیز کی پیمائش کرتے ہیں۔ زبان کسی پانچویں چیز کے ذائقے میں اور ناک کسی چھٹی چیز
کے سونگھنے میں مشغول ہوتی ہے اور دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے
خیالات آتے رہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت حواس کی کارفرمائی ہے لیکن اس کے برعکس منفی
حواس کی جو تحریکات ہوتی ہیں ان کا تعلق انسان کے ارادے سے نہیں ہوتا مثلاً خواب
میں باوجود اس کے مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں، اعضائے جسمانی ساکت رہتے
ہیں۔ اعضائے جسمانی کے سکوت سے اس حقیقت کا سراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک
ہی نقطہ ذہنی میں ہے۔ خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہے، وہی
حرکت بیداری میں جسم کے اندر تقسیم ہو جاتی ہے۔ تقسیم ہونے سے پیشتر ہم ان حواس کو
منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔ لیکن جسمانی اعضا میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا
درست ہو گا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ منفی اور مثبت دونوں حواس ایک ہی سطح میں متمکن
نہیں رہ سکتے۔ ان کا قیام ذہن کی دونوں سطحوں میں تسلیم کرنا ہو گا۔ تصوف کی
اصطلاح میں منفی سطح کا نام نسمۂ مفرد اور مثبت سطح کا نسمۂ مرکب لیا جاتا ہے۔
حضور بابا صاحبؒ نے
فرمایا:
نسمۂ مرکب ایسی حرکت کا
نام ہے جو تواتر کے ساتھ واقع ہوتی ہے یعنی ایک لمحہ، دوسرا لمحہ، تیسرا لمحہ اور
اس طرح لمحہ بہ لمحہ حرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس حرکت کی مکانیت لمحات ہیں جس میں ایک
ایسی ترتیب پائی جاتی ہے جو مکانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ہر لمحہ ایک مکان ہے، گویا
تمام مکانیت لمحات کی قید میں ہے۔ لمحات کچھ ایسی بندش کرتے ہیں جس کے اندر مکانیت
خود کو محبوس پاتی ہے اور لمحات کے دور میں گردش کرنے پر اور کائناتی شعور میں خود
کو حاضر رکھنے پر مجبور ہے۔ اصل لمحات اللہ تعالیٰ کے علم میں حاضر ہیں اور جس علم
کا یہ عنوان ہے، کائنات اسی علم کی تفصیل اور مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک
میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے۔ چنانچہ تخلیق کے
یہی دو رخ ہیں۔ تخلیق کا ایک رخ خود لمحات ہیں۔ یعنی لمحات کا باطن یا شعور یک رنگ
ہے اور دوسرا رخ لمحات کا مظاہر یا شعور کل رنگ ہے۔ ایک طرف لمحات کی گرفت میں
کائنات ہے اور دوسری طرف لمحات کی گرفت میں کائنات کے افراد ہیں۔ لمحات بیک وقت دو
سطحوں میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ واقع ہوتی
ہے۔
یہ حرکت اس شعور کی تعمیر
کرتی ہے جو شئے کو اس کی منفرد کی ہستی کے دائرے میں موجود رکھتا ہے۔ دوسری سطح کی
حرکت کائنات کی تمام اشیاء میں بیک وقت جاری و ساری ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر
کرتی ہے جو کائنات کی تمام اشیاء کو ایک دائرے میں حاضر رکھتا ہے۔ لمحات کی ایک
سطح میں کائناتی افراد الگ الگ موجود ہیں۔ یعنی افراد کا شعور جدا جدا ہے۔ لمحات
کی دوسری سطح میں کائنات کے تمام افراد کا شعور ایک ہی نقطہ پر مرکوز ہے۔ اس طرح
لمحات کی دو سطحیں یا دو شعور ہیں۔ ایک سطح انفرادی شعور ہے اور دوسری سطح اجتماعی
شعور ہے۔ عام اصطلاح میں مرکزی شعور ہی کو لاشعور کہا جاتا ہے۔
۱۔ پانی کی ذاتی ایک حرکت ہے اور ہمہ وقت موجود ہے۔ پانی میں
حرکت اور لہر کا خاصہ موجود ہے۔
۲۔ جب کنکر تہہ میں پہنچا تو پانی میں لہریں اٹھنا شروع ہو
گئیں بشرطیکہ پانی کی وسعت اتنی ہو کہ وہ باطن کا مظاہرہ کر سکے۔
۳۔ کنکر کے تصادم سے پانی اپنا باطن یعنی حرکت نمایاں کرتا ہے۔
۴۔ جو چیز واقع ہوتی ہے وہ مظاہر قدرت کے باطن میں موجود ہے،
اسی لئے واقع ہوتی ہے۔ البتہ اس کے واقع ہونے کا ایک محل ہے۔
۵۔ کنکر ارادہ کی جگہ ہے یا ارادہ کا مقام رکھتا ہے۔ اور کنکر
کا پانی سے تصادم ‘‘توجہ’’ کا قائم مقام ہے۔ دراصل کنکر ہی ارادہ کا تمثل ہے اور
پانی میں حرکت پیدا ہونا توجہ کا تمثل ہے۔ یعنی جب ارادہ میں تکرار واقع ہوئی تو
توجہ کا عمل شروع ہو گیا۔ ارادہ کی تکرار کو توجہ کہتے ہیں۔ اکثر ارادہ لاشعوری
طور پر تکرار کرتا ہے اور وہ توجہ بالکل لاشعوری ہوتی ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ لازم
ہے۔ نتائج کی دونوں صورتوں میں اہمیت ہے۔ یکساں طور پر دونوں اثر انداز ہوتے ہیں۔
یعنی مظاہر کی دنیا میں دونوں کی حیثیت ایک ہے۔ دونوں کا اثر ایک ہے۔ خواب کی بھی
یہی حالت ہے۔ اور کیفیت بھی یہی معنی رکھتی ہے۔
۶۔ کنکر ہی جو لاشعوری ہے وہ کائناتی ذہن کا ارادہ ہے۔ یہی
اللہ تعالیٰ کا ‘‘امر’’ ہے۔ ‘‘امر’’ میں یعنی کائناتی ذہن میں برابر تکرار ہوتی
رہتی ہے۔ یہ کبھی بغیر تکرار کے نہیں ہوتا۔ یہ کنکر یعنی ‘‘امر’’ کی تکرار ہی
‘‘کتاب المبین’’ ہے۔ ‘‘کتاب المبین’’ ہی کی تکرار سے مظاہر قدرت یا کائنات رونما
ہوئی۔ تکرار ‘‘کتاب المبین’’ ہی میں واقع ہوتی ہے لیکن تکرار کے نتائج ‘‘کتاب
المرقوم’’ کہلاتے ہیں۔ دراصل کائنات ‘‘کتاب المرقوم’’ ہے۔ تکرار کبھی ذہن کی اوپر
سطح پر واقع نہیں ہوتی بلکہ ذہن کی گہرائی میں واقع ہوتی ہے۔ جب کنکر پانی کی
گہرائی میں پہنچتا ہے تو لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ گویا پانی کا باطن مظاہر کی صورت
اختیار کر لیتا ہے۔ یہ مظاہر پانی کے باطن میں موجود ہیں۔ لیکن تکرار واقع نہیں
ہوئی تھی۔ وہ باطن جس میں تکرار واقع نہیں ہوئی صرف مفرد حرکت ہے۔ اسی ہی کو
‘‘غیب’’ کہتے ہیں۔ اگر اس میں تکرار واقع ہو جائے تو مظاہر قدرت بن جائے گی۔ صوفی
کی توجہ اسی میں تکرار پیدا کرتی ہے۔ اور جب صوفی توجہ کرتا ہے تو اس کی توجہ اس
مطلوب کی شکل و صورت اختیار کر لیتی ہے جو صوفی کے ذہن میں ہے۔ پہلے جو شکل و صورت
وہاں موجود تھی وہ سادہ، مفرد، بے رنگ شکل و صورت تھی۔ یہ شکل و صورت وہی ہے جو
کائناتی ذہن کی ہے۔ لیکن جب صوفی کی توجہ اس میں داخل ہو گئی تو وہ شکل و صورت بھی
داخل ہو گئی جو صوفی کا مطلوب ہے۔ اگر عارف کی توجہ شامل نہیں ہو تو پانی کے اندر
جو خواص موجود ہیں ان کا عمل ہوتا رہتا۔ اس سے کسی بھی مخلوق کا کوئی واسطہ یا تعلق
ہوتا مگر خواص کی شکل و صورت اسی شخص سے بے نیاز ہوتی جس سے اس کا تعلق ہوتا۔ پانی
کے خواص ایک شخص کو ڈوبنے کے اور دوسرے کو تیرنے کے اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔
۷۔ ارادہ کی تکرار ارادہ کی قوت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ارادہ
سوا لاکھ بار ہی دہرایا جائے لیکن ارادہ میں اتنی قوت ہونی چاہئے جو سوا لاکھ بار
دہرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ قوت موجود ہے تو ایک حرکت کافی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا
ہے اور زیادہ تر اس زمانے میں ۹۹۹فی ہزار ایسا ہی ہوتا ہے کہ سوا لاکھ بار دہرایا
ہوا ارادہ بھی ایک بار کی قوت سے آگے نہیں بڑھتا۔ دراصل ارادہ دہرایا ہی نہیں جاتا
کیونکہ جن الفاظ کے ذریعے ارادے کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ الفاظ دہرانے
والے انسان کے ذہن میں اپنی کوئی تصویر یعنی معنی کے خدوخال پیدا نہیں کرتے۔
۸۔ ارادہ دراصل کوئی شکل و صورت رکھتا ہے۔ جس مطلب کا ارادہ
ہو، مطلب اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ ارادہ میں مرکوز ہونا ضروری ہے۔ بغیر شکل
وصورت کے کسی ارادہ کو ارادہ نہیں کہتے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔