Topics

حضرت خواجہ حبیب عجمی

حالات زندگی

ولادت……اختلاف بمقام فارس

وفات……۶۵۱ھ بمقام بصرہ

                حضرت خواجہ حبیب عجمی کا اصل نام حبیب اور ابو محمد کنیت تھی۔ آپ ریاضات و کرامات کے لحاظ سے بہت اونچا درجہ رکھتے تھے۔ حضرت خواجہ حسن بصری کے مرید و خلیفہ تھے۔ سفینتہ الاولیاء کے بیان کے مطابق آپ کی وفات ۶۵۱ ھ میں ہوئی مگر بعض تذکروں میں آپ کی وفات ۹ رمضان ۰۲۱ھ کو بنی امیہ کے دسویں خلیفہ ہشام بن عبدالمالک کے زمانہ میں ہوئی۔ بہرحال آپ فارس کے رہنے والے تھے۔ شروع میں بہت دولت مند تھے اور سود کا لین دین کیا کرتے تھے۔ اپنا مال سود پر دیا کرتے تھے اور ہر روز قرضہ داروں کے ہاں تقاضا کرنے جاتے اور جس سے جو لینا ہوتا جب تک مل نہ جاتا اسے نہ چھوڑتے تھے۔ اپنی آمد و رفت کا خرچ بھی قرضہ دار ہی سے وصول کرتے تھے۔

                ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے آپ کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ ایک روز آپ کسی مقروض کے ہاں تقاضا کرنے گئے۔ مقروض گھر پر نہ تھا صرف اس کی بیوی موجود تھی۔ اس نے کہا میرا خاوند گھر پر نہیں اور نہ ہی گھر میں کوئی روپیہ ہے جو ادا کر سکوں، ہاں ایک بکری ذبح کی تھی اس کی گردن موجود ہے۔ آپ چاہیں تو وہی لے جائیں۔ آپ نے کہا وہی دے دو۔ چنانچہ گردن لے کر گھر آئے اور بیوی سے کہا یہ سود میں ملی ہے اسے پکا ؤ۔ بیوی بولی آٹا اور لکڑی بھی ختم ہے۔ کہنے لگے اچھا میں ابھی جا کر یہ دونوں چیزیں بھی سود میں لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر دوسرے قرض داروں کے پاس گئے اور ان سے آٹا اور لکڑی سود میں لے آئے۔ بیوی نے گردن پکائی۔ جب کھانا تیار ہو گیا اور کھانے کے لئے بیٹھے تو باہر سے کسی سوالی نے آواز دی کہ بھوکا ہوں کچھ کھانے کو دیا جائے۔ آپ نے اندر ہی سے اسے جھڑک دیا، سائل چلا گیا۔ جب آپ کی بیوی نے سالن میں چمچہ ڈال کر نکالنا چاہا تو دیکھا کہ وہ خون ہی خون ہے۔ بیوی نے حیران ہو کر شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ اپنی شوخی اور کنجوسی کا نتیجہ دیکھ لو۔ خواجہ حبیب عجمی نے ہنڈیا میں خون دیکھا تو حیران ہو کر رہ گئے۔ دل میں آگ لگ گئی۔ اس وقت اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کی۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ آپ باہر نکلے تا کہ باری باری سب قرض داروں کے پاس جا کر سود معاف کر دیں۔ راستہ میں بچے کھیل رہے تھے انہوں نے خواجہ صاحب کو دیکھ کر چلانا شروع کیا۔ ہٹ جا ؤ حبیب سود خور آ رہا ہے۔ ہم پر اس کی گرد پڑ گئی تو ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے۔

                یہ سن کر آپ کے دل پر زبردست چوٹ لگی اور اپنا ارادہ ترک کر کے سیدھے خواجہ حسن بصری کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے۔ حضرت خواجہ حسن بصری نے انہیں نصیحتیں کیں اور توبہ کرائی۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور اعلان کر دیا کہ جس کے ذمے میرا کچھ نکلتا ہو وہ آئے اور مجھ سے دستاویز لے جائے۔ چنانچہ قرض دار آئے اور آپ سے اپنی اپنی دستاویز لے گئے۔ سب مال و اسباب جو آپ کے پاس جمع تھا راہ خدا میں لٹا دیا۔ اب یہ عالم تھا کہ دن میں خواجہ حسن بصری کی مجلس میں تشریف لے جاتے اور ان سے علم سیکھتے اور معرفت الٰہی کے رموز سے آگہی حاصل کرتے۔ رات کو علیحدگی میں بیٹھ کر عبادت الٰہی کرتے۔               

                ایک دن کا ذکر ہے کہ پھر ان لڑکوں کے پاس سے گزر ہوا تو لڑکوں نے آپس میں کہا خاموش رہو حبیب العابد جا رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ رونے لگے اور کہا اے اللہ یہ سب تیری طرف سے ہے۔ مراۃ الاسرار میں حوالہ تذکرۃ الاولیا مذکور ہے کہ ابتدائے زمانے میں آپ بہت ہی رفع الحال تھے اور سود بھی لیا کرتے تھے۔ جب حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تمام چیزوں سے توبہ کی اور جو کچھ اندوختہ تھا۔ سب راہ خدا میں صرف کر دیا اور دریائے فرات کے کنارے ایک مکان بنا کر عبادت میں مشغول ہوئے۔ دن کو خواجہ حسن بصری سے علم حاصل کرتے اور رات کو عبادت کرتے۔

 

روح پرور واقعات

                آپ کو اس طرح عبادت کرتے ایک مدت گزر گئی تو ایک دن بیوی نے شکایت کی کہ خرچ نہیں ہے۔ ضروریات کیسے پوری کی جائیں۔ آپ نے فرمایا میں کام پر جاتا ہوں۔ مزدوری جو ملے گی لے آ ؤں گا۔ چنانچہ آپ دن بھر گھر سے باہر رہ کر عبادت کرتے۔ شام کو گھر واپس آ جاتے۔ جب بیوی انہیں خالی ہاتھ دیکھتی تو کہتی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ آپ فرماتے میں کام کر رہا ہوں۔ جس کا کام کر رہا ہوں وہ بڑا سخی ہے، کہتا ہے کہ وقت آنے پر خود ہی اجرت دے دیا کروں گا۔ فکر نہ کرو لہٰذا مجھے اس سے مانگتے شرم آتی ہے۔ وہ کہتا ہے ہر دسویں روز میں مزدوری دیا کروں گا چنانچہ بیوی نے دس روز تک صبر کیا۔ دسویں روز بھی شام کو جب خالی ہاتھ واپس آئے تو راستے میں سوچ رہے تھے۔ اب بیوی کو کیا جواب دوں گا۔ بہرحال گھر پہنچے تو دیکھا کہ عمدہ عمدہ کھانے تیار رکھے ہیں۔ بیوی آپ کو دیکھتے ہی بول اٹھیں کہ کس نیک بخت کا کام کر رہے ہو۔ جس نے دس دن کی اجرت اس قسم کی بھیجی اور تین ہزار درہم نقد بھی بھیجے ہیں۔ یہ بھی کہلا بھیجا ہے کہ کام زیادہ محنت سے کرو گے تو اجرت زیادہ دوں گا۔ یہ ماجرا دیکھ کر آپ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ خیال کیا کہ خدائے پاک نے ایک گناہ گار بندے کی دس روز کی عبادت کا یہ صلہ دیا۔ اگر زیادہ حضور قلب سے عبادت کروں تو نہ جانے کیا کچھ دے۔ یہ سوچ کر علائق دنیا سے بالکل الگ ہو گئے اور ایسی ایسی عبادتیں اور ریاضتیں شروع کر دیں کہ اسرار الٰہی بے نقاب ہونے لگے۔ عنایات الٰہی کا نزول شروع ہو گیا اور مستجاب الدعوات کا درجہ مل گیا۔

                ایک دن خواجہ حسن بصری آپ کے مکان میں تشریف لائے۔ خواجہ حبیب چونکہ عجمی تھے اس لئے عربی صحیح طور پر نہ بول سکتے تھے اور نماز میں الحمد کو المد تلفظ کر رہے تھے۔ خواجہ حسن بصری نے فرمایا تمہارے پیچھے نماز پڑھنی درست نہیں اور الگ ہو کر نماز ادا کی۔

                مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ رات کو خواجہ حسن بصری نے خواب دیکھا اور پوچھا اے اللہ تیری رضا کیا ہے۔ جواب ملا اے حسن میری رضا حبیب کے پیچھے نماز پڑھنے میں تھی۔ مگر تم نے نہیں پڑھی۔ جب حبیب عجمی کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو آپ بہت روتے کسی نے کہا کہ تم سمجھتے ہو نہیں روتے کیوں ہو؟ فرمایا۔ میری زبان گو عجمی ہے مگر دل عربی ہے۔

                آپ کے پاس اکثر ضرورت مند لوگ آتے۔ حضرت ان کے لئے دعا فرماتے اور اللہ تعالیٰ کے کرم و احسان سے ان کی مشکلیں آسان ہو جاتیں۔ ایک مرتبہ ایک غریب عورت حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا کہ میرا بیٹا عرصہ سے لاپتہ ہے۔ آپ میری مدد فرمائیں۔ اور خدا سے دعا فرمائیں کہ میرا گم شدہ بیٹا مجھے مل جائے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا۔ تمہارے پاس کچھ چاندی ہے۔ عورت نے عرض کیا کہ میرے پاس صرف دو درہم ہیں۔ حضرت نے دو درہم لے کر خیرات کر دیئے اور فرمایا جا ؤ تمہارا بیٹا گھر پہنچ گیا ہے۔ عورت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچی تو دیکھا کہ لڑکا گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ اپنے بیٹے سے لپٹ گئی اور اس سے حالات پوچھنے لگی۔ لڑکے نے بتلایا کہ کرمان میں تھا اور تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ایک ضرورت سے بازار آیا کہ یکایک آندھی آئی اور ہوا کے اس طوفان میں میرے پا ؤں زمین سے اکھڑ گئے۔ اس وقت میں نے ایک پروقار آواز سنی، کہنے والا کہہ رہا تھا کہ اے ہوا اس لڑکے کو اٹھا کر اس کے گھر لے جا۔ میں ہوا کے بازو ؤں پر تیر رہا تھا جب آندھی کا زور کم ہوا اور میرے پا ؤں زمین پر لگے تو میں نے دیکھا کہ اپنے مکان کے قریب کھڑا ہوں۔ یہ دیکھ کر میری مسرت و حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں فوراً بھاگ کر گھر میں آ گیا۔ اس عورت نے جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ پیغامِ مسرت سنایا تو حضرت نے ارشاد فرمایا جو کچھ ہوتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ خدا نے تم پر احسان کیا ہے۔ اس کا بدلہ یہ ہے کہ خدا کے سوا کبھی کسی اور کا تصور بھی اپنے دل میں نہ لانا اور ہمیشہ اس کی اطاعت و فرماں برداری اور رضا جوئی کی کوشش کرنا۔

                آپ کے ہاں ایک کنیز تیس سال تک بطور خدمت گار رہی لیکن آپ نے اس کا منہ تک نہیں دیکھا۔ چنانچہ آپ نے ایک روز اپنی لونڈی کو فرمایا کہ اے پردہ نشین ذرہ میری لونڈی کو آواز دینا۔ کنیز نے عرض کیا حضرت میں ہی آپ کی کنیز ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اس تیس سال کی مدت میں مجھ کو یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے سوا کسی اور طرف دھیان دوں۔ اس وجہ سے تیری طرف متوجہ نہ ہو سکا۔

                آپ کا گھر بصرہ شہر کے عین چوراہے پر تھا۔ آپ کے پاس صرف ایک ہی پوستین تھی جو پہنا کرتے تھے۔ ایک روز پوستین اتار کر چوراہے میں ایک جگہ رکھ دی اور کچھ فاصلے پر وضو کرنے کے لئے چلے گئے۔ حضرت حسن بصری کا گزر وہاں سے ہوا تو پوستین دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ حبیب کی ہے۔ چنانچہ کھڑے ہو کر نگرانی کرنے لگے۔ جب حضرت حبیب واپس آئے تو حضرت حسن بصری نے ان سے پوچھا پوستین یہاں کس کے بھروسے پر چھوڑ گئے تھے۔ جواب دیا جس نے آپ کو اس کی نگرانی کے لئے مقرر کیا اس کے بھروسہ پر چھوڑ گیا تھا۔

                ایک مرتبہ خواجہ حسن بصری آپ کے ہاں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ دروازے پر ایک سوالی آ گیا۔ حضرت حبیب نے حسن کے سامنے سے سارا کھانا اٹھا کر سوالی کو دے دیا۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا، آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ مہمان کے آداب کا خیال نہیں کرتے۔ دینا ہی تھا تو کھانے سے کچھ اٹھا کر دے دیتے اور کچھ رہنے دیتے۔ آپ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک شخص قسم قسم کے کھانے اور پانچ سو درہم لے کر آ گیا۔ آپ نے درہم اسی وقت محتاجوں میں تقسیم کر دیئے اور کھانا حضرت حسن کے سامنے رکھ دیا اور دونوں نے مل کر کھایا۔ پھر خواجہ حسن سے مخاطب ہو کر فرمایا علم کے ساتھ یقین بھی ضروری ہے، آپ کو یقین بھی ہوتا تو بہتر تھا۔

                ایک مرتبہ ایک قاتل کو پھانسی دی گئی۔ رات کو لوگوں نے اس شخص کو خواب میں دیکھا کہ پرتکلف لباس پہنے بہشت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے۔ سوال کیا گیا تُو تو قاتل تھا پھر یہاں کیسے پہنچا۔ اس نے جواب دیا۔ جب مجھے پھانسی دی جا رہی تھی۔ حضرت عجمی کا ادھر سے گزر ہوا تو انہوں نے میری طرف توجہ کی اور دعا مانگی اور یہ دعا کا اثر ہے۔

روحانی توجیہہ

                خدا کے سوا کسی اور کا تصور بھی اپنے دل میں نہ لانا۔

                اس قول کی تشریح مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی اس طرح کرتے ہیں۔

                جب ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے تفکر میں ایک ذات ابھرتی ہے۔ ایسی ذات جو صفات رکھتی ہے۔ یہاں دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ ذات اور دوسرا رخ اس ذات کی صفات میں ظاہر ہے کہ جس ذات کی صفات کا تذکرہ ہے، وہ صفات سے ماوراء ہے۔ صفات سے کسی چیز کا ادراک تو کیا جا سکتا ہے لیکن ذات کی حقیقت اور کنہ تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ عام زندگی میں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کا نام زید ہے اور زید کی صفات یہ ہیں کہ وہ بہت نرم دل ہے۔ بہت سخی ہے، بہت عامل اور زاہد ہے۔ دوسروں پر رحم کرنے والا ہے۔ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرا شخص بکر ہے اس کے اندر سختی ہے۔ شقاوت ہے اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی عادت ہے۔ یہ لوگوں پر مہربان ہونے کی بجائے پریشان کرتا ہے۔ لوگوں کے دکھ درد اور مصائب میں اضافے کا باعث بنتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

                زید کی صفات زیر بحث آئیں یا بکر کی عادات و خصائل سامنے آئیں ان سے زید اور بکر کے تشخص کی نشاندہی تو ہوتی ہے لیکن فی الواقع زید کیا ہے اور بکر کیا ہے۔ اس کے بارے میں ہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے، ہو سکتا ہے آج کا وہ زید جو نرم خو اور نرم دل ہے کل سخت گیر ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آج کا بکر اپنی عادات و خصائل کے اعتبار سے جو کچھ ہے کل اس کے اندر تبدیلی واقع ہو جائے اور وہ لوگوں کو پریشان کرنے کی بجائے لوگوں کے دکھ درد کو دور کرنے میں مثالی کردار ادا کرے۔ عادات و خصائل اور صفات کو سامنے رکھ کر کسی فرد کی شخصیت کا ایک ہیولہ تو قائم کیا جا سکتا ہے لیکن فی الواقع وہ اپنی صفات کے اعتبار سے کیا ہے اس کے بارے میں یقینی بات نہیں کہی جا سکتی۔ اس لئے صفات میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے لیکن ذات میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ آج زید اگر نرم دل ہے اور آنے والے کل میں وہ سخت گیر ہو جائے تو یہ دراصل اس کی صفات میں تبدیلی ہے لیکن زید جب نرم دل تھا تب بھی زید تھا اور جب وہ سخت گیر ہوا تب بھی زید تھا۔

                قانون یہ بنا کہ پہچاننے کی طرزیں دو ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ کسی شئے کو اس کی صفات میں پہچانا جاتا ہے اور کسی شئے کو اس کی ذات سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ ہمارے سامنے لوہے کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوہے کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل ہمارے سامنے لوہے کی صفات سے مرکب بہت سی اشیاء آ جاتی ہیں مثلاً لوہے سے چھری بھی بنتی ہے اور لوہے سے پٹڑیاں بھی بنتی ہیں۔ جس پر ریلیں چلتی ہیں۔ لوہے کی صفات کا ایک عکس چھری بھی اپنے اوصاف پر قائم ہے۔ اس چھری سے پھل کی قاشیں بھی بنتی ہیں۔ چھری دوسرے مفید اور تعمیری کاموں میں بھی اپنا وصف پورا کرتی ہے اور اس چھری سے کسی کا پیٹ بھی پھاڑا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے پانی بھی ہے، پانی کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ پیاس بجھاتا ہے اور پانی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے بجلی جیسی عظیم تخلیق وجود میں آئی۔ پانی سے بجلی کا حاصل کرنا دراصل پانی کا ایک وصف ہے لیکن ابھی ہمارے اوپر یہ بات منکشف نہیں ہوئی کہ فی الواقع پانی کیا چیز ہے؟ سائنسدان جن اجزاء کو پانی کا مرکب تسلیم کرتے ہیں یا جن اجزاء سے پانی بنتا ہے ان اجزاء کو اکٹھا کرنے کے بعد پانی بن جاتا ہے۔ لیکن پانی کے اندر وہ وصف واقع نہیں ہوتا جو فی الواقع قدرتی پانی کا وصف ہے۔

                نوع انسانی کی ضروریات میں سب سے اہم ضرورت ہوا اور پانی ہے۔ اگر پانی اور ہوا کو مصنوعی طریقے پر حل کیا جائے اور مصنوعی طریقے پر بنائی ہوئی ہوا اور پانی سے نوع انسانی کی پرورش کی جائے تو یہ بات ناممکن ہے۔ بات یہی ہے کہ کسی چیز کا وصف تلاش کر لینا تو انسانی علوم اور انسانی عقل و شعور میں آ سکتا ہے لیکن پانی کا بننا معلوم کر لینا انسانی شعور اور لاشعور کی سکت سے باہر ہے۔

                پانی فی الواقع کیا ہے کن حقیقی اجزائے ترکیبی سے مرکب ہے۔ اس بات کا انکشاف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نائب اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روحانی وارث ہیں۔ ہم جب کوئی ایجاد کرتے ہیں تو معمولی ایجاد پر اربوں کھربوں روپیہ خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن اس صنعت یا ایجاد سے جتنا فائدہ پہنچنا چاہئے۔ نوع انسانی کو اس سے فائدے کی بجائے نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ اگر دیکھا جائے یہی اربوں کھربوں ڈالر نوع انسانی کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جائیں تو اس سے نوع انسانی آرام و سکون کی زندگی گزار سکتی ہے۔

                موجودہ دور میں سائنس کی محیر العقول نئی نئی ایجادات نے عجیب فسوں کاری کی ہے۔ کہنے میں یہی آتا ہے کہ نوع انسانی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ نوع انسانی نے علوم میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ نوع انسانی نے ٹائم اسپیس کی حد بندیوں کو جو صدیوں سے رائج تھیں توڑ دیا ہے۔ یہ سب صورتیں جو ایجادات کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہیں ان اشیاء سے تعلق رکھتی ہیں جو اشیاء اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔ ان کا فائدہ اس لئے نہیں پہنچا کہ انسان کا علم صفات پر محدود ہے اور صفات کے بعد شئے کی اہمیت اور شئے کی کنہ کیا ہے اس رف ہم نے کوئی توجہ نہیں دی۔ کوئی روحانی انسان محض صفات کی بھول بھلیوں میں کبھی گرفتار نہیں ہوتا۔ وہ صفات کو روشنی بناتا ہے یا صفات کو میڈیم بناتا ہے۔ ہمیشہ اس ذات کا متلاشی رہتا ہے جس ذات سے مطلق اس صفات میں طاقت کے ذخیرے موجود ہیں۔ تصوف میں یہ بات بہت تنبیہہ کے ساتھ روحانی شاگردوں کو بتائی جاتی ہے کہ صفات دراصل کسی ذات کا عکس ہوتی ہیں۔ عکس عارضی ہوتا ہے اور معدوم ہو جانے والا ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں جہاں جہاں صفات کا تذکرہ آیا ہے وہاں وہاں صفات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے تا کہ ان نشانیوں میں غور و فکر کر کے اور ان کے اندر گہرائی میں اتر کر اسی ذات کا کھوج لگایا جائے جس ذات کی یہ صفات ہیں۔

                روحانیت میں صفات کو تلاش کرنے کی بہت ساری راہیں مختلف اوقات میں متعین کی گئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان راہوں کو مذہبی سپورٹ حاصل ہے لیکن کسی مذہبی کتاب میں یہ بات نہیں کی گئی کہ مقصود منتہا صفات کا ہی حصول ہے۔ ان متعین راہوں میں سب سے پہلی اور بنیادی بات ارتکاز توجہ ہے یعنی جو علم آدمی حاصل کرنا چاہتا ہے اس علم کے حصول کیلئے دوسرے علوم سے قطع نظر ایک نقطہ متعین کر کے اس نقطے میں تفکر کیا جائے اور اس نقطے کے اندر ذہن کی ساری صلاحیتیں مرکوز کر دی جائیں۔ ارتکاز توجہ کے لئے بہت طریقے ایجاد ہوئے۔ ان طریقوں میں یوگا سانس کی مشقیں یا ہپناٹزم، مسمریزم، ٹیلی پیتھی لمس، مراقبہ وغیرہ شامل ہیں۔ ہم جب ان مشقوں کی بنیادی ضرورت پر غور کرتے ہیں تو صرف ایک بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آدمی صفات سے ہٹ کر ذہن کے اندر ایسی تصویر کشی کرنا چاہتا یا اپنے اندر اس ادراک کو بیدار کرنا چاہتا ہے جو ادراک صفات سے ہٹ کر ذات کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔

اقوال و ارشادات

۱۔            مرید کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے اسے کوئی لگا ؤ نہ ہو اور اس کے جتنے دوست آشنا دنیا کی طرف مائل ہوں ان سب کو ترک کر دے۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دے یہی نہیں بلکہ ان کی بیمار پرسی کے لئے بھی نہ جائے۔

۲۔           خدا کے سوا کبھی کسی اور کا تصور بھی اپنے دل میں نہ لا ؤ اور ہمیشہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی کوشش کرو۔

۳۔           ایک مرتبہ ایک درویش نے آپ سے سوال کیا کہ آپ تو عجمی ہیں اس بڑے درجہ کو کیونکر پہنچ گئے۔ غیب سے آواز آئی ہاں عجمی ہے مگر حبیب ہے۔

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔