Topics

حضرت بایزید بسطامیؒ

حالات زندگی

ولادت……۸۲۱ھ مالوف بسطام

وفات……۱۶۲ھ بمقام بسطام

 

                سلطان العارفین لقب تھا۔ آپ کا اسم گرامی طیفور عیسیٰ ہے۔ آپ کے جد امجد آتش پرست تھے اور آخر عمر میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپ تجلیات الٰہیہ کے محرم اور اسرار حق کے مظہر تھے۔ ہمیشہ قرب الٰہی کے مقام پر رہا کرتے تھے۔ محبت الٰہی کی آگ میں سوختہ اور بدن کو مشاہدہ میں مشغول رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ایک سو تیرہ مشائخ سے کسب فیض حاصل کیا۔ آپ سے پہلے جتنے بھی اولیاء اللہ گزرے ہیں کسی کو بھی طریقت میں اس قدر ملکہ نہیں تھا جتنا آپ کو تھا۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کی ذات بابرکات ہم میں ایسی ہے جیسے جبرائیل علیہ السلام فرشتوں میں نیز تمام سالکان راہ توحید کی انتہا آپ کی ابتداء ہے۔ بعض لوگوں نے آپ سے پوچھا۔ انسان کو راہ طریقت میں کیا چیز بہتر ہے؟ فرمایا مادرزاد دوست۔

                پوچھا۔ اگر یہ حاصل نہ ہو؟

                فرمایا۔ چشم بینا۔

                پوچھا۔ اگر یہ بھی حاصل نہ ہو؟

                فرمایا۔ پھر سننے والے کان۔

                عرض کیا۔ اگر یہ بھی نہ ہوں؟

                فرمایا۔ مرگ مفاجات۔

                روایت ہے کہ ایک دن آپ امام جعفر صادقؒ کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ حضرت امام نے فرمایا ‘‘بایزید کتاب طاق سے اٹھا کر دے دو۔’’ آپ نے فرمایا۔ ‘‘کون سے طاق سے؟’’ حضرت امام نے فرمایا۔ عرصہ سے تم یہاں رہتے ہو اور ابھی تک تم کو طاق کا پتہ نہیں۔ آپ نے عرض کیا۔ مجھے اس سے کیا کام کہ آپ کی موجودگی میں سر اٹھا ؤں۔ حضرت امام ن ے فرمایا۔ اگر ایسا معاملہ ہے تو بسطام واپس جا ؤ تمہارا کام ختم ہو گیا ہے۔

                روایت ہے کہ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے عرض کی کہ فلاں جگہ پر ایک بزرگ تشریف فرما ہیں۔ آپ زیارت کو تشریف لے گئے۔ اتفاقاً اس نے قبلہ شریف کی طرف منہ کر کے تھوکا۔ یہ حال دیکھ کر آپ فوراً واپس تشریف لے آئے اور فرمایا اگر یہ شخص ذرہ بھر بھی طریقت جانتا ہوتا تو شریعت کے خلاف عمل نہ کرتا۔

                آپ فرماتے ہیں جس کام کو میں سب کاموں سے موخر جانتا تھا وہ مقدم کام تھا یعنی والدہ کی رضا مندی۔ آپ فرماتے ہیں جس چیز کو میں مجاہدات و ریاضت شاقہ میں تلاش کرتا پھرتا تھا وہ میں نے گھر میں آسانی سے حاصل کر لی یعنی ایک رات والدہ نے پانی طلب کیا۔ میں کوزہ میں پانی لینے گیا مگر نہ ملا پھر صراحی کو دیکھا مگر وہاں بھی نہ تھا چنانچہ نہر پر جا کر پانی لایا مگر میری واپسی تک والدہ سو گئی تھیں۔ میں اس طرح کوزہ لئے کھڑا رہا۔ سخت سردی کے باعث کوزہ میں پانی جم گیا۔ جب والدہ بیدار ہوئیں تو انہوں نے مجھ کو یوں کھڑے دیکھ کر سبب دریافت کیا۔ میں نے عرض کیا کہ شاید آپ بیدار ہوں اور پانی طلب کریں لیکن میں حاضر نہ ہوں اس ڈر کی وجہ سے کھڑا رہا۔ یہ سن کر والدہ نے پانی پیا اور میرے حق میں دعا کی۔

 

روح پرور واقعات

                آپ سنت نبوی کے اس قدر دلدادہ تھے کہ آپ نے تمام عمر خربوزہ نہیں کھایا۔ لوگوں نے آپ سے ایک مرتبہ پوچھا کہ خربوزہ کیوں نہیں کھاتے۔ فرمایا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے خربوزہ تناول فرمایا ہے۔ تو پھر اس چیز کو کیونکر کھا سکتا ہوں جس کے متعلق مجھے علم نہیں کہ میرے محبوب نے اسے کھایا ہے یا نہیں۔

                ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا۔ ایک رات ساتھ والے مکان میں ایک بچہ مسلسل روتا رہا۔ آپ نے صبح اس یہودی کے دروازے پر کھڑے ہو کر دستک دی۔ اندر سے ایک عورت کی آواز آئی کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔ حضرت بایزید بسطامی نے اپنا تعارف کرایا اور خیریت دریافت کی۔ یہودی کی عورت نے بتلایا کہ میرا شوہر کئی ماہ سے سفر پر گیا ہوا ہے اور اس عرصہ میں میرے ہاں ولادت ہوئی ہے۔ رات بھر وہی بچہ روتا رہتا ہے۔ آپ نے اس کا سبب پوچھا تو عورت نے بتلایا کہ گھر میں اندھیرا رہتا ہے اور میں پردہ نشین عورت ہوں، کوئی تیل لانے والا نہیں ہے اور نہ ہی پیسے ہیں۔ میرے شوہر جاتے وقت گھر میں اناج رکھ گئے تھے اس پر گذر کر رہی ہوں۔ حضرت فوراً اپنے گھر گئے اور ضرورت کی ہر چیز اس عورت کو مہیا کی اور پھر شام ہونے سے پہلے وہ اللہ کا بندہ جسے دنیا سلطان العارفین کے نام سے پکارتی ہے، ہاتھ میں تیل کی کپی لے کر یہودی کے دروازے پر کھڑے رہتے کہ مکان تاریکی میں نہ ڈوب جائے۔ اور اندھیرے میں اس کا بچہ پھر نہ رونا شروع کر دے۔ کچھ ماہ بعد یہودی سفر سے واپس آ گیا اور اس کی بیوی نے تمام حالات کا ذکر اس سے کیا تو وہ بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرنے کے لئے حضرت بایزید بسطامی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ بھائی شکریہ کی ضرورت نہیں۔ یہ میرا فرض تھا جس کو میں نے ادا کیا ہے کیونکہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو سخت گناہگار ہوتا کیونکہ ہمارے دین میں پڑوسی کے بڑے حقوق ہیں۔ یہودی نے حضرت سے عرض کہ کہ حضور مجھے بھی اسی دین کی چادر رحمت میں چھپا لو اور اسی آقاﷺ دو جہاں کا کلمہ پڑھا دو۔ جس کی غلامی کی وجہ سے آپ اس بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ حضرت نے اس یہودی کو اسی وقت مسلمان کر لیا۔

                حضرت کے گھر سے مسجد تک چالیس قدم کا فاصلہ تھا۔ حضرت نے کبھی مسجد کی طرف رخ کر کے نہیں تھوکا تھا۔ جب مسجد میں آتے تو دروازے پر کھڑے ہو کر ایک لمحہ رو لیتے۔ لوگ پوچھتے کہ حضرت یہ کس لئے فرماتے ہیں۔ بھئی گناہوں سے آلودہ ہوں، ڈرتا ہوں کہیں میری وجہ سے مسجد بھی آلودہ نہ ہو جائے۔

                ایک دفعہ کسی گلی میں جا رہے تھے کہ سامنے سے ایک کتے کو آتے ہوئے دیکھا۔ حضرت نے دامن سمیٹا۔ کتے نے کہا۔ اے بایزید! اگر میں خشک ہوں تو میرے پاس سے گزرنے میں کچھ حرج نہیں اور اگر تر ہوں تو مجھ میں اور آپ میں سات مرتبہ دھونے سے صلح ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ نے اپنا دامن رعونت کی وجہ سے سمیٹا ہے تو خواہ سات دریا ؤں میں دھوئیں گے پاک نہ ہو گا۔ حضرت تھوڑی دیر خاموش رہے اور بولے۔ اے کتے! تیرا ظاہر پاک ہے اور میرا باطن۔ آ ؤ آج ہم تم ایک ساتھ رہیں اور دیکھیں کل کون پاک ہو کر نکلتا ہے۔

                ایک مرتبہ حضرت سے لوگوں نے پوچھا کہ بندہ کمال کو کب پہنچتا ہے۔ فرمایا اس وقت جبکہ اپنے عیبوں کو پہچان لے اور خلقت کی تہمت کو برداشت کر لے۔ دریافت کیا اور درویشی کیا ہے۔ فرمایا۔ یہ کہ انسان گوشہ نشیں ہو جائے اور مجاہدہ کرے۔ فرعون بھوکا ہوتا تو کبھی خدائی کا دعویٰ نہ کرتا۔

                ایک بار آپ نے فرمایا کہ میں شروع سے اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اگر کبھی نفس نے شرارت کی تو میں نے فوراً اس کی اصلاح کر دی۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ رات کے آخری حصے میں آنکھ کھلی میں نے چاہا کہ تہجد کی نماز پڑھوں، نفس نے کاہلی کی کچھ دیر کے بعد پیاس محسوس ہوئی کوزے میں ٹھنڈا پانی رکھا ہوا تھا۔ اٹھ کر خوب سیر ہو کر پیا۔ ایک آواز سنائی دی۔ ہماری یاد میں سستی اور کاہلی اور اپنے کام میں مستعدی۔ میں نے عہد کیا کہ سال بھر تک ٹھنڈا پانی نہیں پیوں گا۔ اللہ کے فضل و کرم سے سال بھر تک ایسا ہی ہوا۔ میں نفس کی خواہش پر غالب رہا۔ گرمی کے شدید موسم میں جب پیاس سے جاں بلب ہونے کے قریب ہوتا تو ذرا سا گرم پانی لے کر حلق میں ڈال دیتا۔ اس اصلاح نفس کا نتیجہ ظاہر ہوا کہ ادائے فرض میں نفس نے کاہلی کا ثبوت نہیں دیا۔ اس کے بعد حضرت شیخ کہتے ہیں کہ جب انسان ریاضت اور مجاہدے کے بعد اصلاح نفس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور انعام و اکرام الٰہی کی بارش مسلسل ہوتی ہے۔ انسان اپنے نفس پر قابو پا کر اس مرتبہ پر پہنچ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں عابدوں کیلئے مقرر فرمایا ہے۔

                نقل ہے کہ ایک دفعہ آپ کو عبادت میں کچھ لطف نہ آیا۔ آپ نے خادم سے فرمایا۔ دیکھ گھر میں کیا چیز ہے؟

                اس نے دیکھا تو ایک انگور کا خوشہ نظر آیا۔ آپ نے فرمایا یہ کسی کو دے دے کیونکہ ہمارا گھر بنیئے کی دکان نہیں۔ اس کے بعد آپ کو عبادت میں لطف آنے لگا۔

                ایک بار آپ دریائے دجلہ پر گئے۔ اس میں طوفان آنے لگے۔ آپ نے فرمایا۔ دام دے کر تجھ سے پار ہو سکتا ہوں۔ مگر اپنی تیس سالہ ریاضت اس کرامت کے لئے برباد نہیں کروں گا کہ بے کشتی کے دریا سے پار ہو جا ؤں۔

                ایک امام کے پیچھے آپ نے نماز پڑھی، بعد نماز کے امام نے آپ سے پوچھا۔ آپ نہ تو کوئی کام کرتے ہیں نہ کسی سے کچھ لیتے ہیں تو پھر کھاتے کہاں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ پہلے مجھے نماز کی قضا ادا کر لینے دو۔ ایسے شخص کی اقتداء میں نماز جائز نہیں جو روزی دینے والے کو نہیں جانتا۔

                آپ فرماتے ہیں جب پہلی مرتبہ میں حج کو گیا تو خانہ کعبہ دیکھا۔ دوسری بار گیا تو صاحب خانہ کو دیکھا۔ تیسری بار جب گیا تو خانہ کعبہ نظر آیا اور نہ صاحب خانہ مطلب یہ کہ ذات حق میں اس درجہ گم ہو گئے تھے کہ سوائے حق کے اور کچھ دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔

                ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شخص نے آپ کے دولت خانہ پر جا کر آپ کو آواز دی۔ آپ نے پوچھا۔ بھائی کس کو بلاتے ہو؟ اس نے جواب دیا۔ بایزید کو۔

                فرمایا۔ تیس سال ہونے کو آئے ہیں خود بایزید کی تلاش میں ہوں مگر اس کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ یہ بات کسی نے ذوالنون مصری سے بیان کی۔ انہوں نے فرمایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ میرے بھائی بایزید کو بخشے۔ ایک جماعت ایسی ہے جو حق تعالیٰ کی ذات میں گم ہو گئی ہے اور وہ بھی اسی میں سے ایک ہیں۔

                ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک آتش پرست سے لوگوں نے کہا کہ تو مسلمان ہو جا۔ اس نے جواب دیا۔ اگر مسلمانی یہی ہے جو بایزید کی ہے تو مجھ میں مسلمان ہونے کی طاقت نہیں۔ اگر مسلمانی وہ ہے جو تم لوگوں کی ہے تو افسوس میں اس کا یقین نہیں کر سکتا۔

                حضرت شیخ احمد خضرویہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ سب لوگ مجھ سے کچھ نہ کچھ طلب کرتے ہیں لیکن بایزید مجھ سے مجھ ہی کو طلب کرتا ہے۔

اقوال و ارشادات

۱۔            آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک ذرہ بہشت کے ہزار ہا محلات سے بدرجہا بہتر ہے۔

۲۔           کوئی گناہ تم کو اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکتا جس قدر کہ ایک مسلم بھائی کو بے عزت کرنا۔

۳۔           دنیا اہل دنیا کے لئے غرور آخرت اہل آخرت کے لئے سرور اور اللہ تعالیٰ کی دوستی اہل معرفت کے لئے سراسرنور ہے۔

۴۔           جس کسی کو اللہ تعالیٰ اپنا دوست بناتا ہے اس کو اپنی تین خصلتیں عطا کر دیتا ہے۔ دریا جیسی سخاوت، زمین جیسی عاجزی اور آفتاب کی طرح شفقت۔

۵۔           دوزخ اس شخص کے لئے عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا اور خدا شناس لوگ دوزخ کے لئے عذاب ہیں۔

۶۔           عارف وصال الٰہی کے سوا اور کسی بات سے خوش نہیں ہوتا۔

۷۔                           آپ فرماتے ہیں کہ یا تو انسان اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرے جیسا کہ وہ ہے اور یا ایسے بن جا ؤ جیسا اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہو۔

۸۔           اللہ تعالیٰ کی محبت فرض اور دنیا کا ترک کرنا سنت ہے۔

۹۔            کسی بداخلاقی سے واسطہ پڑے تو اس کی بدخلقی کو اپنی خوش خلقی میں تبدیل کر لیا کریں۔

۰۱۔                         اگر کوئی احسان کرے تو اول خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور پھر محسن کا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے اس کے دل کو مہربان کیا ہے۔

۱۱۔          اگر کوئی مصیبت پیش آئے تو فوراً اپنی عاجزی کا اقرار کرنا۔

۲۱۔                         بندہ اپنے کمال کو اس وقت پہنچتا ہے جب وہ اپنے عیبوں کو پہچان لے اور مخلوقات سے کسی قسم کی طمع نہ رکھے۔

۳۱۔         بندہ حق تک پہنچنے کی سبیل کیا کرے اس کو گونگے بہرے اور اندھے بن جانا چاہئے۔

۴۱۔                         سچا عابد اور سچا عامل وہ شخص ہے جو کوشش کی تلوار سے اپنی تمام مرادوں کو قتل کر دے اور تمام خواہشوں اور تمنا ؤں کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں تباہ کر دے اور خداوند کریم کی رضا پر راضی رہے اور محض اس بات کی خواہش کرے جس کا حق تعالیٰ شاہد ہو۔

۵۱۔         بندہ اپنے عیبوں کو پہچانے کسی سے نفرت نہ کرے اور مخلوقات سے کسی قسم کی طمع نہ کرے۔

 

روحانی توجیہہ

                بندہ اپنے عیبوں کو پہچانے، کسی سے نفرت نہ کرے اور مخلوقات سے کسی قسم کی طمع نہ کرے۔

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

                اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ صابر و شاکر اور مستغنی نہیں ہیں وہ اللہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ اللہ سے دوری سکون و عافیت اور اطمینان قلب سے محرومی ہے۔ یہ محرومی صبر و استغناء کی لذت سے نا آشنا کر دیتی ہے۔ صبر و استغناء وہ تلوار ہے جس سے ہم مسائل و مشکلات اور عدم تحفظ کی زنجیریں کاٹ کر پھینک سکتے ہیں۔ جب کسی فرد کو صبر و استغناء کی دولت مل جاتی ہے تو اس پر سے مصائب و مشکلات کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور جب من حیث القوم صبر و استغناء کسی قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو معاشرہ سدھر جاتا ہے۔ قومیں حقیقی فلاح و بہبود کے راستوں پر گامزن ہو جاتی ہیں۔

                یاد رکھئے!

                سکون دل اور خوشی کوئی خارجی شئے نہیں ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے۔ جب اس اندرونی کیفیت سے ہم وقوف حاصل کر لیتے ہیں تو ہمارے اوپر اطمینان و سکون کی بارش برسنے لگتی ہے۔ بندہ اس ہمہ گیر طرز فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں، پریشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رستگاری حاصل کر کے اس حقیقی مسرت و شادمانی سے واقف ہو جاتا ہے جو اس طرز فکر کے حامل بندوں کا حق اور ورثہ ہے۔

                آسمانی صحائف اور تمام الہامی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات محبت کے ساتھ پیدا کی ہے۔ تخلیق کائنات کے فارمولوں پر تفکر کیا جائے تو زندگی کا ہر شعبہ محبت اور خلوص کا پیکر نظر آتا ہے۔ انسان جس کے لئے یہ ساری کائنات بنائی گئی اس کی ساری زندگی ازل تا ابد دو رخ پر قائم ہے۔ ایک رخ وہ ہے جو انسان کو خالق کائنات سے قریب کرتا ہے اور دوسرا رخ وہ ہے جو بندہ کو اپنے خالق سے دور کر دیتا ہے۔

                حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ میں پہچانا جا ؤں۔ یہ بات محلِ نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا یعنی اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا واحد ذریعہ محبت ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والا جذبہ محبت کے خلاف نفرت ہے۔

                قرآن پاک کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی نوع انسانی کے لئے مشعل راہ ہے۔ انبیاء کرام کا مشن یہ رہا ہے کہ اللہ کی مخلوق کی ذہنی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان کے اندر آپس میں بھائی چارہ ہو ایثار ہو، خلوص ہو اور وہ ایک دوسرے سے محبت کریں۔

                جس معاشرے میں محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ معاشرہ ہمیشہ پر سکون رہتا ہے اور جس معاشرے میں بیگانگی اور نفرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اس معاشرے کے افراد ذہنی خلفشار اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔

                محبت سراپا اخلاص ہے۔ نفرت مجسم غیظ و غضب اور انتقام کے خدوخال پر مشتمل ہے۔ غصہ بھی نفرت کی ایک شکل ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے جو لوگ غصہ کو کھاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے احسان کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ نفرت کا ایک پہلو تعصب بھی ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے جو شخص تعصب پر جیا اور مرا وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی تعصب کرنے والا بندہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت سے محروم رہتا ہے۔

                محبت چونکہ سکون اور اطمینانِ قلب کا ایک ذریعہ ہے اس لئے کوئی انسان جس کے اندر محبت کی لطیف لہریں دور کرتی ہیں وہ مصائب و مشکلات اور پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے چہرے پر ایک خاص کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس نفرت کی کثیف شدید اور گرم لہریں انسانی چہرہ کو جھلس دیتی ہیں بلکہ اس کے دماغ کو اتنا بوجھل پریشان اور تاریک کر دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ زندگی میں کام آنے والی لہریں مسموم اور زہریلی ہو جاتی ہیں۔ اس زہر سے انسان طرح طرح کے مسائل اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

                نفرت سے پیدا ہونے والے امراض کی اگر تفصیل بیان کی جائے تو وہ بہت ہی بھیانک ہے۔ نفرت سے پیدا ہونے والی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ انسان اپنے خالق سے دور ہو جاتا ہے اور یہ دوری اسے اشرف المخلوقات کے دائرے سے نکال کر حیوانیت اور درندگی کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ نفرت انسانی چہرہ کو مسخ کر دیتی ہے اور اس جذبہ شیطنت سے آدمی کے اندر جو بیماریاں جنم لیتی ہیں وہ سرطان، بھگندر اور فسچولہ ہیں اور ایسے لاعلاج متعدی امراض ہیں جن میں گرفتار ہو کر آدمی سسک سسک کر مر جاتا ہے۔

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔