Topics
ولادت……بمقام ناتونہ(ضلع سہارن پور) ۳۳۲۱ھ
وفات……بمقام مکہ معظمہ ۳۱ جمادی الثانی ۷۱۳۱ھ
آپ کا اسم مبارک والد
ماجد نے امداد حسین اور تاریخی نام ظفر احمد رکھا اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق
محدث دہلوی نواسہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی قدس سرہما نے بہ لقب
امداد اللہ لقب فرمایا۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت حافظ محمد امین تھا اور
حضرت صاحب کے دو برادر کلاں ویک برادر و ہمشیرہ خورد بھی تھیں۔ بڑے بھائی ذوالفقار
علی منجھلے فدا حسین نام تھا اور تیسرے خود حضرت اور چھوٹے بھائی بہادر علی و
ہمشیرہ بی بی وزیر النساء تھیں۔ ابھی زمانہ سن حضرت کا صرف سات سال کا تھا کہ حضور
کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی حسنین بنت حضرت شیخ علی محمد صدیقی حسینی نانوتوی نے
انتقال فرمایا۔ وقت وفات انہوں نے حضرت کے لئے ان الفاظ میں وصیت فرمائی کہ بعد
میری وفات کے میرے اس تیسرے بچہ کو کسی وقت اور کسی وجہ سے کبھی کوئی شخص ہاتھ نہ
لگاوے۔ چنانچہ ان کی اس وصیت کی تعمیل میں یہاں تک مبالغہ کیا گیا کہ کسی کو آپ کی
تعلیم کی طرف کچھ توجہ و التفات نہ ہوا۔ لیکن چونکہ تائید ربانی ابتدائے خلقت سے
مربی حضرت تھی۔ اس زمانہ صغر سنی میں بھی باوجود عدم توجہی و مطلق العنانی کبھی
لہو و لعب میں مشغول نہ ہوتے تھے اور اپنے باطنی شوق سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع
فرمایا۔ اپنے شوق سے اکثر حفاظ کو استاد بنایا۔ مگر تقدیر سے کچھ ایسے مواقع پیش
آتے گئے کہ نوبت تکمیل حفظ تک نہ پہنچی یہاں تک کہ بتوفیق الٰہی ۸۵۲۱ھ میں چند دن میں مکہ
معظمہ میں اس کی تکمیل ہو گئی اور سولہ سال کے سن میں وطن شریف سے بہمراہی حضرت
مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی نور اللہ مرقدہ دہلی کے سفر کا اتفاق ہوا۔ اسی
زمانہ میں چند مختصرات فارسی تحصیل فرمائے اور کچھ صرف و نحو اساتذہ عصر کی خدمت
میں حاصل کی اور مولانا رحمت صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ سے تکمیل الایمان شیخ
عبدالحق دہلوی قدس سرہ کی قرأت اخذ فرمائی۔
ہنور تکمیل علوم ظاہر
میسر نہ ہوئی تھہ کہ ولولہ خدا طلبی جوش زن ہوا اور نو عمری میں حضرت مولانا نصیر
الدین حنفی نقشبندی مجددی کے ہاتھ پر طریقہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت کی اور اذکار
طریقہ نقشبندیہ مجددیہ اخذ فرمائے اور چند دن تک اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر
رہ کر اجازت و خرقہ سے مشرف ہوئے۔ بعد ازاں بہ الہام مشکوٰۃ شریف کی ایک ربع قراۃ
حضرت مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی سے اور حصص حصیں و فقہ اکبر حضرت مولانا
عبدالرحیم مرحوم نانوتوی سے اخذ کیا اور یہ دو بزرگوار ارشد تلامذہ عارف مستغرق حضرت
مولانا مفتی الٰہی بخش صاحب کاندھلوی کے تھے۔
بعد ازاں قلب مبارک میں
جذبہ الٰہیہ پیدا ہوا اور آپ آبادی سے ویرانہ کو چلے گئے۔ مخلوق سے نفرت فرماتے
تھے اور اکثر دولت فاقہ سے کہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے مشرف ہوتے تھے،
یہاں تک کہ آٹھ آٹھ روز اور کبھی زیادہ گزر جاتے اور ذرا سی چیز حلق مبارک میں نہ
جاتی اور حالت شدت بھوک میں اسرار عجائب فاقہ مکشوف ہوتے تھے۔ بیان فرماتے تھے کہ
ایک دن بہت بھوک کی تکلیف میں ایک دوست سے کہ نہایت خلوص دلی رکھتا تھا، چند روپے
میں نے بطور قرض مانگے، باوجود موجود ہونے کے انکار صاف کر دیا۔ اس ناالتفاتی سے
تکدر و ملال دل میں پیدا ہوا، چند منٹ کے بعد تجلی توحید انعامی نے استعلا فرمایا
اور معلوم ہوا کہ یہ فعل فاعل حقیقی سے متکون ہوا ہے، اس وقت سے خلوص دولت کا زائد
ہوا اور وہ تکدر مبدل بہ خلف ہو گیا۔ اس واقعہ کو چند ماہ گزرے تھے کہ میں مراقبہ
میں تھا سیدنا جبرائیل و سیدنا میکائیل علیہما السلام کو دیکھا محو خود رفتہ ہو
گیا جو لذت کہ حاصل ہوئی احاطہ بیان میں نہیں آ سکتی اور وہ دونوں تبسم کناں و
زویدہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسی طرح چلے گئے اور کچھ نہ کہا۔
سید کائنات اشرف
المخلوقات صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا۔ فرماتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آ ؤ۔
یہ خواب دیکھ کر خواہش زیارت مدینہ طیبہ دل میں متمکن ہوئی۔ یہاں تک کہ بلا فکر
زاد راہ کے آپ نے عزم مدینہ منورہ کر دیا اور چل کھڑے ہوئے۔ جب ایک گا ؤں میں
پہنچے تو آپ کے بھائیوں نے کچھ زاد راہ روانہ کیا۔ حضور نے اس کو بخوشی خاطر قبول
کیا اور روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ پنجم ذی الحجہ ۱۶۲۱ھ کو بمقام بندرلیس کہ
متصل بندر جدہ کے ہے جہاز سے اترے اور براہ راست عرفات کو تشریف لے گئے اور جملہ
ارکان حج بجا لائے اور مکہ معظمہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق دہلوی قدس سرہ و حضرت
عارف باللہ سید قدرت اللہ حنفی بنارسی ثم المکی سے کہ کرامات و خرق عادت میں مشہور
تھے فیض و فوائد حاصل کئے اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق رحمتہ اللہ علی نے چند
وصایا فرمائے۔
ازاں جملہ یہ کہ اپنے کو
کمترین مخلوقات سمجھنا چاہئے اور یہ کہ تاامکان خود قوت حرام و مشتبہ سے پرہیز
واجب جانے کیوں کہ لقمہ مشتبہ و حرام سے برابر نقصان ہے اور مراقبہ الم یعلم بان
اللہ یری تعلیم فرمایا تا کہ م لاحظہ معنی صورت رویت حق تعالیٰ خود کو ملاحظہ کرے
اور اس پر مواظبت رکھے تا کہ وجدان صورت ملکہ کا ہووے اور دوسری باتیں تعلیم
فرمائیں اور اپنے خاندان کے معمولات کی اجازت دی اور فرمایا کہ فی الحال بعد زیارت
مدینہ طیبہ تمہارا ہند کو جانا قرین مصلحت ہے پھر انشاء اللہ تعالیٰ تمام تعلقات
منقطع کر کے اور بہ ہمت تمام یہاں آ ؤ گے۔ البتہ چندے صبر ضروری ہے۔ اس وقت مدینہ
منورہ کا راستہ مامون تھا اور کوئی شورش بدو ؤں وغیرہ کی نہ تھی اور آپ کے دل کو
سخت اضطراب و قلق مدینہ طیبہ کی حاضری تھا کہ علت غائی اس سفر کی یہی تھی۔ خیال
تھا کہ اگر وہاں جانا نہ ہوا تو گویا تمام محنت و مشقت رائیگاں ہوتی بالآخر آپ نے
یہ انتشار بحضور جناب سید قدرت اللہ عرض کیا۔ حضرت سید صاحب نے تسکین فرمائی اور
چند بدوی مریدان خود آپ کے سپرد کیا اور حکم دیا کہ بحفاظت تمام ان کو مدینہ طیبہ
لے جا ؤ اور ان کے قلب کو کوئی رنج نہ پہنچنے پاوے کیونکہ ان کے ملال سے تمہاری
عاقبت کی خرابی متصور ہے۔ مولانا فرماتے ہیں
ہیچ
قومے را خدا رسوا نہ کر
تادل
صاحبد لے نامد بدرد
باجملہ آپ مدینہ کو روانہ
ہوئے اور دل میں خیال آیا کہ اگر کوئی عامل کامل و عارف واصل بلا میری طلب کے
اجازت پڑھنے درود تنجینا کی دیتا تو بہت اچھا ہوتا۔ بارے بفضلہ تعالیٰ اس جوار پاک
شاہ لولاک میں پہنچے اور شرف جواب صلوٰۃ و سلام حضرت خیرالانام علیہ افضل الصلوٰۃ
والسلام سے مشرف ہوئے اور عارف خدا حضرت شاہ غلام مرتضیٰ جہنجہانوی ثم المدنی سے
ملاقات فرمائی اور اپنے شوق دلی کا نسبت قیام مدینہ منورہ کے اظہار فرمایا۔ حضرت
شاہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی جا ؤ چندے صبر کرو پھر انشاء اللہ یہاں بہت جلد آ ؤ گے
اور صاحب جذب و احسان حضرت مولانا شاہ گل محمد خانصاحب رحمتہ اللہ علیہ سے کہ
متوطن قدیم رام پور تھے اور عرصہ تیس سال سے مجاور روضہ شریف تھے، ملاقات کی اور
ان کی خدمت سے بہت فوائد حاصل کئے۔ حضرت خان صاحب موصوف نے بلا ذکر طلب اجازت درود
تنجینا کی دی کہ ہر روز اگر ممکن ہو ایک ہزار بار ورنہ تین سو ساٹھ بار پڑھا کرو
اور اگر اس قدر میں بھی دقت ہو تو اکتالیس بار تو ضرور پڑھا کرو اور ہرگز ناغہ نہ
ہونے پاوے کہ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔
آپ گو ظاہری علم شریعت
میں علامہ دوران اور مشہور زمان مولوی نہ تھے مگر علم الدنی کے جامہ سے آراستہ اور
نور عرفان و ایقان کے زیورات سے سرتاپا پیراستہ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کو
مہبط انوار و برکات اور فیوض تجلیات بنائے ہوئے تھے خلقتہ ضعیف و ضعیف……اس پر
مجاہدات و ریاضات اور تقلیل طعام و منام اور سب سے بڑھ کر عشق حسن ازلی جو استخواں
تک کو گھلا دیتا ہے جس کے باعث آخر میں کروٹ تک بدلنا دشوار تھا۔
اعلیٰ حضرت گھر سے خوشحال
اور موروثی جائیداد کا معقول حصہ پائے ہوئے تھے جو بظاہر الحال گزران معیشت کے لئے
کافی و دافی سامان تھا مگر آپ کا دل سلیم چونکہ طبع زہد و توکل کا شیدا تھا اس لئے
آپ نے اپنی ساری جائیداد سکنی و زرعی اپنے بھائی کے نام منتقل کر دی اور مسجد کے
حجرہ کو مسکن بنایا تھا۔ اعلیٰ حضرت زاویہ خمول زیست اور گمنامی کے ساتھ ایام
گزاری کہ جانب راغب تھے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے کو چھپایا اور علیحدگی و یکسوئی کو
اخفا و کتمان حال کا سبب بنایا مگر بقول
مشک
آنست کہ خود بہبوید نہ کہ عطار بگوید!
اپنے چھپائے کب چھپ سکتے
تھے۔ خدائی مخلوق نے جبہ سائی کو فخر سمجھا اور جیسا کہ دین کا اپنے زمانہ ولادت
سے حال رہا ہے غرباء مساکین اور عوام الناس طالب دین نیک بندوں کی آمد شروع ہوئی۔
مجبور امتشالا للامر آپ طالبین کو بیعت فرماتے اور اللہ کا نام سیکھنے کے لئے آنے
والی خلقت کی دستگیری فرماتے تھے۔ آخر طالبین کا ہجوم دن بدن بڑھتا گیا اور آپ اسی
توکل کے وسیع خوان پر مہمانوں کو بخوشی ضیافت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کی بھاوج
نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ موروثی جائیداد آپ منتقل فرما چکے خود توکل پر بہ
عسرت و فقر گزاران ہے پھر اس پر مہمانوں کی کثرت اور نووارد اور مسافروں کی زیادتی
گو آپ کو بار نہ معلوم ہو مگر میری غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس خدمت سے چشم پوشی
کروں۔ اس لئے آج سے جتنے مہمان ہیں ان کی اطلاع غریب خانہ پر فرما دیں، ان کا
کھانا دونوں وقت یہاں سے آئے گا۔ اول تو اعلیٰ حضرت نے انکار فرمایا کہ نہیں میرے
مہمان ان کی خدمت کا مجھ پر ہی حق ہے۔
حضرت مولانا رشید احمد
صاحب قدس سرہ تھا نہ بھون میں داخل ہوتے ہی اول پیر محمد والی مسجد میں پہنچے،
دیکھا کہ ظہر کی نماز ہو چکی ہے اور اعلیٰ حضرت اپنی سہ دری میں بیٹھے ہوئے تلاوت
قرآن مجید میں مشغول ہیں۔ حضرت مولانا حاضر خدمت ہوئے اور ختم تلاوت پر سلام مسنون
عرض کر کے بیٹھ گئے، اس سے قبل غالباً ایک مرتبہ دہلی اور دو مرتبہ گنگوہ اور ایک
مرتبہ تھوڑی دیر کے لئے تھانہ بھون میں اعلیٰ حضرت کی زیارت ہوئی تھی۔ یہ پانچویں
ملاقات تھی مگر یوں کہنا چاہئے کہ وطن میں اعلیٰ حضرت کے مہمان بننے کا عمر بھر
میں آپ کا پہلا اتفاق تھا۔ اعلیٰ حضرت نہایت ہی کریمانہ اخلاق سے پیش آئے اور
غائیت درجہ خاطر و مدارت فرمائی اور دریافت فرمایا کہ کیسے آئے، حضرت امام ربانی
نے (ایک عالم کے ساتھ) مناظرہ کا قصد ظاہر کیا۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا۔ بابا ایسا
ارادہ نہ کرنا، میاں وہ ہمارے بزرگ ہیں، بڑے ہیں بس مباحثہ کا تو اسی جگہ فیصلہ ہو
گیا اور حضرت یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ حضرت آپ کے بڑے ہیں اور میرے بھی بڑے ہیں۔
اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اور آپ نے موقع پا کر بالفاظ مناسب بیعت
ہونے کی درخواست کی۔ اعلیٰ حضرت اطاب اللہ ثراہ نے عادت شریفہ کے موافق بیعت میں
تامل ہی نہیں فرمایا بلکہ طلب صادق کو امتحان کی کسوٹی پر پرکھنے اور اعتقاد و شوق
بڑھانے کے لئے صورت انکار کے لفظ زبان پر لائے۔ یہاں سوائے اخلاص و شوق کے کیا
تھا۔ قطسیت کا جامہ پہننے والا ایک جسم تھا جو سرتا پا طلب بنا ہوا تھا۔ نخوت علم
و تکبر مولویت نام کو بھی نہ تھی اور جو کچھ تھی وہ پہلی ہی گفتگو پر نکل چکی تھی۔
پس نتیجہ امتحان یہ تھا کہ جتنا ادھر سے انکار تھا اسی قدر ادھر سے اصرار اور جس
قدر اس جانب سے استغنا کا برتا ؤ تھا اتنا ہی اس طرف سے احتیاج و افتقار کا اظہار۔
چونکہ پیران عظام ہمیشہ طالب صادق اور ہونہار کی تلاش میں رہتے ہیں اس لئے انہیں
امتحان والے دو تین دک میں ایک دوسرے بزرگ نے بھی جن سے مناظرہ کرنے تشریف لائے
تھے طرح طرح سے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ ماجعل اللہ لرجل من قلین فی جوفہ
صاحب دل کا ایک دل چونکہ ایک کا ہو لیا تھا اس لئے نہ پھرنا تھا نہ پھرا چنانچہ
اسی اثناء میں حافظہ صاحب شہید رحمتہ اللہ علیہ آپ سے آنے کا سبب اور حال دل
پوچھنے لگے تو آپ نے بے اختیار فرمایا جدھر دل کا میلان ہے وہ قبول نہیں کرتے۔
دوسرے اپنی طرف کھینچتے ہیں عجب قصہ ہے جناب حافظ صاحب نے دلاسا دیا اور فرمایا کہ
ابھی جلدی کیا ہے چند روز ٹھہرو یہاں کے حالات دیکھو۔ آخر جب آپ کی پختگی ہر طرح
ظاہر ہو گئی تو جناب حافظ ضامن صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں
سفارش کا اجر حاصل فرمایا اور تھانہ کی حاضری سے دو تین روز کے بعد آپ کو سلاسل
اربعہ میں اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کے ہاتھ پر بیعت حاصل ہوئی۔ حضرت مولانا قدس سرہ
ارشاد فرماتے تھے کہ جب اعلیٰ حضرت کے دست مبارک پر بیعت ہونے کا وقت آیا تو میں
نے عرض کیا کہ حضرت ذکر و شغل اور محنت و مجاہدہ کچھ نہیں ہو سکتا اور نہ رات کو
اٹھا جائے گا۔ اعلیٰ حضرت نے تبسم کے ساتھ فرمایا اچھا کیا مضائقہ ہے۔ حضرت مولانا
قدس سرہ منظورئ شرط کے بعد بیعت ہوئے اور اعلیٰ حضرت نے آپ کو بارہ تسبیح تلقین
فرما دیں۔ شب کے وقت اعلیٰ حضرت نے وہ چارپائی جس پر آپ استراحت فرماتے تھے اپنے
پلنگ کے پاس بچھوالی اور آرام فرمایا۔ آخر شب میں جب اعلیٰ حضرت حسب معمول اٹھے تو
حضرت مولانا کی بھی آنکھ کھل گئی مگر چونکہ بیعت کے وقت شرط ہو چکی تھی ، اس لئے
اعلیٰ حضرت نے کچھ نہیں فرمایا کہ اٹھو بیٹھو یا بتلائی ہوئی بارہ تسبیح کا ذکر کر
لو لیکن شیخ کا فیضان پہلے ہی اپنا اثر کر چکا تھا بھلا کس طرح ممکن تھا کہ حضرت
مخدوم قدس سرہ بستر پر لیٹے رہتے یا نیند آ جاتی۔ دو چار کروٹیں آپ نے ضرور بدلیں
اور کسی درجہ میں چاہا بھی کہ نیند آ جائے مگر حق تعالیٰ کو آپ سے جو کام چند ہی
روز بعد لینا منظور تھا۔
ایک دن آپ نے خواب میں
دیکھا کہ مجلس اعلیٰ و اقدس حضرت سرور مرشد اتم صلی اللہ علیہ و سلم اصحابہ و
ازواجہ و اتباعہ و سلم میں حاضر ہوں غائیت رعب سے قدم آگے نہیں بڑھتا ہے کہ ناگاہ
میرے جد اجد حضرت حافظ بلاقی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت
نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں پہنچا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا
ہاتھ لے کر حوالہ حضرت میانجیو صاحب چشتی قدس سرہ کے کر دیا اور اس وقت تک بعالم
ظاہر میانجیو صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ سے کسی طرح کا تعارف نہ تھا، بیان فرماتے ہیں
کہ جب وہ بیدار ہوا عجب انتشار و حیرت میں مبتلا ہوا کہ یا رب یہ کون بزرگ وار ہیں
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا اور خود مجھ کو ان
کے سپرد فرمایا۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے کہ ایک دن حضرت استاذی مولانا محمد قلندر
محدث جلال آبادی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرے اضطرار کو دیکھ کر بکمال شفقت و
عنایت فرمایا کہ تم کیوں پریشان ہوتے ہو موضع لوہاری یہاں سے قریب ہے وہاں جا ؤ
اور حضرت میانجیو صاحب سے ملاقات کرو، شاید مقصود ولی کو پہنچو اور اس حیص و بیص
سے نجات پا ؤ۔ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت مولانا سے میں نے یہ سنا متفکر ہوا اور
دل میں سوچنے لگا کہ کیا کروں، آخر بلالحاظ سواری وغیرہ میں نے فوراً راہ لوہاری
کی لی اور شدت سفر سے حیران و پریشان چلا جاتا تھا، یہاں تک کہ پیروں میں آبلے پڑ
گئے بارے بہ کشش و کوشش آستانہ شریف پر حاضر ہوا اور جیسے ہی دور سے جمال باکمال
ملاحظہ کیا۔ صورت انور کو کہ خواب میں دیکھا تھا بخوبی پہچانا اور محوخود رفتگی ہو
گیا اور آپے سے گزر گیا۔ رفتاں و خیزاں ان کے حضور میں پہنچ کر قدموں میں گر پڑا۔
حضرت میانجیو صاحب قدس سرہ العزیز نے میرے سر کو اٹھایا اور اپنے سینہ نور گنجینہ
سے لگایا اور بکمال رحمت و عنایت فرمایا کہ تم کو اپنے خواب پر کامل وثوق و یقین
ہے۔ یہ پہلی کرامت منجملہ کرامات حضرت میانجیو صاحب کی ظاہر ہوئی اور دل کو بکمال
استحکام مائل بخود کیا۔ الحاصل ایک مدت خدمت بابرکت جناب موصوف میں حلقہ نشین رہے
اور تکمیل سلوک سلاسل اربعہ عموماً طریق چشتیہ صابریہ خصوصاً کیا خرقہ و خلافت
تامہ و اجازت خاصہ و عامہ سے مشرف ہوئے۔ بعد عطائے خلافت حضرت میانجیو صاحب نے
فرمایا کہ کیا چاہتے ہو تسخیر یا کیمیا جس کی رغبت ہو وہ تم کو بخشوں، آپ یہ سن کر
رونے لگے اور عرض کیا کہ دنیا کے واسطے آپ کا دامن نہیں پکڑا ہے، خدا کو چاہتا ہوں
وہی مجھ کو بس ہے۔ حضرت میانجیو صاحب قدس سرہ یہ جواب سن کر بہت مسرور و خوش مزہ
ہوئے اور آپ کو بغل گیر فرما کر علوہمت پر آفریں کی اور دعا ہائے حزیلہ و جمیلہ
دیں۔
ایام غدر ہندوستان میں
بوجہ بے نظمی دین و تغلب معاندان دین قیام ہند گراں خاطر ہوا اور ارادہ ہجرت و
اشتیاق زیارت روضہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم جوش و خروش میں آیا
اور ۲۷۲۱ھ
میں براہ پنجاب روانہ ہوئے اور حیدر آباد سندھ سے کراچی بندرگاہ پہنچے وہاں سے
جہاز پر سوار ہوئے اور مکہ معظمہ پہنچے۔
جب حاکم نے آپ کو گرفتار
کرنا چاہا اور آپ کے کمرہ میں آیا تو خداوندی حفاظت کا کرشمہ دیکھئے کہ جس وقت
کوٹھڑی کا دروازہ کھلا ہے، تخت پر مصلےٰ ضرور بچھا ہوا لوٹا رکھا ہوا اور نیچے وضو
کا پانی البتہ بکھرا ہوا پڑا تھا مگر اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کا پتہ بھی نہ تھا۔
افسر متحیر و حیران اور را ؤ عبداللہ خان دل ہی دل میں شیخ کی عجیب کرامت پر فرحاں
و شاداں کچھ عجیب سماں تھا کہ حاکم نہ کچھ اور دریافت کرتا ہے نہ استفسار کبھی
ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر آخر مخبر کی دھوکہ دہی سمجھ کر بات کو ٹالا اور کہا کہ
خان صاحب یہ لوٹا کیسا اور پانی کیوں پڑا ہے۔ را ؤ صاحب بولے جناب اس جگہ ہم
مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور وضو میں ہاتھ منہ دھویا کرتے ہیں چنانچہ ابھی آپ کے آنے
سے دس منٹ قبل اسی کی تیاری تھی۔ افسر نے ہنس کر کہا آپ لوگوں کی نماز کے لئے مسجد
ہے یا اصطبل کی کوٹھڑی را ؤ صاحب نے فوراً جواب دیا کہ جناب مسجد فرض نماز کے لئے
ہے اور نفل نماز ایسی ہی جگہ پڑھی جاتی ہے جہاں کسی کو پتہ بھی نہ چلے لا جواب
جواب سن کر افسر نے پٹ بند کر دیئے اور اصطبل کے چاروں طرف غائر نظر دوڑانے کے بعد
نکلا اور گھوڑے پر سوار ہو کر یہ کلمات کہہ کر خصت ہوا۔ را ؤ صاحب معاف کیجئے آپ
کو اس وقت ہماری وجہ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی اور پھر بھی ہمیں کوئی گھوڑا پسند نہ
آیا۔ را ؤ عبداللہ صاحب کی نظر سے دوش کے سوار جب اوجھل ہو گئے تو واپس ہوئے اور
کوٹھڑی کھول دی، دیکھا اعلیٰ حضرت نماز سے سلام پھیر چکے اور مصلے پر مطمئن بیٹھے
ہوئے ہیں۔
مولانا گنگوہی سے ایک
مرتبہ کسی شخص نے دریافت کیا تھا کہ اعلیٰ حضرت نے تو آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ
اطمینان رکھو میں عرب روانہ ہوتے وقت تم سے مل کر جا ؤں گا۔ مگر آپ گرفتاری و
حوالات میں رہے آپ کی رہائی سے قبل اعلیٰ حضرت نے بیت اللہ کی جانب ہجرت فرمائی
گویا سائل کا مطلب یہ تھا کہ ملاقات کے خوش کن الفاظ تسلی کے لئے تھے جس کا وقوع
نہیں ہوا۔ حضرت نے بہت ہی ہلکی آواز سے فرمایا۔ اعلیٰ حضرت وعدہ خلاف نہ تھے
چنانچہ دوسرے طریق سے معلوم ہوا کہ باوجود سنگین پہرہ کے اعلیٰ حضرت نے جیل خانہ
کے اندر قدم رکھا اور کئی گھنٹہ باتیں کر کے شب ہی میں واپس ہوئے اور عرب روانہ
ہوئے۔ مولوی ولایت حسین صاحب کی روایت ہے کہ حکیم صاحب جو اعلیٰ حضرت کے مرید
انبالہ کے رہنے والے بندہ کے ساتھ سفر حج میں شریک تھے کہ جس زمانہ میں مولانا
گنگوہی جیل خانہ میں تھے اعلیٰ حضرت حاجی صاحب ایک دن فرمانے لگے کہ میاں کچھ سنا
کیا مولوی رشید احمد کو پھانسی کا حکم ہو گیا۔ خدام نے عرض کیا کہ حضرت کچھ پتہ
نہیں ابھی تک تو کوئی خبر آئی نہیں۔ فرمایا ہاں حکم ہو گیا چلو یہ فرما کر اٹھ
کھڑے ہوئے۔ حکیم صاحب کا بیان تھا کہ برسات کا زمانہ تھا، مغرب کے بعد اعلیٰ حضرت
اور میں اور غالباً مولوی مظفر حسین صاحب کاندھلوی غرض تین آدمی چلے شہر سے نکل کر
تھوڑی دور جا کر اعلیٰ حضرت زمین کی گھاس کے قدرتی سبز مخملی فرش پر بیٹھ گئے اور
کچھ دیر تک سکوت فرما کر گردن اوپر اٹھائی اور فرمایا پھر چلو مولوی رشید احمد کو
کوئی شخص پھانسی نہیں دے سکتا۔ خدائے تعالیٰ کو ان سے ابھی بہت کچھ کام لینا ہے
چنانچہ چند روز بعد اس کا ظہور ہو گیا والحمد اللہ علی ذلک۔
حضرت حاجی امداد اللہ
صاحب اپنے وقت کے قطب عالم اور اعلیٰ درجے کے علوم سے سرفراز تھے۔ روایت ہے کہ ایک
بار آپ یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ جس طرح راحت و آرام نعمت ہے اسی طرح بلا بھی
نعمت ہے۔ اسی وقت ایک شخص آیا اس کا ہاتھ زخم کی وجہ سے خراب ہو رہا تھا اور سخت
تکلیف میں مبتلا تھا۔ اس نے کہا کہ میرے لئے دعا فرمایئے اس وقت راوی کے قلب میں
خطرہ گزرا کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں گے اگر صحت کی دعا کریں تو اپنی تحقیق سے
رجوع لازم آتا ہے اور اگر دعا نہ کریں تو اس شخص کے مذاق کی رعایت نہیں ہوتی اور
یہ شیخ کامل کیلئے ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سب لوگ دعا کریں کہ اے اللہ اگرچہ ہم
کو معلوم ہے کہ یہ تکلیف بھی نعمت ہے مگر ہم لوگ اپنے ضعف کی وجہ سے اس نعمت کے
متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس نعمت کو مبدل بہ نعمت صحت فرما دیجئے۔
سہارنپور میں ایک مکان
تھا اس میں جن کا سخت اثر تھا۔ جس سے وہ مکان متروک کر دیا گیا تھا۔ اتفاق سے حضرت
صاحب پیران کلیر سے واپس ہوتے ہوئے سہارنپور تشریف لائے تو مالک مکان نے حضرت کو
اسی مکان میں ٹھہرایا کہ حضرت کی برکت سے جن دفع ہو جائینگے۔ رات کو تہجد کے وقت
جب حضرت اٹھے اور معمولات سے فارغ ہوئے تو دیکھا کوئی نہ تھا اور کنڈی بدستور لگی
ہے۔ پھر یہ کیسے آیا۔ حضرت نے پوچھا۔ تم کون ہو۔ اس نے جواب دیا کہ حضرت میں ہی وہ
شخص ہوں جس کی وجہ سے یہ مکان متروک ہو گیا ہے یعنی جن ہوں۔ مدت دراز سے حضرت کی
زیارت کا مشتاق تھا۔ آج اللہ تعالیٰ نے میری مراد پوری کر دی۔ حضرت نے فرمایا۔
ہمارے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور پھر مخلوق خدا کو ستاتے ہو، توبہ کرو۔ پھر
حضرت نے ان سے توبہ کرائی اور وہ مکان آپ کی برکتوں سے جنات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
محفوظ ہو گیا۔
حضرت حاجی صاحب سے کسی
معتقد نے اس بات کا افسوس ظاہر کیا کہ اب کے بیماری کی وجہ سے مدت تک حرم میں داخل
ہونا نصیب نہ ہوا ہے۔ آپ نے خواص سے فرمایا کہ اگر یہ شخص عارف ہوتا تو اس پر کبھی
افسوس نہ کرتا کیونکہ مقصود قرب حق ہے اور اس کے لئے جس طرح نماز حرم ایک طریق ہے،
بیماری بھی ایک طریق ہے تو بندے کا کیا منصب ہے کہ اپنے لئے خود ایک طریق متعین کر
لے۔
حضرت مولانا فتح محمد
صاحبؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور بہت دیر تک بیٹھا
باتیں کرتا رہا۔ آخر جب بہت دیر ہوئی تو میں اٹھا اور عرض کیا کہ حضرت آج میں نے
آپ کی عبادت میں بہت حرج کیا۔ حضرت فرمانے لگے۔ مولانا آپ نے یہ کیا فرمایا۔
کیا نماز روزہ ہی عبادت
ہے اور دوستوں کا جی خوش کرنا عبادت نہیں ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم اپنے
صحابہ کرامؓ کے ساتھ بیٹھے تھے اور حد جواز تک جس قسم کی باتیں صحابہؓ فرماتے ہیں،
حضور پاکﷺ ان کے ساتھ شریک رہتے تھے۔ دوستوں کی دلجوئی عین فرمان الٰہی اور سنت
نبویﷺ ہے۔
میاں امیر احمد رام پوری
کا واقعہ میرے سامنے کا ہے۔ امیر احمد بار بار حضرت سے دریافت کرتے تھے کہ یا حضرت
میں ہندوستان جا ؤں اور حضرت فرماتے تھے کہ ہاں جا ؤ مگر امیر احمد کو اپنے اور
مقدمات کا قوی خطرہ تھا۔ اس واسطے شبہ ہوتا تھا کہ ضرور گرفتار اور سزایاب ہوں گا۔
اس واسطے باوجود حضرت کے ان کو اطمینان نہیں ہوتا تھا اور بار بار دریافت کرتے
تھے۔
ایک روز حضرت نے چیں بہ
جبیں ہو کر فرمایا کہ تمہارا جی گرفتار ہونے کو چاہتا ہے۔ میاں جا ؤ تب میں نے ان
سے کہا کہ اب تم شک و شبہ چھوڑو اور حضرت نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ خدا کا نام لے
کر چلو اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا۔ چنانچہ وہ میرے ساتھ ہندوستان آئے اور چند روز
دہلی میں ایک مسجد میں رہ کر حاضر عدالت ہو گئے چنانچہ گرفتار کر کے جیل بھیج دیئے
گئے اور بالآخر تمام مقدمات سے بری ہو کر اپنے گھر بخیریت تمام پہنچ گئے۔
اسماعیل سیٹھ اس کے لڑکے
سے بعض باتیں خلاف طبع مبارک ہوئیں۔ اس وجہ سے آپ نے وہاں کا قیام ترک کر کے رخ
توبہ بحضور باری تعالیٰ کیا۔ اسی بارے میں بلا کسی تحریک کے ایک حکم نامہ بتاکید
ریاست حیدر آباد سے وہاں کے وکلاء کے نام پہنچا کہ منجملہ و مکانات ریاست کے جو
مکان و جگہ آپ پسند فرمائیں۔ اس کی کنجی خدام حضرت کے سپرد کر دی جائے چنانچہ وکلا
ریاست نے بڑی التجا سے یہ کیفیت حضوری میں عرض کی اور ایک مکان کی کنجی ملازمان
عالی کر دی۔
اسی زمانہ میں ایک مہندس
نے آپ کے قریب میں ایک مکان تعمیر کیا اور اس میں ایک راستہ رکھا۔ جس سے حضرت کے
دولت خانہ کی بے پردگی ہوتی تھی۔ وہ انواع اقسام کے ظلم و جبر خدمت شریف میں کرتا
تھا اور آپ کی طرف سے اپنے دل میں عناد رکھتا تھا۔ حضرت نے ایک شخص کے ذریعہ سے
کلمتہ الخیر تبلیغ فرمایا لیکن اس نے کچھ خیال نہ کیا بلکہ کلمات بیہودہ زبان پر
لایا۔ لوگوں نے یہ واقعہ حضرت سے عرض کیا اور اکثر احباب کی رائے ہوئی کہ حاکم وقت
کے یہاں استغاثہ کیا جائے۔ بجوان اس کے حضرت نے ارشاد فرمایا کہ میرا استغاثہ حاکم
حقیقی کے یہاں ہے حکام مجازی کے آگے درخواست کرنا درست نہیں ہے۔ ایک ہفتہ بھی نہ
گزرا تھا کہ تیغ برہنہ اہل چشت نے اس پر گزر کیا اور باوجود اعزاز بلیغ و اعتبار
بلا وجہ ظاہری اپنے منصب و عہدے سے علیحدہ کر دیا گیا اور ایسی ذلت و خواری میں
مبتلا ہوا کہ اللہ کسی کو نہ دکھائے۔
ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب
کے یہاں مہمان بہت سے آ گئے۔ کھانا کم تھا حضرت نے اپنا رومال بھیج دیا کہ اس کو
ڈھانک دو۔ کھانے میں ایسی برکت ہوئی کہ سب نے کھا لیا اور کھانا بچ گیا۔ حضرت حافظ
ضامن صاحب کو خبر ہوئی تو عرض کیا کہ حضرت آپ کا رومال سلامت چاہئے۔ اب تو قحط
کیوں پڑے گا۔ حضرت شرمندہ ہو گئے اور فرمایا واقعی خطا ہو گئی، توبہ کرتا ہوں۔ پھر
ایسا نہ ہو گا۔ ایک دن مولوی امیر شاہ خان صاحب نے حضرت (گنگوہی) قدس سرہ سے ایک
قصہ بیان کیا کہ میں ایک روز مسجد حرام میں ایک بزرگ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان
کے پاس ایک نو عمر درویش آئے اور بیٹھ گئے۔ وہ بزرگ جن کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا۔
اس درویش کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ بھائی تمہارے قلب میں بڑی اچھی چیز ہے۔
ان بیچاروں نے اپنا حال چھپانا چاہا مگر انہوں نے پردہ ہی فاش کر دیا۔ کہنے لگے کہ
تمہارے قلب میں ایک عورت کی شبیہ ہے۔ اس کی ناک ایسی اور آنکھیں ایسی ہیں اور بال
ایسے ہیں۔ عرض تمام حلیہ بیان کر دیا اور اس وقت وہ درویش بہت نادم ہوئے اور اصرار
کیا کہ بے شک آپ سچ فرماتے ہیں۔ ابتدا جوانی میں مجھے ایک عورت سے عشق ہو گیا تھا۔
ہر وقت اس کے دھیان میں رہنے سے اس کی شبیہ میرے قلب میں آ گئی ہے۔ اب جب کبھی
طبیعت بے قرار ہوتی تو آنکھ بند کر کے اس کو دیکھ لیتا ہوں کچھ سکوں ہو جاتا ہے
اور طبیعت ٹھہر جاتی ہے۔
ایک شخص نے تصوف کے معنی
پوچھے۔ فرمایا کہ تصوف کے معنی ہیں بسبب احوال مشائخ مختلف اقوال ہیں۔ ہر کوئی
اپنے مقام یا حال کے موافق مسائل کا جواب دیتا ہے یعنی مبتدی سائل کو ازروائے
معاملات مذہب ظاہر اور متوسط کو ازروائے احوال منتہیٰ کو ازروئے حقیقت البتہ تمام
اقوال میں اظہر قول یہ ہے کہ اول ابتدائے تصوف علم ہے اور اوسط عمل و آخر عطا و
بخشش و جذبہ الٰہی ہے اور علم مراد مرید کی کشایش کرتا ہے اور عمل اس کی توفیق و
طلب پر مدد کرتا ہے اور بخشش مرتبہ غایت رجا کو کہ احاطہ بیان سے باہر ہے، پہنچاتی
ہے اور حق سبحانہ کے ساتھ واصل کرتی ہے اور اہل تصوف تین قسم کے ہیں یعنی تین
مراتب رکھتے ہیں۔ اول مرید کہ اپنی مراد طلب کرتا ہے۔ دو متوسط کہ طلب گار آخرت
ہے۔ سوم منتہیٰ کہ اصل مطلوب تک پہنچ گئے ہیں اور انتقالات احوال سے محفوظ ہیں۔
ایک شخص نے حاضرین سے عرض
کیا کہ صوفی کون ہے اور ملامتی کون۔ فرمایا صوفی وہ ہے کہ سوائے اللہ کے دنیا و
خلق سے مشغول نہ ہوا اور رد و بدل قبول مخلوق کی پروا نہ رکھے۔ مدح و ذم اس کے
نزدیک برابر ہو اور ملامتی وہ ہے کہ نیکی کو چھپائے اور بدی کو ظاہر کرے۔ حضرت
حاجی صاحب سے کسی نے پوچھا کہ حضرت میں اللہ کا نام لیتا ہوں مگر کچھ نفع نہیں
ہوتا۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ تھوڑا نفع ہے کہ نام لیتے ہو۔ یہ تمہارا نام لینا یہی
نفع ہے اور کیا چاہتے ہو۔
گفت
آں اللہ تو لبیک ماست
دین
یاز و سوز و درت پیک ماست
حضرت حاجی صاحب کے پاس
ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص آپ کو یوں کہتا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ اس نے تو
پس پشت ہی کہا لیکن تم اس سے زیادہ بے حیا ہو کہ میرے منہ پر کہتے ہو۔
ایک بزرگ نے خواب میں
دیکھا کہ آنحضرتﷺ تشریف رکھتے ہیں اور ایک کتاب پڑھی جاتی ہے جس کو حضور کمال توجہ
سے سن رہے ہیں۔ دریافت فرمایا کہ یہ کونسی کتاب ہے۔ کہا گیا کہ احیاء العلوم حجتہ
الاسلام امام غزالی کی ہے۔ فرمایا یہ لقب عطیہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر
مکی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت شاہ محمد اسحٰق نے مراقبہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے
بانی ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ مراقبہ کے متعلق یوں فرماتے ہیں۔
یہ اقتباس ان کی کتاب لوح و قلم سے لیا گیا ہے۔
مراقبہ ایک ایسے تصور کا
نام ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جاتا ہے مثلاً انسان جب اپنی فنا کا مراقہ کرنا
چاہے تو یہ تصور کرے گا کہ میری زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک
نقطۂ روشنی کی صورت میں موجود ہوں یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرے کہ اب میں
اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں صرف اس دنیا سے میرا تعلق باقی ہے جس کے احاطہ
میں ازل سے ابد تک کی تمام سرگرمیاں موجود ہیں چنانچہ کوئی انسان جتنی مشق کرتا
جاتا ہے اتنی ہی لوح محفوظ کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ
رفتہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غیب کے نقوش اس طرح واقعی ہیں اور ان نقوش کا مفہوم
اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔ انطباعیت کا مطالعہ کرنے کے لئے صرف چند روزہ
مراقبہ کافی ہے۔
لا کے مراقبے میں آنکھوں
کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ مناسب ہے کہ کوئی روئیں دار
رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ کپڑا
تولیہ کی طرح روئیں دار ہو یا اس قسم کا تولیہ ہی استعمال کیا جائے جس کا رواں
لمبا اور نرم ہو لیکن رواں باریک نہیں ہونا چاہئے۔ بندش میں اس بات کا خاص خیال
رکھا جائے کہ آنکھوں کے پپوٹے تولیہ یا کپڑے کے روئیں کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ
گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہئے اور نہ اتنی سخت کہ آنکھیں درد محسوس کرنے لگیں۔ منشاء
یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے تھوڑا سا دبا ؤ محسوس کرتے رہیں، مناسب دبا ؤ سے آنکھ کے
ڈیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطل ہو جاتی ہے۔ اس تعطل کی حالت میں جب نگاہ سے کام
لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ کی باطنی قوتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی
کہہ سکتے ہیں۔ حرکت میں آ جاتی ہیں۔ مراقبہ کی حالت میں باطنی نگاہ سے کام لینا
مقصود ہوتا ہے۔ یہ مقصد اس ہی طرح پورا ہو سکتا ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے
زیادہ معطل رکھا جائے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے تعطل میں جس قدر اضافہ ہو گا اس ہی قدر
باطنی نگاہ کی حرکت بڑھتی جائے گی۔ دراصل یہی حرکت روح روشنی میں دیکھنے کا میلان
پیدا کرتی ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں میں تعطل ہو جانے سے لطیفہ نفسی میں اشتعال ہونے لگتا
ہے اور یہ اشتعال باطنی نگاہ کی حرکت کے ساتھ تیز تیز ہو جاتا ہے جو شہود میں
معاون ثابت ہوتا ہے۔
مثال:
انسان کے جسم کی ساخت پر
غور کرنے سے اس کی حرکتوں کے نتائج اور قانون کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بیداری میں
آنکھوں کے ڈیلوں پر جلدی غلاف متحرک رہتا ہے۔ جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے تو ڈیلوں پر
ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ہر لمحہ کے لئے روشنیوں اور مناظر سے منقطع کر دیتا
ہے۔ غلاف کی اس حرکت کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خارجی چیزیں جس قدر ہیں۔ ان
کو ہم مادی خدوخال میں محسوس کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے
آنکھوں کے مادی ڈیلے اور غلاف کی مادی حرکات ضروری ہیں۔ اگر ہم ان ہی چیزوں کو
معنوی شکل و صورت کا احساس بیدار کرنا چاہیں تو اس عمل کے خلاف اہتمام کرنا پڑے
گا۔ اس صورت میں آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو معطل اور غیر متحرک کر دینا
ضروری ہے۔ مادی اشیاء کا احساس مادی آنکھ میں نگاہ کے ذریعے واقع ہوتا ہے اور جس
نگاہ کے ذریعے مادی احساس کا یہ عمل وقوع میں آتا ہے وہی نگاہ کسی چیز کی معنوی
شکل و صورت دیکھنے میں بھی استعمال ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نگاہ مادی حرکات میں
اور روحانی حرکات میں ایک مشترک آلہ ہے۔ دیکھنے کا کام بہر صورت نگاہ ہی انجام
دیتی ہے۔ جب ہم آنکھوں کے مادی وسائل کو معطل کر دیں گے اور نگاہ کو متوجہ رکھیں
گے تو لوح محفوظ کے قانون کی رو سے قوت القاء اپنا کام انجام دینے پر مجبور ہے پھر
کسی چیز کی معنوی شکل و صورت کو لازمی دیکھے گی۔ اس لئے کہ جب تک نگاہ دیکھنے کا
کام انجام نہ دیدے۔ قوت القاء کے فرائض پورے نہیں ہوتے۔ اس طرح جب ہم کسی معنوی
شکل و صورت کو دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اہل تصوف نے اس ہی قسم کے دیکھنے کی
مشق کا نام مراقبہ رکھا ہے۔ یہاں ایک اور ضمنی قانون بھی زیر بحث آتا ہے جس طرح
لوح محفوظ کے قانون کی رو سے مادی اور روحانی دونوں مشاہدات میں نگاہ کا کام مشترک
ہے۔ جب ہم آنکھوں کھول کر کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی حرکت ارادہ کرتی ہے
یعنی پہلے قوت ارادی میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس حرکت سے نگاہ جب تک قوت ارادی میں
حرکت نہ ہو نگاہ معنوی شکل و صورت کی اطلاعات فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی شخص
عادتاً نگاہ کو معنوی شکل و صورت کے دیکھنے میں استعمال کرنا چاہے تو اسے پہلے پہل
ارادے کی حرکت کو معمول بنانا پڑے گا۔ یعنی جب مراقبہ کرنے والا آنکھیں بند کرتا
ہے تو سب سے پہلے ارادے میں تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس تعطل کو حرکت میں تبدیل کرنے کی
عادت ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات مسلسل مشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب آنکھ بند کرنے کے
باوجود ارادہ میں اضمحلال پیدا نہ ہو اور ارادہ کی حرکت متوسط قوت سے جاری رہے تو
نگاہ کو معنوی شکل و صورت دیکھنے میں تساہل نہ ہو گا اور مخفی حرکات کی اطلاعات کا
سلسلہ جاری رہے گا۔ جب مراقبہ کی مشق مکمل ہو چلے گی تو اسے آنکھ کھول کر دیکھنے
میں یا آنکھ بند کر کے دیکھنے میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا۔
لوح محفوظ کے قانون کی رو
سے قوت القاء جس طرح مادی اثرات پیدا کرنے کی پابند ہے اس ہی طرح معنوی خدوخال ک ے
تخلیق کرنے کی بھی ذمہ دار ہے۔ جتنا کام کسی شخص کی قوت القاء مادی قدروں میں کرتی
ہے، اتنا ہی کام روحانی قدروں میں بھی انجام دیتی ہے۔ دو آدمیوں کے کام کی مقدار
کا فرق ان کی قوت القاء کی مقدار کے فرق کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔
۱۔ فرمایا کہ وظائف میں عدد طاق عمدہ ہیں نوہوں یا گیارہ۔
۲۔ فرمایا اصل ذوق شوق محبت ہے، کشف و کرامات ثمرات زائدہ ہیں،
ہوئے ہوئے نہ ہوئے عارف اس کو ایک حد کے برابر سمجھے بلکہ اکثر حجاب ہوتا ہے۔
۳۔ فرمایا صورت نیکوں کی اختیار کرنا چاہئے، سیرت اللہ تعالیٰ
درست کر دے گا کیونکہ وہ واہب و فیاض ہے۔ دریافت کیا گیا کہ ساحران موسیٰ علیہ
السلام مشرف بہ ایمان ہوئے اور فرعونیاں کافر رہے اس کی کیا وجہ تھی؟ فرمایا کہ
ساحروں نے صورت موسوی اختیار کی تھی اس کے طفیل وہ نیک ہوئے۔
۴۔ فرمایا کہ مراتب (عرفا) چار ہیں: مجذوب۔ سالک۔ مجذوب سالک۔
سالک مجذوب اور یہ سب سے بڑا مرتبہ ہے۔ ایک آدمی قوم ہندو، ناتھو نامی حالت جذب
میں تھا، ایک دن مجھ سے کہا کہ اولے گریں گے، ایسا ہی ہوا اگر کافر سے ایسا ظاہر
ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں اور ایسے آدمی حالت کفر میں مرتے ہیں۔
۵۔ فرمایا کہ عذاب و ثواب اس جسم پر نہیں ہے بلکہ جسم مثالی پر
جو کہ خواب میں نظر آتا ہے ہو گا و نیز روح اعظم انسانی پر کہ ایک تجلی حق ہے،
عذاب نہ ہو گا وہ مثل آفتاب کے ہے اور حیوانی مانند چراغ۔
۶۔ فرمایا کہ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب نے مجھ کو چار چیزیں
تلقین فرمائیں: (۱) طلب رزق حلال۔ (۲) تمام عالم سے اپنے کو بدتر سمجھنا۔ (۳) مراقبہ
احسان۔ (۴) ترک اختلاط غیر جنس۔
۷۔ فرمایا کہ مولانا فخر الدین شاہ ولی اللہ و خواجہ میر درد و
مرزا مظہر جانجاناں رجہم اللہ تعالیٰ کی کسی شخص نے ضیافت کی اور اپنے گھر بٹھا کر
خود غائب ہو گیا اور بہت دیر کے بعد یہاں تک کہ نماز کا وقت آ گیا ، آ کر دو دو پیسے
سب کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
۸۔ فرمایا کہ تواضع نفاق کے ساتھ ممنوع ہے۔
۹۔ فرمایا کہ مولد شریف تمام اہل حر میں کرتے ہیں، اسی قدر
ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرت رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہو سکتا ہے، البتہ
جو زیادتیاں لوگوں نے اختراع کی ہیں نہیں چاہئیں۔ اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں
کہتا۔ ہاں مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔
۰۱۔ فرمایا واسطے تقویت حافظہ کے یا علیم علمنی مالم اکن اعلم یا علیم اکتالیس بار
بعد نماز عصر پڑھنا چاہئے اور سورہ فاتحہ بعد نماز فجر گیارہ بار پڑھنا چاہئے یا
روٹی پر لکھ کر کھائیں۔
فرمایا
یک
زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر
از صد سالہ طاعت بے ریا
۱۱۔ فقیر کو چاہئے کہ نہ طمع کرے نہ صنع کرے۔
۲۱۔ دعا میں درود مثل صندوق کے ہے۔
۳۱۔ فرمایا کہ جو مزہ میں نے فقر و فاقہ میں دیکھا اور اس میں
میرے مراتب کی ترقی ہوئی اور انبیاء علیہم السلام و ملائک مقربین کی زیارت ہوئی
اور انوار و تجلیات مجھ پر نازل ہوئے، وہ امور پھر فراغت میں میسر نہ ہوئے، فرمایا
فقر و فاقہ بڑی نعمت ہے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔