Topics

فرشتے

فرشتوں کی کئی قسمیں ہیں:

ملائکہ نورانی، ملاء اعلیٰ، ملائکہ سماوی، ملائکہ عنصری، ملاء رضوان، زمانیا، فرشتے کراماً کاتبین۔

شخص اکبر:

کائنات میں ممتاز مخلوق فرشتے اور جنات ہیں اور ان سب میں ممتاز مخلوق انسان ہے۔ فرشتے کی تخلیق نور سے جنات کی تخلیق نار سے اور انسان کی تخلیق مٹی، خلاء اور گیس سے ہوئی ہے۔ کائنات کی مرکزی قوت جہاں سے EVENTSظاہر ہوتے ہیں اور جہاں ہر چیز لوٹ کر جاتی ہے وہ تجلئ اعظم کا دوسرا درجہ ہے جو عرش پر قائم ہے۔ تمام مخلوقات پر عرش محیط ہے یعنی عرش کا کوئی حصہ اور کوئی چیز تجلی سے باہر نہیں ہے۔ اس ممتاز جگہ سے زمین کی طرف نور کی لہریں نزول کر رہی ہیں۔ عرش کے نیچے پوری انسانیت کا ایک ہیولہ ہے جس کو شخص اکبر یا انسان اکبر کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح صوفیاء کی قائم کردہ ہے۔ نوع انسانی کا شخص اکبر کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ وہ شخص اکبر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔۔نوع انسانی کی تمام زندگی شخص اکبر سے متحرک ہے۔

حیوانات کی ہر نوع کا ایک شخص اکبر بھی وہاں موجود ہے اور ہر نوع کے ہر فرد کا اپنے اپنے شخص اکبر سے تعلق ہے۔ یہ تعلق فرشتوں کے Inspirationکے ذریعے قائم ہے۔ جس طرح زمین کا ہر ذرہ کشش ثقل میں بندھا ہوا ہے۔

رضوان۔ جنت کے منتظمین فرشتے:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ فرشتے جو عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور وہ فرشتے جو اس کے ارد گرد ہیں وہ سب اللہ کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور اللہ کا حکم ماننے کے لئے اپنے آپ کو ہر دم تیار رکھتے ہیں اور ایمان والے لوگوں کیلئے دعا مانگتے ہیں۔

’’اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر ایک چیز پر حاوی ہے ان لوگوں کو جو تیری طرف متوجہ ہوئے اور تیرے راستے پر چلے، ان کی غلطیاں بخش دے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ کر دے۔ اے ہمارے پروردگار انہیں ان باغوں میں داخل کر جن میں وہ ہمیشہ رہیں جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ اور ان کے ساتھ ان کے باپ دادا کو، بیویوں کو اور بچوں کو بھی ہمیشگی کے باغوں میں داخل کر تو بہت عزت دینے والا اور دانائی بخشنے والا ہے۔ کم از کم یہ کہ انہیں تکلیف سے بچا۔ واقعی اس روز جو تکلیف سے بچ گیا اس پر تیری بڑی رحمت ہے اور پوری کامیابی ہے۔‘‘

(سورۂ مومن: آیت نمبر۷ تا ۹)

حکم حاکم اعلیٰ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

’’جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم دیتے ہیں تو فرشتے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں پروں کے پھڑپھڑانے سے ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے پتھر پہ زنجیر کھینچنے سے ہوتی ہے پھر نیچے کے فرشتے اوپر والے بڑے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کیا حکم ملا ہے، اوپر والے فرشتے کہتے ہیں جو حکم بھی دیا گیا ہے وہ سچ ہے اللہ تعالیٰ بہت بلند اور بڑا ہے اور اس کے بعد وہ تفصیل بتا دیتے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ کوئی نیا حکم دیتے ہیں تو وہ فرشتے جو عرش کو تھامے ہوئے ہیں سبحان اللہ کہتے ہیں یہاں تک کہ زمین کے قریب آسمان تک تسبیح پہنچ جاتی ہے اس کے بعد حاملین عرش کے قریب رہنے والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے تو وہ انہیں اللہ کے حکم سے آگاہ کر دیتے ہیں اس طرح نیچے کے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ آسمان دنیا تک یہ حکم پہنچ جاتا ہے۔

اللہ کا ہاتھ رسول اللہ کی پشت پر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

ایک روز کچھ رات گزری تھی کہ میں اٹھا وضو کیا اور جس قدر مجھے وقت میسر آیا میں نے صلوٰۃ قائم کی۔ صلوٰۃ میں ہی مجھے اونگھ آ گئی میں نے دیکھا میرا پروردگار نہایت اچھی شکل میں میرے سامنے ہے مجھ سے فرمایا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ میں نے عرض کیا اے پروردگار میں حاضر ہوں۔

پوچھا ملاء اعلیٰ کس بات پربحث کر رہے ہیں؟

میں نے عرض کیا! میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اور میں نے تینوں دفعہ یہی جواب دیا۔ پھر میں نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک میرے سینے میں محسوس ہوئی، اب مجھ پر سب چیزیں روشن ہو گئیں۔ اور میں سب کچھ سمجھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے پکارا۔

اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ میں نے عرض کیا۔ لبیک، میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا۔ ملاء اعلیٰ کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟

میں نے عرض کیا! کفارات پر بحث ہو رہی ہے۔

پوچھا! کفارات کیا چیز ہیں؟

میں نے عرض کیا! جماعت کی طرف پیدل چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور تکلیف کے باوجود وضو کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس بات پر بحث ہو رہی ہے؟

میں نے عرض کیا! درجے حاصل کرنے والی چیزوں پر۔

فرمایا! وہ کیا ہیں؟

میں نے عرض کیا!

بلا شرط کھانا کھلانا۔ (یعنی مسکین اور محتاج ہونے کی شرط نہ ہو) بلکہ ہر ایک کو کھانے کی عام اجازت ہو۔ اس لئے کہ بعض غیرت والے لوگ محتاجوں کے زمرے میں آنا پسند نہیں کرتے اور ہر ایک انسان سے نرم بات کرنا اور راتوں کو ایسے وقتوں میں صلوٰۃ قائم کرنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔

اللہ جب پیار کرتا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے پیار کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر اس سے کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کر۔

چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس سے پیار کرتے ہیں پھر آسمانوں میں منادی ہو جاتی ہے کہ فلاں شخص سے اللہ پیار کرتا ہے تم سب بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں پھر زمین پر اسے مقبول عام بنا دیا جاتا ہے۔

ایسے ہی جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو ناپسند کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص کو پسند نہیں کرتا چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اسے پسند نہیں کرتے پھر آسمانوں میں منادی کرا دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو پسند نہیں کرتا پھر وہ سب فرشتے اسے ناپسند کرتے ہیں۔

اس کے بعد زمین پر موجود مخلوق بھی اسے ناپسند کرتی ہے اور وہ دنیا میں ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ہر روز انسان جب صبح کے وقت اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے یا اللہ! اچھی جگہ خرچ کرنے والوں کو اور نعمتیں عطا کر دے۔

دوسرا فرشتہ کہتا ہے! اے اللہ دولت کو ذخیرہ کرنے والوں کو ہلاک کر دے۔ مقرب فرشتے اللہ کے حضور حاضر رہتے ہیں وہ ہر اچھے آدمی کیلئے دعا کرتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ کرنے والے لوگوں پر لعنت کرتے ہیں۔

فرشتے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان پیغام پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں اور بندے جو کام کرتے ہیں اس کی رپورٹ اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ یہ فرشتے دلوں میں نیک کام کرنے کا خیال Inspireکرتے ہیں۔جب فرشتے انسانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو طبیعت میں اچھے  کام  کرنے کے رحجانات پیدا ہوتے ہیں ۔ فرشتے ٹکڑیوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور ٹکڑیوں کی شکل میں اڑتے پھرتے ہیں۔آپس میں گفتگو بھی کرتے ہیں ۔ فرشتوں کی ٹکڑیوں میں نیک انسانوں کی روحیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اے اطمینان والی روح تو راضی اور خوش ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو پھر میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا۔

ملاء اعلیٰ کا مقام وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوتا ہے۔


Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے