Topics
اسرار
محبت کا ہر دل نہ بود قابل
درنیت
بہ ہر دریا زرنیت بہ ہر کان
مومن کا دل گنجینہ اسرار
مصارف ربانیہ ہے۔ یہی وہ امانت ہے جس کے پہاڑ اور آسمان متحمل نہ ہو سکے۔ سینہ
مومن چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور آسمان سے زیادہ وسیع ہے۔ جو اللہ کی ا مانت کا
بوجھ اٹھا کر اس کے اسرار کا رہن بن جاتا ہے۔ رموز خداوندی کا مرکز دل ہے۔ اور دل
خانہ محبت ہے۔ جس میں محبوب بستا ہے۔ جمال یار کے انوار خانۂ دل سے منتشر ہو کر
دنیا کے تاریک گوشوں کو منور کرتے رہتے ہیں۔ ایک بندہ مومن سراجاً منیرا بن کر
احدیت کے آسمان پر جگمگانے لگتا ہے۔ اور سارا عالم اس کی تجلیات سے بقعہ نور بن
جاتا ہے۔ اسی سراجاً منیرا کا عکس اولیاء اللہ کی نورانی ہستیاں ہیں۔ جو آسمان
دنیا پر شمس و قمر بن کر جلوہ افروز ہوتی رہتی ہیں۔ جن کے حکم سے ہوا ؤں کے رخ بدل
جاتے ہیں۔ جن کی نگاہوں سے دلوں کے بند قفل کھل جاتے ہیں۔ جو موت کو اسی طرح دوست
رکھتے ہیں۔ جس طرح دنیا دار اپنی زندگی کو عزیز رکھتے ہیں۔
عام طور سے لوگوں میں
روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ
انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں
پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا
ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن
راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے
ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر
کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں
آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس
کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔
آنجناب میاں مشتاق احمد
عظیمی کی یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ ان کا اس کتاب میں بہت سے اولیاء کے واقعات کو
اکٹھا کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ ان قصوں کی گہرائی میں ان کے قول ارشادات اور
روحانی صلاحیتوں پر خاص توجہ کریں۔ اور ان کے ذریعے سے اپنے اندر مخفی روحانی
صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں و ما تو فیضی الا باللہ
حضرت
سعیدہ خاتون عظیمی
مانچسٹر،
انگلینڈ
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔