Topics

حضرت میاں میر لاہوری قادری

حالات زندگی

ولادت……بمقام سیوان (سندھ) ۷۵۹ھ

وفات……بمقام لاہور(پنجاب) ۵۴۰۱ھ

                حضرت میاں میر کا اصل نام میر محمد تھا۔ بعض تذکروں میں آپ کا نام شیخ محمد بتایا گیا ہے۔ آپ ۷۵۹ھ میں سندھ کے ایک قدیم شہر سیوان شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ قاضیوں کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان اپنے دور میں علم و فضل کے لحاظ سے بہت ممتاز تھے۔ آپ کے والد صاحب کا نام سائیں دتہ اور دادا جان کا نام قاضی قلندر فاروقی تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی فاطمہ، قاضی قارن کی دختر نیک تھیں۔ حضرت میاں میر کا سلسلہ نسب حضرت عمرؓ تک پہنچتا ہے۔ اس لئے آپ فاروقی بھی کہلاتے ہیں۔

                آپ کی عمر جب سات سال کی ہوئی تو اس وقت آپ کے والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چونکہ آپ کے خاندان میں علم و فضل کا چرچا تھا۔ اس لئے آپ کی والدہ ماجدہ نے سلسلہ قادریہ میں آپ کو تعلیم دلائی اور اچھی طرح تربیت دی۔ سن بلوغ کو پہنچنے تک علم و عرفان کی کئی منزلیں طے کر لیں۔ والدہ ماجدہ بھی اس دنیا سے جلد داغ مفارقت دے گئیں۔ چار بھائی اور بہنیں تھیں۔ ان کے بھائیوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ میاں قاضی، قاضی عثمان، قاضی محمد، قاصر طاہر اور بہنوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ بی بی باری اور بی بی جمال خاتون تھیں۔

                آپ قدیم طرز کے صوفی بزرگوں میں سے تھے۔ جو فنا فی اللہ ہوتے ہیں اور ہر وقت مجاہدہ اور ریاضت میں لگے رہتے تھے۔ دنیا سے الگ تھلگ گوشہ تنہائی میں بیٹھے رہتے۔ رفتہ رفتہ دنیا سے بالکل ہی کنارہ کر لیتے تھے۔ آپ شیخ خضر سہوستانی کے مرید ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور صوفی بزرگ تھے اور سہوان سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑ پر سکونت رکھتے تھے۔

                آپ پچیس سال کی عمر میں لاہور تشریف لائے اور ریاضت و عبادت اور تلقین و ہدایت شروع کی۔ اس وقت یہاں آپ کے پائے کا کوئی بزرگ موجود نہ تھا۔ آپ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر مصروف عبادت ہوتے تھے۔ اکثر بتایا جاتا ہے کہ چالیس سال تک کسی کو علم ہی نہ ہو سکا کہ اس پائے کا ایک بزرگ یہاں موجود ہے۔ جب اہل لاہور کو آپ کے متعلق علم ہوا تو ایک خلقت امڈ پڑی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ آ کر آپ کے حلقہ مریدین میں شامل ہو گئے۔

                عام لوگوں کے علاوہ درباری حلقوں میں بھی آپ کا بے حد احترام کیا جاتا تھا۔ بڑے امراء بھی آپ کے مرید تھے۔ بادشاہ اور شہزادے بھی آپ کے پاس آتے تھے۔ جہانگیر بادشاہ آپ کا حد سے زیادہ عقیدت مند تھا اور پھر شاہ جہاں کے علاوہ دارلشکوہ بھی آپ کا بڑا معتقد تھا۔ اس نے حضرت کے روحانی ذوق و شوق کو ترقی دینے کے لئے سب کچھ کیا۔ اس نے کمیت الاولیاء کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت میاں میر اور ان کے خلفاء کے حالات درج ہیں۔

روح پرور واقعات

                دارشکوہ جو شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ ایک دفعہ میں بیمار ہو گیا اور طبیب میرے علاج سے عاجز آ گئے۔ میری عمر اس وقت بیس سال تھی اور میرے والد صاحب (شاہ جہان) مجھے حضرت میاں میر کے پاس لے گئے اور ان سے عرض کیا کہ حضرت میرا یہ سب سے بڑا لڑکا ہے۔ میرے تمام شاہی طبیبوں نے اس کے علاج سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ آپ صرف اپنی توجہ فرمائیں۔ حضرت میاں میر نے پیالے میں پانی لیا اور دم کر کے مجھے پینے کے لئے دیا۔ اسی ہفتے اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء بخش دی اور میں مکمل طور پر صحت مند ہو گیا۔

                دارشکوہ نے حضرت میاں میر اور ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کی (جو حضرت مجدد کے مرید تھے) ایک گفتگو کا ذکر کیا ہے جس سے خیال ہوتا ہے کہ حضرت میاں میر اور مجددیہ طریقہ کے بزرگوں میں اختلاف نمودار ہو رہے تھے۔ اس گفتگو کے وقت بادشاہ بھی موجود تھا اور حضرت میاں میر اسے خدا تک پہنچنے کے طریقے بتا رہے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ جب سالک پر عالم ملکوت کشف ہو جاتا ہے تو ہم اسے جنگلوں میں بھیج دیتے ہیں تا کہ وہ تنہائی میں یاد الٰہی کرے۔ اس پر مولانا عبدالحکیم نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو نماز باجماعت فوت ہوتی ہے۔ حضرت میاں میر نے اس کا مناسب جواب دیا لیکن اس اعتراض اور جواب سے بھی خیال ہوتا ہے کہ شرع کی غیر مکمل پابندی کی نسبت جو اعتراض مجددیوں کو قادریوں پر تھے اور جنہوں نے آگے چل کر دارشکوہ اور عالمگیر کی مخالفت کو چمکا دیا۔ وہ حضرت میاں میر کے زمانہ میں ہی رونما ہو چکے تھے۔

                آپ کے عقیدت مندوں میں ہر مذہب اور فرقے کے لوگ شامل تھے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ جب گوروارجن دیو نے امرتسر میں دربار صاحب کی بنیاد رکھنا چاہی تو پہلے لاہور آ کر حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی۔ چنانچہ آپ امرتسر گئے اور دربار صاحب کے سنگ بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھا۔ آپ نے ۷ ربیع الاول ۵۴۰۱ھ کو لاہور کے محلہ خان پور میں وفات پائی۔ آپ نے عمر بھر شادی نہ کی اس لئے کوئی اولاد نہ تھی۔

روحانی توجیہہ

                حضرت میاں میر لاہوری فرماتے ہیں کہ عالم وجدان میں سفر کرنے والا سب کچھ دیکھ لیتا ہے۔ اس قول کی روحانی توجیہہ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے اس طرح بیان فرمائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے کسی نہ کسی عقیدے کا پابند رہنا ضروری ہے۔ گرد و پیش کے حالات اور ماں باپ کی تربیت سے جس قسم کے عقائد بچے کے ذہن میں پرورش پا جاتے ہیں وہی بچے کا مذہب بن جاتا ہے۔ تمام نظریات کی بنیاد اسی اصول پر کارفرما ہے۔ اس کے بغیر تاثرات، واردات اور کیفیات کو عقیدے کے سلسلے میں کوئی جگہ نہیں ملتی۔ ہمارے تمام فلسفے اور تمام طبعی سائنس اسی کلیہ پر قائم ہیں لیکن ہم جب انسان کی ذہنی اور اندرونی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ذاتی اور باطنی واردات و کیفیات میں نمایاں فرق نظر آتا ہے اور ہم یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ زندگی کا بہت تھوڑا سا حصہ عقلیت کی گرفت میں آتا ہے۔ جو کچھ ہے سب بچپن میں سنی ہوئی، دیکھی ہوئی اور والدین سے ورثہ میں ملی ہوئی کیفیات کا ثمر ہے۔ ہم جب اسی مسئلہ کو منطقی انداز مین حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ عقل کا رعب اور وقار تو بہت ہے لیکن فی الواقع عقل بے بس ہے کیونکہ جہاں دلائل زیر بحث آتے ہیں وہاں محض الفاظ کے گورکھ دھندے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہم جب عقلی بنیادوں پر منطقی استدلال سے عقیدے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں مایوسی اور ناکامی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک زمانہ تھا کہ خدا کی ہستی کے ثبوت میں بہت کچھ لکھا گیا۔ بے شمار دلائل نظم و نثر میں جمع کئے گئے اور ایک پورا گروہ ان دلائل اور طرز فکر کو پھیلانے کی کوشش کرتا رہا لیکن جب انسانی شعور نے کروٹ بدلی اور صدیوں پرانے منطقی استدلال کو رد کیا تو وہ ساری تقریریں اور ساری تحریریں اور موٹی موٹی کتابیں طاق نسیاں ہو گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنے والی نسل کو مذہب کے بارے میں جو ثبوت چاہئے تھا وہ اسے نہیں ملا۔ نتیجہ میں مذہب پر سے ان کا اعتماد اٹھ گیا اور نوجوان نسل نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مذہب جس خدا کا تذکرہ کرتا ہے اگر خدا ہے تو ہمارا خدا ایسا نہیں ہے جس طرح ہمارے آبا ؤ اجداد سمجھتے تھے۔ مفکر جب فکر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ کوئی بندہ اپنے عقیدے کی وجہ بیان نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ وجہ بیان کرنے میں عقلی دلائل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

                ان سب کے باوجود رواں دواں زندگی میں ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ عقیدے کے بغیر کوئی فرد زندگی کو صحیح خدوخال پر قائم نہیں رکھ سکتا۔ عقیدے سے مراد عام طور سے یہ لی جاتی ہے کہ بندہ یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسی ماورائی ہستی موجود ہے جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کا نظام ہے۔ وہ جو چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے ہوتا رہتا ہے۔ بدعقیدگی یا عقیدہ کا نہ ہونا انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ سب اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے لیکن بہرحال عقیدہ ہو یا بے عقیدگی انسان اپنی ذات سے ہٹ کر اندر کی دنیا کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ بے عقیدہ ہونا بھی ایک عقیدہ ہے۔ کوئی شخص اگر خدا کی ہستی اور خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے تو ہم اس کو دہریہ کے عقیدہ کا حامل کہتے ہیں۔ جب تک مذہب اور خدا کے بارے میں ہمارے اندر فلسفی انداز اور منطقی استدلال موجود رہتا ہے ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے۔ اس لئے کہ ماورا ہستی کو سمجھنے کے لئے ماورائی شعور کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پس ثابت یہ ہوا کہ مذہب ماورائی ہستی اور صداقت کی اصل اساس ہمارا غیر شعوری عقیدہ اور وجدان ہے۔ جب ہم وجدان میں قدم بڑھا دیتے ہیں تو فطرت ہماری رہنمائی کرتی ہے اور عقل اس کی پیروی کرتی ہے۔ یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ جن لوگوں کے اوپر وجدان کی دنیا روشن ہو گئی ان لوگوں کے اندر خدا کے عدم وجود کے بارے میں خواہ کیسے بھی بلند دلائل پیش کئے گئے ان کے عقیدے میں ان کی طرز فکر میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔

                یہ حقیقت اس طرف رہنمائی کرتی ہے کہ وجدان ایک ایسا عالم ہے جس عالم میں ہر لمحہ، ہر آن حقیقتیں عکس ریز ہوتی رہتی ہیں۔ عالم وجدان میں سفر کرنے والا مسافر وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جو عقل کی پنہائیوں میں گم رہنے والا بندہ نہیں دیکھتا۔ انسانی جبلت اور فطرت کا موازنہ کیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جبلت بے قرار اور بے سکون رکھتی ہے اور فطرت میں انسان کے اوپر سکون اور راحت کی بارش برستی رہتی ہے، اس لئے کہ فطرت براہ راست خالق کائنات سے ہم رشتہ ہے اور تخلیق کرنے والی ہستی سراپا سکون اور رحمت ہے۔

                نسلی اعتبار سے ہمارے بچے جس مذہب کے پیروکار ہیں انہیں جب اس مذہب میں سکون نہیں ملتا تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ سکون ایک حقیقت ہے، ایسی حقیقت جس حقیقت کے ساتھ پوری کائنات بندھی ہوئی ہے۔ حقیقت فکشن نہیں ہوتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بندے کے اندر وہ کون سی طاقت ہے جو ٹوٹ پھوٹ، گھٹنے بڑھنے اور فنا ہونے سے محفوظ ہے۔ وہ طاقت، وہ ہستی ہر بندے کی اس کی اپنی روح ہے۔ نسلی اعتبار سے اگر ہم اپنے بچوں کو ان کے اندر موجود روح سے آشنا کر دیں تو وہ خدا کے دوست بن جائیں گے۔ خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔ زندگی کی ذہنی، جسمانی اور روحانی تمام مسرتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں۔

اقوال و ارشادات

                آپ فرماتے ہیں:

۱۔            اللہ تعالیٰ کی یاد میں اگر نیند اور ترک دنیا کرنی پڑے تو کر دینی چاہئے۔

۲۔           زبان سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اور اس سے غافل نہ ہو۔

۳۔           عالم وجدان میں سفر کرنے والا سب کچھ دیکھ لیتا ہے۔

۴۔           درویشوں سے ہمیشہ محبت کرنی چاہئے۔

۵۔           جاہ و مال کو ہمیشہ ترک کرے اللہ کے ساتھ رابطہ کرو۔


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔