Topics
ولادت…… بمقام بغداد
وفات……بمقام بغداد ۷۹۲ھ
آپ کی کنیت ابوالقاسم
تھی۔ آپ کے والد ماجد محمد بن جنید آبگینہ فروش تھے۔ مذہب طریقت میں آپ حضرت ستیان
ثوری کے متبع تھے۔ حضرت سی مقطی کے رشتے میں بھانجے بھی تھے اور مرید بھی۔
آپ قطبِ وقت، منبعٔ
اسرار، مرقعِ انوار، سلطانِ طریقت، بادشاہِ حقیقت تھے۔ انواع عالم و فنون میں کامل
دستگاہ رکھتے اور معاملات و ریاضات میں مفتی کامل تھے۔ حکمات لطیف اور اشارات عالی
میں سب پر سبقت رکھتے تھے۔ سب کا آپ کی امامت پر اتفاق ہے۔ سید الطائفہ آپ کا لقب
اور مقتدہ سے اہل تصوف ہیں۔ شریعت طریقت اور حقیقت میں انتہا پر پہنچے ہوئے تھے۔
عشق و زہد میں بے نظیر تھے اور مجتہد کا درجہ رکھتے تھے۔ اپنے وقت کے تمام مشائخ
کے مرجع تھے۔ آپ کی تصانیف بے شمار ہیں۔ علم اشارات سب سے پہلے آپ ہی نے پھیلایا۔
بار بار دشمنوں اور حاسد لوگوں نے آپ پر کفر اور زندقہ کا فتویٰ لگایا۔ آپ کا درجہ
اپنے مرشد سے بھی بڑھ کر تھا۔ جس کا اعتراف خود سری مقطی نے بارہا فرمایا۔
ایک دن کی بات ہے کہ کسی
نے حضرت سری مقطی سے دریافت کیا۔ کیا ایسا بھی ہے کہ کوئی مرید درجے میں اپنے پیر
و مرشد سے سبقت لے جائے۔ فرمایا۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ جنید بغدادی مرتبہ میں
مجھ سے خائف ہے۔ خلیفہ بغداد نے ایک دفعہ ردیم کو بے ادب کہہ کر خطاب کیا۔ ردیم نے
اس کے رد میں کہا کہ میں کیسے بے ادب ہو سکتا ہوں، میرا نصف دن تو سدا الطائفہ
حضرت جنید بغدادی کی صحبت میں گزرتا ہے۔ میں بے ادبی کا کیسے ارتکاب کر سکتا ہوں۔
شیخ ابو جعفر حداد نے
فرمایا ہے کہ اگر عقل مرد ہوتی تو اس کی شکل و شباہت بالکل جنید جیسی ہوتی۔ حضرت
جنید پورے ۰۳
سال تک ایک پا ؤں پر کھڑے رہ کر ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے۔ یہاں تک کہ نماز
فجر کا وقت آ جاتا اور عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا فرماتے۔ آپ فرماتے تھے کہ تیس
سال تک اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید کی زبان میں گفتگو کی ہے اور کسی کو اس کا علم تک
بھی نہیں ہوا۔ نیز فرمایا ایک دن میرا دل پہلو سے غائب ہو گیا۔ میں نے خدا سے عرض
کیا یا اللہ میرا دل لوٹا دے۔ جواب ملا کہ ہم اپنے جنید کے پاس تیرا دل لے گئے تھے
کہ تو ہماری میت میں رہے تو پھر یہ کیوں مطالبہ کرتا ہے کہ تیرا دل ہمارے غیر سے
رشتہ جوڑے (جنید کی یاد کو خدا نے اپنی یاد قرار دیا ہے)۔
روایات میں آتا ہے کہ کسی
بزرگ نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا، اس عالم میں کہ آپ تشریف فرما ہیں اور حضرت
جنید خدمت میں حاضر ہیں۔ اس اثناء میں کسی شخص نے حاضر ہو کر فتویٰ طلب کیا۔
آنحضرت نے فرمایا کہ فتویٰ جنید سے لو۔ اس شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! آپ کی
موجودگی میں دوسرے سے فتویٰ کیوں لوں۔ ارشاد فرمایا کہ انبیاء کو جس طرح اپنی اپنی
امت پر ناز ہے مجھے اپنے جنید پر فخر ہے۔
ایک رات آپ تہجد کی نماز
کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے کہ یا الٰہی مجھے بتا دے کہ جنت میں میرا
ساتھی اور مصاحب کون ہو گا۔ غیب سے صدا آئی کہ فلاں جگہ جائیں وہاں پر آپ کو ایک
چرواہا ملے گا۔ وہ آپ کا جنت میں ساتھی ہو گا۔ حضرت جنید بغدادی صبح کو اس چرواہے
کی تلاش میں نکل پڑے۔ آخر کار اس کو مقررہ جگہ پر تلاش کر لیا۔ جب اس سے ملاقات ہو
گئی تو دو تین دن آپ اس کے ساتھ رہے۔ اس کا حال دیکھنے کے بعد حضرت جنید بغدادی
رحمتہ اللہ علیہ نے اس چرواہے سے دریافت کیا۔ بھائی میں نے دیکھا ہے کہ سوائے پانچ
وقت نماز پڑھنے کے تم ایسا کوئی کام نہیں کرتے جو اس قدر قبولیت کا باعث ہو۔ شاید
یہ بلند درجہ تمہیں تمہارے کسی باطنی عمل کی وجہ سے ملا ہے۔ چرواہا نے مسکرا کر
کہا۔ حضرت میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ معاملہ کس کو کہتے ہیں اور
باطن کیا ہوتا ہے۔ میں تو ایک سیدھا سادہ مسلمان ہوں۔ البتہ میرے اندر دو خصلتیں
ہیں ایک تو یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سب پہاڑوں کو سونے کا کر دے اور انہیں میرے
قبضے میں دیدے اور پھر یہ سب میرے ہاتھ سے جاتے رہیں تو مجھ کو ان کے چلے جانے کا
کوئی رنج و غم نہ ہو گا۔ دوسری یہ کہ کوئی میرے ساتھ وفا کرے یا جفا میں اس سے
کوئی اثر قبول نہیں کرتا کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف
سے ہو رہا ہے۔ بندہ بیچارہ تو صرف ایک ظاہری سبب ہے۔ حضرت میں نے اپنا کام اپنے
محبوب رب کے حوالہ کر دیا ہے۔ خواہ وہ مجھے زندہ رکھے یا مار ڈالے۔ اس کی مرضی پر
راضی ہوں۔ چرواہے کا یہ جواب سن کر حضرت جنید بغدادی کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ شخص
جنت میں میرا کیوں ساتھی بنایا گیا ہے۔
خلیفہ وقت کی خوشنودی
حاصل کرنے کے لئے درباری ہمیشہ حضرت کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے اور خلیفہ کے
رُوبرُو حضرت کی کرامات کو کرشمہ سازی اور عوام کی گرویدگی کو حکومت کے خلاف
بتلاتے تھے۔ خلیفہ کو بھی تشویش ہوئی اور اس نے حضرت کی آزمائش کے لئے ایک ترکیب
سوچی۔ اپنی ایک منتخب حسین و جمیل کنیز سے کہا جو حسن و جمال اور علم و فضل میں
یگانہ روزگار تھی کہ وہ بہترین لباس اور زیورات سے آراستہ ہو کر حضرت کے پاس جائے
اور بے نقاب ہو کر ان کے قدموں پر سر رکھ دے اور ان سے کہے کہ میرے پاس مال و دولت
کی کمی نہیں ہے مگر میرا دل دنیا سے بیزار ہو گیا ہے۔ اب میں آپ کی کنیز بن کر
رہنا چاہتی ہوں۔ مجھے اپنے قدموں میں جگہ دیجئے۔ اس طرح وہ حضرت جنید کو اپنی جانب
مائل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے۔ کنیز نے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور
ایک خدمت گار کے ہمراہ حضرت کے حجرے پر پہنچی تو حضرت کو یاد الٰہی میں مستغرق
پایا۔
خدمت گار نگاہوں سے اوجھل
کھڑا رہا۔ حضرت نے یہ معلوم کرنے کے لئے کون شخص حجرے میں داخل ہوا ہے۔ نگاہ اوپر
اٹھائی لیکن فوراً ہی ایک نوخیز مہ جبین کو دیکھ کر سر جھکا لیا اور آنکھیں بند کر
لیں۔ کنیز نے انتہائی شائستگی اور تہذیب کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا اور جب حضرت سے
اپنے عشق کا حال کہنا شروع کیا تو حضرت نے سر اٹھایا۔ دو مرتبہ آہ آہ زبان سے
فرمایا اور اس کنیز پر ایک نظر ڈالی وہ زمین پر گر پڑی اور فوراً اس کا دم نکل
گیا۔ خلیفہ کو خبر ہوئی تو بڑا پشیمان ہوا اور حاضر خدمت ہو کر عرض کیا۔ آپ نے
ایسی خوبصورت کنیز کو مار ڈالا۔ فرمایا۔ امیر المومنین کیا آپ مسلمانوں سے ایسا ہی
سلوک کرنا چاہتے تھے۔ آپ میری ۰۴
سالہ ریاضت تباہ کرنا چاہتے تھے۔ خلیفہ نے معافی چاہی اور آپ کی مقبولیت عام ہو
گئی۔
حضرت جنید بغدادی ایک روز
مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے آ کر عرض کیا۔ آپ کا وعظ شہر میں ہی کام
کرتا ہے یا جنگل میں بھی کوئی اثر دکھاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا بات ہے بتا ؤ۔ اس
شخص نے عرض کیا کہ چند اشخاص فلاں مقام پر جنگل میں راگ رنگ میں مصروف ہیں۔ شراب
کا دور چل رہا ہے۔ یہ سن کر آپ اسی وقت منہ پر کپڑا لپیٹ کر جنگل کی طرف چل دیئے۔
جب قریب پہنچے تو وہ لوگ بھاگنے لگے۔ آپ نے فرمایا۔ بھاگو موت۔ میں بھی تمہارا ہم
مشرب ہوں۔ اس واسطے آیا ہوں شہر میں تو ہم پی نہیں سکتے۔ لا ؤ کچھ ہو تو ہمیں بھی
پلا ؤ۔ ان لوگوں نے عرض کیا۔ حضرت ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ بھی پیا کرتے ہیں تو ہم
آپ کو ہمیشہ پلایا کرتے۔ افسوس اس وقت شراب بالکل نہین بچی۔ فرمایئے تو شہر سے
منگا دی جائے۔ آپ نے فرمایا۔ اس کی ضرورت نہیں۔ تمہیں کوئی ایسی بات معلوم نہیں کہ
شراب خود بخود آ جایا کرے……وہ بولے۔ یہ کمال تو ہم میں نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ آ ؤ
میں تم کو اس کی ترکیب بتاتا ہوں۔ اول تم سب لوگ نہا ؤ پھر کپڑے بدل کر میرے پاس آ
ؤ۔ آپ کی ہدایت کے مطابق سب نے غسل کیا، کپڑے دھوئے اور پاک صاف ہو کر آموجود
ہوئے۔ آپ نے فرمایا۔ تم سب لوگ دو رکعت نماز پڑھو۔ یہ سب لوگ جب نماز میں مشغول
ہوئے تو آپ نے خدا سے دعا کی یا اللہ میرا اتنا ہی اختیار تھا۔ آپ کے حضور میں
انہیں کھڑا کر دیا۔ آگے آپ کو اختیار ہے ان کے ساتھ جیسا سلوک کر۔ حق تبارک و
تعالیٰ کی رحمت سے وہ سب لوگ اپنے زمانے کے کامل ولی بن گئے۔
آپ ابتدائی دور میں فنون
سپہ گری اور پہلوانی میں شہ زور یکتائے روزگار اور دور دور تک مشہور تھے۔ ایک روز
ایک شخص نے بادشاہ سے عرض کیا کہ میں آپ کے پہلوان جنید سے لڑنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ
نے کہا۔ تم ان سے کیا مقابلہ کر سکتے ہو۔ ہمارا پہلوان بہت زبردست طاقتور آدمی ہے۔
تم دبلے پتلے آدمی ہو۔ تمہیں ان سے کیا نسبت۔ مگر وہ شخص نہ مانا اور برابر اصرار
کرتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کے حکم سے کشتی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ جس وقت یہ دونوں
پہلوان اکھاڑے میں اترے اور حضرت جنید نے اپنے مقابل کی گرفت کی تو اس شخص نے چپکے
سے حضرت جنید کے کان میں کہا کہ میں سید ہوں، محتاج ہوں، آپ کو اختیار ہے کشتی
شروع ہو گئی۔ حضرت جنید لڑتے لڑتے گر پڑے۔ شور و غل بپا ہو گیا۔ بادشاہ نے دوبارہ
سہ بارہ کشتی کرائی۔ دونوں مرتبہ حضرت جنید پھر پچھڑ گئے۔ بادشاہ نے اس شخص کو
انعام دے کر رخصت کیا اور حضرت جنید کو بلا کر پوچھا۔ سچ بتا ؤ کیا بات ہے۔ حضرت
جنید نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ بادشاہ بہت متعجب ہوا کہ آپ نے سید کی عزت کے
مقابلے میں اپنی ذلت گوارا کی۔ درحقیقت آپ بڑے پہلوان ہیں، بہادر ہیں۔ اسی شب حضور
سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب میں حضرت جنید سے فرمایا۔ شاباش جنید تو نے
ہماری اولاد کے ساتھ سلوک کیا ہم بھی تیرے ساتھ سلوک کریں گے۔ اگلے روز صبح ہی آپ
نے شاہی ملازمت ترک کر کے فقراء کی جستجو شروع کر دی۔ آخر اپنے ماموں حضرت سی مقطی
سے بیعت ہوئے اور بلند مرتبہ پر پہنچے۔
آپ فرماتے ہیں کہ اخلاص
میں نے ایک حجام سے سیکھا۔ مکہ معظمہ میں ایک حجام ایک شخص کے بال درست کر رہا
تھا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی راہ پر میرے بال درست کر دو۔ حجام نے اس آدمی کو
جس کی وہ حجامت بنا رہا تھا کہا کہ ذرا تم علیحدہ ہو جا ؤ۔ جب اللہ کا نام آ گیا
تو پھر سب سے پہلے اللہ کا کام کرنا چاہئے۔ پھر مجھ کو بٹھا کر پہلے میرے سر کو
بوسہ دیا پھر میری حجامت کر کے ایک کاغذ دیا۔ جس میں چاندی کے ٹکڑے تھے اور کہا اس
کو اپنی حاجتوں میں صرف کرو۔ اس دن سے میں نے عہد کیا کہ اول جو فتوح مجھے ہو گی
تو اسی حجام کو دوں گا۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد بصرہ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی میرے
پاس آئی۔ وہ تھیلی لے کر میں حجام کے پاس گیا۔ اس نے پوچھا۔ یہ کیا ہے۔ میں نے
اپنی نیت اور عہد کا ذکر کیا۔ اس نے کہا مرد خدا شرم نہیں آتی اللہ تعالیٰ کے نام
پر کام کرنے کے عوض مجھ کو معاوضہ دیتے ہو۔
حضرت شیخ جنید بغدادیؒ
فرماتے ہیں کہ ظاہر و باطن دکھ یا سکھ میں ہر طرح خدا کی رضا پر راضی رہنا چاہئے۔
اس قول کی روحانی توجیہہ
مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی اس طرح بیان کرتے ہیں:
عام مشاہدہ یہ ہے کہ سکھ
ہو یا چین، مصیبت ہو یا پریشانی، لڑکپن ہو یا جوانی، ہر چیز پر موت حاوی ہے۔ غور
کیا جائے تو زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات میں انسان سب سے زیادہ مظلوم اور
مصیبت زدہ ہے۔ موت جب اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے تو انسانی زندگی کی ساری
جدوجہد بے کار محض دکھائی دیتی ہے۔ انسان زندہ رہتا ہے اور زندگی میں اتنے دکھ
جھیلتا ہے کہ جب دکھ اور سکھ کے اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں تو ساری زندگی
دکھوں کا ایک لا متناہی سلسلہ نظر آتی ہے۔ آدمی برہنہ پیدا ہوتا ہے اور برہنہ چلا
جاتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے آیا، کیوں آیا اور کہاں چلا گیا۔
خبر متواتر ہمیں بتاتی ہے کہ انسان عدم سے وجود میں آیا اور پھر عدم میں چلا گیا
یعنی انسان کی تمام جدوجہد ہر قسم کی کوشش، زندہ رہنے والی تگ و دو سب عدم ہے۔
زندگی ایک پروگرام کے تحت آدم زاد کو وسائل اور خورد و نوش کے ساتھ متحرک رکھتی
ہے۔ آدم زاد جانوروں کو کھلا پلا کر موٹا تازہ کرتا ہے اور ذبح کر کے کھا جاتا ہے۔
جس طرح آدم زاد جانوروں کو کھاتا ہے اسی طرح موت آدم زاد کو کھا لیتی ہے۔
زندگی سے مردانہ وار لڑ
کر فتح یاب ہونے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان جدوجہد اور کوشش کی حقیقت
سے واقف ہو جائے۔ واقفیت یہ ہے کہ زندگی ایک روٹین
(Routine) میں گزار دی جائے۔ روٹین یہ ہے کہ ہم سانس
لیتے ہیں۔ لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم سانس لے رہے ہیں۔ پلک جھپکتی رہتی ہے
لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ پلک جھپک رہی ہے۔
حقیقی طرز فکر یہ ہے کہ
کسی سے توقع نہ رکھی جائے اس لئے کہ جو بندہ کسی سے توقع نہیں رکھتا وہ ناامید بھی
نہیں ہوتا۔ امیدیں توازن کے ساتھ کم سے کم رکھنی چاہئیں اور ایسی ہونی چاہئیں جو
آسانی کے ساتھ پوری ہوتی رہیں۔
آسمانی کتابوں کے مطابق
سکون حاصل کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ انسان غصہ نہ کرے اور کسی بات پر پیچ و تاب
نہ کھائے۔ عملی جدوجہد میں کوتاہی نہ برتے اور نتیجہ کے اوپر نظر نہ رکھے۔ زمین پر
بسنے والی نوعیں زندگی کے جن اصولوں پر کاربند ہیں ان کا مطالعہ کرے۔
عارضی(Fiction) زندگی کی اکائیوں کو یک
جا کر لیا جائے تو شہادت فراہم ہوتی ہے:
قانون فطرت میں کہیں جھول
نہیں ہے۔ ہر چیز وقت کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ وقت جس طرح چابی دیتا ہے
شئے حرکت میں آ جاتی ہے۔ وقت اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے تو چابی کھلونے میں ختم ہو
جاتی ہے۔ کل پرزے سب ہوتے ہیں لیکن قوت (Energy) باقی
نہیں رہتی۔ وقت (Time) قوت
کا مظاہرہ ہے۔ قوت ایک توانائی ہے۔ ایک مرکز ہے اور اسی مرکز کو آسمانی کتابیں
قدرت کے نام سے متعارف کراتی ہیں۔ قدرت قائم بالذات ہے۔ ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے جس
نقطہ کے ساتھ پوری کائنات کے افراد بندھے ہوئے ہیں۔ وجود اور عدم وجود دونوں اس
میں گم ہیں۔
انسان جب اس مرکزی نقطہ
سے اپنا رشتہ تلاش کر لیتا ہے تو دنیا (Fiction) سے
اس کی ساری توقعات ختم ہو جاتی ہیں اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو مسرتیں اس کے گرد
طواف کرتی ہیں۔ اور موت کی آنکھ اسے مامتا کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔ اس کے قریب آنے
سے پہلے دستک دیتی ہے اور اجازت کی طلب گار ہوتی ہے۔
۱۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب تک ایک ہاتھ سے قرآن اور دوسرے سے سنت
رسولﷺ نہ پکڑ لو اس راستہ پر نہ چلو تا کہ نہ شبہات کے گڑھوں میں گرد اور نہ بدعت
کی تاریکی میں مبتلا ہو سکو۔
۲۔ قیل و قال اور جنگ و پکار سے یہ درجہ مجھ کو نہیں ملا بلکہ
بھوک پیاس نیند اور ترک دنیا سے ملا ہے۔
۳۔ انسان کا سینہ خدا تعالیٰ کا حرم خاص ہے۔ اس میں اس کے سوا
کسی اور کو جگہ نہ دو۔
۴۔ عالم لوگوں کا علم دو حرفوں میں ہے تصحیحِ ملت اور تحریرِ
خدمت۔
۵۔ جس کی زندگی نفس سے ہے اس کی موت جان نکلنے سے ہے مگر جس کی
زندگی خدا تعالیٰ سے ہے۔ وہ طبعی زندگی سے اصلی زندگی کی طرف انتقال کرتا ہے۔
۶۔ جو آنکھ حق تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کو نہ دیکھے۔ اس کا
اندھا ہونا بہتر ہے اور جو زبان ذکر حق میں مصروف نہ ہو اس کا گونگا ہونا اچھا ہے
اور جو کان حق بات نہ سنے اس کا بہرہ ہونا اچھا ہے اور جو بدن اس کی خدمت نہ کرے
اس کا مر جانا بہتر ہے۔
۷۔ جس شخص نے اپنے عمل پر اعتبار کیا۔ اس کا پا ؤں ڈگمگا جاتا
ہے جس نے اپنے مال پر بھروسہ کیا وہ نقصان میں پڑ گیا۔ جس نے خدا پر بھروسہ کیا وہ
عزت اور بزرگی والا بن گیا۔
۸۔ ایک بار لوگوں نے سوال کیا۔ مراقبہ اور حیا میں کیا فرق ہے؟
فرمایا۔ مراقبہ غائب کا انتظار ہے اور حیا حاضر سے ندامت کا نام ہے۔
۹۔ ظاہر و باطن میں ہر طرح خدا کی رضا پر راضی رہنا۔
۰۱۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوری محبت کے ساتھ اقتداء کرنا۔
۱۱۔ فتوت یہ ہے کہ درویشوں کا امتحان نہ لیا جائے اور اسیروں سے جھگڑا نہ کیا
جائے۔
۲۱۔ جوانمردی یہ ہے کہ اپنا بوجھ دوسرے پر نہ رکھو اور جو کچھ پاس ہو اس کو خرچ کر
دو۔
۳۱۔ تواضع یہ ہے کہ جہاں والوں پر تکبر نہ کرو اور حق تعالیٰ پر مطمئن رہ کر سب سے
مستثنیٰ ہو جا ؤ۔
۴۱۔ نیک عادت فاسق کی صحبت، بدخو عالم کی صحبت سے اچھی ہے۔
۵۱۔ روزہ نصف طریقت ہے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔