Topics

حضرت ذوالنون مصری

حالات زندگی

ولادت……بمقام بصرہ

وفات……۰۴۲ھ بمقام مصر

                آپ کا اسم گرامی ثوبان بن ابراہیم ہے اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ کی ذات بابرکات پیشوائے اہل ہدایت تھی۔ اولیاء اللہ آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے۔ درویش کامل اور ریاضیات و کرامات کے عامل تھے۔ اہل مصر آپ کو زندیق کے لقب سے پکارتے تھے۔ مگر بعض لوگ آپ کی کرامات پر متحیر بھی ہوا کرتے تھے۔ روایات میں آیا ہے کہ چالیس سال تک رات دن کے مشاغل کا یہ عالم رہا ہے کہ آپ نے دیوار تک کا سہارا نہیں لیا۔ دو زانو بیٹھے رہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نشست بھی اختیار نہیں کی۔ آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ اتنی ریاضت اور محنت شاقہ کیوں کرتے ہیں۔ فرمایا کہ مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میں خدا کے حضور بندوں کی طرح نہ بیٹھوں۔ آپ کا شمار حضرت امام مالک کے شاگردوں میں ہوتا ہے اور حضرت اسرافیل کے مریدوں میں سے تھے۔ آپ بلند پایہ شیوخ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ عارف باکمال تھے۔ جب تک آپ زندہ رہے، اپنے آپ کو کچھ اس انداز میں مخفی رکھا کہ کسی پر آپ کے مقام کا راز نہ کھل سکا۔ کشف و کرامات میں آپ کی شہرت اتنی تھی کہ احاطہ بیان میں نہیں آ سکتی۔

                آپ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال تک لوگوں کو دعوت حق دی مگر اس عرصہ میں بس ایک شخص جیسا کہ چاہئے تھا، ملا۔ وہ ایک شہزادہ تھا جو شان و شوکت کے ساتھ میری مسجد کے نزدیک سے گزرا۔ میں اس وقت یہ کہہ رہا تھا کہ اس کمزور آدمی سے بڑھ کر اور کوئی شخص احمق نہیں ہے۔ جو ایک طاقتور کے ساتھ لڑتا ہے۔ یہ بات سن کر شہزادہ مسجد کے اندر آ گیا اور پوچھنے لگا اس کا مطلب کیا ہے۔ میں نے کہا انسان محض ایک کمزور شئے ہے جو خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ برسر جنگ ہے۔

                ان الفاظ کے سنتے ہی شہزادے کا رنگ فق ہو گیا اور مسجد سے نکل کر چلا گیا۔ دوسرے دن پھر آیا اور مجھ سے خدا کا راستہ پوچھا۔ میں نے کہا۔ ایک راستہ لمبا ہے اور ایک چھوٹا۔ اگر چھوٹے راستے سے جانا چاہتے ہو تو دنیا ترک کر دو۔ گناہ چھوڑ دو اور خواہشات نفسانی کو ترک کر دو۔ اگر لمبے راستے سے خدا تک پہنچنا چاہتے ہو تو سوائے ذات باری تعالیٰ کے اور سب کچھ ترک کر دو۔ شہزادے نے کہا۔ لمبا اور طویل راستہ اختیار کرتا ہوں۔

                دوسرے دن وہ پشمینہ پہن کر آیا اور ریاضت میں مشغول ہو گیا اور آخر کار ابدال کے مرتبے کو پہنچا۔

                آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی میں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا تو مجھ سے خدا کی نافرمانی کا جرم ضرور سرزد ہوا یا کم سے کم اس کی نافرمانی کا قصد میں نے ضرور کیا۔ جب آپ نماز میں مشغول ہوتے تو عرض کرتے خدایا کن پیروں سے تیری بارگاہ میں حاضری دوں۔ ایسی زبان کہاں سے لا ؤں جو تیرا راز بیان کرے۔ ایسی آنکھ کہاں سے حاصل کروں جو تیرے قبلہ کا نظارہ کر سکے۔ کس زبان سے تیرا نام لوں۔ خدایا میں بے سرو سامانی کے عالم میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ راہ راست پر ہے جس کے دل میں خوفِ خدا ہے۔ جب خدا کا ڈر ہی دل سے جاتا رہا تو پھر راستے سے قدم ہٹ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ درویش کی شان یہ ہے کہ وہ کسی کے بدل جانے سے اپنے اندر تبدیلی نہیں آنے دیتا۔ آپ نے فرمایا اس پیٹ میں معرفت ہرگز نہیں ٹھہرتی جو ہر وقت کھانے سے بھرا رہے۔

                آپ نے فرمایا عوام گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور خواص غفلت سے آپ نے فرمایا کہ خدا کی محبت کی علامت اور اس کا نشان یہ ہے کہ خدا کے حبیب کی اتباع، اخلاق و افعال اور اوامرونواہی میں کرتا رہے۔

                ایک بار کسی سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار کون ہے۔ فرمایا کہ جو اپنی زبان پر قابو رکھے۔ کسی نے پوچھا کہ توکل کی شناخت کیا ہے۔ فرمایا مخلوقات سے طمع نہ رکھی جائے۔ دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ مغموم کون رہتا ہے۔ فرمایا وہ جس کی عادت میں نصیحتیں اور اخلاق میں کوتاہی ہو۔ آپ سے ایک بار دریافت کیا گیا کہ دنیا کسے کہتے ہیں۔ فرمایا کہ جو تجھے خدا سے غافل کر دے وہی تیری دنیا ہے۔ پوچھا گیا کہ کمینہ کسے کہتے ہیں۔ فرمایا جو خدا کی راہ نہ پہنچائے اور نہ کسی دوسرے سے دریافت کرے۔ ایک بار کسی نے پوچھا تو آپ نے فرمایا۔ اے مریدو علماء سے ملو تو جاہل بنے رہو یعنی اپنی اسرار ان پر ظاہر نہ ہونے دو۔ زاہد سے ملو تو رغبت و میلان کا اظہار کرو تا کہ تمہیں اپنی جانب راغب دیکھ کر اپنی عبادت سے تم کو بہرہ مند کریں۔ اہل معرفت کے حضور میں خاموشی بہتر ہے۔ عارف سے زیادہ بول چال درست نہیں ہے۔

روح پرور واقعات

                ایک مرتبہ جب آپ ملک شام تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا گزر ایک سرسبز و شاداب باغ سے ہوا آپ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سیب کے درخت کے نیچے ایک نوجوان عبادت الٰہی میں مصروف ہے۔ آپ نے آگے بڑھ کر نوجوان کو سلام کیا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ذرا دیر بعد آپ نے دوبارہ السلام علیکم کہا۔ اس پر نوجوان نے عبادت سے جلدی فراغت حاصل کر لی اور زمین پر انگلی سے ایک شعر لکھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ زبان کو بولنے سے اس لئے روکا گیا ہے کیونکہ وہ طرح طرح کی غلطیوں کی مرتکب ہوتی ہے۔ اس لئے تمہیں لازم ہے کہ جب زبان کو زحمت دو تو خدا کا ہی ذکر کرو۔ اسے کسی وقت نہ بھولو اور ہر حالت میں اس کی تعریف کرتے رہو۔

                حضرت ذوالنون مصری نے جب یہ شعر پڑھا تو اسی وقت رقت طاری ہوئی کہ بہت دیر تک روتے رہے پھر حضرت نے بھی جواب میں زمین کے اوپر یہ شعور تحریر فرمایا:

                ہر لکھنے والا ایک روز قبر میں خاک ہو جائے گا مگر اس کی تحریر ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس لئے لازم ہے کہ ایسی چیزوں کے سوا جس کے لکھنے سے حشر کے روز مسرت و انبساط حاصل ہو اور کچھ نہ لکھا جائے۔ جب اس نوجوان نے یہ تحریر پڑھی تو ایک چیخ بلند کی اور وہیں واصل بحق ہو گیا۔ آپ نے چاہا کہ اس نوجوان کو غسل دے کر دفن کر دیں کہ یکایک ایک آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی پکار کر کہہ رہا ہو۔ ذوالنون! اسے چھوڑ دو۔ حق تعالیٰ نے اس نوجوان سے وعدہ فرمایا ہے کہ تجہیز و تکفین کے فرائض انجام دینے کی سعادت فرشتوں کے سپرد کر دی گئی ہے۔ یہ سن کر حضرت ذوالنون علیحدہ ہو گئے اور ایک درخت کے نیچے نماز کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے اور دوبارہ اس جگہ تشریف لے گئے جہاں نوجوان کی میت پڑی تھی تو دیکھا وہاں میت کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ ہی اس کی کچھ خبر ہوئی۔

                ایک مرتبہ حضرت ذوالنون کی خدمت میں ایک لڑکا حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا حضرت مجھے اپنے والد کی رحلت کے بعد ترکہ میں ایک لاکھ دینار ملے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ وہ سب آپ کی خدمت میں صرف کر دوں۔ حضرت نے لڑکے سے دریافت فرمایا کہ کیا تو بالغ ہے۔ لڑکے نے جواب دیا۔ نہیں میں ابھی بالغ نہیں ہوں۔ حضرت نے لڑکے سے فرمایا کہ جب تک تم سن بلوغ کو نہیں پہنچ جاتے، اس وقت تک ان دیناروں کو خرچ نہیں کر سکتے۔ جب وہ لڑکا بالغ ہو گیا۔ تو اس نے حضرت کے ہاتھ بیعت کی اور اپنے تمام دینار درویشوں پر صرف کر دیئے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا اور اس کے دل میں خدمت کا جذبہ ہنوز موجود تھا۔ ایک روز وہ لڑکا درویشوں کے پاس آیا۔ دریشوں کو کچھ چیزوں کی ضرورت تھی اور اس کے لئے کچھ رقم درکار تھی۔ اس پر اس نوجوان نے ایک سرد آہ بھری اور کہا کاش میرے پاس ایک لاکھ دینار اور ہوتے تو میں وہ بھی ان درویشوں پر خرچ کر ڈالتا۔ اتفاق سے حضرت کا ادھر سے گزر ہوا۔ اور یہ بات حضرت کے کانوں میں پڑ گئی۔ حضرت نے دل میں خیال کیا کہ ابھی یہ حقیقت کار کو نہیں پہنچا ہے۔ حضرت نے اس نوجوان کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ فلاں عطار کی دکان پر جا ؤ اور میری طرف سے کہو کہ تین درہم کے عوض مجھے فلاں دوا دے دو۔ وہ جوان حکم کی تعمیل میں اسی وقت عطار کی دکان پر گیا اور حضرت کا مجوزہ نسخہ لے آیا حضرت نے نوجوان سے فرمایا کہ اس دوا کو ہاون دستہ میں ڈال دو اور خوب باریک کرو اور جب باریک ہو جائے تو اس میں روغن حل کر کے اس کی تین گولیاں بنا ڈالو۔ اور پھر ہر گولی میں سوئی سے سوراخ کر کے میرے پاس لے آ ؤ۔ نوجوان حضرت کی ہدایت کے مطابق گولیاں تیار کر کے لے آیا۔ آپ نے انہیں ہاتھوں میں سے لے کر ملا اور کچھ دم کیا تو یاقوت کے تین ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس نوجوان نے آج تک ایسے یاقوت نہیں دیکھے تھے۔ حضرت نے اس سے فرمایا۔ اب انہیں بازار لے جا ؤ اور ان کی قیمت دریافت کرو۔ لیکن یاد رہے کہ اسے فروخت نہ کرنا۔ وہ نوجوان تینوں ٹکڑوں کو لے کر بازار گیا اور ایک جوہری کی دکان پر جا کر اس نے ان کی قیمت دریافت کی جوہری نے ہر دانہ کی قیمت ایک لاکھ دینار بتائی۔ وہ نوجوان واپس حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے فرمایا کہ ان تینوں ٹکڑوں کو ہاون دستہ میں ڈال دو اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دو اور پھر پائی میں ڈال دو پھر حضرت نے فرمایا کہ یہ درویش روٹی کے بھوکے نہیں بلکہ ان کی یہ حالت ان کی خود اختیار کردہ ہے۔ یہ اللہ کے فقیر ہیں، دنیا کے فقیر نہیں ہیں۔

                حضرت ذوالنون مصری سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض اصحاب کو موت کے بعد خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے کیا کیاکہا۔ ان لوگوں نے کہا ہمیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی برکت سے بخش دیا اور آپ کی محبت کی وجہ سے ہمیں جنت میں داخل کیا۔ ہمیں جنت میں مقامات دکھائے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں لیکن ان کہنے والوں کا چہرہ غمگین تھا۔ میں نے ان سے پوچھا۔ میں تمہیں غمگین پاتا ہوں حالانکہ تم جنت میں داخل ہو چکے ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے سرفراز ہوئے ہو۔ انہوں نے ایک زور کی سانس لی اور کہا اے ذوالنون قیامت تک ہم اس طرح غمگین رہیں گے۔ میں نے پوچھا یہ کیوں۔ انہوں نے کہا جب ہم جنت میں داخل ہوئے تو ہمیں مقامات علیین دکھائے گئے۔ ویسے ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جب ہم نے انہیں دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا۔ اتنے میں ایک منادی نے آواز دی کہ انہیں یہاں سے لوٹا کر لے جا ؤ یہ جگہ ان کے لئے نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے واسطے ہے جو سبیل کو اللہ کے راستے میں جاری کرتے ہیں۔ یعنی جب ان پر دنیا میں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے۔ پھر اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اگر تم بھی اس راستے پر چلتے تو تمہیں بھی یہ رتبہ حاصل ہوتا۔

                ایک بار آپ نے فرمایا کہ میں مکہ معظمہ کی زیارت کے ارادے سے روانہ ہوا۔ جب جنگل میں پہنچا تو مجھے شدت کی پیاس لگی۔ میں قبیلہ مخزوم میں چلا گیا۔ وہاں میں نے ایک چھوٹی سی خوبصورت حسین و جمیل لڑکی دیکھی۔ وہ گنگنا کے اشعار پڑھ رہی تھی۔ میں اس کے اس فعل کو دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ وہ ابھی بچی تھی۔ میں نے اس لڑکی سے کہا۔ اے لڑکی کیا تجھے ایسے اشعار پڑھتے شرم نہیں آتی۔ اس نے کہا۔ چپ رہ اے ذوالنون! میں نے رات شراب محبت خوشی کے ساتھ نوش کی ہے اور صبح کے وقت مولا کی محبت میں مخمور اٹھی ہوں۔ میں نے کہا۔ اے لڑکی میں تجھے عقل مند پاتا ہوں۔ مجھے کچھ نصیحت کر۔

                لڑکی نے کہا۔ اے ذوالنون! سکوت کو لازم پکڑو اور دنیا سے تھوڑی روزی پر راضی رہو تو تم جنت میں اس حئی و قیوم کی زیارت کرو گے جو کبھی نہیں مرتا۔ میں نے کہا تیرے پاس کچھ پانی ہے۔ لڑکی نے کہا۔ میں تجھے پانی بتاتی ہوں۔ میں نے گمان کیاکہ وہ مجھے پانی کا کنواں یا چشمہ بتائے گی۔ میں نے کہا۔ بتا ؤ ۔ لڑکی نے کہا۔ لوگ قیامت کے دن چار فریق ہو کر پانی پئیں گے۔ ایک فرقے کو ملائکہ پلائیں گے ۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب سفید ہو گئی اور اپنے پینے والوں کو لذت بخشے گی اور ایک فریق کو داروغہ جنت پانی پلائیں گے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اس شراب میں تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور ایک فرقے کو حق جل جلالہ پلائیں گے اور وہ لوگ بندگان خاص ہوں گے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں، شراب طہور انہیں پلائیں گے پس تم دنیا میں اپنا راز کسی پر اپنے مولا کے سوا ظاہر نہ کرو تا کہ آخرت میں حق تعالیٰ تمہیں اپنے ہاتھ سے پلائیں۔

                ایک بار دربار خلافت میں حضرت کے حالات کی شکایت کی گئی اور خلیفہ متوکل عباسی کے حکم سے آپ پانجولاں مصر سے بغداد لائے گئے۔ اثنائے راہ میں ایک عورت نے آپ کو ہدایت کی ذوالنون خبردار حکومت کے ظلم سے نہ ڈرنا خلیفہ بھی تیری ہی طرح خدا کا ایک عاجز بندہ ہے اور بندے کا بندے سے ڈرنا کیا معنی، بندہ ہر وقت مجبور ہے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔

                آپ دربار خلافت میں پیش کئے گئے تو خلیفہ نے آپ کو جیل خانے بھیجنے کا حکم دیا۔ ۰۴ شبانہ روز آپ اسیرِ زنداں رہے۔ اس دوران میں حضرت بشرحانی کی ہمشیرہ ہر روز ایک روٹی لے جا کر آپ کو پیش کرتی رہیں۔ جس دن آپ کو باہر نکالا گیا تو محافظ زنداں نے وہ چالیس روٹیاں آپ کے حکم سے فقراء کو تقسیم کیں۔ جس وقت یہ خبر حضرت بشرحانی کی بہن کو پہنچی کہ حضرت ذوالنون مصری نے میری دعوت مسنونہ کو رد کر دیا ہے اور ایک دن بھی وہ روٹی نہیں کھائی تو انہیں بے حد صدمہ ہوا۔ دل شکستہ و آزردہ خاطر حاضر خدمت ہوئیں اور فرمایا حضرت آپ کو علم ہے کہ یہ روٹیاں کسب حلال کی تھیں اور خدا گواہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ پر کوئی احسان کرنا بھی مقصود نہ تھا۔ پھر آپ نے انہیں کیوں قبول نہیں کیا۔ حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ وہ روٹیاں بے شک حلال کی تھیں۔ میں جانتا ہوں۔ مگر وہ داروغہ جیل کے ناپاک ہاتھوں کے ذریعے آئی تھیں۔ اس لئے میرے لئے حلال نہ تھیں۔ یہ تھا اولیاء کا تقویٰ۔ بشری حیثیت سے چالیس روز تک کچھ نہ کھانے سے کمزوری و ناتوانی اس درجہ بڑھ گئی تھی کہ جب آپ کو زنداں سے نکالا گیا تو آپ فرطِ نقاہت سے زمین پر گر پڑے۔ سر پھٹ گیا مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اس طور پر اظہار ہوا کہ حضرت ذوالنون کے کپڑوں پر کوئی چھینٹ بھی خون کی نہ تھی۔ اسی طرح زمین پر بھی کوئی قطرہ خون نظر نہ آتا تھا۔ جس قدر خون مجروح پیشانی سے نکلا تو قدرت نے اپنے دامن رحمت میں جذب کر لیا۔ حضرت ذوالنون کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا تو دربار عام خلیفہ نے چند سوالات آپ سے کئے۔ آپ نے نہایت صفاحت و خطابت اور جرأت و دلیری سے خلیفہ بغداد کے سوالات کا جواب اس طرح دیا کہ خلیفہ اور درباری لوگوں پر رقت طاری ہو گئی۔ خلیفہ متوکل عباسی نے اسی وقت آپ کے دس اقدس پر بیعت کی اور نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ آپ کو مصر بھیج دیا گیا۔

                سچ فرمایا گیا۔ جو اللہ کا ہو جاتا ہے۔ اللہ اس کا ہو جاتا ہے۔ ایک طرف دشمنان حق اللہ تعالیٰ کے ایک ولی کی ایذا دہی اور توہین کے درپے ہیں اور بغض و کینہ کے سفلی جذبات سے مجبور ہو کر حکومت سے شکایت کرتے ہیں اور سزا دلوا کر آتش حسد کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی شان کریمی یہ ہے کہ اپنے دل کی آزمائش تجمل و توکل کے بعد یہ عزت افزائی فرمائی گئی ہے کہ حکومت کے اقتدار اعلیٰ کو حضرت ذوالنون مصری کے قدموں پر جھکا دیتی ہے۔

                ایک مرتبہ دریائے نیل کے کنارے بغرض سیر تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک آپ کو ایک بچھو نظر آیا۔ آپ نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک پتھر اٹھایا اور اس کو مار دیا۔

 

روحانی توجیہہ

                کہ اللہ کی ذات سے محبت کرو اور اس کا ذکر و شغل جاری رکھو۔

                مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی اس ارشاد کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

                کائنات میں اللہ کی حاکمیت کے تصور کے ساتھ انسان، جمادات، نباتات اور حیوانات سے ملتا جلتا پیکر ہے جس طرح انسان جسم رکھتا ہے، حیوان بھی جسم رکھتے ہیں۔ حیوانات میں نسل کشی ہے تو انسانوں میں بھی تولید کا سلسلہ جاری ہے۔ نباتات میں نشوونما ہوتی ہے تو انسان بھی لامتناہی نشوونما کے دبیز پردوں میں ارتقا کر رہا ہے۔ حیوانات کے اندر جبلت کام کرتی ہے تو جبلت کے بغیر انسانی زندگی بھی بیکار ہے۔ بھوک پیاس حیوانات کے لئے اگر مجبوری ہے تو انسان بھی مجبوری کی اس کال کوٹھری میں بند ہے۔ جنسی کشش انسان کے اندر موجود ہے۔

                حیوانات میں منفی میلانات ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ انسان اگر ذی روح ہے تو حیوانات، جمادات اور جنات بھی روح کے دائرے سے باہر نہیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حیوانات اور جمادات کے بھی وہی جذبات اور احساسات ہیں جن کے اوپر انسانی زندگی رواں دواں ہے تو پھر انسان کا شرف کیا ہے؟ انسان کا شرف یہ ہے کہ اللہ رب الرحیم نے انسان کو اپنی امانت سونپی ہے۔ یہ وہ امانت ہے جس کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے یہ کہہ کر قبول نہیں کیا تھا کہ ہم اس بار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم نے آپ کی عطا کردہ امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ یہی وہ امانت ہے جس کو اللہ نے علم الاسماء کہا ہے۔ اللہ کی صفات کا ایسا علم جو جنات اور فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔

                کائنات میں انسان وہ واحد برادری ہے جو اللہ کے ان علوم کی امین ہے۔ اللہ نے یہ علوم نوع انسانی کے باپ آدم کے علاوہ کسی کو نہیں سکھائے۔

                ‘‘لوگو بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں، ان سب کا خالق ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جا ؤ۔ وہی جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنا دیا ہے اور آسمان سے پانی اتارا اور اس کے ذریعے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا۔’’ (القرآن)

                اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کر دیا تا کہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور تا کہ تم روشنی تلاش کرو اور تا کہ تم شکر گزار بنو۔ اور اس نے تمہارے لئے مسخر کر دیا اپنی طرف سے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔ (القرآن)

                اللہ رب الرحیم یہ بھی کہتا ہے کہ یہ ساری کائنات اور جملہ وسائل انسان کے فائدے کے لئے بنائے ہیں مگر اسے ان کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔ وہ ان وسائل کا مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اللہ کی زمین مخلوق کے لئے بچھونا بنی ہوئی ہے اور بندہ اس زمین سے ہر طرح کی آسائش حاصل کرتا ہے لیکن اللہ اپنی ملکیت اس زمین کا ایک پیسہ بھی طلب نہیں کرتا۔ جب تک انسان زمین کے ایک فٹ کی قیمت لگا کر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اللہ نے اپنی ملکیت زمین کے اندر پانی کی نہریں جاری کر دی ہیں۔ جس کی کوئی قیمت اللہ نے متعین نہیں کی۔ اور انسان پانی کو نہ صرف فروخت کرتا ہے بلکہ پانی کی تقسیم پر لڑتا ہے اور ایک دوسرے کے درپے آزار بھی رہتا ہے۔

                خدا نے آدم زاد کو ایک شکل و صورت پر پیدا کر کے ایک برادری بنایا مگر آدم زاد نے طرح طرح کے بھیس بدل کر نئے نئے نام رکھ لئے۔ اللہ نے آدم زاد کو ایک باپ آدم اور ایک ماں حوا سے تخلیق کیا تا کہ انسان، برادری اور باہمی رشتوں میں منسلک رہ کر اخوت و محبت، بھائی چارہ اور ایک جنتی کا پرچار کرے۔ ہائے افسوس رشتہ انسانی کی وحدت بے شمار ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ ایک نسل بہت سی نسلوں میں تبدیل ہوتی رہی اور نسل کے نام پر آپس میں تفرقے کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا۔ وطن بہت سارے بن گئے۔ قوم نے بے شمار قوموں کا روپ دھار لیا۔ بیشمار قومیں وجود میں آئیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آپس میں دست و گریباں ہو گئے۔ زبان نسلی منافرت کا ذریعہ بن گئی اور لباس کے پرفسوں دھاگوں میں انسانیت پارہ پارہ ہو گئی۔ مفت حاصل شدہ زمین وجہ اختلاف بن گئی۔

                ہم پوچھتے ہیں کہ جب ایک گھر کے افراد ایک ساتھ اخوت کے رشتے میں منسلک رہ سکتے ہیں تو ملک و قوم اخوت کے رشتے کیوں قائم نہیں کرتے۔ اس سوال کے جواب میں قرآنی تعلیمات ہماری راہ نمائی کرتی ہیں۔

                صرف ایک حقیقی رشتہ ہے اور وہ خدا پرستی کا رشتہ ہے۔ ہم کتنے ہی الگ ہو جائیں لیکن ہمارا خدا ایک ہے۔ ہم کسی بھی طرح نعوذ باللہ خدا کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ ہم سب ایک پروردگار کے بندے ہیں۔ ہم سب کی جبینِ نیاز کے لئے ایک اللہ رب الرحیم کی چوکھٹ ہے۔ کوئی نسل ہو، کوئی وطن ہو، کوئی قومیت کسی بھی درجے کی ہو، آسمانی رشتے سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔

                برائی اور گناہ انسان کی سرشت میں داخل ہیں۔ لیکن انسان کا ضمیر اللہ کے نور کا مسکن ہے۔ ضمیر ایک نور باطن ہے جس سے انسان کے اندر نیکی کی مشعلیں روشن ہوتی ہیں۔ ہم آپس میں سب بہن بھائی ایک باپ کی اولاد ہیں۔ اور ایک باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت میں کوئی وجہ افتخار ہے تو وہ نیکی اور آپس میں محبت و اخوت ہے۔ خود ساختہ امتیازات چالاک اور عیار لوگوں نے اپنی خدائی چلانے کے لئے قائم کئے ہیں۔ اللہ رب الرحیم کے خود اپنے ارشاد کے مطابق جب زمین کا مالک ایک ہے، آسمانوں کا مالک ایک ہے اور اس نے آدم زاد برادری کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا ہے تو نوع انسانی کا دین بھی ایک ہونا چاہئے۔ کنبہ اور برادری بھی ایک ہونا چاہئے۔

                ‘‘اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا۔ اور جس کو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کیا ہے اور جس کا اللہ نے ابراہیم علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی حکم دیا تھا۔ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔’’

                روایت ہے کہ دین کی اساس قائم رکھنے کے لئے اللہ رب الرحیم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغامبر دنیا میں بھیجے اور تمام پیغمبر اسی بات کی تلقین کرتے رہے کہ

                اے انسان تو اللہ کی ملکیت ہے جس زمین پر تو چلتا پھرتا ہے اور جس زمین سے کھیتیاں اگتی ہیں اور جس زمین پر تیرے لئے چشمے ابلتے ہیں وہ بھی اللہ کی ملکیت ہے۔ جس سورج کی تپش اور دھوپ کھیتیاں پکا کر تیرے لئے غذا بناتی ہے وہ بھی اللہ کی ملکیت ہے۔ اور جس چاند کی روپہلی چاندنی کھیتوں اور پھلوں میں رس گھولتی ہے وہ بھی اللہ کی ملکیت ہے۔

                تیرے باپ آدم علیہ السلام کو اللہ نے بنایا۔ اور تیرے باپ آدم علیہ السلام سے تیری ماں حوا کو تخلیق کیا۔ ایک باپ اور ایک ماں سے تیری نسل چلائی۔ جب نسل پھیل گئی تو تم بہن بھائیوں کے رشتے کو توڑ کر الگ الگ برادریوں میں بٹ گئے۔ آپس میں تفرقے نے جنم لے لیا اور ایک گھر کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ ظلم اور جہالت نے تمہارے چہروں پر کالک مل دی اور تم جھوٹی انا کے خول میں بند ہو کر اپنے بھائی کے دشمن بن گئے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج کا ہر باپ موت کا لقمہ تر بن رہا ہے۔ اور باپ کا ہر بیٹا باپ بن رہا ہے۔ ہم سے قرآن کریم سوال کرتا ہے:

                ‘‘کیا یہ لوگ اللہ کے دین کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کے تابع فرمان ہیں۔ اور سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔’’

                میرے بھائیو۔ میرے سجنو اور میرے بزرگو!

                دین میں سربلندی اور آخرت میں نجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم ایک اللہ کی ملکیت میں رہتے ہوئے ایک اللہ کی حاکمیت کو قبول کریں۔ اور اللہ کے بنائے ہوئے ایک باپ کی اولاد کی حیثیت سے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔

                اللہ رب الرحیم کا حکم ہے:

                ‘‘اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔ اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔’’

 

                اقوال اور ارشادات:

                وہ ذات اقدس پاک و برتر ہے جس نے

۱۔            حجاب آخرت میں اپنے عارضوں کو چھپا لیا اور اصحاب آخرت کو حجاب دنیا سے پردہ پوش کیا۔

۲۔           بدترین حجاب نفس پسندی کا ہے۔

۳۔           جو معدہ کھانے سے بھرا ہوا ہے اس میں حکمت نہیں آ سکتی۔

۴۔           صحت تھوڑا کھانے میں ہے اور روح کی صحت تھوڑے گناہ کرنے میں۔

۵۔                           اگر کوئی شخص بلا میں مبتلا ہو اور صبر کرے تو تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بلا میں مبتلا ہو اور راضی ہو۔

۶۔                           جب تک آدمی اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے کام کے رہیں گے اور جب خوف خدا ان کے دلوں سے جاتا رہے گا گمراہ ہو جائیں گے۔

۷۔           راہ راست پر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے جب خوف دل سے نکل جائے گا گمراہ ہو گا۔

۸۔                           اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت یہ ہے کہ بندہ اخلاق و افعال بجا آوری امرو نہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں ہر طرح حبیب خدا صلی اللہ علیہ و سلم کا تابع ہو۔

۹۔            محبت نہ رکھ مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ موافقت میں خلق کے ساتھ۔

                نصیحت سینے میں نفس کے ساتھ مخالفت میں دشمن کے ساتھ عداوت میں۔

۰۱۔                         میں نے اس طبیب سے زیادہ جاہل کسی طبیب کو نہیں دیکھا جو مستوں کا علاج ان کی مستی کے وقت کرتا ہے۔

۱۱۔                          صوفی وہ ہے کہ جب وہ باتیں کرے تو اس کی گفتگو اس کے حال کے مطابق ہو اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو خود اس میں نہ ہو اور خاموشی کی حالت میں اس کا معاملہ اس کے حال سے تعبیر ہو تمام علائق دنیوی کے قطع کرنے مٰں اس کا حال ناطق ہو۔

۲۱۔                         عارف الٰہی کا ہر گھڑی خوف زیادہ بڑھتا رہتا ہے کیونکہ ہر گھڑی وہ زیادہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور عارف وہ ہے جو مخلوق میں رہ کر مخلوق سے جدا رہتا ہے۔

۳۱۔                         عارف کو خائف ہونا چاہئے نہ کہ واصف، واصف کو عارف نہیں کہہ سکتے کیونکہ عارف وہی ہوتا ہے جو خوف کھاتا ہے اور عارف کے لئے ایک حالت لازم نہیں ہوتی۔ ہر گھڑی عالم غیب سے اس پر نئی حالت طاری ہوتی رہتی ہے تا کہ وہ صاحب حالات نہ رہ سکے۔

۴۱۔         معرفت کی تین قسمیں ہیں۔

                اول: معرفت توحید کی جو کہ عام مومنین کو حاصل ہے۔

                دوم: معرفت صحبت و بیان کی جو کہ حکماء اور علماء کے لئے مخصوص ہے۔

سوم: معرفت صفات وحدانیت کی جو کہ صرف اولیاء اللہ کو حاصل ہے جو دیدہ باطن سے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اسرار ان کو نظر آتے ہیں۔

۵۱۔                         اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت رکھنے والوں کا ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ اگر ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جائے تو ان لوگوں کی ہمت میں ذرہ بھر کمی نہ ہو کیونکہ وہ حق تعالیٰ کے مونس ہیں۔

۶۱۔          لوگوں نے دریافت کیا کہ دنیا کیا ہے، فرمایا جو چیز حق تعالیٰ سے غافل کر دے وہ دنیا ہے۔

۷۱۔                         ایک بار ایک شخص نے عرض کیا مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا اپنے باطن کو حق تعالیٰ کی طرف متوجہ کر اور ظاہر کو لوگوں کے ساتھ مشغول رکھ، حق تعالیٰ کا محبوب بن تا کہ تجھ کو سب سے بے نیاز کر دے۔

۸۱۔         گزشتہ اور آئندہ کے خیالات میں اپنے آپ کو مت الجھا ؤ اور ہر حال پر راضی رہو۔

۹۱۔                          توکل کے معنی بہت سے خدا ؤں کی اطاعت سے نکل کر ایک خدا کی اطاعت میں آ جانے کے ہیں اور تمام وسائل کو ترک کرے، حق تعالیٰ کی عبادت میں شامل ہو جانے کا نام توکل ہے اور اپنے آپ کو اس کا بندہ حقیقی معنوں میں سمجھنا اول توکل ہے۔

۰۲۔        صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت کرو اور اسی کا ذکر و شغل جاری و ساری رکھو۔

                آپ نے ۶۲ شعبان ۵۴۲ھ کو وفات پائی۔ جب آپ کا جنازہ اٹھا تو سورج نہایت تیزی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اس وقت پرندوں کا ہجوم آ گیا، جس نے پروں سے پر ملا کر آپ کے جنازے پر سایہ کیا۔ اس قسم کے پرندے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے جو آپ کے جنازے میں دیکھنے میں آئے۔ راہ میں جب کہ آپ کا جنازہ لے جا رہے تھے تو موذن کی اذان سنائی دی اور کلمہ شہادت پر آپ نے انگلی اٹھائی۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھ کر شور کیا کہ شاید آپ زندہ ہیں چنانچہ جنازہ رکھ دیا گیا لیکن آپ کی انگلی اس طرح تھی پوری کوشش کی گئی کہ انگلی کو نیچے کیا جاتا مگر نہ ہوئی چنانچہ آپ کو دفن کر دیا گیا۔ مصر کے لوگوں نے جب یہ حالت دیکھی تو کئی لوگ تائب ہو گئے۔ آپ کے مزار پر یہ عبارت ایسے خط میں مرقوم میں جو کسی انسان کی تحریر نہیں معلوم ہوتی۔

                ذوالنون حبیب اللہ من الشوق قتیل اللہ

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔