Topics
ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ نے جنات کی دنیا سے متعلق حقائق و انکشاف پر ایک روئداد لکھی ہے:
’’شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے مدرسے میں جس طرح انسانوں کے لڑکے پڑھتے تھے اسی طرح جنات کے لڑکے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ شاہ صاحبؒ کے مدرسے میں تعلیم پانے والے جنات کے لڑکوں کو سخت ہدایت تھی کہ وہ ہرگز کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے انسانوں کے لڑکے خوفزدہ ہوں۔
ان میں زیادہ تعداد جنات کے ان لڑکوں کی تھی جو دہلی میں کالے پہاڑ کی تلہٹی میں آباد تھے۔ جہاں اس وقت برف کا کارخانہ ہے۔ یہ کالا پہاڑ اس سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔
اس طرف اس زمانے میں لوگوں کی آمد و رفت یا تو تھی ہی نہیں یا بہت کم تھی۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ اگر کوئی بھولا بھٹکا مسافر ادھر جا نکلتا تو شرارت پسند جنات کی حرکتوں سے خائف ہو کر پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کرتا بلکہ دوسروں کو بھی ادھر جانے سے روک دیتا تھا۔
مٹی اور آگ کی تخلیق:
اللہ تعالیٰ نے جنات کا قرآن حکیم میں اس طرح تذکرہ فرمایا ہے:
’’میں نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور جنات کو آگ سے‘‘
(سورۂ الرحمٰن: آیت نمبر۱۴۔۱۵)
بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں جنات کی بستیاں آباد ہیں۔ جو زیادہ تر ویرانے میں ہوتے ہیں۔ ایسے ویرانوں سے گزرنے والے لوگوں نے متعدد بار ان کی مجالس دیکھی ہیں۔ دہلی کے ارد گرد بھی ایسی کئی بستیاں ہیں۔ انہی میں ایک بستی یہ بھی تھی جس کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا رات کو حلوائیوں کی دکانیں دیر تک کھلی رہتی ہیں۔ دن بھر جتنی مٹھائیاں سجی ہوئی آپ دیکھتے ہیں وہ ساری کی ساری مٹھائیاں صرف انسان ہی نہیں کھاتے بلکہ رات کو آخری اوقات میں اکثر جنات ان مٹھائیوں کو خرید کر لے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ جنات کی خوراک فاسفورس ایسڈ بھی ہے۔ جو زیادہ تر کوئلوں میں ملتا ہے اور جنات اسے کوئلے ہی سے حاصل کرتے ہیں۔
جنات کے بارہ طبقے:
جنات کے بارہ طبقے ہیں اور یہ وہ طبقے ہیں جو ہماری زمین پر آباد ہیں۔ ہر طبقے کے جنات الگ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ضرورت نہیں ہے کہ کسی جگہ ایک ہی طبقہ آباد ہو۔ کئی جگہیں ایسی ملتی ہیں جہاں جنات کے کئی طبقے آباد ہیں۔ ہر طبقے کی شکل و صورت میں فرق ہوتا ہے۔
بہرکیف بیان یہ کرنا تھا کہ کالے پہاڑ کی تلہٹی میں بھی کئی طبقوں کے جنات رہتے تھے۔ ان کی عادات بھی مختلف ہیں اور شکل و صورت میں بھی نمایاں فرق ہے۔ اب بھی وہ بستی وہاں موجود ہے جس طرح شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے زمانے میں آباد تھی۔
چنانچہ اکثر جنات تحفے تحائف لے کر اس غرض سے شاہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے کہ آپؒ ان کے بچوں کو مدرسے میں داخل کر لیں۔ شاہ صاحبؒ کی چند شرطیں تھیں اگر جنات کو وہ شرطیں منظور ہوتیں تو شاہ صاحبؒ ان کے بچوں کو مدرسے میں داخل کر لیتے تھے اور اس طرح وہ بچے اسباق میں شریک ہو جاتے۔ اسباق کے علاوہ ان بچوں کے سپرد دیگر خدمات بھی ہوتی تھیں کہ وضو کے لئے لوٹے بھریں، سقاوے میں پانی کا انتظام کریں اور باقاعدہ نماز باجماعت پڑھیں۔
انہونی بات:
ایک روز رات کے وقت شاہ صاحبؒ اپنے حجرے میں استراحت فرما رہے تھے۔ چند لڑکے جن میں انسانوں کے ساتھ جنات کے لڑکے بھی تھے۔ شاہ صاحبؒ کی خدمت میں مصروف تھے۔ کوئی سردبا رہا تھا، کوئی ہاتھ دبا رہا تھا، چند لڑکے پیر دبا رہے تھے کافی وقت ہو چکا تھا۔ یہ ذکر عشاء کی نماز کے بعد کا ہے۔
شاہ صاحبنے کسی لڑکے سے فرمایا "چراغ گل کردو ۔تیل ضائع ہو رہا ہے ۔ اور تم لوگ اپنی جگہ کا کر آرام کر و۔
شاہ صاحبؒ کا حجرہ کافی بڑا تھا۔ اور جہاں وہ لیٹے تھے چراغ اس جگہ سے کم از کم چھ گز کے فاصلے پر ایک کونے میں رکھا ہوا تھا۔ ایک جن لڑکے نے وہیں سے ہاتھ بڑھا کر چراغ گل کر دیا۔
انسانوں کے لڑکوں نے یہ انہونی بات دیکھی تو ڈر کے مارے چیخنے لگے کیونکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی ہاتھ اتنا لمبا ہو سکتا ہے۔
شاہ صاحبؒ نے اٹھ کر انہیں تسلی دی اور اس جن لڑکے کو بہت ڈانٹا۔
اس روز لڑکوں پر یہ بات منکشف ہو گئی کہ ہمارے ساتھ جنات کے لڑکے بھی پڑھتے ہیں۔
شاہ صاحبؒ کے مکان کی پشت پر ایک سوداگر رہتا تھا۔ یہ لڑکا جس سے یہ حرکت سرزد ہوئی وہ اس سوداگر کی لڑکی سے محبت کرنے لگا۔ لیکن اس نے اس بات کو اب تک چھپا رکھا تھا اور رات دن اسی ادھیڑ بُن میں مصروف رہتا تھا کہ کسی طرح استاد محترم کی تائید حاصل کر لے۔ ان کے ذریعے وہ لڑکی اور اس کے ماں باپ کو اپنے گھر پر مدعو کرنا چاہتا تھا تا کہ اس طرح آمد و رفت پیدا کر کے عرض مدعا پیش کرنے کی گنجائش نکل آئے۔ مگر وہ کسی طرح بھی شاہ صاحبؒ سے درخواست کرنے کا طریقہ تلاش نہیں کر سکا۔
بالآخر اس کے ذہن میں ایک بات آئی اور وہ یہ کہ اس کے ماں باپ آئیں اور شاہ صاحبؒ اور اس سوداگر کے گھر کے تمام افراد کو شاہ صاحبؒ کی ہمسائیگی کے ناطے مدعو کریں۔
صرف اس بات کے لئے وہ ہفتوں سوچتا رہا۔ مہینوں غور کرتا رہا۔ اسی غور و فکر میں کئی سال گزر گئے لیکن وہ اپنے ماں باپ سے نہیں کہہ سکا۔
جب اتفاق سے لڑکوں پر یہ انکشاف ہو گیا کہ ہمارے ساتھ جنات بھی پڑھتے ہیں تو شاہ صاحبؒ نے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تو جن لڑکے نے جرأت کر کے کہا۔
’’یہ سب میں نے دانستہ کیا ہے تا کہ چند لڑکے اس امر سے واقف ہو جائیں نیز آج میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ کسی دن میرے گھر ماحضر تناول فرمائیں۔ آپ میرے استاد ہیں میرا آپ پر حق ہے اس لئے میں نے یہ جسارت کی ہے‘‘۔
اول تو شاہ صاحبؒ کو بہت غصہ آیا مگر وہ بہت نرم مزاج تھے اس لئے خاموش ہو گئے جن لڑکا دعوت پر بضد رہا۔
جن اور انسان میں عشق:
کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس جن لڑکے نے اپنے ماں باپ سے کہا۔ ’’میں ہر قیمت پر شاہ صاحبؒ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ چل کر انہیں مدعو کریں۔‘‘
اس نے بڑے خوشامدانہ لہجے میں رو رو کر یہ بھی کہا ’’مجھے سوداگر کی لڑکی سے والہانہ محبت ہے میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا آپ شاہ صاحبؒ سے درخواست کریں کہ وہ سوداگر کے گھر والوں کو بھی ساتھ لائیں‘‘۔
لڑکے کی اس بات پر اس کے ماں باپ بہت برہم ہوئے اسے مار پیٹ کر تنبیہہ کی مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ اور اس نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انتہائی نحیف اور لاغر ہو گیا اور اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ اس کے باوجود لڑکے کے ماں باپ کسی طور پر آمادہ نہیں ہوتے تھے کہ وہ سوداگر کے گھرانے کو بھی دعوت دیں۔ لڑکے کا دم آخر ہونے لگا تو ماں کے دل کا قرار ختم ہو گیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ باپ کے دل پر بھی چوٹ لگی اور اس نے اپنے لخت جگر سے کہا۔
’’بیٹا! ہم سوچیں گے کہ کیا ترکیب ہو سکتی ہے اور ہم کس طرح شاہ صاحبؒ کی خدمت میں اس نوعیت کی درخواست کریں۔ تو ضد چھوڑ دے کھانا پینا معمول کے مطابق شروع کر دے تا کہ ہم کچھ سوچنے کے لائق ہو سکیں۔ تجھے کیا خبر کہ ہم تیری وجہ سے کس قدر پریشان ہیں تو ہی تو ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔‘‘
لڑکے نے جب یہ مژدہ سنا تو اس پر سے نزع کا عالم ٹل گیا اور اس نے ایک عالم سر خوشی میں باپ کو جواب دیا۔
’’آپ کسی طرح کے تردد میں مبتلا نہ ہوں چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے میں اس قسم کی صورت حال پیدا کر دوں گا کہ آپ کو بات کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے گی‘‘۔
اور پھر ایک دن اس لڑکے نے سوداگر کی لڑکی کے سامنے خود کو ظاہر کر دیا اور وہ بھی اس طرح کہ لڑکی کے علاوہ اسے اور کوئی نہ دیکھ سکے۔ لڑکی یکبار خوفزدہ ہو کر سہم گئی۔ اس نے چیخ کر گھر والوں کو آواز دی اور بتایا کہ دیکھو یہ کون ہے؟
گھر والوں نے کہا۔ ہمیں تو کچھ نظر نہیں آتا تجھے کیا نظر آتا ہے؟
لڑکی نے جواب دیا۔ ایک خوبصورت لڑکا میرے سامنے کھڑا ہے اور مجھے اپنے پاس بلا رہا ہے۔‘‘
سوداگر نے کہا۔ یہ تیرا وہم ہے یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ کس جگہ ہے؟ کہاں ہے؟ آخر ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا؟
لڑکی نے بمشکل تمام اپنے ہوش و حواس کو بحال کر کے بتایا۔
’’دیکھو یہ سامنے کمرے میں کھڑا ہے‘‘۔
ماں نے بیٹی کی بلائیں لے کر ممتا بھرے دل سے کہا۔ شاید تو جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ کیا تو نے اس سے پہلے کوئی اس قسم کا خواب دیکھا ہے؟
سوداگر کی بیٹی نے روہانسی ہو کر ماں سے التجا کی۔ ’’تم میری بات کا یقین کرو ماں! یہ ہرگز خواب نہیں ہے۔ یہ لڑکا میرے سامنے کھڑا ہے کیا تمہیں واقعتاً یہ لڑکا نظر نہیں آتا؟‘‘
سوداگر پریشان لہجے میں بولا۔ ’’اگر ہمیں نظر آتا تو ہم تجھے کیوں جھٹلاتے؟‘‘
لڑکی نے جھنجھلا کر کہا: ’’جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وہم میں مبتلا ہو جاؤں اور یہ سمجھوں کہ میرا وہم یہ صورت بنا کر میرے سامنے لے آیا جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ میں ہرگز آپ کی ان باتوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں، میں جو کچھ کہہ رہی ہوں اور جو دیکھ رہی ہوں اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دیکھو! وہ لڑکا اب بھی میرے سامنے ہے۔‘‘
سوداگر نے پہلے تو اس زمانے کے طبیب حاذق سے مشورہ کیا اور اپنی لڑکی کو حکیم حامد خان کے پاس لے گیا۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں کا معائنہ کیا پھر یہ دیکھا کہ اس کے بالوں میں کوئی ارتعاش تو نہیں ہے۔ ٹانگوں کو بغور دیکھا اور جو بھی وہ سمجھنا چاہتے تھے اسے جانچا لیکن کوئی نشان ایسا موجود نہیں تھا۔ جس سے اس لڑکی کا کسی طرح غیر متوازن ہونا، پاگل ہونا یا وہمی ہونا ظاہر ہوتا ہو۔
جب سب کچھ دیکھ چکے تو حکیم صاحب نے لڑکی سے سوالات شروع کئے۔ انہوں نے پوچھا۔ یہ کس دن کا واقعہ ہے؟
لڑکی نے بتایا۔ فلاں دن اور فلاں وقت یہ واقعہ پیش آیا۔
حکیم صاحب نے سوال کیا۔ اس دن تم کہاں تھیں؟
میں اپنے گھر میں تھی۔ لڑکی نے جواب دیا۔
حکیم صاحب نے پوچھا۔ اس دن کے بعد بھی اس جیسی صورتحال پیدا ہوئی؟
بارہا ایسا ہوا ہے جب میں اپنے کمرے میں ہوتی ہوں تو چانک وہ صورت نمودار ہو جاتی ہے۔ لڑکی نے بتایا۔
حکیم صاحب نے مزید جرح کرتے ہوئے استفسار کیا:
تم نے کیا دیکھا ہے اور جو کچھ بھی دیکھتی ہو اس کی تفصیل پورے وثوق سے بیان کرو۔
واہمہ اور حقیقت:
جس طرح آپ سامنے بیٹھے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے اس میں کسی واہمہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ بالکل اتنے ہی یقین اور اعتماد کے ساتھ میں کہتی ہوں کہ مجھے ایک بہت خوبصورت لڑکا نظر آتا ہے۔ کبھی کسی لباس میں ہوتا ہے اور کبھی کسی اور لباس میں۔ اپنی وضع قطع کے لحاظ سے کوئی رئیس زادہ معلوم ہوتا ہے۔
لڑکی نے بتایا۔
حکیم صاحب خدا کے لئے آپ میرے ساتھ چلئے۔ یہ سب کے سب مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں۔ شاید آپ اسے دیکھ سکیں۔
نسبت نامہ شاہ عبدالعزیزؒ :
شاہ عبدالعزیز، شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے، شاہ عبدالرحیم، شاہ عبدالعزیز کے دادا تھے۔ جو حسب و نسب میں فاروقی تھے۔
عصر کا وقت تھا۔ دہلی کی مسجد فتح پوری میں عصر کی جماعت کھڑی ہو گئی تھی۔ جیسے ہی امام نے نیت باندھی مسجد کے باہر ایک شور بلند ہوا۔ لوگ چیخ رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ ’’اس شخص کو مارو‘‘۔ بہت سے نمازیوں نے نیت توڑ دی اور یہ دیکھنے کے لئے باہر نکل آئے کہ کیا ہو رہا ہے اور یہ لوگ کون ہیں۔
بہت سے لوگ لاٹھیاں گھما رہے تھے۔ کچھ لوگوں کے پاس خنجر تھے۔ کچھ کے پاس تلواریں تھیں، کچھ لوگ نہتے بھی تھے اور سب نعرے لگا رہے تھے۔
’’مار دو۔۔۔۔۔۔قتل کر دو۔۔۔۔۔۔ٹکڑے اڑا دو۔‘‘
شاہ ولی اللہؒ جو ان لوگوں کا ہدف تھے۔ اطمینان سے نماز ادا کر رہے تھے۔ آپ نے پوری نماز بلاخوف و خطر پڑھنے کے بعد چاروں طرف دیکھا۔
آپ کے معتقدین برابر یہ کہہ رہے تھے کہ:
’’نکل چلئے، یہ لوگ دشمن ہیں۔ خدا نہ کرے کیا کر جائیں۔ آپ چھوٹے دروازے سے نکل جایئے‘‘۔
شاہ ولی اللہؒ نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
’’کیا یہ لوگ خدا کے گھر کو مقتل بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ہمارا وقت نہیں آیا ہے تو کوئی ہمارا بال تک بیکا نہیں کر سکتا اور اگر وقت آ گیا ہے تو ہر شخص کو جانا ہے۔
’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘
شور بلند ہوا!
’’پکڑ لو، جانے نہ پائے، بچ کر نہ جائے، اس نے ہمارے دین کو خراب کیا ہے، اس نے دین میں پیوندکاری کی ہے، اس کے ساتھی بھی سزا کے مستحق ہیں۔۔۔۔۔۔یہ کافر ہیں۔۔۔۔۔۔مرتد ہیں۔۔۔۔۔۔انہیں قتل کر دو۔۔۔۔۔۔جہنم واصل کر دو۔‘‘
نعروں کے اس شور میں کچھ لوگ آگے بڑھے اور مسجد کے صحن میں گھس آئے۔ ان کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔ شاہ ولی اللہؒ نے ان سے پوچھا۔
’’کیا تم ہمیں قتل کرنے کے لئے یہاں آئے ہو؟‘‘
ان میں سے ایک شوریدہ سر نے کہا:
’’ہاں! ہم آپ کو قتل کرنے کے لئے آئے ہیں۔ آپ اس قابل نہیں ہیں کہ آپ کو زندہ چھوڑا جائے۔‘‘
شاہ صاحبؒ نے پوچھا۔ ’’ہمارا جرم کیا ہے؟‘‘
ایک شخص نے نہایت حقارت اور طنز سے بھرپور لہجے میں جواب دیا:
’’آپ کو اپنا جرم معلوم نہیں ہے؟ کیا واقعی آپ اپنے جرم سے لاعلم ہیں، او کافر! اب میں تجھے آپ کی بجائے تو سے مخاطب کروں گا، کیا تو نے کلام پاک کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا، کیا یہ کتاب اللہ کی توہین نہیں ہے، تو نے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، تیری سزا پھانسی یا قتل ہے، ہم تیری گردن اڑا دیں گے۔‘‘
اس جواب پر شاہ صاحبؒ کو غصہ آ گیا۔
ان کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی۔ انہوں نے چھڑی اٹھائی اور ’’اللہ ہو‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔
کیا اثر تھا اس نعرے میں، شاہ صاحبؒ اور ان کے ساتھی بھی یکے بعد دیگرے مسجد سے نکل گئے۔ مجمع کائی کی طرح پھٹ گیا۔
اب شاہ صاحبؒ کھاری باؤلی تک پہنچ گئے تھے کسی نے زور سے پکارا۔
’’یہ بہروپیا بھاگنے نہ پائے۔‘‘
لیکن یہ نعرہ بے اثر ثابت ہوا۔ لوگ بت بنے کھڑے تھے جیسے پتھر کے مجسمے ہوں۔
شاہ صاحبؒ گھر پہنچے تو شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اپنے لڑکپن کی بناء پر شاہ ولی اللہؒ سے لپٹ گئے اور رونے لگے کیونکہ اس ’’ہاؤ ہو‘‘ کی اطلاع پوری دلی میں پھیل چکی تھی اور گھر والوں کو بھی اس کی خبر مل گئی تھی۔
شاہ ولی اللہؒ نے کہا۔ ’’بیٹے! تجھے معلوم نہیں کہ یہ دنیا والے میرے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کیا کیا اذیتیں دے چکے ہیں۔ بیٹے! آنسو پونچھ لو۔ ہم عنقریب جانے والے ہیں، ہماری میراث علم ہے، تم اسے سنبھال لو۔‘‘
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے جو اس وقت لڑکپن کے دور سے گزر رہے تھے، اپنی گردن جھکا لی اور عرض کیا۔
’’جو اللہ کی مشیئت، اگر اللہ ہم سے یہ خدمت لینا چاہتا ہے تو ہم اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس علمی اور علمی خدمات میں خرچ کر دیں گے۔‘‘
سن ۱۱۷۷ ہجری میں شاہ ولی اللہؒ نے وصال فرمایا۔ وصال کے وقت شاہ عبدالعزیزؒ کی عمر اٹھارہ برس تھی۔
واضح رہے کہ برصغیر میں محدثین کا جو سلسلہ ہے وہ یا تو شاہ عبدالعزیزؒ سے براہ راست پہنچا ہے یا ان کے کسی بزرگ کے واسطے سے۔ شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی فتاویٰ عالمگیری لکھنے میں شریک تھے۔
شاہ عبدالعزیزؒ سن ۱۱۵۹ہجری میں پیدا ہوئے ان کا تاریخی نام غلام علیم تھا۔ اس نام کے اعداد ۱۱۵۹ بنتے ہیں۔
تیس پشتوں کے بعد ان کا نسب نامہ حضرت عمر فاروقؓ سے جا ملتا ہے۔ ان کے دادا شاہ عبدالرحیمؒ نے دہلی میں ’’مدرسہ رحیمیہ‘‘ قائم کیا تھا۔ شاہ عبدالرحیمؒ عالمگیر کے دور میں جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کو شاہ ولی اللہؒ کے پیدا ہونے کی بشارت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے دی تھی۔
شاہ عبدالرحیمؒ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر زیارت کے لئے گیا۔ میں ایک اونچی جگہ کھڑا تھا۔ دفعتاً نظر اٹھی اور دیکھا خواجہ قطب الدینؒ کی روح ظاہر ہوئی اور فرمایا، ’’تیرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا۔ اس کا نام میرے نام پر رکھنا یعنی قطب الدین‘‘۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا یہ ارشاد سن کر میں حیران رہ گیا اور سوچا میری بیوی تو اس عمر کو پہنچ چکی ہے جہاں اولاد نہیں ہوتی۔
کچھ عرصے بعد میرے دل میں دوسرے نکاح کی خواہش پیدا ہوئی اور اس بیوی سے جو لڑکا پیدا ہوا میں نے اس کا نام ولی اللہ رکھ دیا۔۔۔۔۔۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا ارشاد میرے ذہن میں نہیں رہا اور میں بالکل بھول گیا لیکن چند سال بعد جب مجھے یہ واقعہ یاد آیا تو میں نے ولی اللہ کا نام قطب الدین احمد رکھ دیا۔‘‘
المختصر شاہ ولی اللہؒ کی پیدائش اس پس منظر میں واقع ہوئی۔ شاہ ولی اللہؒ چھوٹی سی عمر میں نہایت ذہین الطبع تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا جدید ذہن عطا کیا تھا جس کے نتیجہ میں آپ نے ’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘ اور دوسری کتابیں لکھیں۔
جب جوانی کو پہنچے تو ان کے اندر ایک خاص طرز فکر اور مخصوص فراست موجود تھی۔ رفتہ رفتہ وہ بڑھتی گئی۔ اگر شاہ ولی اللہؒ کی تمام زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ’’الف سے ے‘‘ تک ایک سیاسی اور روحانی نظام سامنے آ جائے گا۔ یہ ان کی زندگی کے بارے میں ایک مختصر پس منظر تھا۔
ان کی سب سے بڑی اولاد شاہ عبدالعزیز دہلویؒ سے ایسے کمالات ظاہر ہوئے جو شاہ ولی اللہؒ سے رہ گئے تھے۔ مثلاً ان کا جنوں کے لڑکوں کو تعلیم دینا۔ ایسے انکشافات جو صاحبان خدمت سے متعلق انہوں نے کئے۔ بہرکیف یہاں ان کا جنات سے جو تعلق تھا اس کو بیان کرنا مقصود ہے۔
حکیم صاحب، لڑکی کے کہنے کے مطابق سوداگر کے گھر گئے اور اس کمرے میں کافی دیر تک بیٹھے رہے اور اس لڑکی سے پوچھتے رہے۔
لڑکی اشاروں سے بتاتی رہی کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہے۔ اب وہ میرے قریب آ رہا ہے۔ اب وہ دیوار سے لگا ہوا میری طرف دیکھ رہا ہے۔
تعویذ گنڈے سے علاج:
لیکن حکیم صاحب کو کچھ نظر نہیں آیا۔ آخر حکیم صاحب نے یہ فیصلہ دیا کہ لڑکی کو دورہ اسی کمرے میں پڑتا ہے کسی اور کمرے میں نہیں۔ اس بیماری کی ابتداء اسی کمرے سے ہوئی ہے۔ جس طرح بھی ممکن ہوا میں اس کا علاج کروں گا۔ انہوں نے تبریدیں پلائیں اور اس کے بعد مُسہل دیئے۔ بار بار ایسا کیا لیکن لڑکی کے دماغ سے وہ بات نہ نکلنی تھی اور نہ نکلی۔ پریشان ہو کر حکیم صاحب نے ایسا قیمتی نسخہ لکھا جو دماغ کو تقویت پہنچائے۔ اس کو بھی پوری طرح استعمال کرنے کے بعد حالت وہی رہی۔ دورہ کی حالت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔ آخر حکیم صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کا علاج ممکن ہے کوئی تعویذ گنڈے والا کر دے۔ میں تو عاجز آ گیا ہوں۔ اب میرے پاس اس کے لئے کوئی دوا نہیں ہے۔
محلہ کے چند آدمیوں نے سوداگر کو مشورہ دیا کہ تم شاہ عبدالعزیزؒ کے پاس جاؤ۔ دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیزؒ پڑوس میں ہی رہتے تھے۔
شاہ صاحبؒ نے یہ تو مناسب نہیں سمجھا کہ وہ لڑکی مدرسہ میں آئے البتہ وہ وقت نکال کر سوداگر کے یہاں تشریف لے گئے۔ لڑکی کو دیکھا۔ اس سے باتیں کیں اور اس کا نام پوچھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ جب شاہ عبدالعزیزؒ اس کے گھر اور اس کمرے میں تھے لڑکی بالکل ٹھیک اور ہوش و حواس میں رہی۔ اس نے لڑکے کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ اس نے کہا۔
’’ایسا کسی کسی وقت ہوتا ہے لیکن اس وقت وہ لڑکا میرے سامنے نہیں ہے۔‘‘
شاہ صاحبؒ نے اس کے باپ سے فرمایا کہ تمہاری لڑکی بالکل بھلی چنگی ہے۔ بتاؤ اب میں کیا کروں۔ اس کو اپنے کمرے میں کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنی لڑکی سے کہو کہ وہ اس لڑکے کو آواز دے تا کہ وہ لڑکا سامنے آئے۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔
لڑکی نے جن لڑکے کو آوازیں دیں۔ اس کا نام لے کر بھی پکارا لیکن کوئی واقعہ ظہور نہیں ہوا۔
شاہ صاحبؒ واپس آ گئے وہ برابر سوچتے رہے کہ کیا ترکیب کی جائے۔ اگر کوئی جن اس لڑکی پر آتا ہے تو کس طرح معلوم کیا جائے۔ وہ اپنی جگہ بیٹھ کر اس معاملے کو گہرائی تک سوچتے رہے اور برابر غور و فکر کرتے رہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کے بعد لڑکی غائب ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کئی کئی دن تک غائب رہتی اور پھر یا تو چھت پر سے اترتی نظر آتی یا لوگ دیکھتے کہ کسی کمرے میں سے باہر آ رہی ہے۔
اب لوگوں نے لڑکی سے پوچھا۔ بار بار غائب ہونے کا مطلب کیا ہے؟ تو اتنے دن کہاں غائب رہتی ہے؟
اس لڑکی نے صاف صاف بتا دیا کہ مجھے جنات لے جاتے ہیں اور وہاں میری بہت تواضع کرتے ہیں مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
اکثر میں دیکھتی ہوں کہ جب میرا دل گھبراتا ہے تو وہ مجھے یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ میں وہاں خود کو ایک باغ میں دیکھتی ہوں۔ یہ باغ بہت دلفریب اور خوبصورت ہے۔ اس باغ میں جگہ جگہ گلاب کے تختے اور بے شمار رنگ برنگے پھول ہیں۔ باغ کے درمیان میں ایک حوض ہے اور حوض کے کنارے سنگ مر مر کا ایک خوبصورت محل ہے۔ میری خدمت کے لئے وہاں کئی کئی عورتیں ہیں۔ جب میں آ جاتی ہوں اس وقت ہی میرے پاس سے ہٹتی ہیں اور جس وقت میں وہاں نیند سے بیدار ہوتی ہوں ایک عورت پانی کا آفتابہ اور سلفچی میرے سامنے لاتی ہے اور مجھے وضو کراتی ہے۔ وضو کے بعد میں نماز ادا کرتی ہوں۔ تھوڑی دیر میں ناشتے کا وقت ہو جاتا ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر کئی لڑکیاں جو میری ہم عمر ہیں، قریب گھروں سے میرے پاس آ جاتی ہیں۔ اگرچہ میں زیادہ تر خاموش رہتی ہوں لیکن ان لڑکیوں کی معیت میں میرا دل نہیں گھبراتا اور نہ مجھے تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ یہ لڑکیاں جنات میں سے ہیں اور میں انسان ہوں پھر بھی کوئی غیریت میرے دل میں نہیں آتی۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہی نسل اور ایک ہی قوم ہیں۔ ہماری گفتگو بھی اسی طرح ہوتی ہے۔
خوش اخلاق جنات:
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو آج تک وہاں نہیں دیکھا۔ جو جنات مجھے وہاں لے جاتے ہیں وہ اور ہوتے ہیں اور جو وہاں سے مجھے لاتے ہیں وہ اور ہوتے ہیں۔ میں ان میں سے چند جنات کو پہچانتی ہوں۔
لیکن وہ سب کے سب خوش اخلاق ہیں۔ نہایت عزت کے ساتھ مجھے واپس پہنچا دیتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کسی چیز کی فرمائش کی ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو۔
شاہ صاحبؒ نے جب انہی دنوں اس جن لڑکے کو اپنے مدرسے میں نہ دیکھا اور چراغ گل کرنے کا واقعہ ان کے ذہن میں آیا اور اس جن لڑکے کا یہ کہنا کہ یہ کام میں نے دانستہ کیا ہے اور اس کا مدرسہ چھوڑ دینا، یہ سب چیزیں شاہ صاحبؒ کے ذہن میں ٹکراتی تھیں لیکن ان تمام حالات میں کوئی چیز ایک دوسرے سے وابستہ نظر نہیں آتی تھی اور آپ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتے تھے۔
لڑکی کے غائب ہونے کی خبریں برابر شاہ صاحبؒ کے پاس آتی رہیں۔ شاہ صاحبؒ اس کے سدباب کے لئے غور و فکر کرتے رہے۔ سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں ایک ایسا جن آیا جو باغ کی دیوار کے نیچے کتا بن کے پڑا رہتا تھا مگر یہ کتا خارش زدہ تھا۔ اس کتے کے بارے میں شاہ صاحبؒ کو بالتحقیق بہت سی باتیں معلوم تھیں۔ لیکن ان باتوں میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جس کی بناء پر وہ اس کتے سے شناسائی پیدا کریں۔ ایک عرصے تک وہ سوچتے رہے آخر شاہ صاحبؒ نے سوداگر کو بلوایا اور اس سے استفسار کیا کہ اس کے پاس کچھ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں۔
سوداگر نے جواب دیا ایک تو میرا بہت پرانا ملازم ہے اس کے علاوہ ایک میرا ہم عمر دوست ہے۔ یہ دونوں میرے لئے معتبر ہیں اگر ان کو کوئی راز بتا دیا جائے تو اس کو وہ اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھیں گے۔
شاہ صاحبؒ نے فرمایا میں یہی چاہتا ہوں اب تم ان دونوں میں سے ایک کو میرے پاس لے آؤ۔
ساتھ ہی یہ فرمایا کہ دو روٹیاں خالص ماش کی دال پیس کر انہیں ایک طرف سے پکایا جائے اور کچی سمت میں گھی چپڑ دیا جائے۔
شاہ صاحبؒ نے ایک پرچہ لکھ دیا جس کی کئی تہیں کیں اور پرچے میں اتنی بڑی ڈوری باندھی جو کتے کی گردن میں آ سکے۔
سوداگر جب روٹیاں اور اپنے وفادار ملازم کو لے کر حاضر خدمت ہوا تو شاہ صاحبؒ نے روٹیاں دیکھیں اور وہ پرچہ ان کو دے کر فرمایا۔
باغ کی دیوار کے پاس ایک خارش زدہ کتا پڑا ہوا ہے۔ تم سیدھے اس کے پاس جاؤ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کتا تمہیں دیکھتے ہی بھونکے گا اور کاٹنے کے لئے دوڑے گا۔ اسی لمحے ایک روٹی اس کے آگے ڈال دینا اور کمال ہوشیاری سے جب وہ روٹی کھانے میں مصروف ہو یہ پرچہ اس کی گردن میں باندھ دینا اور جب وہ یہ روٹی کھا چکے تو دوسری روٹی بھی اس کے آگے ڈال دینا جب وہ کتا باغ کی دیوار سے چلے تو اس کے پیچھے ہو لینا وہ جس طرح جائے چلتے رہنا جہاں کہیں وہ ٹھہر جائے تم بھی ٹھہر جانا اور پھر اتنا انتظار کرنا کہ وہ وہاں سے چل پڑے پھر اس کے ساتھ چلتے رہنا اور وہ راستے میں بھی غرائے گا لیکن تم اس کا خیال نہ کرنا۔ آخر چلتے چلتے وہ کتا کالے پہاڑ کے پیچھے میدان میں ایک مقام پر بیٹھ جائے گا۔ وہاں تم دونوں بھی رک جانا اور اس بات کا انتظار کرنا کہ اس پرچے کا کیا جواب ملتا ہے۔
کیونکہ اس کتے کے بیٹھتے ہی پرچہ اس کے گلے سے غائب ہو جائے گا اور اب یہ تمہاری ہمت ہے اور اس ہمت کی لازمی طور سے ضرورت بھی ہے۔ کوئی زلزلہ آئے، کسی قسم کا طوفان آئے، ہواؤں کے جھکڑ اور آندھیاں چلیں تم اپنی جگہ جمے رہنا۔ خوفزدہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
شاہ صاحبؒ کے ارشاد کے مطابق سوداگر اور اس کے ملازم نے خارش زدہ کتے کو روٹیاں کھلائیں اور وہ پرچہ اس کے گلے میں باندھ دیا۔
وہ کتا وہاں سے چل پڑا اور الٹے سیدھے راستوں سے گزرتا رہا اور یہ دونوں بھی نہایت ہوشیاری اور ہمت کے ساتھ اس کا پیچھاکرتے رہے۔ بالآخر کالے پہاڑ کے پیچھےوالے میدان میں جا کروہ کتا بیٹھ گیا اور چشم زدن میں شاہ صاحبؒ کا لکھا ہوا وہ پرچہ اس کے گلے سے غا ئب ہو گیا-
تھوڑی دیر تک سوداگر اور اس کا ملازم سکون سے بیٹھے رہے اور کتا بھی ساکت و جامد رہا۔ لیکن ابھی انہیں بیٹھے ہوئے چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ آسمان و زمین زلزلے کی طرح لرزتے ہوئے محسوس ہوئے اور خوفناک آوازیں آنے لگیں۔
دونوں پریشان ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگے لیکن انہیں کچھ نظر نہیں آیا۔ ابھی وہ ان خوفناک آوازوں کی سمت متعین نہ کر پائے تھے کہ آندھی کے ساتھ ایک بگولہ اٹھا جو گرد و پیش کو لپیٹ میں لے کر تمام ماحول کو تاریک کر گیا۔
یہ دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ لیکن تاریکی ایسی گہری تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے کتے کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔
تھوڑی دیر بعد آندھی اور زلزلہ اور طوفان ختم ہو گیا اور چاروں طرف کی فضا صاف ہو گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نہ وہ پہاڑ ہے نہ وہ میدان ہے بلکہ اب انہیں ایک خوبصورت شہر دکھائی دیا۔ جو بہت بڑی آبادی پر مشتمل تھا۔
بڑے بڑے مکانات تھے، کشادہ سڑکیں تھیں اور عام طور سے جیسے بڑے شہروں میں محلے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح یہ شہر بھی محلوں میں تقسیم تھا۔
کچہریاں بھی تھیں، جہاں مقدمے پیش کئے جا رہے تھے اور عدالت ان کے فیصلے سنا رہی تھی۔ ان دونوں کو ایک آدمی تلاش کرتا ہوا آیا اور ان سے کہا:
’’تمہارے مقدمے کی پیشی ہے۔ چلو عدالت میں فیصلہ ہو گا۔‘‘
پہلے تو یہ ڈرے پھر انہیں شاہ صاحبؒ کا قول یاد آ گیا۔ انہوں نے سوچا اب جو کچھ بھی ہو مقدمے میں تو پیش ہونا ہی ہے۔ پھر انہوں نے شاہ صاحبؒ کا لکھا ہوا پرچہ اس آدمی کے ہاتھ میں دیکھ لیا تو انہیں کچھ اطمینان ہوا۔ یہ دونوں اس شخص کے ساتھ ہو لئے۔
عدالت نے پرچہ پڑھ کر حکم جاری کیا کہ اس جن کو پیش کیا جائے جس کے خلاف یہ شکایتی پرچہ شاہ صاحبؒ نے لکھا ہے۔
انسپکٹر نے پرچہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور کہا:
’’حضور ہمیں اس شخص کو تلاش کرنا پڑے گا اس لئے ہمیں مہلت دی جائے‘‘۔
عدالت نے کہا:
’’شاہ صاحبؒ تو اس مقدمے کا فیصلہ فوراً چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ جس جن سے یہ حرکت سرزد ہوئی ہے اسے ان کے سامنے پیش کیا جائے۔‘‘
پیشکار نے جواب دیا:
جنات کی سی آئی ڈی:
’’ہمارے یہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ کسی جن کو پکڑ کر انسانوں کے حوالے کر دیا جائے۔ جنات کا معاملہ تو ہم ہی طے کر سکتے ہیں۔ اول تو اس جن کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں مہلت ملنی چاہئے اس کے لئے کم سے کم ایک ماہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ جس جن نے یہ حرکت کی ہے وہ خود کو ضرور چھپائے گا، ظاہر نہیں کرے گا اور جنوں کی سی آئی ڈی کے تعاون کے بغیر اس کا پتہ چلانا ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا عدالت سے درخواست ہے کہ سی آئی ڈی افسر مجاز سے دریافت کیا جائے کہ اس جن کو تلاش کرنے کے لئے کتنی مہلت درکار ہے۔ یہ ایک ماہ تو میں نے اپنی طرف سے فرض کر لیا ہے۔ ہم شاہ صاحبؒ سے براہ راست گفت و شنید نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں اس کا حق نہیں پہنچتا۔ اس لئے کہ وہ ایک ایسے انسان ہیں جو ہمارے لئے واجب التعظیم اور قابل احترام ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ معزز عدالت اس جن کے ذریعے جو خارش زدہ کتے کے روپ میں باغ کی دیوار کے نیچے پڑا رہتا ہے اور جس نے شاہ صاحبؒ کے قاصد کے فرائض انجام دیئے ہیں مناسب جواب لکھ بھیجے۔
تا کہ شاہ صاحبؒ کسی حد تک مطمئن ہو جائیں کہ ان کا مقدمہ عدالت میں پہنچ چکا ہے اور زیر تفتیش ہے۔ ضابطہ کی کارروائی اور جن کی تلاش اور بازیابی میں کچھ عرصہ لگے گا تا کہ وہ بد دل نہ ہوں اور ناراضگی کا اظہار نہ فرمائیں۔ ہم شاہ صاحبؒ کو ایک ایسی پارٹی مانتے ہیں جنہیں خفا کرنا نہیں چاہتے۔ پرچے میں اتنے حالات ضرور ہونے چاہئیں جس سے شاہ صاحبؒ کم و بیش پوری روئیداد اور ہماری مجبوریوں کو کماحقہ جان جائیں اور انہیں اس بات کی امید ہو جائے کہ اس معاملہ کا جلد یا بدیر کسی نہ کسی طرح فیصلہ ہو جائے گا۔
اور انہیں شدید انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
چنانچہ پیش کار نے عدالت کی طرف سے ایک رقعہ لکھا۔
اس رقعے میں مختصر طریقے پر ہر بات لکھی گئی اور اس کو اسی طرح لپیٹ کر جس طرح شاہ صاحبؒ نے لپیٹا تھا اس جن کو دے دیا گیا جو اس رقعے کو لایا تھا۔
پھر شاہ صاحبؒ کے اس پرچے کی کئی نقلیں تیار کی گئیں۔ جو جنوں کی سی آئی ڈی کو دے دی گئیں۔ اور یہ تاکید کر دی گئی کہ جلد از جلد اس جن کا پتہ چلائیں جس نے یہ حرکت کی ہے۔
جنات کا سول کورٹ:
چند دن کے بعد سوداگر اور اس ملازم کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور عدالت کے پیش کار نے شاہ صاحبؒ کا لکھا ہوا پرچہ پڑھ کر سنایا۔ اس میں یہ تحریر تھا:
’’میرا ہمسایہ یہ سوداگر اور اس کا ایک ساتھی جنہیں آپ کی خدمت میں پیش ہونا ہے ان دونوں سے آپ مفصل روئیداد سن سکتے ہیں۔
جو اس مقدمہ کے سلسلے میں ضروری ہے۔ اول تو یہ ہے کہ انسانوں میں یا جنات میں آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا اس کے باوجود سوداگر کی لڑکی کو اغواء کیا گیا ہے۔ وہ لڑکی پہلے تو کبھی کبھی اپنے باپ کے گھر واپس آ جاتی تھی اور اس نے کسی قسم کی اذیت کی کوئی شکایت نہیں کی لیکن اب وہ آنا جانا بھی ختم ہو گیا ہے۔ لہٰذا میں اس کے باپ کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں تا کہ آپ کو تفصیلات کا علم ہو جائے۔ جتنی تفصیلات میں جانتا ہوں میں نے آپ کو پیش کر دی ہیں۔ دوسری ایک بات اور زیر غور ہے اور میرے نزدیک اس کا سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جس دن سے لڑکی غائب ہوئی یا غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے میرا ایک جن شاگرد بھی لاپتہ ہے۔ وہ بھی مدرسے نہیں آیا کہ میں اس سے ہی کچھ معلوم کر سکتا۔ بظاہر ان دونوں کڑیوں کا تعلق ایک دوسرے سے یقینی ہے۔ میری درخواست ہے کہ اُس جن کا پتہ چلائیں جو مدرسے میں پڑھتا تھا اور پڑھتے پڑھتے یکایک غائب ہو گیا۔ ممکن ہے میرا خیال صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ بالکل صحیح نہ ہو بلکہ تقریباً صحیح ہو یہ غائب ہونے والے جن نے خود کیا ہے یا دوسرے جنات کو اس جرم میں شامل کر کے یہ واردات کی ہو۔‘‘
خط پڑھا جا چکا تو عدالت سوداگر اور اس کے ساتھی سے مخاطب ہوئی اور ان سے سوال کیا:
’’یہ بیان تو شاہ صاحبؒ کا تھا جو آپ صاحبان کو پڑھ کر سنایا گیا۔ اب آپ حضرات اپنا اپنا بیان قلمبند کرائیں۔‘‘
اس پر سوداگر نے کہا۔ ’’میری لڑکی پردہ دار ہے۔ بے پردہ کسی کے سامنے نہیں آتی۔ نہ ہی اسے شہر سے باہر جانے کا کبھی اتفاق ہوا۔ بازاروں میں پھرنا بھی اس کی عادت نہیں ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ جاتی ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ بازار تک۔ ایک تو اس بناء پر کسی انسان پر اغواء کا شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے گھر میں صرف وہ اعزاء آتے ہیں جن سے کوئی پردہ نہیں ہے اور ان کے سامنے لڑکی چھوٹی سے جوان ہوئی ہے وہ سب کے سب لڑکی سے محبت کرتے ہیں اور لڑکی کے غائب ہو جانے سے بہت پریشان ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ لڑکی کی دو ایک سہیلیاں اور ہمارے چند ایک رشتہ دار اس کو پوچھنے نہ آتے ہوں۔ اور انہیں اس کے متعلق تشویش نہ ہو۔ جب ہم یہ معاملہ شاہ صاحبؒ کے سامنے لے گئے تو انہوں نے بہت دیر تک آنکھیں بند کر کے مراقبہ کیا لیکن اس قسم کا کوئی شبہ ظاہر نہیں کیا کہ لڑکی کو اغواء کرنے والے انسان ہیں۔ ہم لوگ شاہ صاحبؒ کو اپنا رہنما اور بزرگ کامل سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں اس بات کا کلی یقین ہے کہ یہ کام بجز اجنہ کسی اور نے نہیں کیا۔‘‘
یہ کہہ کر سوداگر خاموش ہو گیا۔ اور پیشکار نے آئندہ پیشی کی تاریخ دے دی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے