Topics

خواب


                ہم نے فلیٹ چھوڑ دیا اور شہر سے دور نسبتاً بڑے مکان میں منتقل ہو گئے۔ میرے اندر ایک بے چینی تھی کہ میں اب کس طرح اسے روز روز دیکھ سکوں گی۔ پھر میں خود ہی اس سوال کے جواب میں دل سے کہتی کہ تجھے صبر کرنا ہو گا۔ اب ہر وقت میرا جی یہ چاہتا کوئی بھی نہ ہو اور وہاں میں میٹھی نیند سو جائوں۔ میں اللہ سے کہتی اے اللہ مجھے گہری نیند سلا دیں کہ مجھے کوئی نہ جگائے۔ نئے گھر میں گئے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ گزر گیا۔ حبیب سے ملاقات اسکول پر بھی نہ ہو سکی۔ اب گھر دور ہونے کی وجہ سے مجھے اسکول بس پر آنا جانا پڑتا تھا۔ میں روز انتظار کرتی ایک دو بسیں جان کر چھوڑ دیتی مگر وہ نہ آیا۔ ایک دن اسٹاپ پر کھڑی کھڑی یاد کر رہی تھی کہ ایک دم الہامی کیفیت طاری ہو گئی۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ سائیکل تیز تیز دوڑتا ہوا آ رہا ہے۔ ابھی وہ پچھلے اسٹاپ کے پاس تھا یہاں آنے میں اسے کم از کم دس منٹ لگنے تھے بس میرے سامنے رکی۔ کنڈیکٹر اسٹاپ کا نام لے کر چلاتا رہا۔ اس ٹائم تقریباً روزانہ وہی بس آتی تھی اور بس ڈرائیور اپنے پسنجر کو پہچانتے تھے کہ اسے کہاں جانا ہے اس لئے وہ آواز دے کر بھی چڑھا لیا کرتے تھے۔ مجھے بھی ڈرائیور نے اندر آنے کا اشارہ کیا کہ میں نے اشارے سے نہ کر دی۔ اسی طرح آگے پیچھے دو تین بسیں گزر گئیں۔ اس دوران میں دیکھتی رہی کہ وہ سائیکل دوڑاتا ہوا نہایت تیزی سے میرے پاس آ رہا ہے۔ میں اسے مایوس کرنا نہیں چاہتی تھی۔ تھوڑی دیر ہی میں وہ سائیکل پر ہانپتا کانپتا پہنچ ہی گیا۔ پسینے میں اس کی شرٹ بدن سے چپک گئی تھی۔ میرے قریب آ کر وہ سائیکل سے اتر گیا اور تیز چلتی سانسوں کے درمیان کہنے لگا مجھے بہت دیر ہو گئی تھی میں سمجھا تم چلی گئی ہو گی۔ میں نے مسکرا کر کہا مجھے پتہ تھا کہ آج آپ ضرور آئیں گے اس لئے کھڑی تھی۔ وہ ایک دم چونک کر بولا تمہیں کیسے پتہ چلا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ میرے دل نے کہا تھا اب ہم دونوں اسی راستے کی جانب چل دیئے ان راستوں پر قدم رکھتے ہی محسوس ہونے لگا جیسے یہ راستے ہمارے لئے نئے نہیں ہیں۔ میں نے اس سے اتنے دن نہ آنے کے متعلق پوچھا اس نے پڑھائی کی مصروفیت وجہ بتائی۔ ان ہرے بھرے سنسان راستوں پر چلتے چلتے میرا جی چاہتا خوشی کے یہ لمحے ہمیشہ کے لئے ٹھہر جائیں۔ میں ان لمحوں میں بھی اللہ کو کبھی نہیں بھولی۔ میں اللہ کو اندر ہی اندر پکارتی رہتی۔

                میری روح میرا دل اسے اپنا جانتا تھا اور اب تن بھی اسے اپنا کہنے لگا۔ اب وہ بھی اس کی راہ دیکھتا جب ہم ملتے تو یوں لگتا کہ جیسے فطرت نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ میری روح میرا دل شاد تھا مگر ہر پندرہ بیس دن کے بعد اچانک ہی ریحانہ کی ہڑک من میں اٹھنے لگتی تھی۔ شروع شروع میں تو اپنے آپ کو یہ کہہ کر سمجھاتی رہی کہ بچپن کی محبت اور ساتھ تھا ابھی میں اس کی جدائی کی عادی نہیں ہوئی مگر اتنے مہینے گزرنے کے بعد بھی وہی روز اول والا معاملہ تھا۔ اس دن بھی میں سارا دن خوشی خوشی اپنے کاموں میں مشغول رہی۔ حبیب کا تصور دل کے خوش رکھنے کو کافی تھا۔ شام گہری ہوتی تو اچانک ریحانہ کا خیال آ جاتا۔ وہ اس وقت کیا کر رہی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی دل نے بے شمار سوالات کر ڈالے۔ اسے بچپن کا زمانہ یاد بھی آتا ہو گا اس کا شوہر اس سے بہت محبت کرتا ہو گا۔ پھر وہی دل کا تقاضا کہ ایک نظر دیکھ لوں یہاں تک کہ اس تقاضے میں رات ہو گئی اور پھر بڑی مشکل سے میں نے اپنے دل کو سمجھایا اور اس کے لئے دعا کی کہ اللہ پاک اسے زندگی کی اور آخرت کی بھرپور خوشیاں عطا فرما۔ جب اس خیال کی گہرائی سے نکلی تو میں نے بڑی سنجیدگی سے اس پر غور کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر تھوڑے دنوں بعد میری یہ حالت ہو جاتی ہے اور جب میں اس حالت سے باہر نکلتی ہوں تو اس کے متعلق اتنا سوچتی بھی نہیں۔ میں اپنے کاموں میں مگن ہو جاتی ہوں اور ریحانہ کو تو یاد بھی نہیں کرتی کہ ایسی حالت ہو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ تب سوچنے پر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اللہ چاہتا ہے کہ میں اسے یاد کر کے اس کے لئے دعا کرتی رہوں کیونکہ آخر میں نے اسے دوست کہا تھا۔ دوستی کا تقاضا بھی تو نبھانا ہے۔ دنیا میں بچھڑنے سے دوستی ختم تو نہیں ہو جاتی۔ ارے روحیں تو مرنے کے بعد بھی ملتی ہیں۔ ضرور اللہ نے میری دعا قبول کر لی اور ضرور ہماری دوستی مرنے کے بعد بھی قائم رہنے والی ہے۔

                میں نے اللہ کا شکر ادا کیا مجھے اللہ کی مہربانی کا بڑی شدت سے احساس ہوا۔ بچپن سے ہی اپنی امی سے یہ سنتی آئی تھی کہ اللہ سے جو مانگو وہ دیتا ہے۔ بس اللہ سے سب کی بھلائی کی دعا کرنی چاہئے۔ میرے دل میں یہ بات بالکل پکے یقین کے ساتھ بیٹھ گئی کہ اللہ سے جو مانگو وہ مل جاتا ہے اور مرنے سے پہلے آدمی کی ہر خواہش اللہ پوری کر دیتا ہے۔ ان دنوں جو سب سے زیادہ دل کی خواہشات تھی وہ یہ کہ سب سے پہلے تو اللہ میاں کو اچھی طرح دیکھ لوں۔ اللہ نے جس کی محبت دل میں ڈالی ہے تو دنیا اور آخرت میں اس کا ساتھ عطا کرنا اور ریحانہ کا ساتھ بھی آخرت میں دینا کیونکہ انسان کو دوست کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے۔ میں نے دوستی کے لئے ریحانہ کو چن لیا ہے۔ میں بس یہی تینوں خواہشات اللہ سے کرتی اور اسی کی دعا مانگتی۔

                اکثر میں سوچتی کب یہ زندگی گزرے گی۔ کب وہ دن آئے گا جس دن میں مروں گی اور غیب میں داخل ہو جائوں گی اور اللہ میاں سے دعا کرتی۔ اللہ میاں میں بوڑھی ہونا نہیں چاہتی ہوں۔ کافی دیر زندہ رہنا نہیں چاہتی۔ آپ سے ملنے کے لئے اور غیب کی دنیا کو دیکھنے کے لئے اتنا لمبا انتطار کیسے کروں کی۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں آئندہ زندگی بڑی لمبی دکھائی دیتی۔ میں دل میں کئی کئی مرتبہ زندگی مختصر ہونے کی دعا کرتی۔ میرے اندر کی شمامہ اپنی دنیا میں مگن تھی باہر کی شمامہ اپنی دنیا میں۔ کہاں اندر اندر مرنے کا اتنا اشتیاق اور کہاں باہر باہر زندگی کے ہر کام میں بھرپور حصہ لینا۔ دونوں رخوں میں زندگی اپنی پوری رفتار سے گزر رہی تھی۔ مجھے گھر گر ہستی کے ہر کام کا شوق تھا۔ اگر نہ بھی ہوتا تو امی بخشتیں کب۔ وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں علم و ہنر میں ساری دنیا سے بہتر ہوں ہر کام بڑی بہن چھوٹی بہنوں کو سکھایا کرتیں۔ بڑوں کے لئے امی کا یہ حکم ہوتا تھا کہ اسکول میں، پڑوس میں، بازار میں جہاں بھی تم کو کوئی چیز اچھی لگے تو فوراً گھر آ کر اس کی کاپی کرو۔ اس طرح ہم لوگ سلائی، کڑھائی، بنائی، کھانا پکانا غرض کہ سب کچھ سیکھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے بھائی اور بہن کو ڈرائنگ اور آرٹس سے بھی دلچسپی تھی ان سے میں نے بھی سیکھی اور خالی وقت میں شوقیہ تصویریں بھی بنا لیا کرتی تھی۔ غرض کہ اس زمانہ کا کوئی بھی ہنر ایسا نہ تھا جو ہم نے نہ سیکھا ہو۔ بس مجھے روٹی پکانا بہت دوبھر لگتا تھا۔ سالن پلائو اور اچھی اچھی چیزیں پکا لیا کرتی تھی مگر روٹی پکانے میں جان نکلتی تھی۔ مجھ سے چھوٹی بہن بڑی باریک باریک چپاتیاں بناتی۔ جب میری باری آتی تھی تو میں اس کی منتیں کرتی تھی۔ میری امی بھی اس معاملے میں بڑی سخت تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ہر لڑکی سب کچھ کام کرے تا کہ ہر کام سیکھ لے۔ امی کا ایسا رعب تھا کہ کچھ کہہ نہ سکتے تھے مگر میں چپکے چپکے اس کی منتیں کرتی رہتی۔ بہن آج تم روٹی پکادو کل میں تمہارے حصے کا کام کر دوں گی۔ کبھی تو یہ سن لیتی تھی اور کبھی کہہ دیتی تھی کہ امی کو بتا دوں گی کہ بی آپا روٹی نہیں پکا رہیں۔ پھر چار و ناچار خود ہی پکانا پڑتا تھا۔

                سکینہ نے ان دنوں کہیں سے مشین ایمبرائیڈری سیکھ لی تھی۔ اس کی سلائی بھی بہت اچھی تھی۔ ہم دونوں بڑے اچھے اچھے کپڑے سینے اور جب پہن کر اسکول جاتے تو سب لڑکیاں تعریف کرتیں تو اور بھی خوشی ہوئی۔ کراچی میں فیشن بھی بڑی تیزی سے بدل جاتا ہے۔ ہر نیا فیشن ہم دوسرے ہی دن کاپی کر لیتیں۔ ہماری اچھی اچھی سلائی کڑھائی پر امی بھی بہت خوش ہوتی تھیں۔ نئے نئے فیشن کو اپنانے سے انہوں نے کبھی ہمیں نہیں روکا۔ مگر ساتھ ساتھ ذہنی تعلیم پر بھی پوری توجہ دلائی۔ ہم سب بہن بھائی روزے رکھنے کے بڑے شوقین تھے۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے یہاں بڑا خوبصورت ماحول ہوتا۔ سب لوگ پورے روزے رکھتے۔ ابا قرآن باترجمہ پڑھتے اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے اور قرآن کی ہدایتوں پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے۔ ایک دفعہ ابا قرآن پڑھ رہے تھے اس میں شیطان کا تذکرہ تھا۔ ابا نے مجھے پاس بلایا۔ کہنے لگے۔ شمامہ شیطان کو دیکھا ہے۔ میں ابا کے سوال پر سوچ میں پڑ گئی۔ کہنے لگے لوگ جو کہتے ہیں کہ شیطان سے بچ کر رہو۔ شیطان پر لاحول بھیجو تو کیا لوگوں کو شیطان دکھائی دیتا ہے۔ میں نے کہا۔ ابا دکھائی تو نہیں دیتا۔ ابا کہنے لگے پھر لوگ کس سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے کہا، ابا پھر برائی کیا ہے۔ بدی کو جو ہم شیطان سے منسوب کرتے ہیں تو بدی کیا ہے۔

                لو سنو۔ کہنے لگے۔ بیٹی شیطان انسان کے اندر ہی ہے۔ شیطان وہ مرکز ہے جہاں سے بدی کے خیالات ہمارے اندر آتے ہیں۔ میں نے کہا مگر ابا اگر شیطان نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ پھر کوئی بھی غلط کام نہ کرتا۔ کہنے لگے۔ اللہ کے ہر کام میں حکمت ہے۔ اگر برائی نہ ہوتی تو تمہیں اچھائی کا کیسے پتہ چلتا بیٹی۔ مچھلی ساری عمر سمندر میں رہتی ہے سمندر سے ہی اسے رزق فراہم ہوتا ہے۔ مچھلی کے لئے سمندر کی زندگی ایک ایسا روٹین ہے جو ایک آٹو میٹک مشین کی طرح جاری و ساری ہے۔ اس کا ذہن اس کے متعلق سوچتا بھی نہیں کہ سمندر کے اس پر کیا کیا احسانات ہیں۔ جیسے ہم ہر وقت سانس لیتے ہیں۔ ہمارا دل ہر وقت دھڑکتا ہے۔ ہمارا ذہن کبھی اس طرف نہیں جاتا مگر اس وقت جاتا ہے جب سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ دل کی دھڑکن میں کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ تب ہمیں صحیح عمل کا پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح جب مچھلی سمندر سے باہر نکلتی ہے تو سمندر کی عنایات کا اسے احساس ہوتا ہے۔

                ان دنوں میرا شدت سے جی چاہتا کاش میں جنگل میں نکل جاتی۔ فطرت سے قریب تر رہ کر اپنے رب کو تلاش کرتی۔ تقریباً تین سال پہلے بھی جب ہم فلیٹ میں رہتے تھے تو میرے اوپر یہی خوف چھایا رہتا تھا اس لحاظ سے تو مجھے اپنے لڑکی ہونے پر بھی افسوس ہوتا تھا۔ بس میرا جی چاہتا کہ جنگل میں نکل جائوں جہاں بہت سے پرندے ہوں ان کے ساتھ میں بھی اڑتی رہوں۔ بار بار میری نظر آسمان پر جاتی۔ چڑیوں کو آزادی کے ساتھ اڑتے دیکھ کر میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔ دل ان سے باتیں کرنے لگتا۔ اے چڑیو! تم کتنی خوش نصیب ہو۔ جب جی چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے اڑ کے پہنچ جاتی ہو۔ کاش میں لڑکا ہوتی تو کسی جنگل میں جا کر پرندوں کے ساتھ آزادی سے رہتی اور اللہ کے تصور میں کسی پیڑ کی چھائوں میں بیٹھی رہتی۔ وہاں میرے کاموں میں کوئی محل نہ ہوتا۔ کاش ایسا ہوتا۔ آخر میری زندگی کا کوئی تو مقصد ہو گا۔ میں بے مقصد زندگی نہیں چاہتی۔ مجھے میری زندگی کا مقصد بتا دیجئے میں کسی سے نہیں پوچھوں گی۔

                حبیب نے ایک دن بتایا کہ وہ کسی رشتے دار کے پاس ایک ماہ کے لئے لاہور جا رہے ہیں۔ میرے دل کو دھچکا سا لگا۔ ایک ماہ تک میں اسے نہ دیکھ سکوں گی۔ لیکن میرے دل نے ایک عزم کے ساتھ کہا تم اتنا عرصہ نہیں رہ سکو گے۔ میری کشش تمہیں کھینچ لائے گی۔ دو ہفتے گزر گئے ایک رات خواب دیکھا کہ آج اکیس تاریخ ہے اور وہ آ گیا ہے۔ تیسرے دن اکیس تاریخ تھی۔ مجھے اپنے سچے خوابوں کا پتہ چل جاتا تھا۔ عام طور سے میں خواب ہمیشہ ہی سچے دیکھتی تھی۔ میں اس دن صبح سے ہی انتظار میں رہی۔ وہ آ گیا۔ کھڑکی سے اسے آتے دیکھ کر مجھے خوشی تو بے حد ہوئی مگر ذرا بھی تعجب نہ ہوا۔ یوں لگا جیسے اسے اسی دن آنا تھا۔ ہم گھر سے باہر ملے۔ اس نے کہا میرا دل نہیں لگ رہا تھا اس لئے دو ہفتے پہلے ہی چلا آیا۔ میں نے کہا کہ ہاں میں صبح سے ہی تمہارے انتظار میں تھی۔ وہ حیران ہوا تمہیں کیسے پتہ چلا۔ میں نے کہا میں نے خواب دیکھ لیا تھا۔ میں اسے اس کے متعلق جو بھی الہام میں یا خواب میں دیکھتی ضرور بتا دیتی تھی۔ میں سوچتی۔ جیون ساتھی کے درمیان کوئی راز نہیں رہنا چاہئے۔ اس طرح ہمیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں بھی مدد ملے گی۔

                ان دنوں خوش رہنا ہماری زندگی کا مقصد تھا۔ میرا دسویں کا امتحان ہو گیا۔ اب میں گیارہوں کلاس میں یعنی میٹرک میں آ گئی تھی۔ حبیب تو ہر مرتبہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوتا تھا۔ اس نے مجھ پر بھی سختی لگائی ہوئی تھی کہ تمیہں بھی میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لینی ہے۔ میں ہنستی کہ مجھ سے یا تو اپنے عشق کا امتحان پاس کرا لو یا پھر میٹرک کا پاس کرا لو مگر خیر پڑھائی کا تو مجھے بھی بے حد شوق تھا۔ میں میٹرک کے شروع سال سے ہی روزانہ رات کو جاگ جاگ کر پڑھائی کرتی۔

                ابھی امتحان میں چار پانچ ماہ تھے کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کی دہلیز پر اندر کی طرف کھڑی تھی۔ میرے بڑے بھائی دہلیز پر اس طرح کھڑے ہیں کہ ان کا ایک پائوں باہر اور ایک پائوں دہلیز کے اندر ہے اور اندر والا ہاتھ میں نے پکڑ رکھا ہے اور باہر والا ہاتھ چند لوگوں نے پکڑ رکھا ہے۔ جو لوگ باہر ہیں وہ سارے کے سارے میرے وہ رشتہ دار ہیں جن کا انتقال ہو چکا ہے اور جنہیں میں نے اپنی زندگی میں دیکھا بھی نہیں۔ ہمارے درمیان رسہ کشی ہو رہی ہے۔ بھائی کا ایک ہاتھ پکڑ کر میں انہیں اندر کھینچ رہی ہوں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اسے لے کر جانا ہے۔ میں دانت پیس کرکہتی ہوں کہ میں نہیں جانے دوں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ شمامہ ہمیں پتہ ہے تو بہت طاقتور ہے مگر ہمیں اس کو لے کر ہی جانا ہے۔ بہت دیر تک رسہ کشی کے بعد بالآخر میرا ہاتھ چھوٹ جاتا ہے اور بھائی کو وہ لوگ لے جاتے ہیں۔ یہ خواب دیکھ کر میں بے حد پریشان ہو گئی۔ میں جان گئی تھی کہ یہ سچا خواب ہے۔ سچا کواب دیکھ کر جب آنکھ کھلتی تو ہمیشہ مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے اور دل میں ذرا برابر بھی شک نہ آتا بلکہ دل اندر سے یہی کہتا ایسا ہی ہونا ہے۔ مجھے اپنے بہن بھائیوں سے انتہائی محبت تھی۔ میرا بس چلتا تو میں اپنی زندگی بھی انہیں دے دیتی۔ مجھے معلوم تھا کہ کاتب تقدیر کا قلم چل چکا ہے اور اب کسی کی شنوائی نہیں ہو سکتی۔ اب میں کیا کروں۔ کس سے اپنا راز کہوں۔ کیسے دل کا بوجھ گھٹائوں۔ مجھے اپنی روح بے بسی کے حال میں حسرت و یاس کی تصویر نظر آئی۔ میں نے فجر کی نماز ادا کی اور اپنے رب کے سامنے جھک گئی۔ اے میرے رب تیرے فیصلے اٹل ہیں ہمیں اپنی فیصلوں کو قبول کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرما۔ اس دن حبیب سے میری ملاقات ہوئی میں نے اسے بتایا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے اور میں بہت پریشان ہوں۔ اسے پتہ تھا کہ میرے خواب اکثر سچے ہوتے ہیں۔ وہ مجھے تسلی دینے لگا موت اور زیست تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ ہم سب اسی کے ہیں۔ وہ جب چاہے اپنے پاس بلا لے۔ مگر ضروری نہیں کہ یہ سچ ہو وہ اپنے ماں باپ کی جوان اولاد ہے اور اس کے ننھے ننھے بچے ہیں۔ اللہ اپنا فضل کرے گا۔ تم خواہ مخواہ پریشان نہ ہو۔ حبیب کے الفاظ سے مجھے بڑا اطمینان ملا۔ میں نے سوچا۔ رنج و غم کے لمحات میں ہمدردی و غمگساری کتنی بڑی نعمت ہے۔

                ابھی میرے میٹرک کے امتحان میں تقریباً دو ماہ تھے کہ ایک رات جب میں سوئی تو تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ کھل گئی۔ مجھ پر ایک الہامی سی کیفیت تھی۔ بند آنکھوں سے مجھے سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میری نانی پر نانی جنہیں میں نے زندگی میں دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ نظر آئیں۔ ان کی روحیں بالکل جوان تھیں مگر انہیں فوراً پہچان گئی۔ دونوں نے ریشم کا بہت خوبصورت ڈریس پہن رکھا تھا۔ خوشیاں ان کے روئیں روئیں سے ٹپک رہی تھیں۔ وہ سارے گھر میں خوشی خوشی گھوم پھر رہی تھیں۔ وہ جہاں جہاں جاتیں میری آنکھیں انہیں دیکھتیں۔ ان کی باتیں سنتیں۔ ابا کو اماں کو ہر ایک کو دیکھ دیکھ کر اس قدر خوشی سے ہنستیں۔ یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے۔ سب کے پاس جا جا کر خوشی خوشی اسے دیکھتیں۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ میں زمین پر امی کے ساتھ لیٹی تھی مجھے سخت ڈر لگا۔ مگر میں جانتی تھی کہ مجھ پر الہامی کیفیت طاری ہے۔ وہ خوشی خوشی میرے پاس آئیں۔ میرا منہ چوما ان کے پیار میں بڑی گرمجوشی تھی۔ وہ بار بار مجھے پیار کرتیں، ہنستیں اور سارے گھر میں گھومتیں۔ ساری رات یہی ہوتا رہا۔ دن نکلا تو وہ غائب ہو گئیں۔ ابھی میری پلک جھپکی ہی تھی کہ اسکول کے لئے اٹھنا پڑا۔ پھر تو ہر روز یہی ہونے لگا۔ وہ آتیں مجھے پیار کرتیں میرے بال پکڑتیں میں ان سے کہتی کہ چلی جائو مجھے سونے دو۔ ساری رات میری یونہی گزر جاتی۔ مجھے فکر سی رہنے لگی تھی کہ وہ کیوں آتی ہیں اور کیا ہونے والا ہے۔ چند دن بعد میں نے امی سے کہا کہ امی ہر روز نانی اور پرنانی آتی ہیں اور اس طرح سب کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور مجھے سونے نہیں دیتیں۔ امی کہنے لگیں کہ ان سے کہنا کیوں آتی ہیں یہاں کیا کام ہے؟ میں نے رات کو ان سے اسی طرح کہا کہ آپ کیوں یہاں آتی ہیں کیا کام ہے اب آپ نے سب کو دیکھ لیا ہے اب واپس چلی جائیں۔ وہ دونوں یہ سن کر خوب ہنسیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگیں۔ لو بھئی یہ ہمیں کہتی ہے کہ واپس چلے جائیں۔ یہاں کیا کام ہے پھر ہنسنے لگیں۔ بس ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ میرا یہ حال تھا کہ ان کی وجہ سے ساری رات جاگتی تھی۔ میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے۔ عجیب مشکل میں جان تھی۔ پندرہ بیس دن ہو گئے تو پھر میں نے امی سے کہا۔ امی میری ساری رات جاگتے گزر جاتی ہے یہ روز روز آتی ہیں ، کیا کروں؟ دن بھر میرا اسکول کے کاموں میں گزر جاتا ہے میٹرک کی پڑھائی ہے مجھے فکر ہو رہی ہے۔ گھر والے مجھے ایک حکیم کے پاس لے گئے اس نے کچھ شربت وغیرہ دیئے اورکہا کہ نیند نہ آنے شکایت شہنشاہ عالمگیر کو بھی تھی۔ اس کو بھی اسی شربت کے پینے سے آرام آیا تھا۔ میں نے حکیم صاحب کو تو نہیں بتایا کہ رات بھر روحیں نظر آتی ہیں۔ صرف نیند نہ آنے کی شکایت کی تھی۔ مگر ہوا یہ کہ میں نے حکیم صاحب کی دو بوتلیں شربت ختم کر ڈالیں مگر یہ شہنشاہی بیماری تو ختم نہیں ہوئی۔ بیماری ہوتی تو ختم ہوتی۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ کیا کیفیت ہے مگر ایک تو بڑے بھائی جان کی موت کا خواب ذہن میں تھا، دوسرے مجھے اپنے میٹرک کے امتحانوں کی شدید فکر تھی۔ میں سوچتی تھی کہ اگر میں اسی طرح جاگتی رہی تو بیمار نہ پڑ جائوں۔ دن میں جان کر سوتی نہ تھی۔ امتحان کا بوجھ ہر وقت ذہن پر سوار رہتا تو اپنا زیادہ وقت پڑھنے میں گزار دیتی۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ رات کو یہ مجھے پڑھنے نہ دیں گی۔ اس لئے دن میں ہی اسٹڈی کر لوں۔ پورے سوا مہینے تک یہی عالم رہا۔ اس کے بعد وہ غائب ہو گئیں۔ روحوں کے جانے کے دوسرے دن سے ہی میں آرام سے سونے لگتی تھی۔ ایک رات اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ اس رات یوں لگا جیسے بھائی جان کی طبیعت سخت خراب ہے۔ دل گھبرانے لگا میں رونے لگی۔ امی ابا سے پوچھا۔ ابا بولے بیٹے! ابھی کل ہی تو وہ آیا تھا۔ تم نے خواب دیکھا ہو گا۔ میں ہچکیاں لے کے کہہ رہی تھی۔ بھائی جان تکلیف میں ہیں۔ امی میری روحانی صلاحیتوں سے باخبر تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ اس نے کچھ نہ کچھ ضرور دیکھا ہے۔ وہ ابا کے پیچھے پڑ گئیں کہ جا کر اس کے گھر دیکھ کر تو آئو۔ ابا کہنے لگے۔ ہر روز دفتر جانے سے پہلے وہ تم کو سلام کر کے جاتا ہے۔ بھائی جان کی عادت تھی کہ وہ دفتر جانے سے پہلے جلدی جلدی ہمارے گھر آتے۔ امی کو سلام کرتے اور کہتے اچھا اماں میں آتا ہوں اور چلے جاتے۔ ابا کہنے لگے کل بھی وہ تم کو سلام کر کے گیا تھا۔ صبح پھر آ جائے گا۔ تم لوگ تو خواہ مخواہ وہم کر رہی ہو۔ شمامہ نے یونہی کوئی ڈرائونا خواب دیکھ لیا ہے۔ آدھی رات کو اتنی دور میں کیسے جائوں؟ راستے میں کتے بھی بہت ہوتے ہیں ذرا دن نکلنے دو تو جائوں گا۔ ابھی تو رات کا تیسرا پہر ہے۔ امی بہت بگڑیں۔ بس اپنا ہی خیال ہے پتہ نہیں می رے بچے کا کیا حال ہے۔ ذرا جا کر دیکھ لیتے تو کیا حرج تھا۔ گھر میں کوئی مرد ہے بھی نہیں۔ کس کو بھیجوں؟ مجھ پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ بس یوں لگ رہا تھا جیسے بھائی بہت تکلیف میں ہیں اور ان کی تکلیف روحانی طور پر میں محسوس کر رہی تھی۔ بس روئے جا رہی تھی۔ بہت دیر بعد میری طبیعت سنبھلی۔ اٹھ کر نماز پڑھی۔ دعا کی۔ فجر کے بعد ابا ان کے گھر گئے پتہ چلا رات کو تیسرے پہر اچانک بھائی جان کی طبیعت سخت خراب ہو گئی تھی۔ پیٹ پھول گیا سینے میں سخت درد اور کھانسی اٹھ رہی تھی۔ بہت تکلیف تھی۔ درد کی گولیوں سے بھی کچھ فرق نہ پڑا۔ صبح ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔ اب ذرا افاقہ ہے۔ ابا نے آ کر بتایا۔ امی بہت خفا ہوئیں۔ اگر تم اسی وقت چلے جاتے تو کیا تھا۔ شمامہ کبھی غلط نہیں کہتی ہے۔ رات اس کو بھائی کی تکلیف کا پتہ چل گیا تھا اسی لئے تو وہ اس قدر رو رہی تھی۔ ورنہ تو وہ روتی کب ہے۔ میں نے کہا۔ امی جانے دیجئے۔ واقعی آدھی رات کو ابا اتنی دور پیدل کیسے جاتے۔ اس دن کے بعد سے بھائی جان کی طبیعت بگڑتی ہی چلی گئی۔ اچھے بھلے تندرست انتیس سال کے جوان آدمی تھے۔ اچانک نجانے کیا ہو گیا۔ دو تین دن بعد ہم انہیں اپنے گھر لے آئے۔ ڈاکٹر گھر آتے علاج چل رہا تھا میرے اندر خواب کی وجہ سے شدید رنج بھر گیا تھا مگر کسی سے بات بھی نہیں کر سکتی تھی۔ میں ایسے خواب گھر میں کسی کو نہیں بتاتی تھی کہ جو ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔ خواہ مخواہ سب کو پریشان کر کے کیا فائدہ۔ مجھے اپنی امی ابا اور بہن بھائیوں کی پریشانی کا بے حد خیال رہتا تھا۔ ہر وقت یہی سوچتی کہ کس طرح میری ذات سے انہیں سکھ اور خوشی پہنچے۔ یہی وجہ تھی کہ غم اور پریشانی والی بات کبھی کسی کو نہ بتاتی۔ بس ایک حبیب تھا جس سے میں تقریباً ہر طرح کی بات کر لیتی تھی۔ بھائی سخت بیمار تھے ایک دن صبح انہوں نے مجھے پاس بلایا۔ کہنے لگے۔ شمامہ! تجھے خواب کی تعبیر آتی ہے؟ میں نے کہا بھائی جان کیا خواب دیکھا۔ فکر مند لہجے میں آہستہ سے بولے۔ امی کو بالکل نہ بتانا۔ گھر میں کسی کو نہ بتانا بس تو مجھے ہی اس کی تعبیر بتا۔

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی