Topics

اللہ ھو


                حبیب بستر میں بیٹھے مطالعہ کر رہے تھے۔ اتنے میں چار سالہ نوید آ کر لحاف میں گھس گیا اور بضد ہو گیا۔ دادا کہانی سنائو۔ کچھ دیر تک تو دادا نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ ان کے انہماک میں ذرا کمی نہ آئی۔ بچے بھی اپنی بات منوانے کے تمام حربے جانتے ہیں۔ اب اس نے ہلا ہلا کر کہنا شروع کر دیا۔ دادا کہانی سنائو۔ میں پاس ہی تھی میں نے کہا۔ اے ہے اتنی دیر سے بچہ ضدا کر رہا ہے چھوڑو کتاب کل پڑھ لینا۔ آج میرے بچے کو کہانی سنا دو۔ حبیب کتاب کو ایک طرف رکھتے ہوئے بولے۔ ہاں بھئی کون سی کہانی سنائوں۔ نوید بولا۔ دادا جن والی کہانی سنائو۔ وہ بولے۔

                ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ خدا کا بنایا ہوا رسولﷺ بادشاہ۔ اس بادشاہ کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا تمہارے جتنا۔ ایک دن وہ شہزادہ کھیلتے کھیلتے دور جنگل میں نکل گیا۔ وہاں بہت سارے درخت تھے سوائے درختوں کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ وہ درختوں میں ایسا گم ہوا کہ اس کے ساتھ آئے ہوئے گارڈ بھی ان کی نظر سے چھپ گئے۔ وہ انہیں ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر دوڑنے لگا کہ ایک درخت کے نیچے ایک بند بوتل دکھائی دی۔ اسے اٹھا لیا۔ بوتل شیشے کی تھی۔ اس کے اندر دیکھا تو اسے صرف دھواں نظر آیا۔ اس نے بوتل کا ڈھکنا کھول دیا۔ ڈھکنا کھلتے ہی نہایت تیزی کے ساتھ دھواں باہر نکلا اور اس دھوئیں میں ایک بہت بڑا جن سامنے آ گیا۔ اس نے ادب کے ساتھ شہزادے کے سامنے جھکتے ہوئے کہا۔ میرے ماسٹر کیا آپ نے مجھے بلایا ہے؟ شہزادے نے اپنے خوف پر کچھ قابو پاتے ہوئے کہا ہاں ہم نے تمہیں بلایا ہے۔ تم ہمارے لئے کیا کر سکتے ہو؟ جن نے ہاتھ باندھ کر عرض کی میرے ماسٹر میں آپ کا ہر حکم پورا کر سکتا ہوں۔ شہزادے نے کہا دیکھو ہمارے گارڈ ہمیں تلاش کر رہے ہوں گے۔ تم ہمیں ان کے پاس لے چلو۔ جن نے کہا ماسٹر یہ تو کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ابھی لیجئے۔ یہ کہہ کر جن نے اپنا بڑا سا ہاتھ شہزادے کی جانب بڑھایا اور اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔ شہزادے نے جن کے لمبے لمبے بال جو رسیوں کی طرح تھے، پکڑ لئے اور پھر جن شہزادے کو لے کر اڑنے لگا۔ ساتھ میں وہ بار بار شہزادے کو تسلی دیتا جاتا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کو ہم گرنے نہیں دیں گے۔

                چند ہی منٹوں میں نیچے زمین پر شہزادے کے گارڈ شہزادے کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے دکھائی دیئے۔ شہزادہ انہیں دیکھتے ہی خوشی سے چلایا وہ دیکھو وہ ہیں میرے ساتھی۔ جن یہ سنتے ہی فوراً زمین پر اتر آیا جیسے ہی گارڈ کے سپاہیوں نے جن کو دیکھا وہ سب خوف زدہ ہو گئے لیکن شہزادے کو دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی۔ شہزادے نے مسکرا کر کہا یہ جن ہمارا دوست ہے۔ تم لوگ اس سے بالکل نہ ڈرو پھر اس نے تمام سپاہیوں سے کہا کہ تم سب بادشاہ کے پاس محل میں جائو اور ہم جن کے ساتھ وہیں پہنچتے ہیں۔ تمام محافظ شہزادے کو سلام کر کے محل کی جانب لوٹ گئے۔ شہزادے نے جن کی رسیوں جیسے مضبوط بال پکڑ کے ہلائے اور کہا اے جن اب ہمیں محل میں پہنچا دو۔ جن شہزادے کو لے کر بہت تیزی سے اوپر اٹھا اور فضا میں پرندوں کی طرح اڑنے لگا۔ شہزادے کو اب اڑنے میں مزا آ رہا تھا۔ وہ مزے سے نیچے دور دور تک دیکھنے لگا۔

                چند ہی منٹ میں وہ اپنے محل کے اندر پہنچ گیا ابھی اس کے گارڈ پہنچے بھی نہیں تھے۔ شہزادے کے ماں باپ اتنے بڑے جن کو دیکھ کر سخت حیران ہوئے۔ شہزادے نے بوتل کا سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بادشاہ نے شہزادے سے کہا کہ بیٹے جن کے ساتھ دوستی اچھی نہیں ہے۔ تم اس کو فارغ کر دو کہ یہ اپنے گھر چلا جائے۔ شہزادہ تو بچہ تھا۔ وہ ضد پر اتر آیا کہ ابا جان یہ جن تو میرا دوست ہے میں تو اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ یہ مجھے آسمان کی سیر کراتا ہے۔ بادشاہ نے کہا بیٹے ابھی تم بہت چھوٹے ہو ابھی تم کو اس سے صحیح کام لینا بھی نہیں آتا تم ہرگز اس سے کوئی ایسا کام نہ لینا جس سے کسی کو نقصان پہنچے ورنہ اللہ میاں تم سے ناراض ہو جائیں گے۔

                ننھا نوید اپنی پوری توجہ سے کہانی سن رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں اور نظروں سے کہانی کی پسندیدگی کا اظہار جھلک رہا تھا۔ میری نظریں نوید پر لگی ہوئی تھیں۔ حبیب نے کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔ دوسرے دن شہزادے کو پڑھانے کے لئے اس کا ٹیچر آیا۔ خادموں نے سارا محل چھان مارا شہزادہ کہیں نظر نہ آیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو خبر دی گئی کہ شہزادہ محل میں نہیں ہے۔ بادشاہ نے شہزادے کے خادم خاص سے پوچھا کہ شہزادہ کہاں ہے؟ اس نے ڈرتے ہوئے بتایا کہ شہزادہ جن کے ساتھ سیر کو گیا ہے۔ اس نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں کسی کو نہ بتائوں۔ وہ آج پڑھائی نہیں کریں گے۔ بادشاہ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔ جب شہزادہ واپس لوٹا تو اس وقت بادشاہ نے اسے طلب کیا اور شہزادے کو اس کے ٹیچر کے پاس پڑھنے بٹھا دیا۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ اس کے خادم نے بادشاہ سے شکایت کی ہے۔ اس نے خادم کو بلایا اور جن سے کہا کہ اس کی خوب پٹائی کرے۔ جن نے دو ہاتھ ہی مارے تھے کہ وہ بے دم ہو کر زمین پر گر پڑا۔ بادشاہ کے پاس خبر پہنچی۔ اب تو بادشاہ اور ملکہ دونوں بہت پریشان ہوئے کہ کیا تدبیر کی جائے کیونکہ جن تو صرف اپنے ماسٹر کا کہنا ہی مانتا تھا اور اس کا ماسٹر شہزادہ تھا جو اتنا کمسن تھا کہ اسے کسی بات کے اچھے برے کی تمیز بھی نہ تھی۔ ملکہ ماں تھی وہ اپنے بچے کی طبیعت سے خوب واقف تھی اس نے بادشاہ سے کہا کہ آپ ذرا بھی فکر نہ کریں ابھی جن کو قابو کرتے ہیں یہ کہہ کر وہ اپنے بیٹے کی جانب مڑی اور اسے پیار سے گلے لگایا۔ کہنے لگی بیٹے تمہارا یہ جن تو بڑا ہی طاقت ور ہے۔ واہ واہ اتنا بڑا جن تو ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔ واہ واہ یہ تو ہوا میں بھی چڑیا کی طرح اڑتا ہے۔ اس کی تو خوبیاں ایسی ہیں کہ تعریف کرنا بھی ناممکن ہے۔ اپنی تعریف سن کر جن بھی ملکہ کی طرف متوجہ ہوا اور خوشی سے منہ سے عجیب عجیب سے آوازیں نکالنے لگا۔ ملکہ نے اس کی خوب تعریفیں کیں جن کی وجہ سے شہزادہ بھی بہت خوش ہوا۔ ملکہ نے جب دونوں کو بہت خوش دیکھا تو کہنے لگی مگر ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی آج تک کہ اتنا بڑا جن اس چھوٹی سی بوتل میں کیسے سما سکتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جن فوراً بول اٹھا۔ یہ میرے لئے کیا مشکل ہے۔ میں ابھی آپ کو دکھاتا ہوں کہ آپ کو یقین آ جائے۔ آن کی آن میں وہ دھواں بن کر بوتل میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ بوتل کی جانب لپکا اور جلدی سے اس کا ڈھکنا بند کر دیا اور خادم سے کہا کہ ہمار اگھوڑا تیار کرو۔ ہم اسی وقت اس بوتل کو سمندر میں ڈال کے آئیں گے۔ پھر ملکہ نے شہزادے کو سمجھایا کہ دیکھو بیٹا جن کے اندر قوت تو بہت ھی وہ جسمانی طور پر بہت طاقتور تھا مگر یہ جن پڑھا لکھا نہیں تھا تعلیم حاصل کرنے سے عقل بڑھتی ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتا تو ہرگز بھی دوبارہ بوتل میں داخل نہ ہوتا اور اس بات کی احتیاط رکھتا کہ کہیں کوئی دوبارہ بوتل کا ڈھکنا بند نہ کر دے اور وہ پھر سے قید ہو کر رہ جائے۔ تم بھی خوب خوب تعلیم حاصل کرو تا کہ صحیح عقل و ارادہ پیدا ہو اور جن کی طرح احمق اور بے وقوف نہ بن جائو۔

                پھر حبیب نے نوید کو نصیحت بھی کی کہ ‘‘تم پڑھ لکھ کر خوب عقل مند بننا پھر اللہ میاں بھی تم سے خوش ہوں گے۔’’ میری نگاہ مسلسل نوید پر لگی تھی۔ نوید کے چہرے میں میری نگاہیں اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔ حافظہ تیس سال پہلے کی فلم دہرا رہا تھا۔ جب نوید کی جگہ میرے اپنے بچے حبیب سے کہانی سنتے تھے۔ میں سوچنے لگی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وقت بدل جاتا ہے لمحات میں تبدیلی آتی ہے مگر تجربہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ لمحات نہیں بدلتے، وقت نہیں بدلتا۔ البتہ لمحات کے اندر کی تصویروں کے چہرے بدل جاتے ہیں۔ وقت کا ہر لمحہ اللہ کے علم کی روشنی کی ایک شعاع ہے۔ اس شعاع کو جو بھی جذب کرتا ہے اس کے اندر کے علوم کا ڈسپلے اس کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ یہ لمحات یہ شعاعیں خود ہمارے اپنے اندر سے گزر رہی ہیں جس کی وجہ سے زندگی میں ایک سے زائد مرتبہ ہم ان کے ڈسپلے کو دیکھ لیتے ہیں۔ مجھے مرشد کی بات بہت یاد آئی۔ انسان ایک ایسی مشین ہے جو اللہ تعالیٰ کی کائناتی فلم کو اپنے ارادے سے جہاں سے چاہے وہاں سے دیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ فلم انسان کے دماغ کے اندر چل رہی ہے مگر اس دماغ کا شعور حاصل کرنا ہی انسانیت کا کمال و معراج ہے۔ یہی وہ شعور ہے جس کی پیغمبروں نے نشاندہی کی ہے اور اس کو روحانی شعور کہا گیا ہے۔ کتنی عظیم المرتبت ہیں وہ ہستیاں جو لوگوں کو اس شعور سے متعارف کراتی ہیں۔ میرا دل مرشد کی عظمت پر سرنگوں ہو گیا۔ مرشد کی آواز میرے اندر گونجنے لگی۔ شمامہ، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان کو دو طرح سے مخاطب کیا ہے۔ ایک رخ میں میں تو وہ کہتے ہیں کہ یا ایھا الناس یعنی اے لوگو، یہاں مخاطب تمام لوگ ہیں یعنی یہ حکم عوام الناس کے لئے ہے مگر دوسرے رخ میں فرماتے ہیں یا ایھا الذین امنوا یہاں مخاطب خواص ہیں۔ یہی وہ خاص لوگ ہیں جو روحانی شعور رکھتے ہیں اور اس شعور کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور تخلیق کے اسرار اور کائنات کے اندر کام کرنے والے فطرت کے نظاموں کو سمجھتے ہیں۔ ان ہی مخصوص ہستیوں میں تمام پیغمبران علیہ السلام کا شمار ہے۔ عوام الناس وہ ہیں جو وقت کی گرفت میں ہیں اور خواص یا مومنین وہ ہیں جو وقت کی گرفت سے آزاد ہیں یعنی وہ اس بات سے واقف ہیں کہ وقت کا دھارا خود ان کے اپنے اندر سے گزر رہا ہے۔ اس آگہی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اس دھارے کی قوت بہائو کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ ان کے لئے زندگی کے تمام حالات سازگار بن جاتے ہیں۔

                میرے اندر ایک عزم ابھرا میں بوتل کا ایسا جن نہیں بنوں گا جس کا ڈھکنا غیر کے ہاتھ میں ہو۔ مجھے میری ماں کی بات یاد آ گئی۔ شمامہ، تو خوشبو ہے اور خوشبو تو ہوا کی طرح پھیلنے والی ہے۔ بوتل میں بند رکھنے کے لئے نہیں ہوتی۔ ماں نے کہا تھا، بیٹی، یہ خوشبو سے بھری بوتل اللہ نے بنائی ہے۔ مگر اس بوتل کا ڈھکنا انسان کے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی بوتل کھول لے جب چاہے اس پر کارک لگا دے مگر بیٹی یاد رکھو، باغ میں بند کلیوں کو کوئی بھی نہیں سونگھتا۔ باغ کی سیر کرنے والے بند کلیوں سے نہیں، کھلے ہوئے پھولوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔ کلی کا کھلنا ہی کلی کا مقصد حیات ہے۔ انسان کا مقصد حیات بھی اپنے اندر کی ان خوشبوئوں کو پھیلانا ہے جن خوشبوئوں کے ساتھ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ کلی جب کھل کر پھول بنتی ہے تو اس کی خوشبو دور دور تک پہنچ کر صفحہ ہستی پر اپنے وجود کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خالق کی پہچان کا باعث بھی بنتی ہے۔ آدمی کا اپنی صلاحیتوں کا استعمال بھی خلق میں خالق کی پہچان کا باعث بنتا ہے کیونکہ ہر شئے کے اندر اللہ کے نور کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔

                ننھا نوید اب گہری نیند سو چکا تھا۔ اس کے نرم ہونٹوں پر ملکوتی مسکراہٹ تھی۔ حبیب بولے کیا معصومیت ہے۔ کہانی سنتے ہی فوراً سو گیا۔ میں نے کہا نہ جانے خواب میں اپنے گلشن ہستی کی کون کون سی خوشبوئیں سونگھتا ہو گا۔ حبیب مسکرا کر بولے کیا بات ہے کس عالم میں کھوئی ہوئی ہو۔ میں نے خلاء میں گھورتے ہوئے کہا پتہ ہے حبیب آج میرا جی چاہتا ہے میں بھی ننھے نوید کی طرح گہری نیند سو جائوں۔ حبیب آج میرا جی چاہتا ہے میں بھی ننھے نوید کی طرح گہری نیند سو جائوں۔ حبیب آج میرا جی چاہتا ہے میں بھی ننھے نوید کی طرح گہری نیند سو جائوں۔ حبیب ایک دم زور سے ہنس پڑے تو تم روز کب کچی نیند سوتی ہو۔ میں نے کہا۔ سنو تو میرا جی چاہتا ہے میں خواب گہری نیند سو جائوں۔ خواب کے عالم میں داخل ہو کر اس دنیا کی ہر خوشبو اپنے اندر بسا لوں۔ خود اپنے گلشن ہستی کے ہر پھول کی خوشبو سے واقف ہو جائوں۔ میری ہر خوشبو اللہ کے نور کی خوشبو بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بس جائوں۔ نور کے عالم میں جب رحمت کی ہوائیں چلیں گی تو شوخ ہوا کے جھونکے ان خوشبوئوں کو عالمین میں اڑا کر لے جائیں گے جہاں تتلیوں اور جگنوئوں کی طرح یہ خوشبوئیں حسین گلستانوں میں اڑتی پھریں گی اور فطرت کے معصوم بچے ان کے تعاقب میں اس گل سے اس گل تک بھاگتے پھریں گے اور میں اللہ کی آغوش میں اس کے نور کی سیج پر ابد کی نیند سوتی رہوں گی۔ پھر اس نیند سے مجھے سوائے رحمٰن کے اور کون جگا سکتا ہے۔

                حبیب چپ چاپ سنتے رہے۔ ان کی آنکھوں میں میری فکر کی گہرائیاں اتر آئیں۔ میری آنکھیں خلاء میں عالم تخلیل کو تلاش کرتے کرتے بوجھل ہو گئیں۔ میں نے بستر پر لیٹ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ آج ماں بہت یاد آ رہی تھی۔ میرا دل اس پر رشک کرنے لگا۔ جانے وہ جگنوئوں کے تتلیوں کے نور کے کس عالم میں ہو گی۔ وہاں میری یاد اسے آتی بھی ہو گی یا نہیں۔ جانے میری یاد اسے کیسے محسوس ہوتی ہو گی۔ یہی سوچتے سوچتے میں جلدی ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئی۔ خواب میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بہت ہی خوبصورت جگہ ہے ہر طرف سبزہ ہے۔ سبزے سے روشنیاں نکل رہی ہیں۔ میں کچھ دیر کھڑی دلچسپی کے ساتھ فضا میں ادھر ادھر دیکھتی ہوں۔ پھر اپنے سامنے پھیلے ہوئے ایک شفاف راستے پر چل کھڑی ہوتی ہوں۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک خوبصورت باغ آ جاتا ہے۔ ابھی میں اس باغ کے قریب ہی ہوں کہ بہت سے لوگوں کے ہنسنے بولنے کی آوازیں آتی ہیں جیسے باغ میں ہنس کھیل رہے ہیں۔ یہ آوازیں میرے شوق کو اور بڑھا دیتی ہیں۔ میں تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اس باغ میں داخل ہو جاتی ہوں۔ کیا دیکھتی ہوں کہ بہت سے نوجوان مرد اور عورتیں باغ میں پکنک منا رہے ہیں۔ میں غور سے ان کی جانب دیکھتی ہوں کہ شاید ان میں کوئی شناسا مل جائے کہ میری نظر اپنی امی پر پڑتی ہے۔ یہ سب لوگ مجھ سے بہت دور ہوتے ہیں مگر پھر بھی میں اپنی ماں کو پہچان لیتی ہوں۔

                اس گلشن میں بے شمار رنگ برنگے پھول کھلے ہیں۔ یہ تمام نوجوان لڑکے لڑکیاں تتلیوں کی طرح کبھی اس پھول پر کبھی اس پھول پر جاتے ہیں اور نئی نئی خوشبوئیں سونگھ کر خوش ہوتے ہیں۔ میری ماں بھی انہی میں شامل ہے۔ اتنے میں اچانک میری ماں سب کچھ چھوڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور کھڑی ہو کر کبھی ادھر دیکھتی اور کبھی ادھر دیکھتی ہے۔ جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ اس کے تمام ساتھی اسے دیکھ کرکھڑے ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا تلاش کر رہی ہو۔ وہ کہتی ہے مجھے شمامہ کی خوشبو آ رہی ہے۔ پھر وہ اس خوشبو کی جانب دیکھتی ہے یہ خوشبو چنبیلی کے رنگ کی نہایت ہی لطیف روشنی کی ایک ہلکی سی کرن ہے۔ میری ماں بے ساختہ اس خوشبو کی جانب کھنچی چلی جاتی ہے وہ نہایت سبک رفتاری سے اس لطیف روشنی کی جانب بڑھتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نظر میں یاسمین کا ایک نہایت ہی خوبصورت پھول آ جاتا ہے جس کے اندر سے یہ روشنی نکل رہی ہے۔ اب وہ اس پھول تک پہنچ جاتی ہے اور نہایت ہی بے قراری کے ساتھ میری شمامہ، میری شمامہ کہے جاتی ہے۔ اس کی نظریں پھول پر گزری ہیں اوروہ اس پھول سے نکلنے والی خوشبوئوں کی گہری گہری سانسوں کے ساتھ سونگھتی جاتی ہے اور میری شمامہ، میری شمامہ کہے جاتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں ہر طرف سے اسے دیکھ رہی ہوں۔ وہ پھول کے اندر بہت غور سے دیکھ رہی ہے۔ اتنے میں اس کی نظر مجھ پر پڑتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں اس پھول کی گہرائی میں ہوں۔ وہ ایک دم خوشی سے کھل اٹھتی ہے۔ شمامہ میری بیٹی، میری خوشبو۔ پھول سے بہت تیزی کے ساتھ نہایت ہی لطیف روشنیاں نکلنے لگتی ہیں۔ ان روشنیوں میں بے شمار رنگ جھلکتے ہیں۔ ماں ان روشنیوں کو تیز تیز اور گہری گہری سانسوں کے ساتھ اپنے اندر جذب کرتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کی بے قرار کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر سکون اور خوشی جھلکنے لگتی ہے۔ پھر وہ واپس اپنے دوستوں میں لوٹ جاتی ہے اور خوشی خوشی ان سے میرا ذکر کرتی ہے اور پھر وہ سب دوبارہ پھر تتلیوں کی طرح باغ میں ادھر سے ادھر گھومنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میں باغ کے دروازے سے واپس لوٹ آتی ہوں اور آنکھ کھل جاتی ہے۔

                آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔ میرا سر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھک گیا۔ مجھے یقین تھا کہ میرے نام کے ساتھ ہی میری ماں کا رشتہ مجھ سے قائم ہے۔ جب تک میری ماں کے دل میں میرا نام ہو گا اس کا رشتہ بھی میرے ساتھ قائم رہے گا۔ میرے نام کی خوشبو اس تک پہنچتی رہے گی۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ حبیب نے پوچھا کیا ہوا؟میں نے کہا، کچھ نہیں۔ بس سب کچھ نام ہی تو ہے۔ سارے بندھن نام کے ساتھ ہی بندھے ہیں۔ جب تک نام دل پر نقش رہتا ہے کسی نہ کسی زاویئے سے نگاہ دیکھ ہی لیتی ہے۔ جب دل سے مٹ گیا تو سب بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ سب ناموں میں بس ایک نام ایسا ہے جس کے اندر تمام نام سمائے ہوئے ہیں۔ بس وہی نام دل پر نقش ہو جائے۔ وہی ایک نام جس کے اندر گلشن ہستی کے ہر پھول کی خوشبو ہے۔ وہی ایک نام جو سب سے حسین ہے۔ سب سے لطیف ہے۔ سب سے زیادہ روشن ہے۔ وہی ایک نام جو سب ناموں کا خالق ہے۔ میرے دل سے اللہ ھو کی صدا بلند ہوئی اور سارا گھر خوشبو سے مہک اٹھا۔


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی