Topics
پیارے بچو!
آخرت میں وہ لوگ کامیاب
ہونگے جو اللہ کی مخلوق کے فائدے اور آسانی کے لئے ایجادات کریں۔ مخلوق کو تباہ و
برباد کرنے والی ایجادات بُرے کام ہیں اور اللہ کی دی ہوئی صلاحیت اور وسائل کا غلط
استعمال اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو دنیا میں اچھے
اور بُرے کام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جو کوئی اچھے کام کرتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ
خوش ہوتے ہیں اور جو کوئی بُرے کام کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں
کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد اس زمین پر اچھے اور نیک کام کرے۔ مخلوق کے لئے
فائدے کی چیزیں بنائے۔ اپنا اصل مقام جنت دوبارہ حاصل کرے اور اس علم کو دوبارہ جان
لے جس کی بناء پر وہ تمام مخلوقات سے افضل اور اُن پر حاکم بنایا گیا تھا۔
جو انسان اپنی روح اور
روح کے علوم جان لیتا ہے وہ زمین پر اللہ کا نائب اور حکمران بن جاتا ہے اور دنیا کی
تمام چیزیں اس کے تابع ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اچھے اور
بُرے کام سمجھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے ہیں۔ انبیاء
علیہم السلام اور اللہ کے دوستوں نے ہمیشہ اللہ سے محبت اور امن کا پیغام دیا ہے اور
یہ بتایا ہے کہ دنیا کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے بنائی ہے تا کہ وہ بہترین
اور پُر آسائش زندگی گزاریں لیکن دنیا اور دنیا کی زندگی انسان کی منزل نہیں ہے۔ انسان
کو دوبارہ اللہ کی طرف واپس جانا ہے۔
جو لوگ صرف اور صرف دنیا
کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں وہ دنیا حاصل کرنے کے باوجود بے چین اور پریشان
رہتے ہیں اور جو دنیاوی دولت کو اللہ کی دی ہوئی نعمت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں وہ
خوف و غم سے نجات حاصل کر لیتے ہیں اور اللہ کے دوست بن جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ
تعالیٰ نے پہلے انسان کا نام ’’آدم‘‘ رکھا اور آدم کا جسم گوندھی ہوئی مٹی کے گارے
سے بنایا جو خشک ہو کر ایسے بجتا تھا جیسے اندر سے خالی ہو۔ خلاء پر مشتمل یہ جسم نہ
سُن سکتا تھا، نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ بس یہ مٹی کا ایک بے جان، بے
حس و حرکت پتلا اور ایک ناقابل ذکر شئے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس خلاء میں اپنی روح
پھونک دی تو روح کے داخل ہوتے ہی مٹی کی مُورت گوشت پوست کے جاندار جسم میں بدل گئی
اور انسان دیکھنے، سُننے اور بولنے لگ گیا۔