Topics
حضرت آدم علیہ السلام کی کئی اولادیں ہوئیں۔ قابیل اور ہابیل آپ کے مشہور صاحبزادے
ہیں۔ قابیل بڑا بھائی تھا۔ اُس نے شادی کے لئے اللہ تعالیٰ اور حضرت آدم علیہ السلام
کا طریقہ اور فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور اپنے چھوٹے بھائی ہابیل سے لڑنے مرنے پر
تیار ہو گیا۔
اس فساد کو ختم کرنے کے
لئے حضرت آدم علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ قابیل اور ہابیل دونوں اپنی اپنی قربانی
اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں اور پھر جس کی قربانی قبول ہو جائے اُس کی شادی اقلیمہ
سے کر دی جائے جو بہت خوبصورت لڑکی تھی۔
اُس زمانے میں قربانی کا
دستور یہ تھا کہ قربانی کی چیز اونچی جگہ پر رکھ دی جاتی تھی۔ آسمان سے آگ نمودار
ہو کر جس چیز کو جلا دیتی تھی وہ قربانی قبول سمجھی جاتی تھی۔
قابیل نافرمان اور ایک
بدنیت شخص تھا۔ اُس نے اپنے غلہ سے کیڑوں کی کھائی ہوئی گھٹیا چیز قربانی کے لئے رکھی
جبکہ ہابیل ایک فرماں بردار، صلح جُو اور خوش نیت فرد تھا جو لڑائی اور فساد کو شیطانی
کام سمجھتا تھا۔ اُس نے پاک صاف اور سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی کے لئے اپنے
ریوڑ میں سے ایک بہترین دنبہ قربانی کے لئے پیش کیا۔ پھر یہ ہوا کہ آسمان سے آگ نمودار
ہوئی اور ہابیل کی پیش کردہ قربانی کو جلا دیا۔ اس طرح ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی
اور خوبصورت اقلیمہ سے ہابیل کی شادی طے ہو گئی۔
قابیل نے جوش اور نافرمانی
میں اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور غیض و غضب میں آ کر ہابیل سے کہا کہ میں
تجھے قتل کر دوں گا تاکہ تو اپنی مراد نہ پا سکے۔
ہابیل نے جواب دیا کہ میں
نے نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے سامنے قربانی پیش کی تھی اور میں اللہ کا فیصلہ قبول
کرتا ہوں۔ اللہ کے سامنے فرمانبرداری اور سچے دل سے پیش کی گئی قربانی ہی قبول ہو سکتی
ہے۔ وہاں طیش و غصہ میں کسی بدنیت اور نافرمان کی پیش کی گئی قربانی قبول نہیں ہو سکتی۔
لڑائی، جھگڑا اور فساد
تو شیطانی کام ہے۔ میں تو اللہ کا فرمانبردار اور شکر گزار بندہ ہوں۔ میں ہرگز تجھ
سے لڑائی نہیں کروں گا۔ باقی جو تمہاری مرضی ہو وہ کرو۔ قیامت کے دن اپنے کئے ہوئے
کام کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہو گا۔ ‘‘
قابیل پر اس نصیحت کا کچھ
اثر نہ ہوا اور اُس نے غصہ میں اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔
نافرمانی اور ضد شیطانی
کام ہیں۔ قابیل کے برعکس ہابیل کی سوچ اور عمل اچھا کردار ہے۔ جس میں شیطان کی بجائے
اللہ کے حکم اور مرضی کے مطابق عمل نظر آتا ہے۔ اچھے اور پاک کردار کے لوگ اللہ کے
دوست بن جاتے ہیں۔
انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ
سے مدد مانگنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اللہ انسان
کا حامی اور مددگار ہے۔ وہ بہترین کارساز اور ہمارا خالق، مالک ار رب ہے۔ اللہ تعالیٰ
کی عطا کردہ رحمت اور نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بندوں
کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ جو اللہ سے اپنا تعلق قائم کرتے ہیں اور دوستی رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور ہر کام کرنے
کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے۔ اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ
تعالیٰ نے پہلے انسان کا نام ’’آدم‘‘ رکھا اور آدم کا جسم گوندھی ہوئی مٹی کے گارے
سے بنایا جو خشک ہو کر ایسے بجتا تھا جیسے اندر سے خالی ہو۔ خلاء پر مشتمل یہ جسم نہ
سُن سکتا تھا، نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ بس یہ مٹی کا ایک بے جان، بے
حس و حرکت پتلا اور ایک ناقابل ذکر شئے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس خلاء میں اپنی روح
پھونک دی تو روح کے داخل ہوتے ہی مٹی کی مُورت گوشت پوست کے جاندار جسم میں بدل گئی
اور انسان دیکھنے، سُننے اور بولنے لگ گیا۔