Topics
حج کے بعد ہم سیدھے
انگلینڈ آ گئے۔ پاکستان گئے۔ پاکستان گئے ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ میں نے حبیب سے
کہا کہ میں ایک مرتبہ اپنی امی سے ملنا چاہتی ہوں۔ اب وہ کافی ضعیف ہو چکی ہیں۔
جانے کب اللہ کے پاس سے بلاوا آ جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ انہیں دیکھ لوں۔ حبیب نے
کہا کہ تم پندرہ بیس دن کے لئے مل آئو۔ میری سیٹ بک ہو چکی تھی۔ جانے میں چند دن
رہ گئے تھے کہ ایک شام مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے کمرے میں آئی۔ ابھی میں نے کمرے
میں قدم رکھا ہی تھا کہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اس وقت کمرے میں شام کا ہلکا ہلکا اندھیرا
تھا۔ میرے اٹھتے قدم ایک دم رک گئے۔ میری کھلی نگاہیں کمرے کی دھندلی فضا پر جم
گئیں۔ کیا دیکھتی ہوں کہ چار عدد فرشتے ہیں ان سب نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے
ہاتھوں میں ڈال کر ایک آرام دہ نشست بنا لی ہے اور اس آرام دہ نشست پر میری امی
بیٹھی ہیں۔ خربوزی رنگ کا لمبا ریشم کا گائون پہنے ہوئے ہیں ان کا چہرہ ترو تازہ
ہے۔ جوان لگ رہی ہیں بہت زیادہ خوش اور خوبصورت لگ رہی ہیں۔ میری روح نے ان سے بے
ساختہ کہا۔ ارے امی آپ کہاں آسمان پر جا رہی ہیں۔ میں تو آپ سے ملنے آ رہی ہوں۔
انہوں نے مجھے دیکھا اور کہنے لگیں۔ بیٹی میں خود نہیں جا رہی مجھے لے جا رہے ہیں۔
میں نے کہا امی آپ خوش تو ہیں وہ فوراً ہنستے ہوئے بولیں۔ بیٹی میں بہت خوش ہوں۔
میں نے ٹھنڈی سانس اندر ہی اندر لی اور بولی آپ خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں۔
پھر میں نے نماز ادا کی۔
امی جان کی مغفرت کی دعا کی۔ مجھے یقین تھا کہ امی کا سفر اب پورا ہو گیا ہے۔ نماز
کے بعد میں نے حبیب کو یہ سارا واقعہ بتایا۔ انہوں نے مجھے تسلی دی کہ اللہ کو جو
منظور ہے اس پر راضی رہنا چاہئے۔ مجھے بڑا اطمینان سا تھا کہ امی خوش ہیں۔ رات کو
بستر پر لیٹے تھے بارہ بجے اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ حبیب نے لپک کر فون اٹھایا۔
میرا دل زور سے دھڑکا امی کے انتقال کی خبر تھی۔ وقت وہی تھا جس وقت میں نے انہیں
آسمان پر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس طرح میرے اسکول کے زمانے میں جب امی پر فالج کا
اثر ہوا تھا اس کے تقریباً ۶۲
سال بعد امی کا انتقال ہوا۔ وہ بھی اچانک چلتے پھرتے۔ بیٹھے بیٹھے تخت سے لڑھک
گئیں۔ اللہ پاک ان پر اپنی رحمتیں اور نعمتیں نازل فرمائے۔ آمین
امی کے انتقال کے چند دن
بعد میں پاکستان گئی اور پندرہ دن رہ کر ان کی قبر پر حاضری دے کر واپس چلی آئی۔
آنے کے دوسرے تیسرے دن ہی خواب میں دیکھا کہ میں کہیں باہر سے بہت تیزی کے ساتھ
بھاگ کر اندر کمرے میں آتی ہوں۔ کمرے میں امی بیٹھی ہیں۔ میں ان کے پائوں کے پاس
نیچے بیٹھ جاتی ہوں اوران کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہوں کہ امی مجھے یاد آیا
کہ جب میں بہت ہی چھوٹی سی تھی یہ اس وقت کی بات ہے جب پرائمری کی چوتھی جماعت میں
پڑھتی تھی۔ تو کلاس ٹیچر مجھے کافی پسند کرتی تھیں کیونکہ میں کافی ذہین تھی۔ ایک
دن کلاس میں ٹیچر کا کوئی جاننے والا آیا یہ آدمی عالم تھا اس نے مجھے اپنے پاس
بلایا اور کہا کہ اپنا ہاتھ دکھائو۔ اس نے میرے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر میری زندگی
کے آئندہ ہونے والے واقعات بتائے۔ پھر کہا کہ تم اب اپنی جگہ بیٹھ جائو اور اپنے
سامنے اپنی ہتھیلی کو پھیلا کر رکھو اور پندرہ بیس منٹ تک لگاتار اس ہتھیلی پر
نظریں جما کر رکھو۔ اپنے دل میں یہ تصور رکھو کہ تمہاری ہتھیلی پر زرد رنگ کا
نگینہ ہے۔ اس سے تم کو بہت فائدہ ہو گا۔ امی کہنے لگیں شمامہ تم ایسا کرو کہ زرد
رنگ کا نگینہ اپنی انگلی میں پہن لو اس سے تم کو بہت فائدہ ہو گا۔
خواب دیکھتے ہی میں نے
نگینہ کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ معلوم ہوا کہ خواب میں جس نگینہ کے پہننے کے لئے
کہا گیا ہے وہ میرا برتھ اسٹون بھی ہے۔ یہ زرد
Topazتھا جو میں نے جلد ہی انگوٹھی میں جڑوا کر
پہن لیا۔ مجھے یقین تھا کہ خواب کے مطابق اس کے پہننے سے میری روحانی صلاحیتوں میں
اضافہ ہو گا ویسے بھی امی کے حکم کی تعمیل میرے لئے ضروری تھی۔ میرا اعتقاد تھا کہ
امی اس عالم میں رہتے ہوئے بھی میری خبر رکھتی ہیں۔ مجھے ان کی روحانی صلاحیتوں کا
اعتراف تھا۔
اس خواب کے چار پانچ دن
بعد ہی میں نے خواب دیکھاکہ میرے ہاتھ میں اخبار ہے۔ جس کے سرورق پر امی کی بہت
بڑی سی تصویر چھپی ہے۔ تصویر میں امی بہت ہی خوبصورت اور جوان لگ رہی ہیں۔ ان کے
سر پر ٹوپی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بڑا سا کالم ان کی خبر سے متعلق ہے۔ میں بے حد خوشی
خوشی اخبار لے کر دوڑی دوڑی آئی ہوں اور گھر کے ہر ہر فرد کو بتاتی ہوں کہ دیکھو
یہ کتنی بڑی خبر امی سے متعلق چھپی ہے۔ یہ خبر ہے ہی اتنی اہم۔ جبھی تو سرورق پر
تصویر کے ساتھ چھپی ہے۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اسی خوشی میں آنکھ
کھلی تو آنکھ کھلتے ہی غنودگی کے عالم میں غیب سے آواز آئی۔
‘‘سلامتی اور مدد کامل کے
ساتھ تمہاری امی کو ولیوں کے درجہ میں رکھا گیا ہے۔’’
یہ تین مرتبہ کہا گیا۔
خواب کی ہدایت کے مطابق میں روزانہ تہجد کے وقت زرد روشنیوں کا مراقبہ کرتی اور
پھر اس کے بعد اسم ذات اللہ کا تصور اور مراقبہ کرتی۔ ان دنوں تہجد کے وقت میرا
یہی شغل تھا۔ ان دونوں مراقبوں سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ چند دن بعد ہی مجھے اپنی نگاہ
میں تبدیلی محسوس ہوئی۔ ایسا لگتا جیسے میں جس شئے پر نظر ڈالتی ہوں وہ شئے مجھے
کروٹ بدلتی محسوس ہوتی ہے۔ یوں دکھائی دیتا جیسے اوپر کا میلا حصہ نیچے چلا گیا ہے
اور اندر کا صاف اور چمکیلا حصہ باہر آ گیا ہے۔ خود میرے اپنے اندر بھی ایسا ہی
دکھائی دیتا۔ جیسے میرے دل نے کروٹ بدل لی ہے۔ اس کے باہر والی سطح گوشت پوست کے
اندر چلی گئی ہے اور اندر والی سطح روشنیوں والی باہر آ گئی ہے۔ جیسے یہ بات زیادہ
وضاحت کے ساتھ سننے میں آنے لگی۔ ہر شئے کے باطن میں اللہ کا نور ہے۔ اب قرآن کا
مفہوم نئے زاویے سے ذہن میں آنے لگا۔
اگلے سال پھر مجھے کراچی
جانے کا اتفاق ہوا۔ انگلینڈ میں رہتے ہوئے کچھ تحریریں میری نظر سے گزری تھیں
جنہیں پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ یہ تحریریں ضرور کسی روحانی عالم کی ہیں۔
میرے اندر ان سے ملنے کا تقاضہ پیدا ہوا میں جان گئی کہ اب اللہ پاک کسی کی نگرانی
میں میری تعلیم کرنا چاہتا ہے۔ میں نے سوچا جب میں انہیں دیکھوں گی تو ضرور پہچان
جائوں گی کیونکہ یہ تو روح کے رشتے ہیں اور روحیں پہلے ہی ایک دوسرے سے متعارف
ہیں۔ میں حبیب کے ساتھ ان بزرگ کے دفتر گئی۔ نظر ڈالتے ہی ایک فلش سا ہوا۔ دل سے
آواز آئی۔ اب روحانی راستوں پر انہی کے ساتھ چلنا ہو گا۔ میں اور حبیب تھوڑی دیر
ملاقات کے بعد واپس لوٹ آئے۔ اس کے بعد ایک دو بار اور تھوڑی دیر کو ملاقات ہوئی۔
اگلی دفعہ ان میں ایک کشش محسوس ہوئی اور تب میں نے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی جو
خوشی کے ساتھ منظور ہو گئی۔ ہم واپس انگلینڈ آ گئے۔ زندگی اپنی ڈگر پر چلتی رہی وہ
سال بھی گزر گیا۔ دوسرے سال بھی پہلی سہ ماہی میں، میں نے خواب دیکھا۔
ہم لوگ اپنے گھر میں ہیں۔
میں بچوں کو ہدایت دیتی ہوں کہ جلدی جلدی فلاں کمرے کا سامان نکال کر کمرے بالکل
خالی کر دو۔ اور خوب اچھی طرح صفائی کر دو جیسے اس کمرے میں کوئی تقریب ہونے والی
ہے اور مہمان آنے والے ہیں۔ ہم سب بھی گھر کی صفائی میں لگ جاتے ہیں۔ پھر میں اس
کمرے میں جاتی ہوں کہ دیکھوں بچوں نے کس طرح صاف کیا ہے۔ دیکھتی ہوں کہ تمام
فرنیچر وغیرہ نکال کر خالی کر دیا ہے اور بڑا لڑکا دیواروں وغیرہ کی جھاڑ پونچھ کر
رہا ہے۔ ایک دیوار پر ہت بڑا سا ماربل لگا ہے جو دروازے جتنا ہے۔ اس کے اطراف میں
لکڑی کی بڑی خوبصورت فریم لگی ہے۔ میں اس ماربل کو صاف کرتی ہوں جوں ہی میں گھڑی
پر نظر ڈالتی ہوں اور کہتی ہوں کہ ساڑھے نو بج گئے ابھی تک فیکٹری کا دروازہ نہیں
کھلا۔ ایک شخص آتا ہے کہتا ہے کہ ہم صفائی کر رہے تھے اب دروازہ کھولتے ہیں آپ
اندر آ جایئے۔ یہ خواب دیکھ کر جاگی تو صبح اذان کا وقت تھا۔ اٹھ کر وضو کیا اور
اتنے میں حبیب بھی جاگ گئے۔ میں نے انہیں سارا خواب سنایا اور کہا کہ مجھے لگتا ہے
کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کوئی کام لینا چاہتے ہیں۔ حبیب جانتے تھے کہ اس کی پیشن
گوئی سالوں پہلے ہو چکی ہے اور اب اس پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
صبح ہوئی تو ڈاک سے مرشد
کریم کا خط آیا جس میں انہوں نے یہاں آنے کا ارادہ ظاہر کیا اور لکھا تھا کہ یہاں
پر ایک روحانی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ ہے جس میں ہمیں تعاون کرنے کے لئے کہا
تھا۔ ان دنوں میرے چاروں بچے اسکول میں پڑھ رہے تھے اور میں ہفتے میں چھ دن فل
ٹائم جاب کر رہی تھی مگر ان سب مصروفیات کے ساتھ میری ذہنی اور روحانی مصروفیت ہر
وقت کی تھی۔ ہر وقت میرے اندر اللہ پاک کو جاننے اور اسے دیکھنے کا تقاضہ رہتا۔
قرآن کے حروف مقطعات کے علوم اور اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز کے علوم جاننے کا
شوق ہوتا۔ کبھی کبھی تو میرا بے تحاشہ جی چاہتا کہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات میں
جذب ہو کر اس کی ہستی کا سراغ لگا لوں۔
مرشد پاک نے ابھی تک مجھے
کوئی سبق نہیں دیا تھا۔ اچھی طرح سے ان کے پاس بیٹھنے کا کوئی موقعہ بھی تو نہیں
ملا تھا میں نے سوچ لیا تھا کہ میں خود سے کوئی بات نہیں کروں گی۔ اللہ ہی میرا
اصل راہبر ہے اس روحانی راستوں۔ اسی نے جب چاہا میرے لئے مرشد کی ضرورت محسوس کی
تو مجھے مرشد تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اب وہ جس طرح چاہے گا اسی طرح مرشد کے ذریعے
تعلیمات و فیض کا سلسلہ بھی قائم کر دے گا۔ ویسے بھی میں خوب اچھی طرح جانتی تھی
کہ روحانی فیض کسب سے نہیں عطا سے حاصل ہوتے ہیں۔ رب العالمین کی نگاہ کرم تمام
فیوض کے چشموں کے دہانے اپنے بندے پر کھول دیتی ہے۔ مجھے اسی نظر کرم کا انتظار تھا۔
اس خط کے ملنے کے چند دن
بعد ہی میں نے خواب دیکھا کہ میرے بھائی جان میرے پاس آئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک
رنگین تصویر ہے۔ یہ تصویر درگاہ کی ہے وہ مجھے یہ تصویر دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں۔
یہ حضرت مخدوم پاک علی احمدؒ صابر کلیری کا مزار ہے۔ اسے اچھی طرح دیکھ لو اور اس
نقشے کو ذہن نشین کر لو۔ تمہیں یہاں جانا ہے۔ میں بڑے غور سے اس تصویر کو دیکھتی
ہوں تا کہ اچھی طرح پہچان لوں جہاں جانا ہے۔
خواب سے آنکھ کھلتے ہی
پہلا خیال آیا کہ یہ سچا خواب ہے اور میرے لئے حضرت صابر پاکؒ کی درگاہ پر حاضری
دینے کا حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ صبح فجر کا وقت تھا۔ میں نے حبیب کو جگایا
اور یہ خواب سنایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ حضرت صابر پاکؒ کی درگاہ کہاں ہے۔ ہمیں
وہاں جانا ہو گا۔ آپ ان کے متعلق کچھ جانتے ہیں؟ بولے بس اتنا جانتا ہوں کہ لوگ ان
کی قوالیاں گاتے ہیں اور ان کا مزار انڈیا میں ہے۔ انڈیا کا نام سن کر ہم دونوں
فکر میں پڑ گئے کہ وہاں ہمارا کون ہے۔ دل نے کہا حکم اس کا ہے وسائل بھی وہی بنائے
گا۔ تمہیں تو بس جی حضوری میں گردن جھکانی ہے۔ عقل دل کی بات سن کر چپکی ہو رہی۔
دو دن تک ذہن یہی سوچتا رہا کہ وہاں جانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ تیسرے دن صوفے
پر بیٹھے ہوئے اچانک خیال آیا میں تو حضرت صابر پاک کو جانتی بھی نہیں۔ خواب جھوٹے
بھی تو ہو سکتے ہیں۔ اس خیال کا آنا تھا کہ اسی لمحے نہایت ہی واضح طور پر ایک
بزرگ سامنے آ گئے۔ نہایت ہی جلال میں فرمایا۔ تم ابھی تک شک میں ہو۔ مجھے پہچاننے
میں ذرا دیر نہ لگی کہ یہ حضرت صابر پاکؒ تھے وہ نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ میرے
اندر مسلسل ایک ہی خیال و آواز آ رہی تھی مجھے صابر پاکؒ کے روضہ مبارک پر جانا
ہے۔ میں نے پاس ہی صوفے پر لیٹے ہوئے حبیب کو جھنجھوڑا وہ جلد ہی غنودگی سے پورے
ہوش میں آ گئے۔ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ جلد ہی کہیں سے پتہ کرو
کہ یہ بزرگ انڈیا میں کہاں ہیں۔ یہ کس دور کے ہیں۔ اب میرا جی چاہتا تھا کہ میں ان
کے متعلق سب کچھ ایک ہی لمحے میں جان جائوں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے جلال نے مجھے
خوف زدہ کر دیا تھا کہ اگر میں نے تعمیل حکم میں ذرا بھی کوتاہی برتی تو خیر نہیں
ہے۔ حبیب نے مجھے تسلی دی تم گھبرائو مت۔ میں کل ہی ان کے متعلق معلومات حاصل کرتا
ہوں۔
یہ مغرب کا وقت تھا میں
نے وضو کیااور نماز پڑھ کر خوب دعا کی بلکہ اندر اندر حضرت صابر پاکؒ کے تصور سے
ہی گزارش کرنے لگی کہ جب آپ بلانا چاہتے ہیں تو حالات بھی سازگار کردیں اور تمام
انتظامات جانے کے مہیا کر دیں تا کہ آسانی سے عمل ہو سکے۔ خوب دیر تک دعا مانگ کے
دل کو تسلی ہو گئی۔ اٹھی تو دل بالکل ہلکا تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر میں اور حبیب
دونوں گھر میں رکھے ہوئے رسالے اور کتابیں چھاننے لگے کہ شاید کسی رسالے یا کتاب
میں حضرت صابر پاکؒ کا ذکر ہو تو ہمیں ان کے متعلق صحیح حالات معلوم ہو جائیں۔ جلد
ہی ایک رسالے میں ان کا تفصیلی مضمون مل گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے قارون کا خزانہ
ہاتھ لگ گیا ایسی خوشی ہوئی۔
دوسرے دن حبیب نے کلیر
شریف کی ساری لوکیشن معلوم کی۔ ہم نے پروگرام بنایا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں
پاکستان جائیں گے اور بیٹی کی شادی کر کے پھر انڈیا روانہ ہو جائیں گے۔ رشتہ تو
تھا ہی بس یہی دعا تھی کہ تمام کام درست ہو جائیں۔ یہ سارا پروگرام بنا کر میں
اندر ہی اندر تصور میں حضرت صابر پاکؒ کو بتا دیا کہ وہ ہمارے ارادے سے آگاہ ہو
جائیں مجھے پکا یقین تھا کہ ان کی کڑی نظر مجھ پر ہے۔
اس کے دوسرے تیسرے دن ہی
شام کو فارغ بیٹھی تھی کہ پھر حضرت صابر پاکؒ اسی طرح دکھائی دیئے۔ آپ کا حلیہ
مبارک ایک ملنگ کی طرح تھا۔ لمبی لمبی زلفیں، صرف تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں
جلال کی سرخی تھی۔ آپ کو دیکھتے ہی میری تمام تر توجہ آپ کی جانب لگ گئی۔ ذہن
بالکل خالی ہو گیا۔ صرف نگاہ میں تمام حواس سمٹ آئے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے اندر
سے انوار نکل کر میرے اندر جذب ہو رہے ہیں۔ پھر ایسا روز ہونے لگا۔ دن رات میں کئی
مرتبہ حضرت صابر پاکؒ اپنی روشنیاں میرے اندر منتقل کرتے۔ اب میرے اندر آہستہ
آہستہ آپ کا خوف دور ہونے لگا اور ہر وقت ہی میری توجہ آپ کی جانب رہنے لگی۔
ایک دن آپ نے فرمایا۔
آیئے ہم آپ کو اپنے محل کی سیر کراتے ہیں۔ اور آپ نے مجھے روحانی طور پر اپنے محل
کی سیر کرائی۔ سیر کرتے وقت یوں لگا جیسے میری روح اور حضرت صابر پاکؒ دونوں گہرے
دوست ہیں۔ اس کے بعد میرے ذہن سے آپ کا جلالی تصور بالکل ہی مٹ گیا۔ اس کی بجائے
ایک ایسا روحانی تعلق استوار ہو گیا جسے سوائے محبت کے کوئی اور نام نہیں دیا جا
سکتا۔ جیسے جیسے آپ کے انوار اور روشنیاں میرے اندر منتقل ہوتی جاتیں ویسے ویسے
میرے دل میں آپ کی رحمت اور عظمت بڑھتی جاتی۔ آپ اکثر مجھے اپنے محلات کی سیر
کراتے۔ اس طرح مجھ پر مرنے کے بعد کی زندگی کے حالت کھل گئے۔ اس کے علاوہ میں جان
گئی کہ کس طرح انوار کی منتقلی سے روحانی علوم حاصل ہوتے ہیں۔ میں ہر طرح کے
روحانی تجربات و کیفیات کا تذکرہ حبیب سے ضرور کرتی۔ وہ اس لئے کہ قرآن کی رو سے
میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں مگر حضرت صابر پاکؒ کے ساتھ میرا روحانی تجربہ
بالکل نیا تھا۔ میرے لئے یہ بڑی عجیب بات تھی کہ ایک بزرگ جن کے وصال کو بھی صدیاں
گزر چکی ہیں ان کے ساتھ میرا روحانی تعلق اس طرح پیدا ہو جائے گا۔ میرے دل میں ہر
وقت آپ کا تصور رہتا۔ دل کی نگاہ سے اسے کچھ دیر آپ اوجھل ہو جاتے تو اندر ہی اندر
میرا دل عشق کے شعلوں سے جلنے لگتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی قطرہ جان میرے
اندر سے نچوڑ رہا ہے۔ یہ کیفیات میرے لئے کوئی نئی تو نہیں تھی۔ ان سے تو میں بچپن
ہی سے گزرتی چلی آئی تھی۔ کبھی ماں کی محبت، کبھی ٹیچر کی محبت، کبھی سہیلی کی
محبت اور پھر حبیب کی محبت اور اب حضرت صابر پاکؒ بھی عشق کی مالا کا ایک موتی بن
گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے میرا رب میرے لئے اپنی عطا کی مالا پرو رہا ہے۔ عشق کی
ڈوری میں پروئی ہوئی یہ مالا میری رگ سے بندھی ہے۔ اس کا ہر موتی میری جان ہے جو
اس کی بخشش ہے۔ اس لڑی کا ایک موتی بھی بکھر گیا تو مالا ٹوٹ جائے گی۔ میرا ہار
سنگھار اجڑ جائے گا۔ پھر وہ صاحب جمال میری طرف نگاہ کرنا بھی پسند نہیں کرے گا۔
روح واقف اسرار تھی مگر دل کا یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم تھا کہ مجھے کیوں سلگتی
آگ میں رکھا ہوا ہے۔
دن گزرتے گئے۔ صابر پاکؒ
کے عشق کی آگ میرے دل میں بھڑکتی رہی۔ جی چاہتا کہ وہ دن جلدی آئے جب میں ان کے
دربار پر حاضری دوں۔ اللہ کے نور کے اس پیکر میں مجھے اللہ کا جمال دکھائی دیتا۔
میرا دل کہہ اٹھتا کون آپ کو جلالی کہتا ہے آپ تو سراسر جمالی ہیں۔ اللہ کا نور ہی
آپ کا جمال ہے۔ میری نگاہ اللہ کے جمال کی متلاشی ہے۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔
دعا گو:
خواجہ شمس الدین عظیمی