Topics
زمین پر انسان کی پیدائش سے پہلے جنات آباد تھے۔ جنات بھی اچھے اور بُرے کام کرنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اچھے کاموں کا حکم اور بُرے کاموں سے منع فرمایا
ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے کام سے خوش ہوتے ہیں اور بُرے کام سے ناراض ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا کہنا نہ
ماننا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی ہے۔ جھوٹ، چوری، مارپیٹ، لڑائی، جھگڑا، فساد،
قتل اور خون خرابہ یہ سب بُرے کام ہیں۔
آہستہ آہستہ جنات میں
بُرے کام زیادہ ہونے لگے۔ جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوئے اور کئی مرتبہ جنات کو سزا
دی گئی لیکن یہ اپنے کاموں سے باز نہ آئے۔ جب زمین پر جنات کی سرکشی اور نافرمانی
سے فساد زیادہ ہو گیا اور زمین کا نظام درہم برہم ہو کر خراب ہو گیا تب اللہ تعالیٰ
نے انسان کو تخلیق کرنے کا ارادہ کیا تا کہ انسان کو اپنی صفات کا علم سکھا کر زمین
کا حاکم بنائے۔
ایک دن اللہ تعالیٰ نے
فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا نائب، انسان بنا رہا ہوں اور جب میں اس کی شکل و
صورت درست کر کے اس کے جسم میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کی حاکمیت تسلیم کر لینا
اور اس کے سامنے سجدہ کرنا۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ
کی حمد و ثناء اور عبادت کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو مانتے ہیں۔
اس موقع پر فرشتوں نے اللہ
تعالیٰ سے کہا!
’’اے پروردگار!
ہم ہر وقت آپ کی حمد و
ثناء اور عبادت کرتے ہیں۔ آپ کا ہر حکم مانتے ہیں۔ ہم آپ کی عبادت اور حکم ماننے
کے لئے کافی ہیں۔ انسان زمین پر فساد کرے گا اور زمین پر ہر طرف خون کرابہ پھیل جائے
گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
کہ!
’’جو میں جانتا ہوں وہ
تم نہیں جانتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان
کا نام ’’آدم‘‘ رکھا اور آدم کا جسم گوندھی ہوئی مٹی کے گارے سے بنایا جو خشک ہو
کر ایسے بجتا تھا جیسے اندر سے خالی ہو۔ خلاء پر مشتمل یہ جسم نہ سُن سکتا تھا، نہ
دیکھ سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ بس یہ مٹی کا ایک بے جان، بے حس و حرکت پتلا اور
ایک ناقابل ذکر شئے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس خلاء میں اپنی روح پھونک دی تو روح کے
داخل ہوتے ہی مٹی کی مُورت گوشت پوست کے جاندار جسم میں بدل گئی اور انسان دیکھنے،
سُننے اور بولنے لگ گیا۔
انسان کی تخلیق، اللہ کی
صفات کا خوبصورت مظاہرہ ہے۔ انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ روح، اللہ کی صفات کے
علم اور حکم پر کام کرتی ہے۔ روح میں زندگی اور حرکت اللہ تعالیٰ کی صفات کی وجہ سے
ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم
کو صفات کا علم سکھا کر فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے پوچھا:
’’اگر تم اس علم سے واقف
ہو تو بیان کرو۔‘‘
فرشتوں نے اللہ تعالیٰ
سے کہا:
’’ہم تو اتنا ہی علم جانتے
ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے۔ حقیقت میں تو آپ ہی تمام علم اور حکمت جاننے والے
ہیں اور تمام تعریفیں آپ کے لئے ہیں۔‘‘
فرشتوں نے اپنی کم علمی
کا اعتراف کر کے عجز و انکساری کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم کو حکم دیا۔
’’اے آدم! فرشتوں کو صفات
کا علم بتائو۔‘‘
آدم علیہ السلام نے فرشتوں
کے سامنے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ علم بیان کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا:
’’میں زمین و آسمان کی
تمام باتیں جانتا ہوں۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میرے علم میں ہے اور جو کچھ چھپاتے
ہو وہ بھی میرے علم میں ہے۔ میں تمام علوم کا جاننے والا ہوں۔‘‘
آدم علیہ السلام کے علم
کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس
کے سامنے سجدہ کرو۔ چونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار مخلوق ہیں لہٰذا وہ فوراً
جھُک گئے۔ فرشتوں کے ساتھ قوم جنات کا ایک عالم اور عبادت گذار فرد عزازیل بھی موجود
تھا۔ عزازیل اپنے علم کی وجہ سے فرشتوں کا استاد بن گیا تھا اور ان کے ساتھ رہتا تھا۔
عزازیل اپنے علم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بہت قریب تھا لیکن اس کو اپنے علم اور عبادت
پر بہت غرور ہو گیا تھا۔ عزازیل نے غرور و تکبر میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانا اور
آدم علیہ السلام کے سامنے نہیں جھکا۔
اللہ تعالیٰ نے عزازیل
سے پوچھا:
’’میرے حکم کے باوجود تو
کس وجہ سے آدم کے سامنے نہیں جھکا؟‘‘
عزازیل نے جواب دیا:
’’اے اللہ! آپ نے مجھے
آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ کیا میں اس آدم کے سامنے جھک جائوں جسے تُو
نے مٹی سے بنایا ہے؟ میں آدم سے بہتر اور برتر ہوں۔‘‘
اس طرح عزازیل نے غرور
اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی۔ اللہ کے حکم کی نافرمانی
سے عزازیل اللہ کی رحمت اور قُرب سے محروم ہو گیا اور اس کا نام ابلیس یعنی ’’شیطان‘‘
ہو گیا۔ ابلیس کا مطلب رنج و غم اور مایوسی و پریشانی میں دل شکستہ ہو کر ٹوٹ پھوٹ
جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے علم اور عزت سے محروم کر کے جنت سے نکال دیا اور شیطان
غرور و نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دُور ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کے قریب کوئی ایسا
فرد نہیں رہ سکتا جو مغرور، نافرمان اور ناشکرگزار ہو اور سرکشی دکھائے۔
ابلیس نے اپنی سرکشی اور
نافرمانی پر ندامت اور توبہ نہیں کی بلکہ ہٹ دھرمی اور الزام تراشی کرتے ہوئے بولا:
’’اے اللہ! تُو نے مجھے
صراط مستقیم یعنی سیدھے راستے سے ہٹا دیا اور مجھ پر سیدھی راہ بند کر دی ہے۔ مجھے
قیامت تک مہلت دے۔ میں آدم اور آدم کی اولاد کو گمراہ کر دوں گا۔ ان پر ان کی اصل
حقیقت کھلنے نہیں دوں گا۔ میں آدم کی اولاد کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کے لئے ان پر
ہر طرف سے حملہ کروں گا۔ میں ان پر جھوٹی خوشیوں اور دھوکہ کا جال بُن دوں گا۔
اے اللہ! تُو ان میں سے
اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ میں آدم کی اولاد کو آدم کے علم اور عزت سے محروم کر
کے رہوں گا اور ان کے بہت کم افراد اس ہلاکت سے بچیں گے۔ البتہ ان میں جو تیرے مخلص
اور شکر گزار بندے ہوں گے وہ میرے دھوکہ اور بہکانے میں نہیں آئیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یہاں سے نکل جا۔ آج
سے تُو ذلیل اور ٹھکرایا ہوا ہے۔ تجھے روز قیامت تک مہلت ہے۔ آدم کی اولاد میں سے
جو تیری بات مانے گا وہ تیرا ساتھی ہو گا۔ جس کو تُو بہکانے اور دھوکہ دینے کی کوشش
کر سکتا ہے، کر لے۔ ان کو مال اور اولاد کے خوشنما اور جھوٹے وعدے سے دھوکہ دینے کی
کوشش کر لے۔ جو سیدھے راستے سے ہٹ جائے گا وہ تیرا ساتھی ہو گا اور میں قیامت کے دن
تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ البتہ میرے مخلص، سچے اور شکرگزار بندوں پر تیرا زور
نہیں چلے گا اور وہ تیرے دھوکہ میں نہیں آئیں گے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ
تعالیٰ نے پہلے انسان کا نام ’’آدم‘‘ رکھا اور آدم کا جسم گوندھی ہوئی مٹی کے گارے
سے بنایا جو خشک ہو کر ایسے بجتا تھا جیسے اندر سے خالی ہو۔ خلاء پر مشتمل یہ جسم نہ
سُن سکتا تھا، نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ بس یہ مٹی کا ایک بے جان، بے
حس و حرکت پتلا اور ایک ناقابل ذکر شئے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس خلاء میں اپنی روح
پھونک دی تو روح کے داخل ہوتے ہی مٹی کی مُورت گوشت پوست کے جاندار جسم میں بدل گئی
اور انسان دیکھنے، سُننے اور بولنے لگ گیا۔