Topics
کئی دن ایسے ہی گزر گئے۔
میرے اندر ایک ہوک سی اٹھی اور جب تک میں گیلری میں آ کر اسے دیکھ نہ لیتی مجھے
چین نہ آتا۔ میں بہت سوچتی کہ مجھے کس مصیبت میں ڈالا گیا ہے۔ مجھے مرد کی نہیں،
اللہ کی محبت چاہئے۔ اندر سے اشارہ ملتا یہ جذبہ اللہ کی طرف سے ہے۔ چند روز بعد
ہم سب اپنی اپنی پڑھائی میں مشغول ہو گئے۔ ہماری ملاقات بس کبھی کبھار دیکھنے کی
حد تک رہ گئی۔ امتحان ختم ہو گئے۔ اس قصے کو تقریباً دو ماہ گزر چکے تھے۔ لیکن شام
کو میں گیلری میں کھڑی تھی سامنے نظر کی تو وہ لڑکا نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں سوٹ
کیس تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور خدا حافظ کے لئے ہاتھ ہلا دیا۔ میں گھبرا کے
کمرے کے اندر چلی آئی مگر دل کو ایک دھچکہ سا لگا۔ یہ تو جا رہا ہے۔ شاید لاہور سے
آیا ہو گا کیا پتہ کہاں سے آیا ہے کہاں جا رہا ہے مجھے تو ابھی تک اس کا نام بھی
نہیں معلوم۔ اب کیا ہو گا، پتہ نہٰں اب میں اسے دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں۔ میری
آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے اللہ میاں سے کہا، یا اللہ! میں تو ایک خوش باش
زندگی کی خواہش رکھتی ہوں اس زندگی کی تو شروعات ہی آنسوئوں سے ہو رہی ہے پھر مجھے
یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ادھر کیا حال ہے۔
اس طرح کئی دن گزر گئے۔ ایک
دن میں اور ریحانہ اسکول سے آرہے تھے کہ راستے میں صفدر ملا۔ تھوڑی دور تک وہ
ریحانہ سے باتیں کرتا ہوا ساتھ چلتا رہا اور پھر چلا گیا۔ میں دوسرے دن اسکول جانے
کے لئے ریحانہ کو لینے اس کے گھر پہنچی تو اس کے باپ نے خوب ڈانٹ پلائی کیونکہ کل
ریحانہ کے ساتھ صفدر کو ریحانہ کے چھوٹے بھائی نے دیکھ لیا تھا۔ اس نے باپ کو
اطلاع دے دی تھی۔ اب ریحانہ اسکول سے اٹھا لی گئی۔ میں اکیلی ہو گئی۔ میں دعا کرتی
کہ اس کی شادی صفدر سے ہی ہو جائے۔ تیسرے دن میری ملاقات اسکول کے راستے پر صفدر
سے ہوئی۔ میں نے ریحانہ کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ وہ خاصہ پریشان ہوا۔ کہنے لگا
میرا خیال تھا کہ میڈیکل کر لوں تو پھر شادی کروں گا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کے
باپ نے کہا ہے کہ اب ہم اسے نہیں پڑھائیں گے اور جلد ہی اس کی شادی کر دیں گے۔ وہ
چپ ہو گیا۔ اس کے باپ نے مجھے بھی آنے سے منع کر دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد گلی میں
جاتے ہوئے ریحانہ مل گئی۔ میں نے پوچھا کیسی ہو؟ وہ بولی صفدر کی بہن رشتہ لے کر
آئی تھی مگر میرے باپ نے منع کر دیا۔ مجھے اس کا بہت افسوس تھا۔ اس طرح کئی ہفتے
گزر گئے۔ ریحانہ کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ کبھی وہ خود مل جاتی اور کبھی اس کے
چھوٹے بھائی سے تھوڑا سا پوچھ لیتی۔ پتہ چلا کہ صفدر نے بہت کوشش کی مگر کسی طرح
بھی اس کا باپ نہ مانا اور آخر کار اس کی شادی اپنی برادری میں کر دی۔ میں نے پھر
دوبارہ اس کے گھر میں جانا مناسب نہ سمجھا۔ نہ ہی شادی میں شریک ہوئی۔ مجھے اطلاع
بھی نہ تھی۔ ویسے بھی ہماری دوستی اسکول کی حد تک تھی مگر اس کے بعد پھر کبھی کسی
لڑکی سے میری ایسی دوستی نہ ہو سکی۔
وہ ایک روحانی تعلق جو اس
سے تھا کسی اور سے نہ ہوا۔ نہ ہی میں نے کسی کو اپنا دوست بنانے کی ضرورت سمجھی۔
مجھے اس لڑکے کو دیکھے تقریباً چھ ماہ ہو چکے تھے۔ مجھے یہ یقین ہو چکا تھا کہ وہ
کہیں دور سے آیا تھا اور امتحان دے کر واپس اپنے شہر جا چکا ہے مگر اس پورے عرصے
میں ہر روز وہی روز اول کی فلم میرے سامنے آ جاتی۔ اس فلم میں، میں اپنے آپ کو اس
لڑکے کی دلہن کے روپ میں دیکھتی۔ میرا دل اسے دیکھنے کو تڑپ جاتا۔ عجیب اذیت ناک
دور تھا۔ کہاں تو یہ بات تھی کہ میں کسی مرد سے محبت کرنا اپنی توہین سمجھتی تھی
اور کہاں یہ بے بسی کہ صرف ایک بار دیکھنے کی دعا کرتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ
اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتاہے۔ اللہ نے اسے میرا شوہر بنانا ہے تو اسی کو میرا ہونا
ہے مگر مجھے اتنا پہلے کیوں بتا دیا گیا کہ میں عشق کی آگ میں جلتی رہوں۔ یہ کیا
بات ہوئی؟
ان دنوں میں میرے دل میں
بہت سی حسرتیں جمع ہو گئیں جو مجھے بہت ہی تڑپاتیں۔ ریحانہ کے ساتھ اتنے سالوں کا
ساتھ چھوٹنا۔ اللہ میاں کو خط لکھنے کا مقصد پورا نہ ہونا۔ اس لڑکے کو دیکھنے کی
خواہش۔ مجھے ایسا لگتا جیسے کسی نے مجھے بھٹی میں ڈال دیا ہے۔ اندر کی شمامہ جلتی
رہتی۔ اوپر کی شمامہ ہنستی کھیلتی رہتی۔ میری ظاہری زندگی میں ذرا بھی تبدیلی نہ
تھی۔ میں نے اپنی کمزوری ظاہر کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔ نہ ہی کبھی اپنے دل کا حال
کسی پر کھولنا چاہا۔ یہ تینوں خواہشات ایسی تھیں کہ جیسے بالکل ایک برابر تھیں۔
روزانہ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں جانکنی کے عالم میں ہوں۔ عموماً ایسی حالت
شام کے وقت ہوتی۔ جب میں گیلری میں کھڑی ہو کر اپنے خیالوں میں گم اپنی خوشیوں کو
تلاش کرتی، کبھی خلائوں میں گھورتا ہوا دل پکارتا، اے میرے رب میں تجھے کس طرح خط
لکھوں میرا جی چاہتا ہے میں تجھے اچھے اچھے الفاظ میں پکاروں۔ میں کیا کروں۔ کیسے
اس خواہش کو ختم کروں۔ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کبھی سڑک پر چلنے والوں میں
ریحانہ اور اس لڑکے کو تلاش کرتی۔ اب جب وہ دن یاد آتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ
انسان بھی کتنا پر اسرار ہے اس کے من کی دنیا سے کوئی دوسرا واقف نہیں ہو سکتا۔
ریحانہ کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش نے مجھے جلتی آگ میں جھونک دیا تھا اور ریحانہ
کو پتہ بھی نہ تھا میں اس کے ساتھ اتنی نارمل رہی کہ کبھی ایسی محبت کا اظہار بھی
نہیں کیا۔ میں چاہتی تو اس کے والدین کے گھر جا کر اس سے ملنے کا سامان کر لیتی
مگر میں خوب جانتی تھی کہ ریحانہ کے پردے میں مجھے کس کو دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ وہ
ہستی جو کبھی کبھی میرے تصور کے پردے کے پیچھے سے دکھائی دیتی ہے اور پھر کئی کئی
دن چھپ جاتی ہے۔ جب وہ چھپ جاتی تو میری نظر اسے دنیا میں ڈھونڈنے لگتی۔ میرا دل
ریحانہ سے ملنے اور بات کرنے کو نہیں صرف ایک نظر دیکھنے کو چاہتا تھا۔ میں جانتی
تھی ریحانہ تو کیا کوئی بھی اس راز کو سمجھ نہ سکے گا۔ چار پانچ سال کی دوستی میں،
میں نے کبھی ریحانہ سے یہ نہیں کہا کہ بچھڑ گئے تو یاد کریں گے۔ پھر اس لڑکے کا
روگ میری جان نکالے دیتا تھا۔ میں تو یہی سمجھ بیٹھی تھی کہ وہ کسی دوسرے شہر جا
چکا ہے اس کا تو کچھ علم نہیں اور میں خواہ مخواہ اس کی یاد میں شمع کی طرح جل کی
پگھل رہی ہوں۔ اللہ میاں کی یہ حکمت میری سمجھ میں نہ آئی تھی مگر اللہ کی رضا کو
جانتے ہوئے چپ چاپ انتظار میں تھی۔
ایک دن گھر کی سیڑھیاں
چڑھ رہی تھی کہ نہایت تیزی سے کوئی شخص برابر میں آیا اور میرے ہاتھ میں ایک خط دے
کر یہ کہتا ہوا اس کا جواب ضرور دیتا۔ اتنی ہی تیزی سے واپس چلا گیا۔ یہ سب اتنی
جلدی ہوا کہ مجھے تو سوچنے کا بھی موقعہ نہ ملا۔ جب میرا دماغ ٹھکانے آیا تو دل نے
کہا یہ تو وہی ہے۔ گھبراہٹ کے مارے میں نے جلدی سے خط اپنی مٹھی میں دبا لیا اور
ادھر ادھر دیکھا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں۔ گھر آ کر کتاب میں چھپا کر وہ خط پڑھا،
لکھا تھا۔
آپ بھی حیران ہوں گی کہ
یہ دیوانہ کون آ گیا، نہ آپ مجھے جانتی ہیں نہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ مگر جب سے
دیکھا ہے دن بدن یوں لگتا ہے جیسے ہم جنم جنم کے شناسا ہیں۔ میرے شب و روز کے ہر
لمحے میں آپ میرے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
امتحان کے زمانے کے وہ چند دن جو میں نے آپ کی گلی میں گزارے تھے وہ دن کسی طرح
بھولتے ہی نہیں۔ آج بھی آپ کی حیا بار پلکیں اسی طرح میری جانب اٹھتی محسوس ہوتی
ہیں۔ آپ کے مسکراتے لب مجھے زندگی کا پیغام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کتنی بار آپ کو
دیکھنے اور ملنے کی کوشش کی مگر نہ جانے آپ کہاں چھپی بیٹھی ہیں۔ کتنے دنوں سے یہ
خط لکھ کر رکھا ہے اور آپ تک رسائی ہونے کے لئے جانے کتنے دن اس غریب خط کو لگیں
گے۔
آپ
کا "وہ"
خط پڑھ کر میرے تو ہوش اڑ
گئے۔ الٰہی یہ کیا ہوا۔ میرے سینے میں پھر وہی ٹھنڈک محسوس ہوئی جیسی پہلے دن اسے
دیکھنے میں ہوئی تھی۔ اگلے ہی لمحے مجھے یوں لگا جیسے اللہ نے میری سن لی ہے۔ کمسن
جوانی کا یہ پہلا پہلا لمحہ تھا۔ میرے اندر باہر کا ہرتار بجنے لگا۔ میں نے دوبارہ
سہ بارہ خط پڑھا۔ اس کا ایک ایک لفظ میرے اندر اتر گیا۔ میں نے سوچا۔ لڑکا تو اچھا
اور شریف معلوم ہوتا ہے۔ خط کی عبارت بھی معقول ہے۔ میرے اندر محبت کا چشمہ پھوٹ
نکلا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اس لڑکے سے بہت ہی زیادہ محبت کرتی ہوں۔ اسی وقت دل
میں یہ خیال پیدا ہوا کہیں اللہ میاں ناراض نہ ہو جائیں کہ میں اللہ کی بجائے ایک
لڑکے سے اتنی محبت کر رہی ہوں۔ میں نے اللہ میاں سے کہا! یا اللہ! ناراض نہ ہونا۔
مجھے جو محبت تجھ سے ہے وہ کسی سے نہیں ہو سکتی مگر تو جانتا ہے کہ میں ایک نوجوان
لڑکی ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے پیار کرے۔ میری محبت کا اقرار کرے۔
یہ میرا فطری تقاضہ ہے۔ یہ میری ضرورت ہے میرے اللہ یہ تقاضہ اور ضرورت بھی تیری
ہی پیدا کردہ ہے تو ہر ضرورت سے بے نیاز ہے۔ مگر تو بندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے
والا ہے تو یہ نہ سمجھنا کہ میں دنیا کی محبت میں تیری محبت کو بھلا دوں گی۔ ایسا
نہیں ہو سکتا تو ہی میری منزل ہے، میری تلاش ہے۔ تیری محبت میری روح میں رچی ہوئی
ہے۔ اسے کوئی کم نہیں کر سکتا۔ یہ سب کچھ کہہ کر میرا دل ہلکا ہو گیا۔ مجھے
اطمینان ہو گیا کہ اللہ مجھ سے خوش ہے اور میری ہر خواہش اور ہر تقاضہ کی تکمیل کا
سامان کر رہا ہے۔
دو تین دن تک میں نے اس
خط کو چھپا چھپا کر رکھا اور جانے کتنی بار پڑھا۔ پھر میں سوچنے لگی نہ جانے کب
ملاقات ہو۔ اس خط کو میں کب تک چھپا کر رکھوں گی، کسی نے دیکھ لیا تو پتہ نہیں
ایسے خطوط کو کیا کرتے ہیں۔ عقل نے جواب دیا واپس کر دیتے ہیں۔ اب میں دعا کرنے
لگی جلدی سے کہیں مل جائے تو اچھا ہو تا کہ خط واپس کر دوں۔ تیسرے دن چھوٹی بہن کے
ساتھ باہر نکلی چند گلیاں چھوڑ کر ایک گلی میں گزر رہی تھی کہ ایک دم سے کوئی تیزی
سے میرے برابر آ گیا۔ آہستہ سے بولا۔ خط پڑھ لیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہی تھا۔
میرا دل اچھل کر جیسے حلق میں آ گیا۔ میں نے کہا، ہاں۔ کہنے لگا کیا نام ہے آپ کا۔
میں نے کہا شمامہ۔ کہنے لگا میں حبیب ہوں۔ کتنی بار آپ سے ملنے کی کوشش کی آپ نظر
ہی نہیں آتیں۔ میں نے کہا۔ میں سمجھی آپ کسی دوسرے شہر سے آئے تھے۔ امتحان دے کر
واپس چلے گئے۔ اس نے بھرپور نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ پھر مسکرا کر بولا۔ میں
یہیں رہتا ہوں۔ اسکول کا کیا ٹائم ہے آپ کا۔ میں نے کہا بارہ بجے سے شام پانچ بجے
تک۔ کہنے لگا میں ملوں گا۔ میں نے جلدی سے پوچھا، اس خط کا کیا کروں۔ وہ شاید
سمجھا نہیں کہنے لگا۔ کیا آپ نے پڑھا نہیں ابھی تک۔ میں نے کہا پڑھ تو لیا ہے مگر
اب کیا کروں۔ کیا آپ کو واپس کر دوں۔ وہ مسکرایا نہیں اس کو پھاڑ دینا۔ مگر جواب
ضرور دینا۔ یہ کہہ کر وہ خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ وہ تو چلا گیا مگر میں دل ہی دل
میں سخت شرمندہ تھی کہ کہتا ہو گا عجیب بے وقوف لڑکی ہے۔ گھر آ کر میں نے اس خط کو
پھر ایک بار پڑھا۔ مجھے اس کا پھاڑنا بھی اچھا نہ لگا۔ میں نے سوچا اگر کسی کا ڈر
نہ ہوتا تو میں ضرور اسے سنبھال کر رکھتی۔ اپنے رب کو خط لکھنے کے لئے میں کب سے
بے چین تھی۔ دل اندر ہی اندر محبوبیت کے الفاظ دہراتا رہتا تھا مگر وہ سب اللہ کے
لئے تھا۔ رات کو میں جب خط لکھنے بیٹھی تو دل نے اپنا سب راز اگل دیا۔ میں خود
اپنا خط پڑھ کر حیران رہ گئی۔ میرے حافظے میں ہر بات اسی طرح محفوظ ہے۔ وہ خط یہ
تھا:
میرے وجود کا ہر ذرہ آپ
کو سلام کہتا ہے۔ محبت تو ایک ایسا جذبہ ہے جو روح کی گہرائیوں میں پلتا ہے۔ جب
محبت کرنے والے دو دل آپس میں ملتے ہیں تو رحمت خداوندی جھوم اٹھتی ہے۔ فرشتے سر
بسجود ہو جاتے ہیں۔ میرے نزدیک محبت ایک بہت ہی پاک اور عظیم چیز ہے۔ یہ دنیاوی
نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ دنیا کی ہر شئے کا تعلق جسم سے ہے مگر آفاق کی ہر شئے کا رشتہ
روح کے ساتھ ہے۔ میں نہیں جانتی کہ آپ محبت کے کیا معنی لیتے ہیں۔ میں تو صرف اتنا
جانتی ہوں کہ محبت میرے لئے بندگی کی طرح ہے اور میں بندگی کبھی چھوڑ نہیں سکتی۔
زندگی کا ہر رشتہ ٹوٹ سکتا ہے مگر محبت کے رشتے نہیں ٹوٹ سکتے۔ سانس کے تار جسم سے
باندھے جاتے ہیں مگر محبت کے تار دلوں سے بندھتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ہم
دونوں مل کر محبت کے ان لمحات کو ابدی بنا دیں۔
شمامہ
یہ خط لکھ کر مجھے ایسا
اطمینان ہوا جیسے مدتوں کے پیاسے کے حلق میں کوئی پانی کی ایک بوند ٹپکا دے۔ دوسرے
دن اسکول سے واپسی پر جیسے ہی میں نے راستے پر قدم رکھا۔ وہ آ گیا۔ اس نے سلام
کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ جب سے ریحانہ کا ساتھ چھوٹا تھا میں مین روڈ سے آنے
جانے لگی تھی۔ مگر آج پھر میں نے ان ہی پرانے راستوں پر قدم رکھ دیا۔ اس نے پوچھا۔
آپ کون سی جماعت میں پڑھتی ہیں۔ میں نے کہا، نویں کا امتحان دیا تھا اب دسویں میں
ہوں۔ ان دنوں گیارہ کلاس کی میٹرک تھی۔ پھر میں نے پوچھا اور ‘‘آپ’’، بولا۔ میٹرک
کا امتحان دینے آپ کی گلی میں آئے تھے۔ ہم چند لڑکوں نے اسٹڈی کے لئے یہ فلیٹ لیا
تھا اور اب سائنس کالج میں ہوں۔ بس اس کے علاوہ پھر ہماری کوئی گفتگو نہ ہوئی۔ اس
کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں زمین پر نہیں چل رہی بلکہ جیسے
یہ خواب کی دنیا ہے۔ میرا دل اندر ہی اندر اس سے باتیں کر رہا تھا مگر زبان بالکل
خاموش تھی۔ دل اندر ہی اندر کہہ رہا تھا کہ تم میری محبتوں کے مرکز ہو۔ تم سے ہی
میری زندگی ہے۔ تم مجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ میرا تمہارا رشتہ ازلی ہے۔ میری
نظریں سامنے فضا میں اٹکی ہوئی تھیں اور دل اندر ہی اندر اس طرح یہ سب کچھ کہہ رہا
تھا جیسے ایک ریکارڈ چل رہا ہو۔ وہ میرے برابر برابر ایک سائے کی طرح چلتا رہا۔ ہم
دونوں کی حالت سحر زدہ سی تھی۔ یہاں تک کہ راستہ ختم ہونے کو آ گیا۔ میں نے خط
نکالا اور اسے پکڑا دیا۔ خدا حافظ۔ وہ جواباً بولا خدا حافظ۔ میں کل پھر تمہیں
ملوں گا۔ میری آنکھوں میں خوشی جھلکنے لگی۔ میں نے کہا، اچھا۔
دوسرے دن پھر اسی طرح وہ
مل گیا۔ ہم اسی راستے پر چل نکلے۔ راستے پر قدم رکھتے ہی ریحانہ کا تصور آ گیا۔
مجھے یوں لگا جیسے کوئی قطرہ قطرہ میرے اندر سے نچوڑ رہا ہے۔ مجھ پر پھر جانکنی کی
حالت طاری ہونے لگی۔ میں نے اس دم دعا کی۔ یا اللہ ریحانہ میری بہت عزیز سہیلی ہے
اسے سدا خوش رکھنا۔ بظاہر وہی کل والی حالت تھی کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے
میری نظر فضا میں تھی خیال آیا بچپن کا وہ دور گزر گیا ہے جس میں میری محبت کی
تصویر ریحانہ تھی۔ اب یہ تصویر حبیب ہے۔ میری سب سے پہلی تصویر جو دنیا میں، میں
نے دیکھی وہ میری ماں ہے۔ ماں کا نقش بھی میرے دل کی گہرائی میں منقش نظر آیا۔ جس
کے ساتھ میرا ذہنی رابطہ اکثر رہتا تھا۔ پھر ریحانہ اور آج حبیب ہے۔ میں بڑی ہوتی
جا رہی ہوں۔ عمر کے ساتھ ساتھ میری ضرورتیں بدل رہی ہیں۔ جب مجھے ماں کی ضرورت تھی
تو اللہ نے ماں کا ساتھ دے دیا۔ پھر سہیلی کی ضرورت پڑی کہ جو باتیں میں ماں سے نہ
کہہ سکتی تھی وہ سہیلی کے ساتھ کرتی تھی اور اب جو باتیں میں سہیلی سے بھی نہ کر
سکتی تھی۔ وہ مجھے اس لڑکے سے کرنی ہیں۔ میں اندر ہی اندر اس تبدیلی پر غور کرتی
رہی۔ میرے اندر پھر خیالات کا ایک ریکارڈ چل گیا۔ اے میری زندگی کے ہم سفر۔ اللہ
نے تمہیں میرا ہم سفر چن لیا ہے۔ اللہ کا فیصلہ اور ارادہ انسان کے ارادے پر غالب
ہے۔ میں نے اللہ کے فیصلے پر سر جھکا دیا ہے۔ تم بھی اسے قبول کر لو کیونکہ ہونا
تو وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ میں تمہیں اتنی محبت دوں گی کہ تم اس محبت میں سب کچھ
بھول جائو گے۔ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے صرف یہی ایک چیز ہے۔
کل کی طرح آج بھی سارا
راستہ خاموشی سے گزر گیا۔ یہ راستہ بہت خاموش تھا۔ یہاں ذرا بھی ٹریفک نہ تھی۔ بہت
بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں جن کے احاطے کے اندر بڑے بڑے ہرے بھرے درخت لگے تھے اور یوں
لگتا تھا جیسے یہاں کوئی نہیں رہتا۔ صاف ستھرے ہرے بھرے راستے پر ہم دونوں چپ چاپ
قدم سے قدم ملائے ساتھ چلتے رہے۔ کل کی طرح آج بھی ہمارے سفر کا آغاز سلام سے ہوا
اور اختتام خدا حافظ پر ہوا۔ آج میں نے دل میں کہا۔ کل آنا۔ اس نے زبان سے کل آنے
کے لئے کچھ نہ کہا۔ جب وہ چلا گیا میرے دل میں ایک افسوس سا ہونے لگا۔ کاش میں اس
سے کچھ باتیں کر لیتی۔ وہ بھی کہتا ہو گا کیسی خاموش، کیسی سنجیدہ لڑکی ہے۔ جب کہ
میں نہ خاموش اور نہ ہی اتنی سنجیدہ لڑکی ہوں۔ میں تو ہنستی گاتی خوش باش لڑکی
ہوں۔ پھر مجھے کیا ہو جاتا ہے دل نے کہا میں اس سے باتیں کروں گی ضرور۔ مگر پہلے
وہ مجھے جان تو لے۔ میں اسے بتا تو دوں کہ میں کون ہوں۔ میں کوئی عام لڑکی نہیں
ہوں۔ اس رات میں آنکھوں میں اس کے سپنے سجا کے سو گئی۔ خواب دیکھتی ہوں کہ میں
گھنے جنگل میں تن تنہا جیسے مجھے کسی کی کھوج ہے مگر میں جانتی ہوں کہ مجھے کس کی
کھوج ہے۔ وہ میرا محبوب ہے۔ محبوب کی صورت حبیب کی صورت بن گئی۔ میں جنگل میں بے
خوف و خطر چلی جا رہی ہوں۔ اتنے میں ایک بڑا سا سانپ آ کر میرے پائوں سے لپٹنے کی
کوشش کرتا ہے جیسے ہی میرے قدم اس کے لپٹنے سے دھیمے پڑتے ہیں میں پائوں کی جانب
دیکھتی ہوں اور غصہ میں اس سانپ کو پائوں تلے روند دیتی ہوں اور پھر آگے بڑھ جاتی
ہوں۔ تھوڑی دیر آگے جا کر پھر ایک سانپ کسی ڈالی سے لٹکتا ہوا میرے کندھوں پر آ
جاتا ہے۔ میں بہت غصہ میں اسے اپنے کندھوں سے جھٹک دیتی ہوں۔ تھوڑا آگے چلنے کے
بعد زمین پر چار پانچ بڑے بڑے اژدھے میرا راستہ روکے کھڑتے تھے۔ اب کے میرے غصہ کی
انتہا نہ رہی۔ میں ان کے بالکل پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور غصہ میں چلاتے ہوئے کہا،
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے محبوب کے راستے سے روک سکتے ہو۔ تم میں یہ طاقت
نہیں ہے۔ لو آئو اور اپنی قوت کا خود ہی مشاہدہ کر لو۔ یہ کہہ کر میں نے ایک مضبوط
عزم کے ساتھ قدم بڑھایا اور اپنے پائوں اژدھوں پر رکھتی ہوئی گزر گئی۔ وہ اژدھے
بالکل بے جان سے پڑے رہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
خواب دیکھ کر میں نے اللہ
سے دعا کی کہ اے میرے رب میری محبت کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں آسان
فرما۔ اگلے دن دل کہہ رہا تھا وہ آئے ضرور۔ اور میں نے امید کے راستے پر قدم رکھ
دیا۔ ابھی چند قدم چلی تھی کہ وہ آ گیا جیسے بہار آ گئی مگر پھر وہی چند جملے چند
الفاظ اور خاموشی۔ میں اپنی دھن میں چلی جا رہی تھی۔ راستہ ختم ہوا تو اس نے ایک
خط میری طرف بڑھا دیا اور خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے موقع پا
کر سب سے پہلے وہ خط پڑھا۔ لکھا تھا۔
گھر میں سارا دن آپ سے
کہنے کے لئے الفاظ اکٹھے کرتا ہوں اور آپ کے حضور آ کر جیسے زبان بند ہو جاتی ہے۔
لگتا ہے یہی حال آپ کا بھی ہے۔ اظہار مدعا کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ مگر
اتنا جانتا ہوں کہ آپ کے بغیر میں زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ یوں لگتا ہے جیسے
قدرت نے ہمیں ایک بندھن میں باندھ دیا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے دامن
میں چاند ستارے بھر دوں گا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ دل کے اس بندھن کو قائم رکھنے
کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ کی محبت میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ آپ کی طرح خوبصورت
الفاظ میرے پاس نہیں ہیں مگر جیسے بھی ہیں انہی کو میرے دل کی آواز سمجھ لیجئے۔
حبیب
خط پڑھ کر میری روح کا
ایک ایک تار بج اٹھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں صدیوں سے جس کے انتظار میں تھی وہ
مجھے مل گیا ہے۔ میں نے اللہ کے حضور بڑی عاجزی کے ساتھ دعا مانگی۔ یا اللہ وہ
میری روح کا چین ہے۔ اسے مجھ سے مت جدا کرنا۔ اس کے ساتھ ہی ریحانہ کی جدائی
اندیشہ بن کر سامنے آ گئی۔ میری نظروں کے سامنے بچپن کے وہ دن آ گئے جب ہم سڑک پر
پڑی ماچس کی خالی ڈبیہ کو ٹھوکر مارتے مارتے اسکول پہنچ جاتے تھے۔ یا اللہ مجھے وہ
یاد آتی ہے اور بہت یاد آتی ہے۔ میں نے اسے دوست مانا ہے۔ دوست تو زندگی میں ایک
ہی ہوتا ہے۔ اس ساری دنیا میں، میں نے ایک لڑکی کو اپنے دوست کی حیثیت سے چنا۔ وہ
جہاں بھی رہے اسے خوش رکھنا اور اسے میرے حال کی خبر دے دینا۔ اللہ سے یہ کہہ کر
مجھے ایک سکون و اطمینان ملا کہ وہ ضرور میرا حال اس تک پہنچا دے گا۔ بظاہر میں نے
یہ کبھی جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ وہ کہاں ہے کیسی ہے اور اس سے ملاقات بھی
کی جا سکتی ہے۔ میرا رشتہ تو اندر کا تھا۔ جسے میرا دل ہی جانتا تھا۔ میں جانتی
تھی۔ حبیب کی محبت ریحانہ کی محبت کا نعم البدل ہے مگر میں جس درد سے آشنا ہوئی
تھی میں نہیں چاہتی تھی کہ پھر وہی درد میری جان نچوڑتا رہے۔ اس دن کے بعد وہ دو
تین دن نہ آیا۔ میری آنکھیں اسے دیکھنے کو تڑپنے لگیں۔ رات ہو گئی۔ میں شام سے بار
بار گیلری میں جاتی کہ شاید وہ دکھائی دے جائے مگر بے سود۔ آخر رات کو سونے کے لئے
بستر پر لیٹ گئی۔ وہی دل کا درد جسے میں جانکنی کی تکلیف کے سوا اور کوئی نام نہ
دے سکتی تھی۔ میرے روئیں روئیں سے جیسے جان کھینچنے لگا۔ میں کتنی دیر اسی تکلیف میں
اپنے رب سے فریاد کرتی رہی کہ مجھے اس آگ میں آخر کیوں جلا رکھا ہے۔ میری نظریں
اسے کیوں دیکھنا چاہتی ہیں۔
رات کو خواب میں دیکھتی
ہوں کہ میں اپنی دھن میں مگن ہنستی کھیلتی ہوئی ایک راستہ پر جا رہی ہوں۔ یوں لگتا
ہے جیسے میں اپنے محبوب سے ملنے جا رہی ہوں۔ میرا کمسن شباب اپنے حسن سے بے خبر
ہے۔ میں اپنا دوپٹہ لہراتی راستے کے ٹیلوں پر گاتی لہراتی چلی جا رہی ہوں۔ دل میں
محبوب سے ملنے کی لگن خوشیوں کے پھول کھلا رہی ہے۔ کبھی میں اس ٹیلے پر کھڑی ہو کر
اسے نہایت ہی پیار بھری آواز میں پکارتی ہوں اور کبھی کسی درخت کی ٹہنی سے جھول کر
اس کو آواز دیتی ہوں۔ میں اسی خوشی میں تھی کہ ایک سانپ میرے پیچھے لگ گیا۔ میں
محبوب کے خیال میں اتنی زیادہ ڈوبی ہوئی تھی کہ بہت دیر تک مجھے اس کے ساتھ ساتھ
آنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ کافی دیر بعد جب اس نے اپنا پھن اٹھا کر میرے سامنے آ کر
پھنکارا تو میں چونک کر کھڑی ہو گئی مگر یہ دخل ور معقولات مجھے کچھ اچھی نہ لگی۔
خبردار جو میرے راستے میں آیا۔ کہہ کر میں نے اسے گلے سے پکڑ کر دور پھینک دیا اور
پھر اسی طرح ہنستی گاتی اپنے راستے پر چل دی۔
صبح آنکھ کھلی تو دوسری
بار خواب میں سانپ دیکھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ ہماری محبت میں دنیاوی رکاوٹیں آتی
ہیں۔ میں نے دعا کی کہ یا اللہ ہمارے راستے کی ہر مشکل آسان کرنا اور ہمیں اپنی
حفاظت میں رکھنا۔ دوسرے دن وہ اسکول پر ملا۔ آج میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اس
سنجیدگی کو ہٹا کے اس سے نارمل طریقے سے بات کروں گی اس نے آتے ہی سلام کیا میں نے
جواب دیا اور اپنی بے صبری کا حال سنانا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے اس میں اپنی کمزوری
نظر آئی۔ اسی لئے میں نے اس سے پوچھا کہ تم تین دن کیوں نہیں آئے۔ اس نے کہا، آپ
کیسی ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہوں۔ کہنے لگا کچھ مصروف تھا۔ اسی وجہ سے نہ آ سکا۔ میں
نے کہا، اچھا۔ اس وقت ہم ایک بڑے گھنے سے درخت کے نیچے سے گزر رہے تھے جس کی شاخیں
بالکل نیچے تک تھیں۔ اس کے پتے املی کے پتے کی طرح تھے مگر نہایت ہی باریک باریک
تھے۔ اس نے پتے توڑ کر میرے اوپر پھینک دیئے۔ شرم سے میں نے اپنا چہرہ دوپٹے میں
چھپا لیا۔ اس کے بعد وہ جانے کیا کیا کہتا رہا۔ میں ہوں ہوں کرتی رہی۔ میری آنکھوں
کے سامنے کچھ اور ہی منظر تھا، میں سجی سجائی دلہن بن کسی فرش پر بیٹھی تھی۔ کوئی
میری مانگ میں افشاں بھر رہا تھا۔ اس بار رخصت ہوتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
میرے سر سے پائوں تک ایک کرنٹ دوڑ گیا۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے
کہا خط کا جواب ضرور دینا۔ میں نے سر ہلا کے شرماتے ہوئے گردن ہلا دی۔ دل نے کہا
پاگل ہے دیوانہ ہے۔ میں نے پوچھا پھر میں کیا ہوں۔ دل نے کہا تم بھی پاگل اور
دیوانی ہو۔ ہم رخصت ہو گئے۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے کبھی کوئی خیال نہ آتا کہ
دنیا ہمیں دیکھ لے گی۔ ہمارے لئے مشکل ہو جائے گی۔ اندر اندر میں جانتی تھی کہ
اللہ ہمارا ملاپ چاہتا ہے اور بس اس کے سوا میں اور کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
آج میرا دل بے انتہا خوش
تھا کبھی میرے تصور میں اس کا ہاتھ پکڑنا دکھائی دیتا، کبھی پتیاں پھینکنا نظر
آتا۔ بار بار تصویر میں دلہن بنی دیکھتی اور وہ میری مانگ میں افشاں کے ذرات
ٹپکاتا رہتا۔ دل سے آواز آتی وہ تمہارا محبوب ہے تم ا سے محبوبیت کی وہ بات کر
سکتی ہو جو تمہارے دل میں ہے۔ میرے اندر آج جذبات کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ تنہائی
پاتے ہی میں نے اللہ سے کہا، یا اللہ! میں کیا کروں۔ وہ بچھڑتا کیوں ہے۔ اس کی
جدائی کا ہر لمحہ میری موت کیوں بن جاتا ہے۔ دل میں پھر تقاضہ اٹھا کہ میں خط
لکھوں۔ محبت کے جذبات الفاظ کا طوفان بن کر میرے دل میں اٹھنے لگے۔ دل کی گہرائیوں
سے روح کی آواز آئی اے میرے رب تو بہتر جانتا ہے میرا عشق تجھ ہی سے ہے مگر میں
بشری جذبات کے تقاضوں کوبھی نظر انداز نہیں کر سکتی تو مجھ سے واقف ہے۔ میری حفاظت
رکھنا ان دنوں میرے اندر گناہ ثواب کا کوئی احساس نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے میں مرد
عورت کے جسمانی تعلقات سے تو قطعی طور پر ناواقف تھی۔ اس کا کوئی تصور ہی نہ تھا
بس مجھے جس چیز کا ڈر لگتا وہ یہ تھا کہ کہیں میں نادانی میں حبیب سے اللہ کے
برابر محبت نہ کر بیٹھوں۔ میرے نزدیک یہی سب سے بڑا گناہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں
ہر وقت اللہ سے کہتی رہتی کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور میرے بھی کچھ تقاضے ہیں۔
ان تقاضوں کی بناء پر کبھی میں ماں سے محبت کر بیٹھتی ہوں، کبھی دوست سے اور کبھی
ایک مرد سے۔ ان سب کی محبتیں میری دنیاوی ضرورتیں ہیں۔ ان میں آپ ناراض نہ ہونا۔
جب میں سب کچھ اللہ میاں سے اچھی طرح سے کہہ دیتی تو میرا دل مطمئن ہو جاتا اور
میں اللہ کا شکر ادا کرتی۔ مجھے اندر اندر احساس ہو جاتا کہ اللہ میاں مجھ سے خوش
ہیں۔ آج جذبات کے ہزاروں طوفان لئے پھر اسے خط لکھنے بیٹھ گئی۔
خدا کی ساری خدائی میں سے
میری نظر بس ایک ہی ہستی پر آ کر ٹھہر گئی ہے۔ تم جانتے ہو وہ کون ہے۔ اگر اللہ کو
منظور نہ ہوتا تو ہم ملتے ہی کیوں۔ تم میری مانگ کا سیندور ہو۔ میری ہر خوشی تم سے
ہے۔ اے محبوب محبت روح کی زندگی ہے۔ محبت کے بغیر روح مردہ ہو جاتی ہے۔ میرا جی
چاہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنی محبت کریں اتنی محبت کریں کہ ہماری روحیں سدا
سرشار رہیں۔ تم میرے لئے قدرت کا ایک حسین تحفہ ہو۔ میرا رب مجھ پر مہربان ہے۔
مجھے زندگی میں کبھی کسی چیز کی چاہ نہیں رہی سوائے محبت کے۔ اللہ ہماری محبتوں کو
آباد رکھے۔ آمین۔
شمامہ
دوسرے دن اسکول کی چھٹی
تھی۔ دن کاٹنا دو بھر ہو گیا۔ میں نے اپنے دل کو سمجھایا اور اسکول کی پڑھائی پر
توجہ دی۔ کچھ گھر کے کام کاج میں لگ گئی مگر اس کا خیال تو دل و دماغ پر چھا گیا
تھا۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ ہمارے درمیان خطوط کا سلسلہ چلتا رہا۔ کم از کم ہفتے
میں ایک خط جب تک میں اسے لکھ نہ لیتی مجھے چین نہ ملتا۔ ہم تقریباً روزانہ اسکول
کے راستے پر ملتے۔ اب ہمارے درمیان تھوڑی سی بے تکلفی ہو گئی تھی۔ وہ راستے میں
میرا ہاتھ پکڑ لیتا۔ مگر اب بھی ہم ایک دوسرے سے بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ ایسا لگتا
تھا جیسے ہمارے درمیان کوئی آڑ ہے۔ حیا کی دیوار۔ اس کی طرف نظر بھر کے دیکھنے بھی
نہیں دیتی تھی۔ ادھر دن بدن وہ میری جان بنتا جا رہا تھا اور تقریباً ہر دوسرے
تیسرے دن میں کوئی نہ کوئی خواب ایسا دیکھ لیتی تھی جو یہ پیغام دیتا تھا کہ میں
اس سے دور رہوں۔ کبھی سانپ دیکھتی، کبھی شیر دیکھتی کہ مجھے اس کے راستے سے ہٹا
رہے ہیں۔
ایک دن خواب دیکھا کہ میں
اس کو خط لکھ رہی ہوں کہ اتنے میں کچھ لوگ آتے ہیں جیسے یہ سب لوگ مجھے بھی جانتے
ہیں اور اس کو بھی۔ یہ عام لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہے یہ ٹھیک آدمی نہیں
ہے۔ آپ اس کا دھیان چھوڑ دیں۔ میں خواب میں ان سے لڑ رہی ہوں۔ مسلسل ایسے خواب
دیکھ کر میں کچھ فکر مند ہوگئی۔ میں نے حبیب سے ان کا ذکر کیا۔ وہ کہنے لگا تم ان
کی طرف دھیان نہ دو۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اس شام جب میں مغرب کی نماز پڑھنے لگی تو
نماز کے اندر ہی مجھے اللہ تعالیٰ کا وہ عکس نظر آیا جو میں ہمیشہ سے دیکھتی آئی
تھی۔ اس طرح لگا کہ اس عکس نے مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت کرنے کو منع کیا۔ میں نے
کہا، کیوں۔ کہنے لگا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت عجیب سا لگا۔ میں نے
اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا کہ ایک تو اس کی محبت میں دل میں ڈال دی، اس کے ملنے کے
اسباب مہیا کر دیئے اور اب مجھے کہاجا رہا ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ اب میں نہیں
رک سکتی۔ اگر وہ برا آدمی ہے تو بھی میری تقدیر ہے۔ میں انشاء اللہ اسے اتنی محبت
دوں گی کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر
دوسرے تیسرے ہفتے میں ایک دن ضرور میرے اندر ریحانہ کی محبت کا طوفان اٹھتا۔ میری
نگاہ اسے تلاش کرنے لگتی۔ میں گیلری میں کھڑی ہو جاتی اور ہر آنے جانے والی لڑکی
کو گھورتی کہ شاید اس میں نظر آ جائے۔ یہ سب کچھ ایک بے اختیارانہ کیفیت تھی جو
کئی گھنٹوں تک رہتی۔ پھر میں اللہ سے دعا کرتی کہ اے اللہ وہ جہاں بھی ہے اسے
زندگی کی بھرپور خوشیاں دینا۔ اس پورے وقت میں مجھے اتنی شدید تکلیف پہنچتی کہ
جیسے میری جان نکلتی جا رہی ہے۔ اسی کیفیت میں جب کہ میرے ہاتھ پائوں سے جان نکلتی
رہتی مجھے دنیا کے سب کام کرنے پڑتے۔ نہ میں رو سکتی نہ ہنس سکتی۔ مگر مجھے ایسا
لگتا کہ میں اس وقت جو کچھ کر رہی ہوں یہ محض ایکٹنگ ہے۔ حقیقت میں میرے اندر کی
کیفیت کچھ اور ہے جس نے مجھے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ تمام
اضطرارانہ کیفیت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیوں۔
اللہ مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ ویسے بھی پندرہ سال کی عمر میں بغیر کسی رہنمائی کے ذہن
اور کتنا سوچ سکتا ہے۔ بہرحال حبیب کے متعلق تو جب بھی میں نے خواب دیکھا جس میں
اس کے ملنے سے مجھ کو منع کیا جاتا۔ میں ہر بار یہی سمجھتی کہ اللہ میاں میرے
ارادے کو آزما رہا ہے کہ اس کے اندر کتنی سکت ہے۔ یہ تمام خواب ہر بار مجھے ایک
نیا حوصلہ اور نیا عزم عطا کرتے۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی کہ مجھے اس
راستے پر استحکام عطا فرما۔
اسی دوران میرے بھائی نے
شہر سے دور ایک نیا مکان بنا لیا تھا اور ہم سب وہاں منتقل ہو گئے تھے۔ میرے بڑے
دونوں بھائیوں کی شادیاں بھی ہو چکی تھیں اور بڑی بہنیں بھی بیاہی جا چکی تھیں۔
بڑے بھائی شادی کے بعد الگ رہتے تھے اور چھوٹے بھائی اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے ساتھ
رہتے تھے۔ فلیٹ چھوڑتے ہوئے مجھے سخت تکلیف ہوئی کیونکہ جب تک میں ہر روز حبیب کو
نہ دیکھ لوں میری حالت بری رہتی تھی۔ اکثر مغرب کے وقت میری نظریں اسے ڈھونڈنے
لگتی تھیں۔ تھوڑی دیر میں مجھ پر اس کی محبت کا اس قدر غلبہ ہو جاتا کہ میں پریشان
ہو جاتی۔ میرے اندر شدید تقاضہ اٹھتا کہ بس دیکھ لوں۔ ایسی حالت میں میرے سوچنے کی
صلاحیت بھی گم ہو جاتی بس دیکھنے کا تقاضہ دل و دماغ پر چھا جاتا۔ وہی جانکنی سی
کیفیت طاری ہو جاتی۔ میں گیلری میں کھڑی ہو جاتی اور جس جانب اس کا گھر تھا اس طرف
نظریں جما دیتی۔ دل اسے پکارنے لگتا تم کون سے گوشے میں چھپے ہو سامنے آئو۔ میری
نظر تمہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ کبھی کبھی آدھا گھنٹہ اور کبھی ایک گھنٹہ دل یونہی
پکارتا رہتا مجھ پر ایک جذب کی سی کیفیت طاری رہتی۔ یہ عجیب بات تھی اس وقت مجھے
گھر میں سے کوئی ڈسٹرب نہ کرتا۔ میں اپنے حال میں جذب کھڑی اسے پکارتی رہتی اور
پھر وہ دور سڑک پر کھڑا نظر آ جاتا۔ میں دیکھتی کہ وہ وہاں کھڑا ہے۔ میں اسے ٹکٹکی
باندھے دیکھتی رہتی اور دل ہی دل میں کہتی اللہ میرا حال جانتا ہے۔ وہ میرا مددگار
ہے۔ وہ عشق کی آگ کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے
گا۔ جس نے مجھے اس آگ میں ڈالا ہے وہی جانتا ہے۔ میں نے کبھی حبیب کو اپنی یہ حالت
نہیں بتائی۔ نہ ہی کبھی اس بات کا ذکر کیا۔
میں اندر ہی اندر اس بات
سے واقف تھی کہ میرے اندر کچھ غیر معمولی روحانی قوتیں ہیں اور ان قوتوں کے ذریعے
اللہ میاں مجھے کچھ سکھانا چاہتے ہیں۔ مجھے تو بس ایک ہی لگن تھی کہ میں اللہ میاں
کو دیکھ لوں۔ اس سے مل لوں۔ میں اپنی زندگی کے ہر دور اور ہر نئے موڑ کو اسی راستے
کی ایک کڑی سمجھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی سے بھی اپنی کیفیات بیان کرنا نہیں
چاہتی تھی۔ یہ خیال ہوتا تھا کہ کوئی سمجھے گا یا نہیں۔ میرے نزدیک عشق محبوب کے
دیدار کا نام تھا۔ ہر چند دنوں بعد جب ریحانہ کو دیکھنے کی تڑپ دل میں پیدا ہوتی
تو گیلری میں کھڑی ہو جاتی اور نگاہ ہر گزرنے والی لڑکی میں ریحانہ کا عکس تلاش
کرتی۔
عشق کا تعلق تو دل سے ہے
عقل سے نہیں۔ دل جو کچھ دیکھتا ہے آنکھ اس سے بے خبر رہتی ہے۔ جب دل کے بھڑکتے
شعلے ذرا کم ہوتے تو عقل میں آ جاتی کہ ریحانہ اپنے گھر ہے۔ بس اس کی خوشی اور
راحت کے لئے دعا کرتی اور خود مجھ کو سکون مل جاتا۔ مگر حبیب کے لئے ایسا نہیں
ہوتا۔ اسے دیکھنے کی خواہش اتنی شدید ہوتی کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر بس
نگاہ اسے لوگوں کے ہجوم میں تلاش کرنے لگتی۔ مجھے یوں لگتا جیسے کسی نے مجھے کباب
کی سیخ پر چڑھا رکھا ہے۔ میرا تن من جلنے لگتا۔ میرا دل اندر سے پکارنے لگتا اور
میری نظر اسے دیکھ لیتی۔ کبھی ایسا ہوتا کہ آدھی رات کو میری آنکھ کھلی۔ میری یہی
کیفیت ہو جاتی اور اسی وقت میرے کانوں میں اس کی آواز آ جاتی۔ اس کے بعد میں سکون
سے سو جاتی۔ میں یہ جانتی تھی کہ میرے عشق میں ایسی قوت و کشش ہے جو محبوب کو قریب
کر دیتی ہے اور اسے میں اللہ کی عطا و رضا سمجھتی۔ اس کمسن عمر میں تو بس یہی
سمجھتی تھی کہ انسان کے اندر اٹھنے والے بشری تقاضے منجانب اللہ ہیں۔ یہ فطرت ہے۔
فطرت کے ان تقاضوں کی تکمیل بھی ضروری ہے۔ جب ریحانہ کے عشق کا غلبہ آتا تو میں
اللہ سے یہی کہتی کہ مجھے ایک دوست کی ضرورت ہے۔ جس کے ساتھ میں ہنسوں، کھیلوں اور
جب حبیب کی محبت زور پکڑتی تو میں اللہ سے کہتی کہ مجھے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت
ہے جس سے میں اپنے دل کے جذبات کا اظہار کروں۔ میرے اندر عشق کا سمندر ہے۔ مجھے اس
کے اظہار کی ضرورت ہے۔ اس طرح مجھے کسی فعل پر غلطی کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر میں
نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ میرے اندرونی جذبات کا کسی کو علم ہو بلکہ میں اندرونی
جذبات کا ساتھی اللہ کو سمجھتی تھی۔ اندر ہی اندر جب کبھی مجھے ذرا سی بھی فرصت
ملتی میری روح اپنے رب کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو جاتی۔ مجھے جو کچھ محسوس ہوتا
جو کچھ دل میں سمجھتی سب کچھ اللہ سے بیان کر دیتی اور اس سے مشورہ طلب کرتی۔ اس
سے مدد طلب کرتی۔ مجھے کبھی یہ شک یا اندیشہ نہیں گزرا کہ اللہ میری مدد نہیں کرے
گا۔ میں یہ جانتی تھی کہ اللہ سب سے زیادہ مجھ سے قریب ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے اور سن
رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میری مدد نہ کرے۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔
دعا گو:
خواجہ شمس الدین عظیمی